حضرت سید نور محمد بدایونی
حضرت سید نور محمد بدایونی (تذکرہ / سوانح)
حضرت سید نور محمد بدایونی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت خواجہ نور محمد بدایونی۔لقب:عالم کامل،عارفِ واصل۔سلسلہ نسب:آپ خاندان ساداتِ کرام کےروشن چراغ تھے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت کسی کتاب میں میسر نہیں۔تقریباً دسویں صدی ہجری کےربع اخیرمیں ہوئی ہوگی۔
تحصیلِ علم:تمام علوم ظاہری میں کمال تھا۔تفسیر،حدیث،فقہ اور تصوف میں مہارتِ تامہ حاصل تھا۔بالخصوص فقہ کی جزئیات ادلہ کےساتھ یادتھیں۔ظاہر وباطن میں نور علی نور تھے۔
بیعت وخلافت:سید السادات حضرت سید نور محمد بدایونی رحمۃ اللہ علیہ عالم ظاہر و باطن اور فقیہ کامل تھے آپ نے کسب مقامات سلوک حضرت شیخ محمد سیف الدین قدس سرہ سے کیا۔ اور کئی سال حضرت حافظ محسن کی خدمت میں بھی رہے۔ جو حضرت عروۃ الوثقیٰ کے خلیفہ اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی اولاد سے تھے۔ اور حالاتِ عالیہ اور مقامات ارجمند سے مشرف ہوئے۔ آپ کو استغراق بہت تھا۔ پندرہ سال وقت نماز کے سوا کسی وقت آپ کو افاقہ نہ ہوتا تھا۔ نماز کے بعد پھر مغلوب الحال ہوجاتے تھے۔ آخر میں افاقہ ہوگیا تھا۔ کثرت مراقبہ سے آپ کی پشت مبارک خم ہوگئی تھی۔ (تاریخ مشائخِ نقشبندیہ:435۔ازپروفیسر عبدالرسول للّٰہی)
سیرت وخصائص: جامع علومِ ظاہریہ وباطنیہ،کامل علوم ومعارف اسرار ربانیہ،حضرت سید نور محمد بدایونی۔آپسلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کےشیخِ کامل تھے۔آپنےسلسلہ عالیہ کےترویج وفروغ میں اہم کردار اداکیا۔آپ کی توجہ سےحضرت مرزامظہر جان جاناں جیسی عظیم شخصیت تیارہوئیں،اور ان کی صحبت سےحضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتینکھر کرآئے،اورانہوں نے’’تفسیرِ مظہری‘‘ جیسی عظیم تفسیر امت کوعطاء فرمائی۔
احتیاط و تقویٰ: آپ کمالِ تقویٰ اور اتباع ِسنت میں ممتاز تھے۔رسول اللہ ﷺ کے آداب و عادات کا نہایت التزام و اہتمام تھا۔ کتب سیر و اخلاق نبوی پیش نظر رہتی تھیں۔ ان کے موافق عمل کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ بیت الخلا میں پہلے دایاں پاؤں رکھا۔ تین دن تک احوال باطنی میں قبض رہی۔ بہت تضرع کے بعد حالت بسط پیدا ہوئی۔آپ لقمہ میں نہایت احتیاط کرتے تھے۔ اپنے ہاتھ سے کئی دن کا کھانا پکالیا کرتے۔ اور بھوک کی شدت کے وقت اُسی میں سے کچھ کھالیا کرتے۔ فرماتے تھے کہ تین سال سے طبیعت کا تعلق کیفیت عذا سے نہیں رہا۔ ضرورت کے وقت جو مل جاتا ہے کھالیتے ہیں۔ کمال اتباع سنت کے سبب سے آپ دو سالن کے اجتماع کو بدعت سمجھ کر ایک صاحبزادے کو گھی اور دوسرے کو شکر دیا کرتے۔ امیروں کے گھر کا کھانا کبھی نہ کھاتے تھے۔ کیونکہ وہ اکثر شبہ کی ظلمت سے خالی نہیں ہوتا۔ایک دفعہ کسی دنیا دار کے گھر سے کھانا آیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس میں ظلمت معلوم ہوتی ہے اور براہِ نوازش اپنے خلیفہ مرزا مظہر جان جاناں سے فرمایا کہ تم بھی اس کھانے میں غور کرو۔ مرزا ممدوح نے متوجہ ہوکر عرض کیا کہ کھانا وجہ حلال سے ہے۔ مگر ریا کی نیت کے سبب سے اس میں کچھ عفونت پیدا ہوگئی ہے۔ نواب مکرم خاں جو حضرت شاہ نقشبندی کی اولاد سے تھے۔ اور حضرت عروۃ الوثقیٰ کے مرید تھے ان کے کھانے میں بہت تکلفات ہوا کرتے اور حد اسراف تک پہنچ جاتے۔ مگر حضرت سید باوجود احتیاط کمال تقویٰ کے اُن کا کھانا کبھی کبھی بطور تبرک کھالیا کرتے اور فرماتے کہ ان کے کھانے کی برکتوں سے اس قدر نور باطنی زیادہ ہوتا ہے کہ گویا ہم نے کھایا نہیں دورکعت نماز پڑھی ہے۔ اپنے پیر کی محبت کے غلبہ اور انوار نسبت کے ظہور کے سبب سے نواب موصوف کی تمام چیزیں نور ہوگئی تھیں۔(ایضا:436)اگر آپ دنیا داروں کے گھر سے کوئی کتاب بطور عاریت منگواتے تھے تو تین روز تک اُس کا مطالعہ نہ کرتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ اُن کی صحبت کی ظلمت مثل غلاف کے اُس پر لپیٹی ہوئی ہے۔ جب آپ کی صحبت مبارک کی برکت سے وہ ظلمت زائل ہوجاتی تو مطالعہ فرماتے۔
