حضرت سید نور محمد بدایونی
حضرت سید نور محمد بدایونی علیہ الرحمۃ
مقام و مرتبہ:
سید السادات حضرت سید نور محمد بدایونی رحمۃ اللہ علیہ عالم ظاہر و باطن اور فقیہ کامل تھے آپ نے کسب مقامات سلوک حضرت شیخ محمد سیف الدین قدس سرہ سے کیا۔ اور کئی سال حضرت حافظ محسن کی خدمت میں بھی رہے۔ جو حضرت عروۃ الوثقیٰ کے خلیفہ اور شیخ عبدالحق دہلوی کی اولاد سے تھے۔ اور حالاتِ عالیہ اور مقامات ارجمند سے مشرف ہوئے۔ آپ کو استغراق بہت تھا۔ پندرہ سال وقت نماز کے سوا کسی وقت آپ کو افاقہ نہ ہوتا تھا۔ نماز کے بعد پھر مغلوب الحال ہوجاتے تھے۔ آخر میں افاقہ ہوگیا تھا۔ کثرت مراقبہ سے آپ کی پشت مبارک خم ہوگئی تھی۔
احتیاط و تقویٰ:
آپ کمال تقویٰ اور اتباع سنت میں ممتاز تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب و عادات کا نہایت التزام و اہتمام تھا۔ کتب سیر و اخلاق نبوی پیش نظر رہتی تھیں۔ ان کے موافق عمل کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ بیت الخلا میں پہلے دایاں پاؤں رکھا۔ تین دن تک احوال باطنی میں قبض رہی۔ بہت تضرع کے بعد حالت بسط پیدا ہوئی۔
آپ لقمہ میں نہایت احتیاط کرتے تھے۔ اپنے ہاتھ سے کئی دن کا کھانا پکالیا کرتے۔ اور بھوک کی شدت کے وقت اُسی میں سے کچھ کھالیا کرتے۔ فرماتے تھے کہ تین سال سے طبیعت کا تعلق کیفیت عذا سے نہیں رہا۔ ضرورت کے وقت جو مل جاتا ہے کھالیتے ہیں۔ کمال اتباع سنت کے سبب سے آپ دو سالن کے اجتماع کو بدعت سمجھ کر ایک صاحبزادے کو گھی اور دوسرے کو شکر دیا کرتے۔ امیروں کے گھر کا کھانا کبھی نہ کھاتے تھے۔ کیونکہ وہ اکثر شبہ کی ظلمت سے خالی نہیں ہوتا۔
ایک دفعہ کسی دنیا دار کے گھر سے کھانا آیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس میں ظلمت معلوم ہوتی ہے اور براہِ نوازش اپنے خلیفہ مرزا مظہر جانجاناں سے فرمایا کہ تم بھی اس کھانے میں غور کرو۔ مرزا ممدوح نے متوجہ ہوکر عرض کیا کہ کھانا وجہ حلال سے ہے۔ مگر ریا کی نیت کے سبب سے اس میں کچھ عفونت پیدا ہوگئی ہے۔ نواب مکرم خاں جو حضرت شاہ نقشبندی کی اولاد سے تھے۔ اور حضرت عروۃ الوثقیٰ کے مرید تھے ان کے کھانے میں بہت تکلفات ہوا کرتے اور حد اسراف تک پہنچ جاتے۔ مگر حضرت سید باوجود احتیاط کمال تقویٰ کے اُن کا کھانا کبھی کبھی بطور تبرک کھالیا کرتے اور فرماتے کہ ان کے کھانے کی برکتوں سے اس قدر نور باطنی زیادہ ہوتا ہے کہ گویا ہم نے کھایا نہیں دورکعت نماز پڑھی ہے۔ اپنے پیر کی محبت کے غلبہ اور انوار نسبت کے ظہور کے سبب سے نواب موصوف کی تمام چیزیں نور ہوگئی تھیں۔
اگر آپ دنیا داروں کے گھر سے کوئی کتاب بطور عاریت منگواتے تھے تو تین روز تک اُس کا مطالعہ نہ کرتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ اُن کی صحبت کی ظلمت مثل غلاف کے اُس پر لپیٹی ہوئی ہے۔ جب آپ کی صحبت مبارک کی برکت سے وہ ظلمت زائل ہوجاتی تو مطالعہ فرماتے۔
مکاشفات و کرامات:
