مجاہد اسلام حضرت پیر سید محمد امین الحسنات پیر آف مانکی شریف

مجاہد اسلام حضرت پیر سید محمد امین الحسنات رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

پیر آف مانکی شریف

          ناصرملت،مجاہد اسلام حضرت مولانا پیر سید الحسنا ت قدس سہ ابن حضرت پیر عبد الرئوف قدس سرہ ۱۳۴۱ھ/۱۹۲۳ء مانکی شریف تحصیل نو شہرہ ضلع پشاور میں پیدا ہوئے گیاراہ سال کی عمر میں والد گرامی کے وصال کے بعد سجادہ نشین قرار پائے تعلیم و بیباک،نڈ اور روشن دماغ راہنما تھے ، عین و ملت کی محبت نے انہیں پیکر سیماب بنادیا تھا،ان کی انتہائے آرزو تھی کہ اسلامی حکومت ہو ، اسلامی آئین نافذ ہو اور مسلمان دینی و سلامی اقدار کو اپنا کر ترقی و کامرنی کے راستہ پر جادہ پیما نظر آئیں ، ان ہی جذبات کے تحت ۵ ۱۹۴ء میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور تحریک پاکستان میں کارہائے نمایاں انجام دئے، خان عبد الغفار خاںاور دیگر کا نگر سی لیڈروں کا پوری ہمت سے مقابلہ کیا ، یہ ایک نا قابل تر دید حقیقت ہے کہ صوبئہ سر حد ( جسے کا نگر س کا ناقابل شکست گڑھ سمجھا جاتا تھا ) میں مسلم لیگ اور قیام پاکستان کے مطالبہ کو م قبو عام بنانے میں ااپ کا بڑا داخل تھا ۔ مانکی شریف نہایت با اثر گدی تھی اور صوبئی سرحد ، قبائلی علاقوں اور سرحدی ریاستوں کے ہزار ہا افراد آپ کے مرید تھے ، آپ نے سرحد کے غیور پٹھانوں کو پوری کوش سے نظر یۂ پاکستان کی تائد و حمایت کے لئے تیار کیا۔

          مفتی محمد شفیع دیوبندی ( کراچی ) نے ایک انٹر ویو میں آپ کی خدمات کو ان الفاظ میں خراف عقیدت پیش کیا ہے : ۔

          ’’علماء کے ساتھ سابق پیر مانکی شریف اور پیر زکوڑی شریف نے بڑی تند ہی سے کام کیا اور سچی بات یہ ہے کہ ان کی تائید و حمایت سے صوبۂ سرحد کی سیاسی فضا میں وہ عظیم تغیر رو نما ہوا جو بظاہر نا ممکن نظر آتا تھا [1]

          حضرت پیر صاحب قدس سرہ کی دعوت ہی پر قائد اعظم پہل سرحد کا دور کیا اور دورئہ سرحد کے دوران کئی روز تک آپ کے ہاں قیام کیا ، اسی طرح آپ ہی کے ایماء پر قائد اعظم  نے مجاہدآزادی مولانا عبد الحامد بد ایونی رحمہ اللہ تعالیٰ کو صوبۂ سرحد میں بھیجا جنہوں نے طوفانی دورے کر کے نظریۂ پاکستان کو اجاگر کیا ، ۱۹۴۵ء میں آپ نے علماء کا ایک وفد مولانا محمد گل کی قیادت میں جمہوریت اسلامیہ آل انڈیا سنی کانفرنس کے ناظم اعلیٰ حضرت صدر الا فاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ کی خدمت میں بھیجا جس نے حضرت صدر الا فاضل سے نظریۂ پاکستان پر تفصیلی گفتگو کی ، اپریل ۱۹۴۶ میں آپ نے آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس میں شرکت کی اور اس جوش ایمانی سے اڑگھنٹے تقریر فرمائی کہ عوام وخوص عش عش کر اٹھے آپ نے دوران تقریر فرمایا:۔

          ’’ میں نے قائد اعظم سے وعدہ لیا ہے کہ اگر انہوںے نے مسلمانوں کو دھوکہ دیا ، یا اسلام کے خلاف کوئی نظام جاری کرنے کی کوشش کی تو آج جس طرح ہم آپ کو دعوت دے رہے ہیں اور آپ کی قیادت کو مان رہے ہیں ، کل اسی طرح اس کے بر عکس ہوگا [2]۔‘‘

رئیس المتکلمین مولانا سید محمد محدث کچھو چھوی نے ۱۳۶۵/۱۹۴۶ ء میں اجمیر شریف میں آل انڈیا سنی کانفرنس کے ۔          اجلاس میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:۔

          پاکستان کے معنی اسلامی ، قرآی آزاد حکومت ہے ، مسلم لیگ سے ہمارے سنی کانفرنس کی مکلس عاملہ کے رکن حضرت سید شاہ امین الحسنا ت صاحب سجادہ نشین مانکی شریف (سرحد )نے لکو ا لیا ہے ۔‘‘[3]

          آل انڈیا سنی کانفرنس کے علماء و مشائخ کے خصوصی اجلاس میں نظریۂ پاکستان کی توثیق وتائید میں  نہایت سر گرمی سے قرار داد پاس کرائی۔

          ۱۳۶۷ھ/۲۹۴۸ء میں جب صدر الا فاضل مولانا سید محمدنعیم الدین م راد آبادی قدس سرہ نے پاکستان کا دورہ فرمایا تو حضرت پیر صاحب مانی شریف ملاقات کے لئے لاہور تشریف لائے ، خرب الا حناف ، لاہور کے دفتر میں چارگھنٹے تک بند کمرے میں گفتگو ہوتی رہی ،اس گفتگو میں حضرت صدر الا فاضل ، پیر صاحب مانکی شرف ، حضرت سید محمد محدث کچھو چھوی ، تاج العلماء مولانا مفتی محمد عمر نعیمی ، مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا سید ابو البراکت اور مالونا مفتی غلام معین الدین نعیمی ، (مدر یر سواد اعظم لاہو ر ) شریک ہوئے ۔ اس موقع پر حضرت پیر صاحب نے حضرت صدر الا فاضل پر زور دیا کہ آپ دستو اسلامی کا ایک خاکہ مرتب کردیں پھر ہم قائد اعظم سے منوا کر رہیں گے لیکن افسوس کہ اس کے تین ماہ بعد حضر ت صدر الا فاضل کا وصال ہو گیا ، ادھر قائد اعظم کی بھی رحلت ہوگئی اور آئین اسلامی کا خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہو سکا ۔

          ۱۹۵۲ء میں چین میں امن کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں پیر صاحب مانکی شریف کو بھی مدعو کیا گیا تھا ، پیر صاحب اشتر کی نظام کو دیکھ کر اس کی خوبیوں اور خامیوں کو جاننا چاہتے تھے ، اس لئے پاکستانی وفد میں پیکن تشریف لے گئے۔ ۹اکتوبر ۲۹۵۲ء کے اجلاس میں لائوس ، روس ، چلی ، پا نامہ ، میکسیکو ، انڈو نیشیا، ویت نام اور ہند وستان کے مند بین نے تقریر کیں ، ہندوستانی اور پاکستانی وفدوں نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں ایک مشتر کہ فارمولا پیچ کیا جسے با لا تفاق منظور کر لیا گیا ، پاکستان دستخط کئے ، فارمولے میں کہا گیا تھا کہ :۔

 

          ’’ہندوستان اور پاکستان کے ما بین جو بھی تنازعات ہیں ان کا فیصلہ امن اور آشتی سے ہونا چاہیئے اور یہ حق باشند گان جموں د کشمیر ہی کو حاسل ہے کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ آپ کریں ۔‘‘[4]

          ۱۹۴۷ ء میں لیگ وزارت سازی کے سلسلے میں امتشار کا شکار ہوگئی تو پیر صاحب نے تمام ممبروں کو اپنی رہائش گاہ پر بلا کر اختلاف ختم کرادای اور متفقہ طور پر اس وقت کے بیر سٹر (موجودہ وزیر داخلہ) خان عبد القیوم خاں کا حمایت کا اعلان کردیا (اس قلمی فیصلے اور اعلان کا عکس آئندہ صفحات میں پیش کیا جارہا ہے ) نتیجہ یہ ہوا کہ نمائندہ کا میاب ہو گیا ، خان عبد القیوم خان کی کامیابی میں پیر صاحب کا زبر دست ہاتھ تھا ۔

          حضرت پیر امین الحسنات رحمہ اللہ تعالیٰ کے بے پناہ سیا سی اثر و رسوخ سے مرعوب ہو کر مخالفین نے یہ افواہ اڑادی کہ پیر صاحب وزارت کے خواہش مند ہیں ، یہ بات آپ نے نواہزدہ لیاقت علی خاں کو لکھ بھیجی ، اس کے جواب میں ۹ فروری ۱۹۴۸ء کو خان لیاقت علی خاں نے لکھا:۔

