شیخ الحدیث مولانا افتخار احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:مولانا افتخار احمدقادری۔لقب:قادری،عاشقِ مدینہ۔والد کااسمِ گرامی:سکندرخان مرحوم۔قوم کےپختون تھے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1954کو گاؤں"کاٹلنگ، قصہ کڑکنی"ضلع مردان ،صوبہ خیبرپختونخواہ،پاکستان میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: گاؤں کاٹلنگ کی مسجد مامونی میں پیر آف مانکی شریف کے خلیفہ حضرت مولانا عبدالجلیل صاحب کے پاس ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد 1970ء میں دارالعلوم امجدیہ کراچی تشریف لائے اور یہاں باقاعدہ درس نظامی کی تکمیل کی اور 1980ء میں شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا عبدالمصطفی ٰالازہری علیہ الرحمۃ سے دور حدیث مکمل کیا۔آپ کے مشہور اساتذہ میں علامہ مفتی سید شجاعت علی قادری، پروفیسر علامہ منتخب الحق قادری، علامہ مفتی وقار الدین قادری، مولانا قاری مصلح الدین صدیقی، علامہ مفتی نصر اللہ خان افغا نی اور مولانا محمد اسماعیل میمن رضوی وغیرہ کے نام لیئے جاتے ہیں۔
بیعت وخلافت: قطبِ مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی قادری علیہ الرحمۃ سے سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے۔ تاج الشریعہ حضرت مولانا مفتی اختر رضا خان بریلوی اور حضرت شیخ ڈاکٹر محمد علوی مالکی شیخ طریقت و شیخ مکہ معظمہ (منصنف: ذخائر محمدیہ) سے خلافتیں عطا ہوئیں۔
سیرت وخصائص: عاشقِ مدینہ،عالم وعالم بالسنہ،شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا افتخار احمدقادری رحمۃ اللہ علیہ۔بعد فراغت 1981ء میں اپنے مادرِ علمی میں مدرس مقرر ہوئے۔ محنت شوق اورلگن سے درس و تدریس کا مشغلہ جاری رکھا۔ اپنی حاضر دماغی، ذکاوت قابلیت اورحسنِ اخلاق کے سبب طلباء و علماء میں مقبول تھے۔ اساتذہ کے ادیب اورطلباء پر شفیق تھے۔ آپ نے ذہانت و مہارتِ تامہ سے اپنا لوہا منوایا کہ 1995ء میں مہتمم دارالعلوم امجدیہ مفتی ظفر علی نعمانی علیہ الرحمہ نے آپ کو دارالعلوم کا "شیخ الحدیث" منتخب کیا۔
آپ انتہائی ذکی اور بہت ہی محنت کرنے والے تھے، قدرت نے قوت حافظہ جیسی بے بہا نعمت سے سرفراز فرمایا تھا۔ رات دیر تک مطالعہ فرماتے تھے۔ جب مدرسہ کی لائٹ اپنے مقررہ وقت پر بند کردی جاتیں تو آپ باہر سڑک پر سرکاری لائٹ کے نیچے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر مطالعہ فرماتے تھے۔ اس سے آپ کے شوقِ مطالعہ اور جذبۂ دین کا پتہ چلتا ہے۔آپ منکسر المزاج او ر سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ ہر ایک ملنے والے سے پر تپاک طور پر ملاقات فرماتے تھے۔ حسنِ اخلاق کے مجسمہ تھے۔ دورہ حدیث کے طلباء کو عالم ہی سمجھتے اور فرماتے تھے کہ تم عالم دین ہو اپنے مقام کو پہچانو اور اپنی ذمہ داری کو خوب نبھاؤ۔ قرآن شریف کی روزانہ تلاوت ان کا معمول تھا اور رمضان المبارک میں 10 تا 20 ختم قرآن کرتے اور پوری بخاری شریف کا ایک ختم کرتے تھے۔ عشق رسول ﷺ کی دولت سے مالامال تھے ۔ دین سے انتہائی مخلص تھے۔
قابلِ رشک موت: مولانا افتخار احمد کو حجِ بیت اللہ اورزیارتِ روضہ مقدس کا بہت اشتیاق تھا، زندگی بھر اس مقدس سفر کیلئے دعائیں لیتے رہے۔ اشتیاق و شوق دن بدن بڑھتا ہی جارہا تھا ۔ آخر آپ کی قسمت نے انگڑائی لی اور حج بیت اللہ کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے۔ رفیقِ سفر شاگردِ رشید اور رشتہ دار مولانا محمد اسحاق قادری صاحب آپ کے ساتھ تھے۔ وہ بتاتے ہیں کراچی میں آپ کی طبیعت بہت خراب تھی مگر مکہ معظمہ میں طبعیت ایسی صحیح ہوگئی جیسے آپ بیمار تھے ہی نہیں۔ احسن طریقے سے حج ادا کیا،سارے ارکان ادا فرمائے۔ اس سال 9 ذوالحج جمعۃ المبارک کوتھی،جس کو"حج ِاکبر" سے موسوم کرتے ہیں۔
حج کی ادائیگی کے بعد مدینہ منور حاضری دی یہاں محبوب پاک ﷺ کے قدموں میں گنبد خضرا کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں طبیعت بہت ہی زیادہ اچھی بہتر ہوگئی۔ حسبِ معمول ظہرکی نماز کے بعد آرام کرتے تھے اور یہی معمول کراچی میں بھی تھا۔ لیکن ہفتہ کے روز ظہر کے بعد ہوٹل کی طرف تشریف لے گئے ۔پھر مولانا اسحاق سے کہنے لگے مجھے پھر روضہ اقدس لے چلو۔عرض کی قبلہ!ابھی تو آرہےہیں۔عصر میں جائیں گے تھوڑی دیر آرام کرلیتے ہیں۔ فرمایا:آرام بہت کرلیا، جلدی لے چلو۔ مسجد نبوی میں پہنچے۔
مولانا اسحاق صاحب رقمطراز ہیں: مجھے فرمانے لگے مجھے ریاض الجنۃ لے چلو، مجھےمنبر رسول ﷺ کے پاس لے چلو، اس وقت میں نے حضرت کی عجیب کیفیت دیکھی صرف عاشق کو نہیں ایک عشق کو میں نے اپنی نگاہوں سے دیکھا۔منبرِ رسول ﷺ کے پاس پہنچنے کے بعد اس کے بوسے لئے رو رو کرگڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافیاں مانگنے لگے۔ پھر اللہ کےمحبوب ﷺ کے مزار پر انوار پرحاضری دی وہاں خوب درود و سلام پڑھا اور دعائیں مانگیں اور باب البقیع سے جب نکلے تو سامنے گنبدِ خضریٰ کو دیکھا سخت دھوپ میں اس کھلے صحن میں کھڑے ہوئے گنبدِ خضرا کو دیکھنے لگے شہادت کی انگلی اٹھائی اورایمان مفصل و مجمل ، کلمہ شہادت اوررسول کریم ﷺ کی شان اقدس میں قرآن مقدس کی آیات کریمہ مثلا ً"ولو انھہم از طلمو انفسہم جائوک فاستغفرو اللہ واستغفر لہم الرسول لوجدو اللہ توابا رحیما (النساء :۶۴)کی تلاوت کی۔آخر میں انگلی ہلا ہلاکرعرض کی اے سبز گنبد کے مکیں آقا ﷺ!اے قلبِ عاشقاں کے تسکین آقا ﷺ!میں آپکوگواہ بناتا ہوں کہ بے شک اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور آپ اللہ تعالیٰ کے رسول (ﷺ) ہیں۔کچھ دیر تلاوتِ قرآن میں مصروف ہوگئے۔
عصر کے بعد بابِ بلال کے سامنے کھلے صحن میں گنبد خضریٰ کے پاس محبوب رب العالمینﷺ کے مبارک قدموں میں اچانک گر پڑے کچھ ہی دیر بعد حدودِ حرم ہی میں روح جسم سے پروازکرکےمصطفیٰ ﷺکی بارگاہ میں حاضر ہوگئی۔
؏:اے کاش مدینے میں مجھے موت یوں آئے۔۔قدموں میں تیرے سر ہو میری روح چلی ہو۔
تاریخِ وصال:بروز ہفتہ 22 ذوالحجہ 1419ھ،مطابق 10/ اپریل 1999ء،کووحرمِ نبوی میں انتقال کیا،اوربروز اتوار بعد نمازِ فجرجنت البقیع میں مدفون ہوئے۔
ماخذومراجع: انوارعلمائے اہلسنت سندھ۔