آپ کے مکشوفات بہت صحیح اور مطابق واقع ہوا کرتے تھے بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کو چشمِ سر سے ویسا محسوس نہیں ہوتا جیسا کہ آپ کو چشمِ دل سے نظر آتا تھا۔ چنانچہ حضرت مرزا مظہر جانجاناں شہید ناقل ہیں کہ ایک دن میں اپنے مُرشد حضرت سید السادات سید نور محمد بدایونی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں دیکھا کہ حضرت خوش بیٹھے ہیں۔ میں نے سبب دریافت کیا۔ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ آج میں نے بہت سے پنکھے فقیروں میں تقسیم کیے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس عمل کی قبولیت کے سبب سے جناب الٰہی سے بکثرت فیوض و برکات مثل بارش کے برس رہے ہیں۔
مراقبہ کی کیفیت:
آپ کا تصرف قوی تھا۔ اپنے مخلصوں کی حاجت برآری کے لیے توجہ فرمایا کرتے تھے۔ ایسا کم ہوتا کہ توجہ سے مراد پوری نہ ہوتی۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک عورت نے عرض کیا کہ میری لڑکی کو جن اُٹھا لے گئے ہیں۔ ہر چند عمل و عزائم پڑھے گئے کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ آپ توجہ فرمائیں۔ آپ نے دیر تک مراقبہ کر کے فرمایا کہ فلاں وقت تیری لڑکی آجائے گی۔ چنانچہ ویسا ہی وقوع میں آیا۔ لڑکی سے ماجرا دریافت کیا گیا تو اُس نے کہا کہ میں ایک صحرا میں تھی۔ ایک بزرگ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے یہاں لے آیا۔ کسی شخص نے آپ سے مراقبہ کی وجہ پوچھی آپ نے فرمایا کہ مراقبہ میں میں نے جناب الٰہی میں عرض کی تھی کہ اگر میری دعا و توجہ میں اثر ہو تو کروں۔ جب الہام الٰہی سے مجھے معلوم ہوگیا کہ فقیر کی ہمت اس امر میں اثر رکھتی ہے تو میں نے کہہ دیا کہ لڑکی آجائے گی۔
نور فراست:
آپ کا ہر عمل رضائے خدا کے موافق تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ دو رافضی عورتیں مرید ہونے کے لیے حاضر خدمت ہوئیں۔ آپ نے نورِ فراست سے اُن کا حال معلوم کر کے فرمایا کہ تم پہلے عقیدہ بد سے توبہ کرو۔ اُن میں سے ایک آپ کے کمال کی قائل ہوکر داخل طریق ہوگئی۔ اور دوسری کو توفیق نہ ہوئی۔
گناہ سے بچالیا:
آپ کا ایک مخلص ہواے نفسانی سے چاہتا تھا کہ مرتکب زنا ہو۔ اسی اثنا میں آپ کی صورت مثالی حاضر ہوکر درمیان میں حائل ہوگئی۔ عورت تو دہشت سے ایک گوشہ میں جا چھپی اور دو مخلص تائب ہوگیا۔ اور مارے ندامت کے مدت تک حاضر خدمت نہ ہوا۔
نسبت باطنی کی کیفیت:
ایک دفعہ آپ کے قیام گاہ کے قریب ایک بھنگ فروش نے دوکان کھولی۔ آپ نے فرمایا کہ بھنگ کی ظلمت نے ہماری نسبتِ باطن کو مکدر کردیا۔ یہ سُن کر ارادتمندوں نے اُس پر سختی کی اور دکان خراب کردی۔ آپ نے فرمایا کہ نسبت باطنی اب پہلے سے زیادہ مکدر ہوگئی۔ کیونکہ خلاف شرع احتساب وقوع میں آیا ہے۔ پہلے نرمی سے اُسے توبہ کرانی چاہیے تھی۔ اگر وہ تائب نہ ہوتا تو سختی سے منع کرتے۔ پس آپ نے اُسے تلاش کر کے بلوایا۔ اور مریدوں کی جرأت کی معافی مانگی۔ اور بڑی نرمی سے فرمایا کہ خلافِ شرع پیشہ اچھا نہیں۔ کوئی مباح پیشہ اختیار کرنا چاہیے۔ وہ یہ دیکھ کر تائب ہوگیا اور داخل طریق ہوگیا۔
مریدوں کو تنبیہ:
آپ اپنے مریدوں کو ان کی لغزشوں پر تنبیہ فرمادیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک روز ایک مرید حضرت سید کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے گھر سے چلا۔ راستے میں ایک نا محرم پر نظر پڑگئی۔ دیکھتے ہی فرمایا کہ تم میں ظلمت زنا معلوم ہوتی ہے۔ شاید کسی نا محرم پر تمہاری نظر پڑگئی۔ پھر براہِ کرم توجہ فرما کر ازالۂ ظلمت فرمایا۔ اسی طرح ایک روز ایک خادم کو راستے میں شرابی مل گیا۔ جب وہ حاضر خدمت ہوا تو فرمایا کہ آج تمہارے باطن میں شراب کی ظلمت معلوم ہوتی ہے۔ شاید کسی شراب خور سے تمہاری ملاقات ہوئی ہے۔ فرمایا کہ فاسقوں کی ملاقات سے نسبت کمدر ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کی خدمت میں تہلیل کر کے جاتا تھا تو فرما دیتے تھے کہ آج تم ذکر تہلیل کر کے آئے ہو۔ اور اگر کوئی درود شریف پڑھ کر جاتا تو اُس سے فرما دیتے کہ تم درود شریف پڑھ کر آئے ہو۔
مٹی کا اثر:
آپ فرماتے تھے کہ ایک روز ہم اپنے پیر حضرت حافظ محمد محسن کے مزار کی زیارت کے لیے گئے ہم نے واقعہ میں دیکھا کہ بدن شریف اور کفن درست ہے۔ مگر پاؤں کے تلوے کے چمڑے اور کفن کے اُس حصہ میں خاک نے اثر کیا ہوا ہے۔ وجہ دریافت کی گئی تو حضرت حافظ نے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہوگا کہ ہم نے کسی غیر شخص کا پتھر بغیر اجازت کے وضو کی جگہ رکھ لیا تھا اور ارادہ یہ تھا کہ مالک جب آئے گا تو اُس کے حوالہ کردیں گے۔ ہم نے ایک بار اُس پتھر پر اپنا قدم رکھا تھا۔ اس عمل کی نحوست سے مٹی نے اثر کیا ہے۔ بے شک جس کا قدم تقویٰ میں آگے ہے۔ اس کا قرب و ولایت بھی اتنا ہی زیادہ ہے۔
وصال مُبارک:
آپ کی وفات شریف ۱۱ ذیقعدہ ۱۱۳۵ھ میں ہوئی اور دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار مبارک کے قریب نواب مکرم خاں کے باغ میں مدفون ہوئے۔
راقم الحروف ۱۶؍ رجب ۱۳۵۱ھ میں آپ کے مزار مبارک کی زیارت سے مشرف ہوا۔ مزار مبارک حضرت سلطان المشائخ کے روضہ مقدسہ سے جانب جنوب نالے کے پار پتھروں کی چاردیواری میں ہے۔ جس میں دو نیم کے درخت ہیں۔ درخت جنوبی کے نیچے کچا مزار آپ ہی کا ہے۔ سرہانے پتھر کی لوح پر دو سطروں میں عبارت لکھی ہے
سید نور محمد بدایونی رحمۃ اللہ علیہ
بتاریخ ۱۱ ذی قعدہ ۱۱۳۵ ہجری انتقال فرمود
عام لوگ حضرت سید کو سید بھوڑے کہتے ہیں۔ وجہ یہ کہ وہ زمین جہاں مزار مبارک ہے زمین کی نہایت ناقص قسم ہے جسے بھوڑ کہتے ہیں۔
ایک مرتبہ اورنگ زیب بادشاہ نے آپ نے پوچھا کہ آپ کی عمر کتنے سال کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جس قدر اپنے مرشد کی خدمت میں بسر ہوئی ہے۔ عمر وہی ہے۔ باقی تمام کانٹے ہی کانٹے ہیں۔ ؎
اوقات ہماں بود کہ بایار بسر رفت
باقی ہمہ بیجا صلی و ہمہ بیخبری بود
حضرت مرزا صاحب مظہر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہزار سے زیادہ شاغل ذاکر اور صاحب حضوری و آگاہی آنجناب سے ہوئے ہیں۔ اور بعض حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت ہائے عالیہ سے مشرف ہوئے ہیں جیسے حضرت سید حشمت اور حضرت محمد باقی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔
(مقامات مظہری مولفہ حضرت غلام علی شاہ قدس سرہ۔ جواہر علویہ مولفہ شاہ رؤف احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ)