حضرت نوح علیہ السلام
حضرت نوح علیہ السلام (تذکرہ / سوانح)
حضرت نوح علیہ السلام
حضرت نوح علیہ السلام کے باپ کا نام لامک بن متوشلخ بن اخنوخ (یہ ادریس علیہ السلام کا نام) (مدارک پ۸ ع۱۵ زیر آیت لقد ارسلنا نوحا) آپ علیہ السلام کو چالیس سال کے بعد اعلان نبوت کا حکم دیا گیا اور ساڑھے نو سو (۹۵۰) سال آپ اپنی قوم میں ٹھہرے اور اپنی قوم کو تبلیغ فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فَلَبِثَ فِیْھِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا (العنکبوت ۱۴) تو وہ ان میں پچاس سال کم ہزار برس رہے۔ طوفان کے بعد آپ دو سو پچاس سال زندہ رہے آپ کی کل عمر ایک ہزار دو سو چالیس سال ہے اگرچہ اس میں اور قول بھی ہیں لیکن زیادہ طور پر اسی قول کو صحیح کہا گیا ہے۔ (صاوی پ۸ زیر آیت ولقد ارسلنا نوحا، حاشیہ جلالین ص۱۳۴) نوح علیہ السلام نے قوم کو کیا تبلیغ کیا؟ حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو اللہ کی وحدانیت، گناہوں سے باز رہنے کی تبلیغ فرمائی اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے رہے۔ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ اَنِ اعْبُدُوا اللہ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ یَغْفِرْلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَیُؤَخِّرْکُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی اِنَّ اَجَلَ اللہ اِذَا جَآءَ لَا یُؤَخَّرُم لَوْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ. آپ نے فرمایا: اے میری قوم! میں تمہارے لیے ظاہر طور پر ڈر سنانے والا ہوں کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میرا حکم مانو وہ تمہارے کچھ گناہ بخش دے گا اور ایک مقرر میعاد تک تمہیں مہلت دے گا، بے شک اللہ کا وعدہ جب آتا ہے ہٹایا نہیں جاتا، کاش تم جانتے۔ اور آپ نے فرمایا: وَمَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (پ۱۹، الشعراء ۱۰۹) اور میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ یعنی میں جو تمہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور صرف اسی کی عبادت کرنے اور صرف اسی سے ڈرنے اور اس کے بغیر اور کسی کی عبادت کرنے پر دین و دنیا کی تباہی سے ڈرانے پر کوئی اجرت مال و دولت کا مطالبہ تو نہیں کر رہا اگر تم نے اس راہ کا تعین کرلیا جو میں بتا رہا ہوں تو تمہاری کامیابی ہے ورنہ تم ذلیل ہوجاؤ گے تباہ و برباد ہوجاؤ گے دین و دنیا میں خسارے میں پڑ جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام تم تک پہنچانے میں مجھے تم سے کوئی غرض نہیں کسی منصب مال و دولت کے حصول کا کوئی لالچ نہیں صرف اللہ کے حکم سے اللہ کی رضا مندی کے لیے تمہیں تبلیغ کر رہا ہوں۔ میرے اللہ تعالیٰ نے ہی مجھے اجر و ثواب عطا کرنا ہے اس کی بے حساب رحمت کے ہوتے ہوئے مجھے تم سے کچھ غرض نہیں۔ نوح علیہ السلام کی تبلیغ کا قوم پر کیا اثر ہوا؟ آپ علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال دن رات تبلیغ کی لیکن قوم قریب آنے کے بجائے دور ہوتی چلی گئی آپ کی تقریر کو نہ سننے کی غرض سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونستے۔ (معاذاللہ) آپ سے نفرت کرتے ہوئے اپنے چہروں کو ڈھانپ لیتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّنَھَارًا فَلَمْ یَزِدْھُمْ دُعَآئِیْٓ اِلَّا فِرَارًا وَاِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُھُمْ لِتَغْفِرَلَہُمْ جَعَلُوْٓا اَصَابِعَھُمْ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ وَاَصَرُّوْا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا. (پ۲۹ سورۃ نوح ۷۰۵) عرض کی اے میرے رب میں نے اپنی قوم کو رات دن بلایا تو میرے بلانے سے ان کا بھاگنا بڑھا ہی ہے اور میں نے ج تنی بار انہیں بلایا کہ تو ان کو بخشے، انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے دیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور ہٹ دھرمی کی اور بڑا غرور کیا۔ قوم کے کتنے لوگ ایمان لائے؟ اتنا عرصہ تبلیغ کرنے کے باوجود ایمان لانے والوں کا مختصر گروہ نظر آتا ہے تین آپ کے بیٹے سام، حام، یافث اور تین ان کی بیویاں اور ایک نوح علیہ السلام کی زوجہ اور ستر مرد عورتیں۔ یہی ایماندار لوگ کشتی پر بھی سوار تھے یعنی بمع نوح علیہ السلام کے کل اٹھتر آدمی کشتی میں سوار تھے، جن میں مرد اور عورتیں برابر برابر تعداد میں تھے۔ نوح علیہ السلام کی قوم کے ایمان نہ لانے کی وجوہ: ۱۔ فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہ مَا نَرٰکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا (پ۱۲ سورت ھود ۲۷) تو آپ کی قوم کے سردار جو کافر ہوئے تھے بولے ہم تو تمہیں اپنے ہی جیسا آدمی دیکھتے ہیں۔ یعنی ایک وجہ قوم کے ایمان نہ لانے کی یہ تھی کہ وہ نوح علیہ السلام کو اپنے جیسا بشر سمجھنے لگے کہ ہمارے ہی جیسا بشر کبھی نبی نہیں بن سکتا وہ اس سے بے خبر تھے کہ نبی کو دو حالتیں حاصل ہوتی ہیں ایک بشری اوردوسری نورانی۔
کشتی کا چلنا اور منزل پر پہنچنا: حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی دس رجب کو چلی اور دس محرم کو جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوگئی کشتی چھ ماہ مسلسل طوفان میں رہی دس محرم کو طوفان سے نجات ملنے پر حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کی قوم نے روزہ رکھا۔ فصام نوح علیہ السلام وامر جمیع من معہ من الوحش والدواب فصاموا شکراً للہ نوح علیہ السلام نے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے ساتھ تمام لوگوں اور وحشی جانوروں اور دوسرے جانوروں کو بھی حکم دیا سب نے اللہ کا شکریہ ا دا کرتے ہوئے روزہ رکھا۔ سبحان اللہ! نبی کی عظمت کو جانور تو جانتے ہیں بے وقوف لوگ نہ جانیں تو ا پنی بدبختی کا ماتم کریں
کشتی جودی پہاڑ پر کیوں رکی؟
تمام پہاڑ اپنی اپنی بلندیوں پر تکبر کر رہے تھے اور اِترا رہے تھے لیکن جودی پہاڑ اللہ کے حضور اپنی عاجزی ہی کرتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے اسے یہ تکریم عطا فرمائی کہ نوح علیہ السلام کی کشتی اس پر آکر ٹھہری۔ من تواضع للہ سبحانہ رفعہ (روح المعانی ج۷ ص۶۲) جس نے عاجزی کی اللہ تعالیٰ نے اسے رفعت عطا کی۔ خیال رہے جودی پہاڑ موصل یا شام کے علاقہ میں ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ پانی حرم شریف میں داخل نہیں ہوا تھا۔
(تذکرۃ الانبیاء)