سید زین العابدین قادری
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1332 | شوال المکرم | 23 |
یوم وصال | 1393 | محرم الحرام | 12 |
سید زین العابدین قادری (تذکرہ / سوانح)
حضرت سید زین العابدین قادری جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ کا اصل نام احمد بخش تھا لیکن مشہور زین العابدین کے نام سے ہوئے ہیں۔ آپ حضور غوث اعظم کی اولاد امجاد سے ہیں۔ آپ کے والد گرامی کا نام عبدالقادر المعروف حاجی شاہ ہے۔ آپ کی ولادت باسعادت درگاہ نورائی شریف (حیدرآباد) سندھ ۱۳۳۲ھ ۲۳شوال المکرم پیر کی شب میں ہوئی ہے۔ آپ کی ولادت سے پہلے آپ کے والد کے پاس ایک فقیر آیا تھا اور یہ پیش گوئی فرمائی تھی کہ اے حاجی شاہ آپ کو ایک فرزند عطا ہوگا پیدا ہوتے ہی اس کے سامنے دو دانت ہوں گے اور اس کا نام زین العابدین رکھنا۔ آپ کی ولادت ہوئی اس فقیر کی پیش گوئی کے مطابق دو سامنے والے دانت موجود تھے لیکن زین العابدین نام رکھنا آپ کے والد بھول گئے۔پھر وہ فقیر آیا اور دریافت کیاکہ آپ کو میری دعاء سے جو لڑکا ہوا ہے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ آپ کےوالد نے فرمایا کہ نام تو ان کاہم نے احمد بخش رکھا ہے لیکن انہیں زین العابدین کے نام سے ہی پکاریں گے۔ چناں چہ آپ اسی نام سے مشہور ہوگئے۔ حضرت سید زین العابدین جیلانی قادری اپنے وقت کے اہل دل عشاق ، صاحب شریعت و طریقت اور باکمال بزرگوں میں سے تھے۔
بارہ سال کی عمر تک تو مجذوبانہ کیفیت رہی پھر اس میں کچھ افاقہ ہوا تو آپ ہی نے صرف سندھی کی پہلی تک ، قرآن شریف اور فارسی گلستان تک تعلیم حاصل کی دو سال تک طبیعت قدرے سالم رہی پھر وہی مجذوبانہ کفییت رہی جو ۲۲ سال کی عمر تک رہی حکماء اور اطباء آپ کے مرض کی صحیح تشخیص نہ کرسکے پھر آپ کے والد محترم سیدہ ‘‘اوٹے شریف’’والی کی خدمت میں لے گئے، کیوں کہ سیدہ خاتون اپنے وقت کی ولیہ کاملہ تھیں ، جب سیدہ نے آپ کو دیکھا تو فرمایا کہ ‘‘اے زین العابدین کیا حال ہیں؟ ’’اپ نے اس کا جواب سندھی شعر میں دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ ‘‘اے امی اگر روتا ہوں تو لوگ اسے کھیل سمجھتے ہیں اگر ہنستا ہوں تو دل جلتا ہے میری آنکھوں کو تو اس وقت آرام ملے جب وہ اپنے محبوب کو دیکھیں گے’’
حضرت سیدہ خاتون نے بھی اس شعر کا جواب سندھی شعر میں ہی دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ ‘‘دکھی اور پہاڑ نے جو آپس میں باتیں کی ہیں اچھا ہوا کہ کسی نے یہ باتیں سنی نہیں ورنہ دنیا مصیبت میں گرفتار ہوجاتی’’اس کے بعد آپ حضرت زین العابدین شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے والد سے فرمانے لگیں کہ ان کو عشق الہٰی کی بیماری ہے میرے پاس چھوڑ جائیے انشاء اللہ صحیح ہوجائیگا۔حضرت زین العابدین حضرت سید ہ خاتون کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور خاتون نے آپ کو سلسلہ قادریہ میں داخل فرمایا کہ خلافت سے نوازا۔ بعد میں آپ کی طبیعت بالکل صحیح ہوگئی۔ آپ کی شادی کے وقت ولی کامل حضرت سید میاں عبدالرسول رفاعی کے چھوٹے صاحبزادہ میاں گدا محی الدین کی صاحبزادی سے ہوئی۔