مکاشفات و کرامات: آپ کے مکشوفات بہت صحیح اور مطابق واقع ہوا کرتے تھے بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کو چشمِ سر سے ویسا محسوس نہیں ہوتا جیسا کہ آپ کو چشمِ دل سے نظر آتا تھا۔ چنانچہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہید ناقل ہیں کہ ایک دن میں اپنے مُرشد حضرت سید السادات سید نور محمد بدایونی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں دیکھا کہ حضرت خوش بیٹھے ہیں۔ میں نے سبب دریافت کیا۔ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ آج میں نے بہت سے پنکھے فقیروں میں تقسیم کیے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس عمل کی قبولیت کے سبب سے جناب الٰہی سے بکثرت فیوض و برکات مثل بارش کے برس رہے ہیں۔
مراقبہ کی کیفیت: آپ کا تصرف قوی تھا۔ اپنے مخلصوں کی حاجت برآری کے لیے توجہ فرمایا کرتے تھے۔ ایسا کم ہوتا کہ توجہ سے مراد پوری نہ ہوتی۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک عورت نے عرض کیا کہ میری لڑکی کو جن اُٹھا لے گئے ہیں۔ ہر چند عمل و عزائم پڑھے گئے کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ آپ توجہ فرمائیں۔ آپ نے دیر تک مراقبہ کر کے فرمایا کہ فلاں وقت تیری لڑکی آجائے گی۔ چنانچہ ویسا ہی وقوع میں آیا۔ لڑکی سے ماجرا دریافت کیا گیا تو اُس نے کہا کہ میں ایک صحرا میں تھی۔ ایک بزرگ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے یہاں لے آیا۔ کسی شخص نے آپ سے مراقبہ کی وجہ پوچھی آپ نے فرمایا کہ مراقبہ میں میں نے جناب الٰہی میں عرض کی تھی کہ اگر میری دعا و توجہ میں اثر ہو تو کروں۔ جب الہام الٰہی سے مجھے معلوم ہوگیا کہ فقیر کی ہمت اس امر میں اثر رکھتی ہے تو میں نے کہہ دیا کہ لڑکی آجائے گی۔
نور فراست: آپ کا ہر عمل رضائے خدا کے موافق تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ دو رافضی عورتیں مرید ہونے کے لیے حاضر خدمت ہوئیں۔ آپ نے نورِ فراست سے اُن کا حال معلوم کر کے فرمایا کہ تم پہلے عقیدہ بد سے توبہ کرو۔ اُن میں سے ایک آپ کے کمال کی قائل ہوکر داخل طریق ہوگئی۔ اور دوسری کو توفیق نہ ہوئی۔
گناہ سے بچالیا: آپ کا ایک مخلص ہواے نفسانی سے چاہتا تھا کہ مرتکب زنا ہو۔ اسی اثنا میں آپ کی صورت مثالی حاضر ہوکر درمیان میں حائل ہوگئی۔ عورت تو دہشت سے ایک گوشہ میں جا چھپی اور دہ مخلص تائب ہوگیا۔ اور مارے ندامت کے مدت تک حاضرِ خدمت نہ ہوا۔
نسبت باطنی کی کیفیت:ایک دفعہ آپ کے قیام گاہ کے قریب ایک بھنگ فروش نے دوکان کھولی۔ آپ نے فرمایا کہ بھنگ کی ظلمت نے ہماری نسبتِ باطن کو مکدر کردیا۔ یہ سُن کر ارادتمندوں نے اُس پر سختی کی اور دکان خراب کردی۔ آپ نے فرمایا کہ نسبت باطنی اب پہلے سے زیادہ مکدر ہوگئی۔ کیونکہ خلاف شرع احتساب وقوع میں آیا ہے۔ پہلے نرمی سے اُسے توبہ کرانی چاہیے تھی۔ اگر وہ تائب نہ ہوتا تو سختی سے منع کرتے۔ پس آپ نے اُسے تلاش کر کے بلوایا۔ اور مریدوں کی جرأت کی معافی مانگی۔ اور بڑی نرمی سے فرمایا کہ خلافِ شرع پیشہ اچھا نہیں۔ کوئی مباح پیشہ اختیار کرنا چاہیے۔ وہ یہ دیکھ کر تائب ہوگیا اور داخل طریق ہوگیا۔الغرض اخلاق وتعلیماتِ مصطفوی کےپیکرِ جمیل تھے۔
تاریخِ وصال:آپ کاوصال 11/ ذیقعدہ 1135ھ میں ہوئی اور دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار مبارک کے قریب نواب مکرم خاں کے باغ میں مدفون ہوئے۔
ماخذ ومراجع: تاریخ مشائخِ نقشبندیہ۔مقامات مظہری۔