پیر سید محمد امین الحسنا ت پیر آف مانکی شریف
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1340 | جمادى الآخر | 03 |
یوم وصال | 1379 | رجب المرجب | 29 |
پیر سید محمد امین الحسنا ت پیر آف مانکی شریف (تذکرہ / سوانح)
پیر سیدمحمدامین الحسنا ت پیر آف مانکی شریف رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسم گرامی: حضرت مولانا پیر سید محمد امین الحسنات۔لقب:ناصرِملت،مجاہدِ اسلام۔سلسلہ نسب اسطرح ہے: حضرت پیر محمد امین الحسنات بن پیر عبدالرؤف بن پیر عبدالحق پیر عبدالوہاب بن مولانا ضیاء الدین۔علیہم الرحمۃ۔(تخلیق پاکستان میں علماء اہلسنت کاکردار:125) آپ کا آبائی تعلق "اکوڑہ خٹک" سےہے۔آپ کےجدامجد مولانا ضیاء الدین نےاپنے وطن سے ہجرت کرکےعلاقہ"بداش" تشریف لےگئے،اوروہاں ایک مسجد میں امامت وخطابت اور تبلیغ اسلام میں مشغول ہوگئے۔جب 1863ء میں انگریز نےسوات اور ملحقہ علاقوں پرقبضہ کرناچاہا،توانہوں نے اپنے پیر ومرشد عارف باللہ حضرت اخوند عبدالغفور قادری علیہ الرحمہ کےساتھ مل کرانگریز کےخلاف جہاد کیا اور اس کو بھاگنے پرمجبورکیا۔اس وقت ان کاخاندان موضع "کٹی خیل" میں رہائش پذیر تھا۔حضرت اخوندکےحکم پر آپ موضع "مانکی"تحصیل نوشہرہ،ضلع پشاورتشریف لائے،آپ کی قدم میمنت کی برکت سےایک گم نام قصبہ موضع مانکی،پوری دنیا میں "مانکی شریف"کےنام سےمعروف ہوگیا،اور پیر صاحب،پیر آٖف مانکی شریف سےمشہور ہوگئے۔پھر یہاں سےسلسلہ رشدوہدایت پوری دنیامیں عام ہوا۔(انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام ج،1ص:444)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت بروزبدھ،3/جمادی الثانی 1340ھ،مطابق یکم فروری/1922ءکو خانقاہ قادریہ مانکی شریف ضلع نوشہرہ میں ہوئی۔(تخلیق پاکستان میں علماء اہلسنت کاکردار:125)
تحصیل علم: چھ سال کی عمر میں والد گرامی کاسایہ سر سےاٹھ گیا،اورگیارہ سال کی عمر میں شفقت پدری سے بھی محروم ہوگئے۔ابتدائی تعلیم وتربیت گھر پرہوئی تھی۔حفظ قرآن کی سعادت سےبہرہ مندہوئے،اورحفظ قرآن کےبعد مختلف علماء کرام سے جملہ علوم متداولہ کی تحصیل فرمائی،اوروقت کےعظیم دانشوروں میں شمار ہونے لگے۔
بیعت وخلافت: آپ اپنے والد گرامی حضرت پیر عبدالرؤف علیہ الرحمہ کےدست حق پرست پر بیعت ہوئے،اور ان کےوصال کےبعدسجادہ نشین ہوئے،اورحق ِ سجادگی ،اورملت کی نگہبانی کاحق اداکردیا۔
سیرت وخصائص:مجاہد اسلام،ناصرِملت،فخرِ امت،صاحبِ عزیمت،نازش ِاہل سنت،محسنِ پاکستان،فاتحِ سرحد،حضرت علامہ مولانا پیرمحمد امین الحسنات پیر آف مانکی شریف رحمۃ اللہ علیہ۔حضرت پیرصاحب علیہ الرحمہ کی تحریک پاکستان اورخدمت اسلام کےلئے عظیم خدمات ہیں۔آپ کےاس روشن اور بےداغ کردار کوہمیشہ یادرکھاجائےگا،اور آپ کی سیرت وجذبۂ خودداری اہل پاکستان اورملت اسلامیہ کےلئے مشعل راہ کاکردار اداکرتی رہےگی،اور اہل اسلام اس کی روشنی میں سفر کرتےرہیں گے۔