حضرت سید زین العابدین جیلانی قادری علیہ الرحمۃ اپنی مرشدہ کے انتقال کے بعد بغداد شریف تشریف لے گئے اور حضرت سید محمد سالم الجیلانی قدس سرہ سے دوبارہ بیعت ہوگئے حضرت نے آپ کو خلعت خلافت سے نوازا۔ حضرت محمد سالم علیہ الرحمۃ کے وصال فرمانے کے بعد پھر آپ مدینہ منورہ کے مشہور بزرگ حضرت سید احمد بن مختار تارک سلطنت المغرب کے ہاتھ پر سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوئے حضرت موصوف نے بھی اپنی کرم نوازیوں سے آپ کو نوازا اور خرقہ خلافت عطا فرمایا۔
حضرت سید زین العابدین شاہ جیلانی علیہ الرحمۃ جہاں آپ شریعت و طریقت کے میدان کے شہسوار تھے وہاں آپ ایک بہت بڑے عاشق رسول اور عدیم النظیر شاعر بھی تھے آخری عمر میں تو یہ حالت تھی کہ کلام گفتگو ، تقریر مقفی اور مسجع پر مشتمل ہوا کرتی تھی، آپ نے تقریباً چودہ زبانوں میں شعر پر طبع آزمائی فرمائی۔
مشرک زبانوں پر مشتمل ایک شعر درج ذیل ہے۔
سندھی دم دم وانھیان در تنھنجی تی پلھو پائی پالٹھار
سرائیکی مولی مینوں جلد ملا دیں سائیں مدینہ دی سرکار
انگریزی نیوز ڈؤنٹ گو یئز
پشتو استرگادں تہ اؤگر
بلوچی گندگاں شمشم نیز نظر۔ ھگ شون ایں اسرار
عربی اھدنا الصراط المستقیم
فارسی مارا بدہ راہ کریم
اردو بخش کرو جنت نعیم
سرائیکی ترت ملاویں تھدں یار
فارسی اردو دستگیر دس مرا ضعیف زنیل کا ذرا: من چہ گویم دلبرا
پنجابی سندھی آوے پنڈ پھٹ کل اختیار
اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلا شبہ شرح صدر عطا فرمایا تھا جب آپ گفتگو فرماتے کسی بڑے سے بڑے عالم ، دانشور، وکیل اورمدبر کو مجال دم زدن نہیں ہوتی تھی۔ آپ کے برادر اکبر حضرت سید علامہ و مولانا محمد بخش شاہ آپ کو بھٹائی ثانی کہا کرتے تھے۔
آپ کی محفل میں ہر وقت مولود خوانی اورنعت خوانی ہوا کرتی تھی۔ ہر وقت حضوراکرمﷺ کے عشق و محبت میں ڈوبے ہوا کرتے تھےجب بھی حضورﷺکا نام نامی اسم گرامی سنتے تو آنکھوں سے آنسوؤں کا سیل رواں جاری ہوجاتا تھا۔ آپ کے کلام کے مجموعہ تقریباً ہزار گیارہ سو کے قریب ہیں جن میں چند زیور طباعت سے آراستہ ہوئے ہیں اور اباقی غیر مطبوعہ ہیں۔
مطبوعات میں سے:
۱: قصہ حضرت یوسف علیہ السلام وزلیخا۔ سندھی۔
۲: شہادت کربلا۔سندھی
۳: مداحون شریف ۔سندھی
۴: شان مجاہد سفرناموں ۔سندھی
۵: بیاض جیلانی ۔سندھی
۶: خطبات جمعہ وعیدین سندھی قابل ذکر ہیں۔
حضرت کی عقیدت وارادت کا حلقہ بہت وسیع ہے ملک اور ملک سے باہر آپ کے مریدین و متولین موجود ہیں۔ آپ نے ۸ حج ادا فرمائے اور ایک حج خشکی کے ذریعہ عراق و بغداد کربلا اور شاہ نجف اشرف ہوتے ہوئے مدینہ شریف گئے۔
آپ ہر سال ۱۲ ربیع الاول کو عید میلاد النبی ﷺ کا خاص شاندار اہتمام فرماتے تھے جس میں علماء کرام حضورﷺ کا میلاد شریف بیان کرتے تھے اور ہر ماہ گیارہویں کابھی اہتمام فرماتے تھےجس کو اب تک آپ کے جانشین بڑے فرزند حضرت حافظ محمد عارف شاہ جیلانی اور چھوٹے پیر حضرت غلام جیلانی شاہ جیلانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اتنی بے شمار خوبیوں کا حامل اللہ کا ولی، عاشق رسول ﷺمیدان فصاحت و بلاغت اور سخن کے شہسوار ۱۲ محرم الحرام ۱۳۹۳ھ/ ۱۹۷۳ء ۶۳ سال کی عمر میں واصل بحق ہوگئے۔
آپ کا مزار پر انوار نورائی پھلیلی نہر کے کنار ے ضلع حیدر آباد میں زیارت گاہ خلائق ہے۔ ہر سال آپ کا یوم وصال ۲۱ محرم کو بڑے شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )