شیخ الاسلام سید محمد بن سلیمان جزولی
شیخ الاسلام سید محمد بن سلیمان جزولی (تذکرہ / سوانح)
شیخ الاسلام سید محمد بن سلیمان جزولی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: محمد۔ کنیت: ابو عبد اللہ۔لقب: شیخ الاسلام، قطبِ زمانہ، صاحبِ دلائل الخیرات۔ سلسلہ نسب اس طرح ہے: سید محمد بن سید عبدالرحمن بن سید ابی بکر بن سید سلیمان بن سید سعید بن یعلی بن یخلف بن موسیٰ بن علی بن یوسف بن عیسیٰ بن عبد اللہ بن جندوز بن عبد الرحمن بن محمد بن احمد بن حسان بن اسمعیل بن جعفر بن عبداللہ کامل بن حسن مثنی بن حسن مجتبیٰ بن علی المرتضیٰ(رضی اللہ عنہم اجمعین)۔آپ کاخاندانی تعلق حسنی ساداتِ کرام کے عظیم خانوادےسےتھا۔ علاقائی قبائلی تعلق ’’بربر ‘‘قوم کے قبیلہ ’’جزولہ‘‘ کی شاخ ’’سملالہ‘‘ سے ہے۔ اس لیے آپ کو ’’جزولی، اور سملالی‘‘ بھی کہاجاتاہے۔آپ کا مسکن سوسِ اقصیٰ(مراکش) تھا۔(نور نور چہرے:319)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 807ھ مطابق 1404ءکو بمقام ’’سوس اقصیٰ‘‘ مراکش میں ہوئی۔(ایضا: 319)
تحصیلِ علم: آپ کا تعلق ایک علمی و متمول خاندان سے تھا۔اس لیے شروع سے ہی آپ کی تعلیم وتربیت پر خاص توجہ دی گئی۔ابتدائی تعلیم گھر پرحاصل کرنے کےبعد مزید تحصیلِ علم کےلئےشہرِ ’’فاس‘‘ میں رہائش اختیار کی اور وہاں ’’مدرسۃ الصفارین‘‘ میں داخل ہوگئے۔جہاں آج بھی آپ کا رہائشی حجرہ موجود ہے،اور لوگ برکتیں حاصل کرتےہیں۔یہیں پر آپ نے علامہ ابنِ حاجب کی تصانیف اور مدونہ کبریٰ وغیرہ کتب کو زبانی یاد کہا۔اسی طرح آپ کو مذہبِ مالکیہ کی اہم کتب بھی یاد تھیں۔
بیعت وخلافت: شیخ جزولی نے فاس سے ساحلی علاقہ کا رخ کیا۔وہاں آپ کی ملاقات یکتائے روزگار،عارف ِ کامل شیخ ابوعبد اللہ محمد بن عبداللہ امغار سے ہوئی۔سلسلہ عالیہ شاذلیہ میں ان کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔
سیرت وخصائص: فنافی المصطفیٰ، سندا لاصفیاء، سید الاتقیاء، عارفِ کامل، قطب الاقطاب، وحید الدہر، فرید العصر، فقیہ ،امام،علامہ،شیخ الاسلام ابو عبد اللہ سید محمد بن سلیمان جزولی۔آپ کا شمار علماءِ عاملین،اور آئمۂ مجتہدین میں ہوتاہے۔آپ کو حسب ونسب کے ساتھ ساتھ علم عمل کا شرف بھی حاصل تھا۔آپ ربانی احوال،بلند مقامات،عالی ہمت،پاکیزہ اخلاق کے حامل تھے۔آپ کا طریقہ عمدہ تھا۔علم لدنی،اور اسرار ربانی کے حامل اور بڑے خرقِ عادت امور میں صاحبِ تصرفات وکرامات تھے۔آپ جامع مانع قطب،نافع غوث،وارثِ علوم نبوی،اور صاحبِ اسرارِ ربانی تھے۔آپچودہ سال تک خلوت گزینی اختیار کرکےعبادت وریاضت اور منازل سلوک طےکرنے میں مصروف رہے۔پھر آسفی(مراکش کا ایک شہر) میں مخلوقِ خدا کی رہنمائی اور مریدین کی تربیت کا کام شروع کیا۔بے شمار لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کی۔آپ کا شہرہ عام ہوگیا۔حیرت انگیز اور بڑی بری کرامات ظاہر ہوئیں۔
حضرت شیخاحکامِ الٰہیہ اور سنتِ نبویہ پر سختی سے کاربند تھے۔ کثرت سے اوراد و وظائف ادا کرتے تھے۔دن رات میں ڈیڑھ قرآن پاک (ایک مکمل قرآن اور نصف قرآن) کی تلاوت کرتے،بسم اللہ شریف کا وظیفہ پڑھتے اور شب وروز میں دومرتبہ دلائل الخیرات ختم کرنا آپ کا معمول تھا۔ عوام الناس کے بے پناہ ہجوم کو خطرہ محسوس کرتےہوئے حاکمِ وقت نے آسفی سے سےنکال دیا۔چنانچہ آپ آفرغال تشریف لےگئے۔اور پھر سے رشد وہدایت کا سلسلہ شروع کردیا۔ علامہ فاسی فرماتے ہیں: آپ کی برکت سے انوار جگمگا اٹھے۔ اسرار آشکار ہونے لگے۔ فقراء،ہرطرف پھیل گئے۔ بلادِ مغرب میں اللہ جل شانہ کے ذکر اور سرورِ عالم ﷺ کی بارگاہ میں صلوٰۃ وسلام کے نغمے گونجنے لگے۔ آپ کی شہرت ہر سو پھیل گئی، اور ہر طرف آپ کے مریدین دکھائی دینے لگے۔بندگانِ خدا کو نئی زندگی مل گئی۔ویران بستیاں اور شہر پھر سے آباد ہوگئے۔مغرب میں طریقت کے آثار مٹ چکے تھے اور انوار ماند پڑ چکے تھے۔آپ نے طریقت کی تجدید فرمائی اور بہت سے مشائخ کو خلافت سے نوازا۔عام مریدین کی تعداد کا تو شمار نہیں،خواص کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی۔یہاں تک کہ آپ کے فیض یافتہ مریدین میں سے بارہ ہزار چھ سو پینسٹھ تو ایسے کامل تھے کہ مقام ِولایت پر متمکن ہوئے،اور اپنی اپنی ستعداد کے مطابق قربِ الہی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔ ان میں سے شیخ ابو عبد اللہ محمد الصغیر السہیلی اور شیخ ابو محمد عبد الکریم المنذری رحمہمااللہ تعالیٰ معروف زمانہ ہوئے ہیں۔
امام جزولی خوش عقیدہ بزرگ ہیں۔ جن کا تعلق اہل سنت وجماعت سے ہے۔ اللہ جل شانہ کی عظمت و الوہیت کے ساتھ ساتھ حضورﷺ کےعلم ،اختیارات، کمالات، تصرفات، معجزات، آپ کی عند اللہ وجاہت ومحبوبیت،آپ کا حاضر وناضر ہونا،آپ کی شفاعت، اسی طرح توسل و استعانت، اور آپﷺ کی عظمت و شوکت کو بڑے حسین پیرائے میں بیان کیاہے۔ ایک مقام پر بطورِ تحدیثِ نعمت اپنی کیفیت یوں بیان کرتےہیں: ’’ونفیت عن قلبی فی ھذا النبی الکریم الشک والارتیاب، وغلبت حبہ عندی، علی حب جمیعِ الاقرباء والاحباء‘‘۔ اے اللہ! تونے میرے دل کو اس نبی کریمﷺ کے بارے میں ہر قسم کے شک وشبہ سے دور رکھاہے، اور آپﷺ کی محبت کو میرے نزدیک تمام رشتے داروں اور پیاروں کی محبت پر غالب کردیاہے۔(صاحبِ دلائل الخیرات:6)
تاریخِ وصال: شیخ جزولی کی مقبولیت،شہرت، علم وفضل، اور طریقت میں اعلیٰ مقام کی وجہ سے حاسدین کا ایک گروہ پیدا ہوگیاتھا۔انہوں نے آپ کو زہر دےدیا۔جس سے آپ کو درجہ ٔ شہادت نصیب ہوا۔یہ بھی قول ہے کہ حاکم ِ وقت نے ہی زہر دلوایاتھا۔چنانچہ 16/ربیع الاول 870ھ مطابق 1465ء کو نماز ِ فجراداکرتے ہوئے، حالتِ سجدہ میں واصل باللہ ہوئے۔اسی روز بعد نمازِ ظہر آپ کو ’’سوس‘‘ میں آپ کی بنا کردہ مسجد کے صحن میں دفن کیا گیا۔(نور نور چہرے:322)
محمد کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا: آپ کے وصال کے ستتر(77)سال بعد سلطان احمد الاعرج نے آپ کے جسم اطہر کوسوس سے لےجاکر مراکش کے قبرستان ’’ریاض العروس‘‘ میں دفن کردیا،اور آپ کے مزار پر گنبد تعمیر کرایا۔ ستتر سال بعد جب آپ کو قبر سے نکالا گیاتو آپ کا جسم ترو تازہ تھا۔جیسے آج ہی دفن کیا گیاہو۔اتنی طویل مدت گزرجانے کےباوجود آپ کا جسم متغیر نہ ہوا تھا۔آپ کی داڑھی اور سر کےبال ایسے تھے،جیسے آج ہی حجام نے آپ کی حجامت بنائی ہو۔ایک شخص نے آپ کے چہرے کو انگلی سے دبایا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس جگہ سے خون ہٹ گیااور جب انگلی اٹھائی تو خون پھر اپنی جگہ لوٹ آیا۔جیسے زندوں کے ساتھ ہوا کرتاہے۔اسی طرح پوری فضاء معطر ہو گئی۔ (جامع کرامات الاولیاء ج1،ص276)
دُورد شریف کی برکت سے کستوری کی خوشبو: مراکش میں آپ کا مزار مرجعِ خلائق ہے۔مزار پر بڑے رعب وجلال کا سماں ہے۔لوگ زیارت کےلئے جوق در جوق حاضری دیتے ہیں، اور دلائل الخیرات کا بکثرت ورد ہوتا ہے۔آپ کی ساری عمر حضور نبی کریمﷺ پر درود پڑھتے،درود کی ترغیب دیتے،اور درود شریف کی برکت سے آپ کی قبر مبارک سے کستوری کی خوشبو آتی ہے۔(صاحبِ دلائل)
تصانیف: خلقِ خداکی ہدایت و راہنمائی کے ساتھ ساتھ آپ نے مریدین کی تربیت کےلئے تصنیف وتالیف کا کام بھی کیا۔1تصوف میں ایک کتاب اس کا نام معلوم نہیں۔2۔ حزب سبحان الدائم لایزول، المعروف بحزب الجزولی۔اس حزب کی اہمیت کا اندازہ شیخ جزولی سے منسوب اس قول سے لگایا جاسکتاہے: ’’وما واظب علیہ الا ولی و مبارک‘‘۔ اسے پابندی سے وہی پڑھے گا، جو ولی اور صاحبِ خیر و برکت ہوگا۔(صاحبِ دلائل الخیرات)۔3۔ حزب الفلاح۔4۔ دلائل الخیرات وشوارق الانوار فی ذکر الصلوٰۃ علی النبی المختار۔ امام جزولی کی اس شہرہ آفاق تالیف کو جو قبولیتِ عام نصیب ہوئی وہ اسی کا خاصہ ہے۔اس کتاب کی غرض و غایت امام جزولی خود بیان فرماتے ہیں: ابتغاء لمرضات اللہ تعالی ، و محبۃ فی رسولہ الکریم سیدنا محمدﷺ۔ یعنی اس کتاب کےمرتب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی رضا، اور اس کے حبیبﷺ کی محبت نصیب ہو۔(مقدمہ دلائل الخیرات)۔
سبب ِ تالیف: عارف باللہ شیخ احمد صاوینے ’’ صلوات الشیخ الدردیر‘‘ کی شرح میں بیان کیا،اور علامہ نبہانی کے شیخ، علامہ حسن عددی نے دلائل الخیرات کا سببِ تالیف بیان کرتےہوئے رقم طراز ہیں: ايک مرتبہ حضرت شیخ جَزولی وُضُو کرنے کے لئے ایک کنویں پر گئے مگر اُس سے پانی نکالنے کے لئے کوئی چيزپاس نہ تھی۔ شیخ پريشان تھے کہ کیاکريں؟ اتنے ميں ايک اونچے مکان سے بچی نے ديکھا تو کہنے لگی: ’’یاشیخ! آپ وہی ہيں نا،جن کی نيکیوں کا بڑا چَرچا ہے، اِس کے باوجود آپ پريشان ہيں کہ کنويں سے پانی کس طرح نکالوں! ’’ پھراس بچی نے کنويں ميں اپنا لُعاب ڈال ديا۔ تھوڑی ہی دیر میں کنويں کا پانی بڑھنا شروع ہوگیا حتی کہ کناروں سے نکل کر زمين پر بہنے لگا ۔شيخ نے وضو کیا اور اس بچی سے کہنے لگے : ’’ميں تمہيں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم نے يہ مرتبہ کیسے حاصل کیا؟ ’’اس بچی نے جواب دیا: ’’ميں رسولِ کریمﷺ پر کثرت سے دُرُودِ پاک پڑھتی ہوں۔‘‘ يہ سُن کرشيخ سلیمان جزولی نے قَسَم کھائی کہ ميں دربارِ رِسالت ميں پيش کرنے کے لئے درود و سلام کی کتاب ضرور لکھوں گا۔ (نور نور چہرے:324)
دلائل الخیرات کی مقبولیت: شیخ قیطونی اس کی مقبولیت کا تذکرہ کرتےہوئے فرماتے ہیں: دلائل الخیرات حضور نبی کریمﷺ پر درود کے متعلق ایک ایسی کتاب ہے،جو اللہ کی نشانیوں میں ایک بڑی نشانی ہے۔جسے تمام روئے زمین پر بڑی مقبولیت حاصل ہے۔اسی طرح حاجی خلیفہ نے بھی اس کی شرق وغرب میں مقبولیت کا تذکرہ کیاہے۔(صاحبِ دلائل 9، بحوالہ کشف الظنون جلد1،ص759)۔
اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ بعض خوش نصیبوں کو براہِ راست حضورﷺ نے اس کتاب کی اجازت عطاء فرمائی۔ شیخ صدیق فلالی جو ایک امی بزرگ تھے، دلائل الخیرات حفظ تھی۔انہیں خواب میں صاحبِ علم ماکان ومایکون ﷺ نے دلائل الخیرات پڑھائی تھی۔(ایضا:10) سیدی محمد مغربی تلمسانی، اور سیدی محمد اندلسی رحمہما اللہ نے آپﷺ سے اجازت حاصل کی۔مشائخِ عظام نہ صرف دلائل الخیرات کو بطورِ ورد پڑھتے رہے ہیں،بلکہ اپنے مشائخ سے بطورِ سندباقاعدہ اجازت بھی حاصل کرتے رہے ہیں۔ایسے حضرات ’’شیخ الدلائل‘‘ کے محترم لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔
طریقہ و آداب: شرفِ ملت حضرت علامہ مولانا عبد الحکیم شرف قادری فرماتے ہیں: ’’بندۂ مؤمن کے لئے اللہ تعالیٰ کے فرائض و واجبات، تلاوتِ قرآنِ کریم، ذکر الہی اور اتباعِ سنت کے بعد سب سے زیادہ اہم وظیفہ درود ِ پاک ہے، جس کے دنیاوی اور اخروی بے شمار فوائد ہیں۔دلائل الخیرات کی برکتیں حاصل کرنے کےلیے ضروری ہے کہ انسان، اللہ تعالیٰ کے احکام بجالائے۔سرکارِ دوعالمﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا ہو، بندوں کے حقوق ادا کرے، مسواک کے ساتھ وضو کرے، پاک صاف کپڑے پہنے،خوشبو لگائے،قبلہ رخ بیٹھ کر پوری توجہ اور اخلاص کےساتھ دلائل الخیرات شریف پڑھے‘‘۔
یہ کتاب آٹھ حصوں میں تقسیم کی گئی ہے۔ ہر حصے کو ’’حزب‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے، تو ہر روز پوری دلائل الخیرات پڑھی جائے۔ نہیں تو دو دن یا چار دن میں پڑھی جائے۔یہ بھی نہ ہوسکے تو ہفتے میں مکمل کی جائے۔پیر کے دن ’’فصل کیفیۃ الصلوٰۃ علی النبی ﷺ‘‘ شروع کی جائے۔آئندہ پیر کو آٹھواں حزب پڑھ کر اسی دن پہلا حزب پڑھا جائے۔(نور نور چہرے: 330)