پیرصاحب مانکی شریف انتہائی فعال،بلند اخلاق،مدبراور دانشمند انسان تھے۔انہوں نے روحانیت اور سیاست کےمیدان میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ان کی ابتدائی خواہش تھی کہ اس خطے میں مسلمانوں کےلئےایک ایسی آزادمسلم ریاست ہونی چاہئےجہاں مسلمان قرآن وسنت کےمطابق زندگی گزارسکیں،اور وہ اسلامی ریاست تمام عالم اسلام کےلئےایک قائدانہ کرداراداکرے۔کیونکہ اس وقت عالم اسلام زبوں حالی کاشکارتھا،اورہندکےمسلمان غلامی کی زندگی گزاررہےتھے۔پیر صاحب کاتعلق ایسے علاقے سےتھا،جہاں ہندو اقلیت والے صوبہ سرحد میں اسلام کو ہندو اکثریت والےصوبوں سےزیادہ خطرات درپیش تھے۔بالآخر پیر صاحب نے اس ناممکن کوممکن بنادیا۔
صوبہ سرحدموجودہ(خیبر پختونخوا) سرخپوشوں،اورکانگریسیوں کاگڑھ تھا،کانگریسی اس خوش فہمی میں مبتلاتھے کہ یہ علاقہ توہماراہے،اوریہی وجہ ہےکہ 1937ءمیں جواہر لال نہرونےدومرتبہ اس صوبے کادورہ کیا،اوراس کابڑاپرتپاک استقبال کیاگیا۔پیرصاحب نےپورےصوبےمیں طوفانی دورےکرکےمریدین اورعوام کو"مسلم لیگ"کی حمایت کےلئے آمادہ کیا۔قائداعظم محمد علی جناح کوخط لکھا،اور آپ کےایماء پرقائد اعظم نےمجاہدِ آزادی مولانا عبدالحامد بدایونی علیہ الرحمہ کوسرحدبھیجا۔پیر صاحب نے14/اکتوبر 1945ءکومانکی شریف میں"علماء ومشائخ کانفرنس"منعقدکی جس میں سینکڑوں جید علمائے کرام اور مشائخ عظام نے شرکت فرمائی۔جن میں امیرملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ ،صدرالافاضل حضرت سید نعیم الدین مرادآبادی،مولانا عبدالحامد بدایونی،حضرت دیوان آل رسول سجادہ نشین اجمیر شریف،خواجہ حسن نظامی دہلوی وغیرہ۔
1945ء میں حضرت قائد اعظم نےصوبہ سرحد کادوسرا دورہ آپ کی دعوت پرکیا۔اس سےپہلے1936ء میں پہلادورہ کیاتھا جس میں بہت کم لوگ ساتھ تھے۔قائداعظم کایہ دورہ ایساکامیاب ہوا کہ گانگریسیوں کےہوش اڑگئے،نومبر1945ءمیں شاہی باغ پشاور میں دوروزہ"مسلم لیگ کانفرنس"منعقدہوئی،جس میں ایک لاکھ لوگ شریک ہوئے،تحریک پاکستان کےسلسلےمیں عوام میں ایک ولولہ وجوش پیداہوگیا۔اس جلسےمیں حضرت امیر ملت نےاپنےصاحبزادےکےہاتھ قائد اعظم کےلئےسونےکاایک تمغہ جس پرکلمہ طیبہ کندہ تھا،قائد اعظم کوپیش کیا،اورکہا:"میرےوالدماجدنےیہ تمغہ آپ کی خدمت میں بھیجاہے"۔سن کر قائد اعظم بےحد خوش ہوئےاورکھڑےہوکراس کواپنی آنکھوں سےلگایااورکہا:"پھر تومیں کامیاب ہوں یہ تمغہ میرےسینےپرآویزاں کیجئے"۔(تحریک پاکستان اورمشائخ عظام:147)
کانگریسیوں نےقائداعظم کےمقابلے میں نہرو کاتیسرادورہ رکھ لیا۔جب 16اکتوبر/1946ءکونہروکاہوائی جہاز پشاورائیرپورٹ پراترا،توپیرصاحب آف مانکی شریف کی قیادت میں سینکڑوں مسلمان مسلم لیگ کےجھنڈےمیں ملبوس موجودتھے،اورہزاروں سیاہ رنگ کےغبارے جن پرسفید رنگ سے"واپس جاؤ"کےالفاظ نمایاں تھے،فضامیں چھوڑے گئے،اورکالی جھنڈیاں لہراکرنعرےلگائے"نہرو!واپس جاؤ"۔پاکستان زندہ باد،قائد اعظم زندہ باد کےپرجوش لگائے گئے،اورنہرو کی گاڑی انتہائی حفاظتی حصارمیں گورنمنٹ ہاؤس پہنچائی گئی،اوروہ خفیہ طریقےسےبھاگنےپر مجبورہوا۔اُفق کی سیاہی دیکھ کرمولاناظفر علی خان نےکہاتھا:
؏:لایا ہےپیر مانکی ایک ایسا انقلاب۔۔۔۔رنگت معاً بدلنے لگی آسمان کی۔
اپریل 1946ءمیں آپ نے" آل انڈیا سنی کانفرنس" بنارس میں شرکت کی اور اس جوش ایمانی سے اڑھائی گھنٹے تقریر فرمائی کہ عوام وخواص عش عش کر اٹھے آپ نے دوران تقریر فرمایا:"میں نے قائد اعظم محمد علی جناح سے وعدہ لیا ہے کہ اگر انہوں نے مسلمانوں کو دھوکہ دیا ، یا اسلام کے خلاف کوئی نظام جاری کرنے کی کوشش کی تو آج جس طرح ہم آپ کو دعوت دے رہے ہیں اور آپ کی قیادت کو مان رہے ہیں،کل اسی طرح اس کے بر عکس ہوگا"۔(ایضاً:149)
13/اگست 1947ءکوجناب قائد اعظم محمد علی جناح نے پیر آف مانکی شریف کوکراچی سےبذریعہ فون قیام پاکستان کی مبارک باددی اورفرمایا:"پاکستان قائم ہوگیاہے اور یہ سب آپ کی برکات ہیں۔جواباً پیر صاحب نےآپ کو مبارک باد دی۔"(ایضاً:154)قیام پاکستان کےبعد پیر صاحب کووزارت کی پیش کش کی گئی لیکن آپ نےکمال بےنیازی سےفرمایا:"درویشوں کووزارت سےکوئی سروکارنہیں"۔اس طرح آپ نےثابت کردیا کہ ہماری جدوجہد کسی مالی منفعت،یاسیاسی اغراض ومقاصد،کےلئے نہیں تھی۔بلکہ اس کامقصدایک اسلامی وفلاحی ریاست تھا۔الحمد للہ اہل سنت وجماعت کی روشن تاریخ ہے،ہمارے اکابرین واقعی اکابرین تھے۔ان کادامن ہرزمانے میں تمام قسم کی دنیاوی آلائشوں سےپاک رہا۔وہ صاف ستھراکرداراس دنیامیں چھوڑ کرگئے،اور اپنےمتبعین کو یہی سبق دیا کہ کبھی بھی ضمیر کاسودانہ کرنا،حق کےساتھ رہنا اس کےلئے تمہیں بڑی سے بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینا پڑے۔
غیر جانبدارمُنصِف مؤرخ ضرورلکھےگا: کہ ایک مردِ حق نےاسلام ،اوراہل اسلام کےلئے سب کچھ قربان کردیا،اوراس کےصلے کاطلب گاردنیاکےبندوں سےنہ ہوا،بلکہ اپنااجرآخرت کےلئےمحفوظ کرلیا۔یہ بھی تحریرکرےگا:"پلیدستان"کانعرہ لگانےوالے،اورکانگریس کی گودمیں بیٹھ کراہل ِاسلام وپاکستان پر تبراکرنےوالےبڑی ڈھٹائی کےساتھ اس ملک میں رہے،اور"ڈیزل وپٹرول"پراپنےضمیرکاسوداکیا،وہ بھی اسلام کےنام پر،ابن الوقتوں کےامام بنے،ہواؤں کےرخ کا فائدہ اٹھاکرخوب مال ومنصب حاصل کیا۔جہاں نفس کےخلاف دیکھافوراً اسلام یادآیا۔انسان چلاجاتاہے،لیکن کردارزندہ رہتاہے۔یہی فرق حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اورابن زیاد وغیرہ کےکردارمیں ہے۔حسینیت آج بھی زندہ ہےاورتاقیامِ قیامت تابندہ رہےگی،اوریزیدیت توعار کااستعارہ ہے۔
؏:نیرنگیِ دوراں کی سیاست تو دیکھئے۔۔۔۔منزل انہیں ملی جوشریک ِ سفر نہ تھے
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 29/رجب المرجب 1379ھ،مطابق 28/جنوری 1960ءکوہوا۔آپ کامزارشریف مانکی شریف ضلع نوشہرہ میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ اکابر اہلسنت۔انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام۔تخلیق پاکستان میں علماء اہلسنت کاکردار۔تحریک پاکستان اورمشائخِ عظام۔تصوف اولیائے مانکی شریف اورتحریک پاکستان۔