’’آپ کا عنایت نامہ موصول ہوا ، اس میںآپ نے ذکر کیا ہے فرینٹر کے صوبہ میں اس چیز کا پرو پیگنڈا کیا جارہا ہے کہ میرے فرینٹر کے قیام کے دوران میں آپ نے وزیر بننے کی خواہش ظاہر کی ، یہ پرپیگنڈ بالکل بے بنیاد ہے اور ان لوگوں کی طرف سے کیا جارہا ہے جو پاکستان کے دوست نہیں سمجھے جا سکتے ۔

آپ کو معلوم ہے کہ جب وزارت بنائی جارہی تھی تو آپ سے درخواست کی گئی کہ آپ اس میں شریک ہوں اور وزارت کے عہدے کو قبو ل کریں ، آپ نے اس وقت اپنی معذوری کا اظہار کیا تھا، اس مرتبہ جب میں آپ سے فرنیٹر میں ملا تو میں نے پھر اسی امر کا آپ سے ذکر کیا تھا مگر آپ نے حسب سابق اپنی معذوری کا اظہار کیا ،ان حالات میں کسی شخص کا اس قسم کا غلط اور بنیاد پر پیگنڈا کرنا سخت قابل افسوس ہے ، آپ کو اس کا خیال نہیں کرنا چاہئے۔

آپ قوم کی اور اسلام کی خدمت بغیر کسی لالچ کے کر رہے ہیں اور ہر شخص آپ کی دیانت داری اور حقیقی خدمت سے واقف ہے ، آپ جیسے مخلص کام کرنے والے قوم کے ل ئے باعث فخر ہیں ۔‘‘

          آئندہ صفحات میں نواب زادہ لیاقت علی خاں کے ہاتھ کے لکھے ہوئے اس خط کا عکس شامل کیا جارہا ہے ، یہ خط نہ صر ف نواہزدہ صاحب کی قلمی تحریر ہونے کی بنا پر غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے بلکہ پیر صاحب مانی شریف کی ملکی و ملی خدمات کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے زبر دست خراج تحسین کی تاریخی دستارویز بھی ہے ، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس ودستاویز کو بہتر طور پر محفوظ کرنے کا شرف ہمیں حاصل ہو ہے ۔ ہمیں یہ مکتوب (قلمی) اور اخباری بیان ( قلمی ) جناب قاری عبد الرشید ( لاہور) سے تبوسط مکرمی حکیم محمد موسیٰ امر تسری مدظلہ ملا ہے جس کے لئے راقم ان دونوں کا شکر گزار ہے ۔

          ۱۹۵۵ء میں حضرت پیر صاحب مانکی شریف ارباب سیاست کی غیر تسلی بخش روش بنا پر سیاست سے الگ ہو گئے اور ملت اسلامیہ کی راحانی پیشوانی فر ماتے رہے ، اس وقت آپ ہم میں نہیں ، ہیں ، آج قوم کو پھر کسی امین الحسنات کی ضرورت ہے جو قوم کی صحیح راہنمائی کرے اور قو م کی کشتی و گرداب ملا سے باہر نکالے ۔

          ۵جنوری ۱۹۶۰ء کو مانکی شریف سے کیملپور جاتے ہوئے فتح جنگ کے قریب آپ کی کار حادثہ کا شکار ہو گئی ڈروائیور موقع ہی پر جاں بحق ہو گیا ، پیر صاحب کی پسلیاں ٹوٹ گئیں ، ملٹری ہسپتال ، راولپنڈی میں علاج ہوتا رہا لیکن کوئی خاص فائدہ نہ ہو ا، ۲۹ رجب ۲۸ جنوری ۱۳۷۹ھ/۱۹۶۰ء کو مجاہد اسلام پیر صاحب مانکی شریف کا وصال ہوگیا ، دوسرے روز لاکھوں عقید تمندوں نے نماز جنازہ ادا کی اور آپ کو مانکی شریف میں دفن کر دیا گیا ، ڈپٹی کمشنر پشاور نے بحیثیت نمائندہ صدر پاکستان جنازہ میں شرکت کی اور قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی ۔ ۲۹ جنوری کو بہ طور سجادہ نشین آپ کے بڑے صاحبزادے جناب روح الامین کی دستار بندی کرئی گئی جس میں سوات کے پا شا اور ولی عہد ، علماء اور ممتاز شہریوں نے شرکت کی ، مولانا غلام معین الیدن نعیمی رحمہ اللہ تعالیٰ( مدیر سواد اعظم لاہور ) نے تاریخ وصال کہی :

          ’’ آہ! مرد میداں پیر ساحب مانکی شریف‘‘

کراچی

۹ فروری ۱۹۴۸؁ء

مخدومی و مکرمی پیر صاحب

السلام علیکم:

آپ کا عنائت نامہ موصول ہوا ۔ اس میں آپ نے ذکر کیا ہے کہ فرنیٹر کے صوبہ میں اس چیز کا پروپگینڈ کیا جارا ہے کہ میرے فرنیٹر کے قیام کے دوران میں آ پ نے وزیر بننے کی خواہش ظاہر کی ۔ یہ پیر و پگینڈا بالکل بے بنیاد ہے اور ان لوگوں کی طرف سے کیا جارا ہے جو پاکستان کے ذست نہیں سمجھے جا سکتے۔

آپ کو معلوم ہے کہ جب وزار بنا ئی جارہی تھی تو آپ سے درخواست ی گئی تھی کہ آپ اس میں شریک ہوں اور وزارت کے عہدے کو قبو کرلیں آپ نے اس وقت اپنی منعقد کا اظہار کیا تھا ۔اس مرتبہ جب : آپ سے فرنیٹر میں ملا تو میں نے پھر اسی مر کا آپ سے ذکر کیا تھا ۔ مگر آپ نے سابق اپنی سعدوری کا اظہار کیا ان حالات میں کسی شخص کا اس قر کا غلط بے بنیاد پر پیگنڈا کرنا سخت قابل افسوس ہے آپ کو اس کا خیال نہیں کرنا چا ہئے ۔ آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اپنے ذاتی لفاصہ کیلے ہر طرح کا پروپیگنڈا کرنے میں کبھی گریز نہیں کرتے۔

آپ قوم کی اور اسلا م کی مذمت بغیر کسی لالچ کے کر رہے ہیں اور ہر شخص آپ کی دیانت داری اور حقیقی مذمت سے واقف ہے۔ آپ جیسے مخلص کام کرنے والے قوم کیلئے باعث نخر ہیں ۔

ایسا ہے آپ بخیر تقنیت ہو گئے ۔

مخلص لیاقت علی خان

 نجدت شریف جناب پیر صاحب مانکی غریب ضلع پشاور

ہم مندرجہ ذیل مجران اسمبلی پبلک کے دلوں سے غلط فہمی دور کرنے کے لئے مندرجہ ذیل بنان عنفقہ ملور پر احباری دنیا کو دیتے ہیں ۔ سمجھ دنوں سے پسبلک میں یہ افواہ عام گشت کر رہی تھی کہ لیگ پارٹی میں وزارتی کش عکش کے وجہ زبر دست اختلاف رد نحاہی چکا ہے۔چنانچہ یہ میر صاحب حضرت پیر صاحب جانکی شریف کے گو ش گذار ہوگا قیائے انہوں آج دینی جاتے رعتش مراء میں مہر ممبر ان کو بول دیا۔اور اپنے سامنے مکمل تحقیقات کر نے کے بس جو کچھ تھوڑا اختلاف پارٹی میں دو جود تھا ۔ نہایت سنحد گی کے ساتھ اختلافات کے جرط کو مکمل طور پر نکال دیا پارٹی کے ہر ایک حجر نے جناب پیر صاحب جانکی شریف کے ارشادات کی بر چشم منظور کر کے تمام اختلافی للا لئے کو سبن اورت تمام کے تمام ممبران صاحب ماقی کے عر ے شیر و شکر ہو گئے ۔ نیز بیر سٹر عبد القوم خان کی قیادت پر مکمل اعتماد ظاہر کیا۔(۱۰۴پیج نمبر)

 

 

[1] اورد و ڈائجسٹ ، شمارہ جولائی ۱۹۶۸   

[2] ہفت روزہ سواد اعظم ک  لاہور ، ۱۲ جنوری ۱۹۶۰ء

[3] خطبہ الا سرفیہ الجمہوریۃ الا سلامیہ ، مطبوعہ اہل سنت برقی پریس، مراد آباد ،ص :۸

[4] فضل حق شیدا ، نیا چین (سفر نامۂ ) مطبوعہ یونیوورسٹی بک ایجنسی ،ص ۱۱۲۔      اخر(۹۸پیج نمبر)

(تزکرہ اکابرِ اہلسنت)

تجویزوآراء