ضیغم الاسلام مجاہد ملت حضرت علامہ مولانا عبد الستار خان نیازی
ضیغم الاسلام مجاہد ملت حضرت علامہ مولانا عبد الستار خان نیازی (تذکرہ / سوانح)
ضیغم الاسلام مجاہد ملت حضرت علامہ مولانا عبد الستار خان نیازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
ضیغمِ اسلام حضرت علامہ مولانا عبدالستار خان بن جناب ذوالفقار خان ذوالحجہ ۱۳۳۳ھ/ اکتوبر ۱۹۱۵ء میں بمقام اٹک پنیالہ، تحصیل عیسیٰ خیل، ضلع میانوالی پیدا ہوئے۔ آپ میانوالی کے مشہور نیازی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔[۱]
[۱۔ محمد صادق قصوری، مولانا: اکابرِ تحریکِ پاکستان ص۱۳۲]
خاندانی ماحول:
آپ نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی، جہاں ہر وقت دین کا چرچا رہتا تھا اور گھر کے تمام افراد تہجد گزار تھے اور اسی پاکیزہ ماحول کا نتیجہ ہے کہ تہجد گزاری علامہ نیازی کی عادتِ ثانیہ بن چکی ہے۔ آپ کے نا نا جان کو تاریخِ اسلام سے بڑی دلچسپی تھی، چنانچہ آپ نے ان کی تربیت میں صحابہ کرام کے مجاہدانہ کارناموں سے قلبی وابستگی پیدا کی۔ اسی تربیت کا اثر تھا کہ اسکول و کالج میں آپ ہمیشہ مستشرقین کی ایسی نگارشات پر سیخ پا ہوتے جن سے حضور علیہ السلام کی ذاتِ اقدس کے بارے میں اشارتاً یا کنائتاً بے ادبی کا پہلو نکلتا ہو۔[۱]
[۱۔ ماہنامہ ضیائے حرم، دسمبر ۱۹۷۴ء ص۸۵]
تعلیم و تربیت:
علامہ نیازی نے ۱۹۳۳ء میں عیسیٰ خیل (میانوالی) سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا۔ اسی سال آپ لاہور تشریف لاکر شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے جاری کردہ اشاعتِ اسلام کالج میں داخل ہوئے یہاں آپ نے قرآن، حدیث، فقہ، سیرت النبی ، تاریخ، مذاہب کے تقابلی مطالعہ، اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی تحریکوں پر مشتمل دو سالہ نصاب کی تکمیل کرکے شاعرِ مشرق سے سند حاصل کی۔ [۱]
[۱۔ ماہنامہ رضائے حبیب، گجرات، جنوری ۱۹۷۱ء ص۱۸]
۱۹۳۷ء میں آپ نے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ ۱۹۳۸ء میں بی اے پاس کیا اور ۱۹۴۰ء میں آپ ایم اے کرچکے تھے۔
تدریسی خدمات:
آٹھ سال تک آپ اسلامیہ کالج لاہور میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ اسی دوران ۱۹۴۳ء میں آپ کو انجمن نعمانیہ ہندو کا ڈپٹی سیکرٹری بنادیا گیا، جبکہ اس سے پہلے اقبال ڈے سوسائٹی کے سیکریٹری بنائے جا چکے تھے۔ ستمبر ۱۹۴۳ء میں آپ کو اسلامیہ کالج لاہور میں شعبۂ اسلامیات کا صدر مقرر کیا گیا اور پھر ۱۹۴۶ء میں جب کانگرس کی چیرہ دستیوں اور اسلامیانِ ہند کے حق خود ارادیت سے صریح انکار پر قائدِ اعظم نے ڈائرکٹ ایکشن کا فیصلہ کیا، تو آپ کالج کی مصروفیات چھوڑ کر تحریکِ پاکستان کے لیے ہمہ تن مصروف ہوگئے[۱]۔
[۱۔ محمد صادق قصوری، اکابرِ تحریکِ پاکستان ص۱۲۳، ۱۲۵، ۲۲۷]
اصلاحی خدمات:
۲۶/ ۱۹۳۵ء میں جب تقریباً تمام کاروبار ہندوؤں کے ہاتھ میں تھا اور سیاسی طور پر ہندو، متحدہ قومیت کا فتنہ برپا کر رہے تھے۔ مولانا نیازی نے ۱۹۳۶ء میں میانوالی میں ’’مجلس اصلاحِ قوم‘‘ کی بنیاد رکھی اور ملتِ اسلامیہ کی خدمت کے لیے شب و روز ایک کردیے۔ ہندوؤں کی سازش اور چالوں کو ناکام بنانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ تجارت میں مسلمانوں کو دخیل کیا اور انہیں جداگانہ ملی تشخص کا احساس دلایا۔ نیز اسلامی شریعت کے نفاذ کی خاطر عوام کو منظم کیا اور غریبوں کے لیے بیت المال قائم کیا۔
۱۹۳۸ء میں ایام تعطیلات کے دوران آپ ضلع میانوالی میں اصلاحی کاموں میں دوبارہ منہمک ہوگئے اور ’’انجمن اصلاحِ قوم‘‘ کی جنرل کونسل میں ایک مستقل قرارداد کے ذریعے انجمن کا نام تبدیل کرکے ’’انجمن اصلاح المسلمین‘‘ رکھا گیا۔
جب قیامِ پاکستان کی منزل قریب آ رہی تھی اور مسلم لیگ میں ابن الوقت قسم کے سیاست دان شامل ہو رہے تھے، تو کمیونسٹ بھی ایک سازش کے تحت اس میں شامل ہوگئے، چنانچہ مجاہدِ ملت علامہ عبدالستار خان نیازی نے اپنے احباب کے تعاون سے پنجاب کونسل کے اجلاس میں کمیونسٹوں کو لیگ سے نکلانے کی قرارداد پیش کی جو منظور کرلی گئی اور مسلم لیگ سے دانیال لطیفی، ڈاکٹر ذاکر مشہدی، شیر محمد بھٹی اور دیگر کمیونسٹوں کو نکال دیا گیا۔[۱]
[۱۔ محمد صادق قصوری، اکابر تحریکِ پاکستان ص۱۲۲، ۱۲۳، ۱۲۶]
مجاہدِ تحریکِ پاکستان:
آپ نے طالب علمی کے دور سے ہی تحریکِ پاکستان میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ جنوری ۱۹۳۷ء میں آپ نے میاں محمد شفیع (م۔ ش) حمید نظامی مرحوم، ڈاکٹر عبدالسلام خورشید، جسٹس انوار الحق اور ابراہیم علی چشتی کے تعاون سے پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی، جس کے پہلے صدر میاں محمد شفیع (م۔ ش) اور دوسرے صدر حمید نظامی مقرر ہوئے، جبکہ ۱۹۳۹ء میں تیسرے صدر علامہ نیازی منتخب ہوئے۔ آپ نے فیڈریشن کا دستور مرتب کرایا، جس کا عنوان قرآن پاک کی یہ آیت تھی: کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتومنون باللہ۔
ترجمہ: تم بہتر ہو سب امتوں میں، جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں، بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔[۱]
[۔ کنزالایمان از اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز۔ سورۃ آل عمران ع۱۲]
اس وقت مسلمانوں میں الگ مملکت کا احساس شدت اختیار کرچکا تھا اور مختلف[۱] حلقوں کی طرف سے ہندوستان کے آئینی مستقبل کے بارے میں تجاویز پیش کی جا رہی تھیں۔ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک وفد نے بھی ۱۹۳۹ء میں آپ کی زیر قیادت دہلی میں شہیدِ ملت لیاقت علی خان کی کوٹھی ’’گلِ رعنا‘‘ میں قائدِ اعظم، مادر ملت فاطمہ جناح، خان لیاقت علی خان اور مسلم لیگی آئینی کمیٹی کے ارکان کو تجاویز پیش کیں۔ اس وقت تک مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن، خلافتِ پاکستان کو اپنا نصب العین قرار دے چکی تھی۔[۲]
[۱۔ محمد صادق قصوری، اکابر تحریکِ پاکستان ص۱۲۳]
[۲۔ ماہنامہ رضائے حبیب، گجرات جنوری ۱۹۷۱ء ص۱۸]
قائدِ اعظم ان تجاویز کو دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا:
Your Scheme is very hot
مولانا نیازی نے جواب دیا:
Because it has come from a boiling heart
یعنی یہ اس لیے گرم ہے کہ یہ ابلتے ہوئے دلوں سے نکلا ہے۔
اس سے قائدِ اعظم بہت خوش ہوئے، اس کے بعد مختلف پہلوؤں پر تفصیلی بات چیت ہوئی اور بالآخر قائدِ اعظم نے اس تجویز کو مسلم لیگ کی متعلقہ کمیٹی کے سپر د کرنے کا وعدہ فرمایا اور اس کے بعض نکات کو تسلیم کیا۔[۱]
[۱۔ محمد صادق قصوری، اکابر تحریک پاکستان ص۱۲۵]
۲۳؍مارچ ۱۹۴۰ء کو حصولِ پاکستان، قوم کا نصب العین قرار پایا، تو آپ نے اپنے آپ کو اسی مقصد کے لیے وقف کرتے ہوئے ہر قریہ اور شہر میں پاکستان کا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔
مارچ ۱۹۴۱ء میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے قائدِ اعظم کی زیرِ صدارت پاکستان کانفرنس منعقد کی، تو اس اجلاس کی مرکزی قرارداد پیش کرنے والے علامہ نیازی ہی تھے۔ اسی اجلاس میں دیہی علاقوں میں تحریکِ پاکستان کو منظم کرنے کے لیے پاکستان رورل پروپیگنڈا کمیٹی تشکیل دی گئی، تو آپ اس کے سیکریٹری منتخب ہوئے۔ یہ انتخاب قائدِ اعظم کے ساتھ آپ کے براہِ راست تعلق اور خط و کتابت کے لیے مفید ثابت ہوا۔
۱۹۴۲ء میں آپ کو ضلع میانوالی مسلم لیگ کا صدر منتخب کیا گیا۔ پھر صوبائی کونسل اور آل انڈیا مسلم لیگ[۱] کے بھی رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۴۳ء میں آپ کو صوبائی مسلم لیگ کا پروپیگنڈا سیکریٹری بنادیا گیا۔ ۱۹۴۴ء میں پنجاب مسلم لیگ کی صوبائی کونسل نے آپ کی تجویز پر یہ قرارداد منظور کی:
’’پاکستان کا آئین شریعتِ اسلامیہ پر مبنی ہوگا‘‘۔[۲]
[۱۔ محمد صادق قصوری، اکابر تحریک پاکستان ص۱۲۵]
[۲۔ ماہنامہ رضائے حبیب گجرات، جنوری ۱۹۷۱ء ص۱۹]
۱۹۴۵ء میں علامہ نیازی نے میاں محمد شفیع کے ساتھ مل کر پاکستان کیا ہے؟ اور کیسے بنے گا کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں زندگی کے ہر مسئلہ پر نظریۂ خلافت کے نقطۂ نظر سے روشنی ڈالی گئی تھی۔[۱]
[۱۔ محمد صادق قصوری، اکابر تحریک پاکستان ص۱۲۲]
یہ دور تھا جب سر سکندر حیات، نواب شاہ نواز ممدوٹ اور بعض بڑے بڑے جاگیردار، مسلم لیگ کو عوامی جماعت بنانے کی راہ میں حائل تھے۔ انہی دنوں طلباء کی ایک کانفرنس ملک برکت علی کی صدارت میں ہوئی، جس میں اعلان کیا گیا کہ صرف سکندر حیات سے ہی نہیں، بلکہ ہر اس شخص سے جنگ کریں گے، جو پاکستان کے خلاف زبان کھولے گا۔ سر سکندر حیات نے اس اعلان سے گھبرا کر آپ کو عہدوں کا لالچ دیا، لیکن آپ رضا مند نہ ہوئے، پھر اس نے ایک لاکھ روپے کا تحفہ بھیجا، مگر آپ نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ جب تک سر سکندر حیات، قائدِ اعظم کے سامنے نہیں جھکتے، ہم صلح نہیں کرسکتے۔[۱]
[۱۔ ماہنامہ رضائے حبیب، گجرات، جنوری ۱۹۷۱ء، ص۱۹]
جولائی ۱۹۴۶ء میں آپ نے اپنے خاص شاگردوں سیّد محمد قاسم رضوی اور حکیم محمد آفتاب قرشی وغیرہ کی سر کردگی میں طلباء کے وفود صوبہ کے مختلف مقامات پر لوگوں کو تحریک کے مقاصد سے روشناس کرانے کے لیے بھیجے۔
اسی سال آپ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر میانوالی سے ایم ایل اے ایل مقرر ہوئے، لیکن لیگ کی واضح کامیابی کے باوجود فرنگی گورنر نے سرخضر حیات ٹوانہ سے سازباز کی اور اسے وزارت بنانے کی دعوت دے دی۔[۱]
[۱۔ محمد صادق قصوری، اکابر تحریکِ پاکستان، ص۱۲۶]
مولانا نیازی نے صوبہ سرحد اور پنجاب کا دورہ کرکے لوگوں کو منظم کیا۔ خضر حیات جہاں جاتا، آپ اس کا تعاقب کرتے، یہاں تک کہ میاں چنوں (ضلع ملتان) میں تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ خضر حیات نے تنگ آکر آپ کو لالچ دینا چاہا اور منہ مانگی مراد دینے کی پیش کش کی، تو آپ نے فرمایا: ’’میرے لیے دولتِ ایمان ہی کافی ہے‘‘۔
زمین دینا چاہی، تو فرمایا: ’’تم ایک ایکڑ زمین کی بات کرتے ہو، ہم چھ صوبوں کا پاکستان مانگتے ہیں۔‘‘ شریکِ اقتدار ہونے کا لالچ دیا، تو آپ نے فرمایا: ’’اسلام کی دی ہوئی عزت ہی کافی ہے‘‘۔[۱]
[۱۔ ماہنامہ فیضان لاہور، فروری ۱۹۷۸ء، ص۳۶]
اور بقول مولانا شبیر احمد ہاشمی ’’شہید گنج کی تحریک کے بچے کھچے مال سے بہت سے لوگ بہت کچھ بن گئے۔ ختمِ نبوت کی تحریک نے بہت سے لامکانوں کو جاگیروں کا مالک بنادیا ہے۔ بہت سے (بقول مرزا ادیب و احسان دانش) پیسہ اخبار کے ہوائی چپل چٹخانے اور گردن لہرانے والے قلاش یہاں ہوٹلوں اور پریسوں کے مالک بنے، لیکن مولانا نیازی کا یہ عالم ہے کہ
قلندر جز دو حرف لا الہ کچھ بھی نہیں رکھتا
انہوں نے اپنی خاندانی جائداد کو نظامِ مصطفےٰ کے لیے قربان کیا ہے، لیکن ضمیر کا سودا نہیں کیا ہے۔‘‘[۱]
[۱۔ ماہنامہ فیضان لاہور، فروری ۱۹۷۸ء، ص۳۶]
نظامِ مصطفےٰ کے لیے مساعی کا آغاز:
۱۹۵۱ء میں علامہ نیازی دوسری بار صوبائی اسمبلی کے عمومی انتخاب میں میانوالی سے ہی ایم ایل اے منتخب ہوئے اور اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھ کر اسمبلی میں پردہ بل پیش کیا۔ حرمتِ سود، مسئلہ کشمیر اور زراعت وغیرہ ملی مسائل پر تقاریر کیں۔ ہر قسم کے مصائب و آلام کی پرواہ کیے بغیر اسلام کا جھنڈا بلند رکھا۔ اسمبلی کے باہر حضرت محدث علی پوری اور پیر صاحب مانکی شریف رحمہما اللہ کے ساتھ مل کر نظامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کے لیے ملک گیر دورے کیے۔
تحریک ختم نبوت:
اپنے مسودہ آئین میں علامہ نیازی نے قومیت کی اساس عقیدۂ ختم نبنوت پر رکھی تھی اور غیر مسلموں کے لیے ذیلی ایوان تجویز کیا تھا، گویا آپ کا مسودہ آئین بی پی سی رپورٹ پر زبردست تنقید تھی اور یہی تنقید بالآخر تحریک تحفظ ختم نبوت کی اساس بنی۔
برکت علی اسلامیہ ہال لاہور میں آل مسلم پارٹیز کنونشن منعقد ہوا۔ اس کنونشن نے کراچی کے مرکزی کنونشن کے لیے مندوبین منتخب کیے۔ ۲۰، ۲۱؍جنوری ۱۹۵۳ء کو کراچی میں مرکزی کنونشن منعقد ہوا، جس میں یہ مطالبات مرتب کیے گئے:
۱۔ وزیرِ خارجہ سرظفراللہ کو برخاست کیا جائے۔
۲۔ قادیانیوں کو کافر اقلیت قرار دی جائے۔
۳۔ قادیانیوں کو کلیدی اسامیوں سے الگ کیا جائے۔
تحریکِ ختمِ نبوت میں آپ نے مثالی کردار ادا کیا۔ آپ کو اس تحریک میں خصوصیت حاصل تھی، وہ یہ کہ آپ اسمبلی کے ممبر تھے نیز تحریکِ پاکستان میں کام کرنے کی وجہ سے مسلم لیگی کارکنوں سے آپ کے گہرے تعلقات تھے۔
مجلسِ عمل تحفظ ختمِ نبوت نے کراچی میں کنونشن کیا تو اس کے تیرہ نمائندوں میں آپ کا نام بھی تھا لیکن آپ کو اس میں شامل نہ کیا گیا، کیونکہ انہیں آپ کی تیزیٔ طبع کی وجہ سے خطرہ تھا کہ وقت سے پہلے تصادم نہ ہوجائے۔
جب تحریکِ تیز ہوئی اور مجلسِ عمل کے نمائندے خواجہ نظام الدین سے کراچی میں ملاقات کرنے گئے تو مورخہ ۲۵؍فروری ۱۹۵۳ء کو انہیں گرفتار کرلیا گیا۔
دولتانہ نے ایک سازش کے تحت کہا کہ میں تمہاری تحریک سے متفق ہوں اور تمہارا مطالبہ آئینی ہے، لہٰذا مرکز سے رجوع کرو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قائدین جن میں علامہ ابوالحسنات محمد احمد قادری صدر مجلسِ مولانا عبدالحامد بدایونی اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری شامل تھے، گرفتار ہوگئے۔ حکومت نے رضا کاروں کا منزلِ مقصود (کراچی) تک نہ پہنچے دیا اور ہر طرف سے رکاوٹیں کھڑی کردیں، تو علامہ نیازی نے فرمایا کہ لاہورسے ۷۵۰ میل دور کراچی میں جاکر اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس سے تحریک کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔ میاں دولتانہ غلط کہتا ہے کہ وہ اس تحریک سے متفق ہے۔ اگر ایسا ہے تو وہ صوبائی اسمبلی میں جاکر قرارداد پاس کرے‘‘۔
لہٰذا کراچی والے کراچی میں، پنجاب والے پنجاب میں اور سرحد والے، سرحد میں کام کریں۔ا س طرح یہ تحریک ملک گیر صورت اختیار کرے گی اور صوبے مجبور ہوکر مرکز پر دباؤ ڈالیں گے۔ آپ نے مرکزی قیادت سے رابطہ پیدا کرکے ایک جامع پروگرام کے تحت لاہور کو مرکز بنایا اور یہیں سے گرفتاریاں دینا شروع کیں۔
۳؍مارچ ۱۹۵۳ء کو آپ نے اپنا مرکزی دفتر مسجد وزیر خان میں قائم کیا۔ آپ کی کوشش یہ تھی اور آپ نے لوگوں کو بھی یہی ہدایت دی کہ مثبت نعرے لگائیں اور تصادم سے گریز کریں، جبکہ حکومت تصادم چاہتی تھی۔ حکومت نے گڑبڑ پیدا کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہوسکی۔ تحریک میں شریک ہونے والا ہر شخص ناموسِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کی نیت سے آتا تھا۔
۴؍مارچ کی صبح کو آپ نے سو سو کی تین جماعتیں، مسجدوزیر خان میں ترتیب دیں۔ ان میں سے ایک جتھے کو ضلع کچہری، ایک کو سیکرٹریٹ اور ایک کو گورنر ہاؤس جانا تھا۔ آپ نے ان کو ہدایت کی تھی کہ پر امن رہیں اور پولیس سے متصادم نہ ہوں۔ اگر پولیس والے راستے میں حائل ہوں، تو راستہ بدل لیں، مگر گورنر ہاؤس جانے والے جتھے کو پولیس نے چوک وال گراں میں روک لیا۔ رضاکاروں نے راستہ بدلنے کی بجائے زمین پر لیٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ پولیس نے بے تحاشا لاٹھیاں برسائیں۔ فردوس علی شاہ ڈی ایس پی نے ایک نوجوان کو ٹھوکر ماری، تو اس کے گلے میں لٹکی ہوئی حمائل شریف دور جاگری، نوجوان تڑپ کر حمائل شریف اٹھانے کو اٹھا تو ظالم ڈی ایس پی نے پورے زور سے ڈنڈے برسائے۔ اس جتھے سے کچھ لوگ گرفتار ہوئے اور کچھ واپس لوٹ آئے، جبکہ دوسرے دونوں جلوس بخیریت منزلِ مقصود تک پہنچے۔
ان دنوں لاہور میں روزانہ دو جلسے ہوا کرتے تھے۔ ایک جلسہ نمازِ عصر سے پہلے دہلی دروازہ سے باہر اور دوسرا بعد نماز عشاء مسجد وزیر خان میں۔ مولانا نیازی دونوں جلسوں سے خطاب کرتے تھے۔ ڈی ایس پی فردوس علی شاہ آپ کو گرفتار کرنے کے لیے آیا، تو رضاکاروں نے اسے دروازے پر روک لیا اور ساتھ ہی ڈی ایس پی کو ایک رضا کار نے چھرا گھونپ کر قتل کردیا۔
اس واقعے کے بعد پولیس نے مجاہدین پر بے تحاشہ تشدد کیا اور بے حد فائرنگ کی۔ قادیانی بھی فوج اور پولیس کی وردی میں باہر سے آکر فائرنگ میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر مسلمان کارکنوں نے بے پناہ قربانیاں پیش کیں۔ دہلی دروازہ کے باہر چار نوجوانوں کی ڈیوٹی تھی۔ پولیس نے ایک ایک کرکے چاروں کو گولی کا نشانہ بنایا۔ ایک جلوس مال روڈ سے آر ہا تھا اس کے نعرے صرف لا الہ الا اللہ، نعرۂ تکبیر اور نعرۂ رسالت تھے۔ وہاں زبردست فائرنگ ہوئی، لیکن نوجوان سینہ کھول کھول کر سامنے آتے رہے اور جامِ شہادت نوش کرتے رہے۔[۱]
[۱۔ ماہنامہ ضیائے حرم لاہور، ختمِ نبوت نمبر ص۹۰]
مارشل لاء:
۶؍مارچ کو حکومت نے شرارت کے لیے ایک پوسٹر نکالا جس میں یہ اعلان کیا کہ آج مولانا عبدالستار خان نیازی نمازِ جمعہ شاہی مسجد میں پڑھائیں گے۔ ان کا مقصد مجاہدین کی قوت کو تقسیم کرنا تھا، لیکن آپ نے ایک جیپ کے ذریعے شہر میں اعلان کردیا اور پوسٹر کی تردید کی، اس کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا۔
اسی روز نمازِ جمعہ کے وقت خلیفہ شجاع الدین (اسپیکر صوبائی اسمبلی) بیگم سلمیٰ تصدق حسین اور بعض دوسرے اکابر شہر کا ایک وفد گورنر پنجاب مسٹر چند ریگر کا پیغام لایا کہ صوبائی حکومت تحریک کے مطالبات سے اتفاق کرتی ہے اور اس سلسلے میں ایک وزیر اور ایک اعلیٰ افسر کو مرکزی حکومت سے بات چیت کرنے کے لیے کراچی بھیج دیا ہے۔ نیز صوبائی حکومت قائدین تحریک سے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔ آپ نے وعدہ کیا کہ تحریک پر امن رہے گی، لیکن آپ کو بھی ہماری تحریک ختم کرنے کی کوششیں بند کرنا ہوں گی۔[۱]
[۱۔ محمد صادق قصوری، اکابر تحریک پاکستان، ص۱۳۲]
آپ نے ان تجاویز پر مشورہ کیا اور منظوری کا فیصلہ دیا، مگر ملحدوں اور بے دینوں کا مقصد علماء کو کچلنا تھا، اس لیے ادھر بات ہوئی اور ادھر وفد کے واپس لوٹتے ہی ایک سازش کے تحت مارشل لاء لگادیا گیا۔
اسی روز آپ نے مسجد وزیر خان میں تاریخی تقریر فرمائی۔ ختمِ نبوت کا مذہبی اور سیاسی پس منظر بیان فرمایا اور مسجد وزیر خان کو نہ فتح ہونے والا قلعہ قرار دیا۔ ۹؍تاریخ کو اسمبلی کا سیشن شروع ہو رہا تھا۔ آپ اس کی تیاری میں مصروف ہوگئے لیکن ۹؍ تاریخ کو آپ کے بہت سے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا اور آپ کے خلاف بھی مقدمۂ قتل درج کرلیا گیا۔ پروگرام کے مطابق آپ نے کسی طرح اجلاس شروع ہونے پر اسمبلی میں ہونا تھا، لیکن اسمبلی سیشن پہلے ۱۶؍مارچ اور پھر ۲۲ مارچ تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔
آپ ایک بار پھر رہڑھے میں بیٹھ کر مسلح نوجوانوں کی حفاظت میں لاہور سے باہر تشریف لے گئے اور موضع شاہ پور سے بس کے ذریعے اوکاڑہ اور پھر پاکپتن پہنچے۔ ملٹری آپ کی تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مار رہی تھی آپ پاکپتن سے سیدھے قصور پہنچے۔
گرفتاری اور پھانسی:
آپ کا پروگرام تھا کہ قصور سے بس کے ذریعے اسمبلی گیٹ تک پہنچ جائیں اور اسمبلی میں تقریر کرکے ممبرانِ اسمبلی کو تحریک کے بارے میں مکمل تفصیلات سے آگاہ کردیں، لیکن قصور میں آپ جن لوگوں کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے، انہوں نے غداری کرتے ہوئے ملٹری کو بتادیا۔ آپ صبح کی نماز کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ اپنے ایک کارکن مولوی محمد بشیر مجاہد کے ہمراہ گرفتار کرلیے گئے۔
قصور سے گرفتار کرکے آپ کو لاہور شاہی قلعہ لایا گیا، جہاں سے بیانات لینے کے بعد ۱۶؍اپریل کو آپ جیل منتقل کردیے گئے اور آپ کو چارج شیٹ دے دی گئی۔ ملٹری کورٹ میں کیس چلا، جو ۱۷؍اپریل کو شروع ہوا اور مئی تک چلتا رہا۔
۷؍مئی کی صبح کو سپیشل ملٹری کورٹ کا ایک آفیسر اور ایک کیپٹن آپ کو بلاکر ایک کمرے میں لے گئے جہاں قتل کے نوادر ملزم بھی تھے، مگر ڈی ایس پی فردوس شاہ کے قتل کا کیس ثابت نہ ہوسکا او رآپ کو بَری کردیا گیا۔
دوسرا کیس بغاوت کا تھا جس میں آپ کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا جو اس طرح تھا:
You will be hanged by neck till you are dead
’’تمہاری گردن پھانسی کے پھندے میں اس وقت تک لٹکائی جائے گی، جب تک تمہاری موت نہ واقع ہوجائے‘‘۔
اس کے جواب میں مولانا نے فرمایا:
Is that all? I was prepared to take more than that. If I would have got one hundred thousand lives, I would have laid down those lives for the cause of Holy Prophet Mohammad may the peace Glory of God be upon him.
یہی کچھ سزا لائے ہو، اگر میرے پاس ایک لاکھ جانیں ہوتیں، تو میں ان سب کو محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر قربان کردیتا۔
آرڈر سناتے ہوئے افسر نے کہا:
افسر: Please Sign it
’’اس پر دستخط کیجیے۔‘‘
علامہ نیازی: I will sign it when I kiss the Rop
’’میں جب پھانسی کے پھندے کو بوسہ دوں گا، اس وقت اس پر دستخط کروں گا۔‘‘
افسر: No you will have sign it
’’تمہیں اس پر دستخط کرنے ہوں گے۔‘‘
علامہ نیازی:
I have already told you that I will sign it when I kiss the rop. I am in your clutches and am behind the bars-take me to the gallows and hang me.
’’میں تمہیں پہلے ہی بتاچکا ہوں کہ جس وقت پھانسی کے پھندے کو بوسہ دوں گا، اس وقت دستخط کروں گا، میں جیل میں ہوں اور آپ کے پنجوں میں ہوں، مجھے لے جاؤ اور پھانسی دے دو۔‘‘
افسر:
Mr. Niazi! Our Officers will enquire from us whether you were serve with the notice of your death warrants.
’’مسٹر نیازی! ہمارے آفیسر ہم سے پوچھیں گے کہ تم نے نوٹس دے دیا ہے یا نہیں، تو میں کیا جواب دوں گا۔‘‘
مولانا نیازی:
If you so fear from your Officers, well sign it for you
’’اگر آپ کو اپنے افسران ہی کا خوف ہے تو میں آپ کی خاطر اس پر دستخط کیے دیتا ہوں۔‘‘
چنانچہ آپ نے بڑے اطمینان سے اس پر دستخط کردیے۔ افسر نے آپ کی ہمت کے بارے میں پوچھا: What about your morale
آپ نے فرمایا:
My morale is up and that has gone up to the heavens but you cannot have the Estimate of that.
تم میری ہمت (Morale) کے بارے میں پوچھتے ہو، تو وہ تو آسمانوں سے بھی بلند ہے، تم اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جب پھانسی کا حکم سنایا گیا، تو معاً آپ کی زبان پر سورۂ ملک کی یہ آیت آگئی:
’’خلق السموت والحیوٰۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا۔‘‘
آپ نے اس آیت سے یہ تاثر لیا کہ موت و حیات کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے یہ لوگ میری زندگی کا سلسلہ منقطع نہیں کرسکتے۔ اگر اس مقصد کے لیے جان بھی جائے، تو اس سے بڑی زندگی کیا ہوسکتی ہے۔ اس آیت نے آپ کا حوصلہ بڑھادیا۔
ایک لمحہ کے لیے آپ پر خوفِ مرگ کا حملہ ہوا، لیکن فوراً زبان پر یہ شعر آگیا ؎
کشتگانِ خنجرِ تسلیم را!
ہر زماں از غیب جانِ دیگر است
آپ وجد کی حالت میں یہ شعر بار بار پڑھتے اور جھومتے۔ اسی عالم میں آپ کمرے سے باہر آگئے تو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل مہر محمد حیات نے یہ خیال کیا کہ ملٹری کورٹ نے آپ کو بری کردیا ہے؛ چنانچہ اس نے کہا نیازی صاحب! ’’مبارک ہو، آپ بری ہوگئے!‘‘
آپ نے فرمایا: میں اس سے بھی آگے نکل گیا ہوں، اس نے کہا کیا مطلب؟
آپ نے فرمایا: اب ان شاء اللہ! حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں اور عاشقوں کی فہرست میں میرا نام بھی شامل ہوگا۔ وہ پھر بھی نہ سمجھا، تو آپ نے فرمایا میں کامیاب ہوگیا فزت برب کعبۃ مجھے شہادت کی موت نصیب ہوگی۔
آپ کی سزائے موت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔ ادھر جیل میں قیدی تک آپ کو دیکھ کر روتے تھے جب آپ کو پھانسی کی کوٹھڑی میں لے جایا گیا تو آپ نے لوگوں کو اطمینان دلایا اور فرمایا کہ کتنے عاشقانِ رسول جام شہادت نوش کر رہے ہیں، اگر میں بھی اس نیک مقصد کے لیے جان دے دوں، تو میری یہ خوش قسمتی ہوگی۔
حضرت مولانا نیازی سات دن اور آٹھ راتیں پھانسی کی کوٹھری میں رہے اور ۱۴؍مئی کو آپ کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی گئی اور پھر مئی ۱۹۵۵ء کو آپ کو باعزت طور پر بَری کردیا گیا۔
۱۹۷۴ء میں جب دوبارہ مسلمانانِ پاکستان نے تحفظ ختم نبوت کے لیے تحریک چلائی، تو آپ ایک بار پھر سر بکف ہوکر میدانِ عمل میں اترے۔ اپوزیشن کی تمام دینی و سیاسی جماعتوں پر مشتمل آل پاکستان مجلسِ عمل تحفظ ختم نبوت کی تشکیل ہوئی اور آپ کو مرکزی نائب صدر منتخب کیا گیا۔ آپ نے ملک گیر دورے فرماکر قادیانی مکر و فریب کے جال کو تار تار کیا اور مسلمانوں کے دلوں میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع روشن کی۔ اس سلسلہ میں آپ کو جن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اخبارات کی فائلین ان کی شاہد ہیں۔ آپ نے اپنی بیماری ، بڑھاپے اور حکومت کی ستم رانیوں کی پرواہ نہ کی۔ یکم ستمبر ۱۹۷۴ء کو بادشاہی مسجد لاہور میں مجلسِ عمل کے زیرِ اہتمام تاریخی جلسے سے خطاب کیا اور بالآخر آپ کی کوششیں رنگ لائیں اور ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی نے مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔[۱]
[۱۔ محمد صادق قصوری، اکابر تحریک پاکستان ص۱۳۸]
جمعیت علماء پاکستان سے وابستگی:
۱۹۷۰ء میں جب یحییٰ خان کی مار شل لاء نے انتخابات کرائے، تو جمعیت علماء پاکستان نے بے سرو سامانی کے عالم میں حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالوی مدظلہ کی زیر قیادت الیکشن میں حصہ لیا۔ مولانا نیازی بھی جمعیت کے ٹکٹ پر میانوالی سے قومی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے میدان میں آئے، لیکن سازشی عناصر کی سازشوں کی وجہ سے معمولی ووٹوں کی کمی سے کامیاب نہ ہوسکے۔
مارچ ۱۹۷۲ء میں آپ جمعیت علماء پاکستان پنجاب کے کنویز منتخب ہوئے۔ کنویز بننے کے بعد آپ نے پنجاب کا طوفانی دورہ کیا اور ہر قصبہ و شہر میں جاکر جمعیت کی شاخیں قائم کیں۔
ستمبر ۱۹۷۲ء میں ملتان میں جمعیت کا صوبائی کنونشن منعقد ہوا جس میں آپ کو متفقہ طور پر صوبہ پنجاب کا صدر بنادیا گیا۔
۲۶، ۲۷مئی ۱۹۷۳ء کو خانیوال میں جمعیت کا کل پاکستان کنونشن منعقد ہوا جس میں صوبائی مجالسِ شوریٰ، صوبائی مجلسِ منتظمہ، مرکزی مجلسِ شوریٰ اور مرکزی مجلسِ عاملہ کے علاوہ خصوصی دعوت پر مندوبین بھی شامل ہوئے جن کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے متجاوز تھی۔ اس کنونشن میں مولانا شاہ احمد نورانی کو صدر اور مولانا عبدالستار خان نیازی کو ناظمِ اعلیٰ (جنرل سیکرٹری) منتخب کیا۔
۲۴، ۲۵؍مئی ۱۹۷۵ء کو ملتان میں جمعیت کا ملک گیر کنونشن منعقد ہوا جس میں حضرت قائدِ اہل سنّت علامہ شاہ احمد نورانی کو دوبارہ بلامقابلہ صدر منتخب کیا گیا اور آپ کو جنرل سیکرٹری چنا گیا۔ حضرت مولانا نیازی جمعیت کے اسٹیج سے قائدِ اہلِ سنّت علامہ شاہ احمد نورانی کی رفاقت میں نظامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ اور مقامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کی خاطر باوجود پیرانہ سالی کے شب و روز مصروفِ عمل ہیں۔
حضرت قائدِ اہلِ سنّت اور مجاہدِ ملت علامہ نیازی کی بے داغ اور بے لوث قیادت ملت اسلامیہ کے لیے بالعموم اور اہل سنت و جماعت کے لیے بالخصوص سرمایۂ افتخار و امتنان ہے۔
تبلیغی دورہ:
۲۰؍دسمبر کو ورلڈ اسلامک مشن کی دعوت پر جمعیتِ علماء پاکستان کا ایک وفد حضرت مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت میں عالمی دورہ پر روانہ ہوا جس میں حضرت مولانا عبدالستار خان نیازی اور قائدِ حزب اختلاف سابق سندھ اسمبلی پروفیسر شاہ فریدالحق شامل تھے۔ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد اس وفد نے کینیا، مشرقی افریقہ، ماریشس، آئرلینڈ، انگلستان، جنوبی امریکہ کی ریاستیں، ریاست ہائے متحدہ امریکہ، ہالینڈ اور دیگر بہت سے ممالک کا دورہ کیا اور قادیانیوں کے بے شمار مراکز بند ہوگئے۔ اس دورے کا کل سفر تقریباً ایک لاکھ میل بنتا ہے اور اس دورے میں چھ سو سے زائد اجتماعات سے خطاب کیا گیا۔ کئی ممالک کے ریڈیو اور ٹی وی سے بھی خطاب کا موقع فراہم ہوا۔ اس کے بعد عمرہ کرکے ۱۳؍اپریل ۱۹۷۵ء کو یہ وفد واپس پاکستان پہنچ گیا۔[۱]
[۱۔ محمد صادق قصوری، اکابر تحریک پاکستان، ص۱۳۴، ۱۳۵، ۱۳۸، ۱۳۹]
قید و بند اور مقدمات:
مجاہدِ ملت مولانا عبدالستار خان نیازی کی ساری زندگی مقامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ اور نظامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ کی خاطر جدوجہد میں گزری اور اس عظیم مشن کے حصول کی خاطر آپ نے ہر طرح کی تکالیف و مصائب کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔
ایوبی آمریت کے دور میں جب بڑے بڑے جفادری سیاست دان اور جمہوریت کے نام پر بلند بانگ دعوے کرنے والے قائدین خاموشی اختیار کرچکے تھے، تو مولانا نیازی نے مردانہ وار مقابلہ کیا۔
۱۹۶۲ء کے مایوس کن حالات ہوں یا ۱۹۶۴ء کے انتخابات کے موقع پر ظلم و ستم کے بل بوتے پر جمہوریت کی مٹی پلید کی گئی ہو، آپ نے ہر سال میں حق و صداقت اور جمہوریت کی شمع روشن کی۔ اعلانِ تاشقند کے بعد مولانا نے ایوبی آمریت کے خلاف بڑے پیمانے پر تحریک چلائی اور آمریت کے بت کو پاش پاش کیا۔ آپ نے ہمیشہ جرأت و ہمت کا ثبوت دیا اور کبھی جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے سے گریز نہیں کیا۔[۱]
[۱۔ محمد صادق قصوری، اکابرِ تحریک پاکستان ، ص۱۳۹]
چنانچہ اس جرأت اور پامردی کی پاداش میں آپ کی زندگی کا اکثر حصہ یا تو جیلوں میں گزرا، یا عدالتوں کے چکر کاٹنے میں صرف ہوا۔ آپ کی گرفتاریوں اور مقدمات کی تفصیل یہ ہے:
۱۹۴۵ء میں جب مولانا نیازی مسلم لیگ ضلع میانوالی کے صدر، صوبائی مسلم لیگ کے سیکرٹری، انجمن نعمانیہ کے سیکرٹری، سیکرٹری انجمن اسلامیہ پنجاب اور شعبۂ علومِ اسلامیہ اسلامیہ کالج لاہور کے صدر تھے۔ میانوالی میں مولانا کے سیاسی حریفوں نے آپ کی دن بدن مقبولیت سے خائف ہوکر ایک سازش کے تحت آپ کو گرفتار کرادیا۔ وہ آپ کو سیاسی طور پر بلیک میل کرنا چاہتے تھے۔ اس گرفتاری کا پس منظر یہ تھا کہ آپ چچا زاد اور پھوپھی زاد بھائیوں کے درمیان متنازعہ اراضی کے جھگڑے میں ثالث مقرر ہوئے۔جب آپ ان دونوں کو لے کر مصالحت کی بابت مشترکہ بیان لکھوانے عیسیٰ خیل تھانے میں آئے، تو وہاں کے نوابوں اور امراء کے پالتو تھانیدار نے فریقین کے ساتھ آپ کو بھی گرفتار کرلیا۔ اتفاقاً دوسرے دن مجسٹریٹ کے عیسیٰ خیل آنے پر آپ کو ضمانت پر رہا کردیا گیا اور فریقین میں صلح ہوگئی۔
۲۵؍جنوری ۱۹۴۷ء کو خضرِ وزارت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوئی تو آپ نے اپنے شاگردوں کو ہدایت دے کر پورے صوبے میں پھیلا دیا اور تحریک میں پانچ پانچ آدمیوں کے ذریعے دفعہ ۱۴۴ کو توڑا جاتا تھا، لیکن آپ نے جلوسوں کا پروگرام بنایا، چنانچہ ۲۷؍جنوری ۱۹۷۴ء کو آپ بحیثیت صوبائی صدر پنجاب مسلم لیگ و ڈکٹیٹر سول نافرمانی گرفتار کرلیا گیا، جبکہ نواب ممدوٹ شیخ صادق حسین اور میاں عبدالباری اس سے پہلے گرفتار ہوچکے تھے۔ فروری کے آخر میں تمام مطالبات منظور کیے گئے اور آپ کو رہا کردیا گیا۔
۱۹۵۲ء میں چک نمبر ۲۳۲ تھانہ موچی والا ضلع جھنگ میں پولیس نے بے گناہ مسلمانوں پر تشدد کیا اور عورتوں کی بے حرمتی کی تو مولانا نیازی نے اس پر احتجاج کیا۔ نیلا گنبد کی جامع مسجد میں منعقدہ احتجاجی جلسہ میں آپ کی تقریر پر دولتانہ وزارت نے توہینِ عدالت کا کیس بنایا، لیکن جسٹس شبیر احمد نے یہ ریمارکس دے کر کیس خارج کردیا کہ وزیرِ اعلیٰ ممتاز محمد خان دولتانہ اور آئی جی پولیس قربان علی خان پر تنقید، توہین عدالت نہیں۔ا گر ان کی توہین ہوئی ہے تو وہ علیحدہ ہتک عزت کا دعویٰ کرسکتے ہیں، توہینِ عدالت کی آڑ نہیں لے سکتے۔
۲۳؍مارچ ۱۹۵۳ء کو تحریک ختم نبوت کے موقع پر بغاوت کے الزام میں آپ کو گرفتار کیا گیا۔ مقدمہ چلا سزائے موت ہوئی اور پھانسی کی کوٹھری میں لےجائے گئے، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ جلیلہ سے فیصلہ عمر قید میں بدلا اور پھر مئی ۱۹۵۵ء کو آپ باعزت طور پر بری کردیے گئے۔
۸؍جولائی ۱۹۵۵ء کو مسلح بغاوت، نظم و نسق میں خلل ڈالنے اور داخلی طور پر اضطراب پیدا کرنے کے الزام میں بنگال ریگولیشن کے تحت آپ کو پیپلز ہاؤس لاہور سے گرفتار کرکے سنٹرل جیل ساہیوال میں شاہی قیدی کی حیثیت سے رکھا گیا اور اے کلاس دی گئی۔ جسٹس ذکی الدین پال اور میاں محمود علی قصوری نے آپ کے مقدمہ کی پیروی کی اور ۲۶؍جولائی ۱۹۵۵ء کو جسٹس ایم آر کیانی نے آپ کی گرفتاری کو خلافِ قانون قرار دیا اور آپ رہا کردیے گئے۔
اسی دوران ساہیوال سنٹرل جیل میں آپ کو ایئر کنڈیشن کی پیشکش کی گئ، لیکن آپ نے فرمایا: اگر سکندر مرزا اپنی جیب خاص سے کرتا ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ میں قومی خزانے پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا۔
۱۹۵۶ء میں شیعہ سنی کھچاؤ پیدا ہوا۔ اس وقت ڈاکٹر خان وزیرِ اعلیٰ تھے۔ آپ کی تقریر پر پابندی لگائی گئی اور ملتان میں کیس بنایا گیا، لیکن آپ نے ضمانت کروالی اور بعد میں کیس واپس ہوگیا۔
۱۹۵۹ء میں جب مارشل لاء کا دور تھا، آپ نے لاہور میں میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیس جلسوں سے خطاب کیا اور جلوسوں کی قیادت کی، بلکہ چھاؤنی لاہور میں میلاد شریف کے جلوس میں فوج بھی شریک ہوتی۔
اس موقع پر سی آئی ڈی کی غلط رپورٹ پر آپ کے خلاف مقدمۂ بغاوت قائم کیا گیا۔ آپ کو گرفتار کرکے بوسٹل جیل میں رکھا گیا، جہاں پہلے سی کلاس اور پھر اے کلاس دی گئی۔ اسی دوران آپ علیل ہوگئے اور میوہسپتال کے البرٹ وکٹر میں منتقل کردیے گئے۔ میوہسپتال اور جی پی او کے درمیان عدالت لگائی گئی۔ آپ نے سو صفحات پر مشتمل بیان انکوائری کمیشن کو لکھوایا اور ۱۴؍جنوری ۱۹۶۰ء کو ملٹری کورٹ نے آپ کو بری کردیا۔
۱۹۶۳ء میں نیشنل ڈیموکرٹیک فرنٹ (قومی جمہوری محاذ) کے نام سے ایک جماعت کی تشکیل کی خاطر چند سیاسی راہنما کراچی میں جمع ہوئے۔ حکومت نے ان پر بغاوت کا مقدمہ قائم کرکے گرفتار کرلیا، ان راہنماؤں میں مولانا نیازی کے علاوہ میاں محمود علی قصوری، میاں طفیل محمد، نوابزادہ نصراللہ خان، خواجہ محمد رفیق شہید، عطاء اللہ مینگل وغیرہم شامل تھے۔ آپ کو ملتان ڈسٹرکٹ جیل، سنٹرل جیل ملتان اور بوسٹل جیل میں رکھا گیا اور پھر ضمانت پر رہائی ہوئی۔ تین سال تک مقدمہ چلتا رہا۔ یہاں تک کہ سپیشل مجسٹریٹ مقرر کیا گیا اور ہائی کورٹ تک مقدمہ پہنچا۔
۱۶؍نومبر ۱۹۶۳ء کو یونیورسٹی آر ڈی ننس کے تحت آپ کو ساہیوال سٹیشن سے گرفتار کیا گیا اور مسلسل پچپن (۵۵) گھنٹے آپ کو جگایا گیا اور تشدد کیا گیا۔ تین چار دن بعد رہائی عمل میں آئی اور ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد مقدمہ واپس لے لیا گیا۔
۱۹۶۸ء میں مجاہدِ ملت مولانا عبدالستار خان نیازی گرمیاں گزارنے ایبٹ آباد گئے جہاں آپ نے ایک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے حق گوئی کا مظاہرہ کیا، جس پر ڈپٹی کشمنر ضلع ہزارہ (اب ڈویژن) کے حکم سے ۹؍جولائی ۱۹۶۸ء کو گرفتار کرکے ڈسٹرکٹ جیل ایبٹ آباد میں نظر بند کردیا گیا، پھر ایک مہینہ پشاور میں نظر بند رہے۔ جناب ذکی الدین پال، میاں محمود علی قصوری اور ارباب سکندر خان خلیل نے آپ کی وکالت کے فرائض سر انجام دیے۔
بنگلہ دیش نامنظور تحریک کی پہلی گرفتاری کا شرف مولانا نیازی کو حاصل ہوا، رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ۵؍نومبر ۱۹۷۲ء کو سحری کے وقت آپ کو گرفتار کیا گیا۔ ملتان سول لائن، تھانہ خانیوال اور وہاڑی میں رکھا گیا۔ عیدالفطر کی نماز آپ نے وہاڑی جیل میں پڑھائی اور آپ پر تقریباً ساٹھ کیس بنائے گئے، لیکن جسٹس مولوی مشتاق حسین نے تمام مقدمات کی ضمانت منظور کرلی، بلکہ یہ لکھا کہ مولانا کی گرفتاری سے پہلے عدالت کو بتایا جائے۔[۱]
[۱۔ حضرت مجاہد ملت مدظلہ سے راقم کی ملاقات، مورخہ ۳۱؍مارچ ۱۹۷۸ء]
آپ کی اس گرفتاری پر روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی ۱۲؍نومبر ۱۹۷۲ء کی اشاعت میں رقمطراز ہے:
’’مولانا عبدالستار خان نیازی بنگلہ دیش تسلیم کرنے کے مخالف تھے۔ جمعیت کے پارلیمانی رہنما مولانا شاہ احمد نورانی نے جیسے ہی یہ اعلان کیا کہ جمعیت بنگلہ دیش کی منظوری کے خلاف مہم چلائے گی۔ حکومت نے مولانا عبدالستار خان نیازی کو گرفتار کرلیا تاکہ مہم نہ چل سکے۔
’’ہم مولانا عبدالستار خان نیازی کی رہائی کا مطالبہ نہیں کرتے، بلکہ ہم مولانا نیازی اور جمعیت کو مبارک بار دیتے ہیں کہ ’’بنگلہ دیش نامنظور تحریک‘‘ کی پہلی گرفتاری کا شرف انہیں حاصل ہوا۔
اہلِ وطن یاد رکھیے، مولانا عبدالستار خان پاکستان کے دیوانے اور جانثار ہیں۔‘‘[۱]
[۱۔ محمد صادق قصوری، اکابر تحریک پاکستان، ص۱۳۴]
’’مولانا عبدالستار خان نیازی نے اس صدی کی چوتھی دھائی میں سیاست میں قدم رکھنا۔الحمدللہ! کہ ربع صدی گزرنے کے بعد بھی ان کے پائے ثبات میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ اگر وہ دنیادار انسان ہوتے، اگر ان کا ایمان بکاؤ مال ہوتا، تو وہ جب چاہتے وزارت کی گدی پر متمکن ہوسکتے تھے۔ انہوں نے اپنے لیے سنگلاخ راستہ اختیار کیا۔ وہ ایک ایسے مردِ مجاہد ہیں جن کی راتوں کا بیشتر حصہ نوافل گزاری میں گزرتا ہے۔ گزشتہ ہفتے کی رات کو جب پولیس ایک بجے ان کے مکان پر اُنہیں گرفتار کرنے آئی، تو وہ نوافل ادا کرنے میں مصروف تھے۔ میں حکومت سے کہتا ہوں کہ ایک عاشقِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو پابجولاں کرکے اس کی نیک نامی میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اب جبکہ حکومت نے مولانا کو گرفتار کرلیا ہے، تو میں حکومت سے ان کی رہائی کی اپیل نہیں کروں گا، کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ یہ بات واقعی مولانا کو ناگوار گزرتی ہے۔[۱]
[۱۔ محمد صادق قصوری، اکابر تحریک پاکستان، ص۱۳۵، ۱۳۶]
۱۹۷۴ء میں آپ پر کیس بنائے گئے، لیکن گرفتاری کی نوت نہیں آئی، کیونکہ ضمانت قبل از گرفتاری منظور ہوگئی۔
۱۳؍جون ۱۹۷۵ء میں آپ پر دو کیس بنائے گئے اور دو ماہ ساہیوال جیل اور کوٹ لکھت جیل میں نظر بند کردیا گیا، ۷؍اگست۱۹۷۵ء کو رہائی ہوئی۔
۲۷؍نومبر ۱۹۷۵ء کو میانوالی میں آپ کی تقاریر پر دس مقدمات قائم کیے گئے اور تین ماہ میانوالی جیل میں نظر بند رکھا گیا۔ قائدِ اہل سنت علامہ شاہ احمد نورانی نے ہائی کورٹ میں رِٹ دائر کی؛ چنانچہ جسٹس شفیع الرحمٰن کی عدالت میں مقدمہ چلتا رہا اور آپ کی تقاریر کی ٹیپ عدالت میں سنی جاتی رہیں جس سے سی آئی ڈی کی غلط رپورٹ بھی واضح ہوئی۔ ۸؍فروری ۱۹۷۶ء کو آپ باعزت طور پر بری کردیے گئے۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور میں آپ کی رہائی پر یہ شعر شائع ہوئے ؎
تعلق دار سے دیرینہ ہے آوازۂ حق ہے
یہی بنیاد ہنگامہ یہی باعث ہے رونق کا
زمانہ لے چلا تھا دار کی جانب نیازی کو
عدالت نے بھرم رکھ ہی لیا انصاف مطلق کا
علاوہ ازیں ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، بورے والا اور وہاڑی میں آپ کی تقاریر پر کئی مقدمات قائم کیے گئے، لیکن ضمانت ہوگئی اور گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
قائدِ اعظم اور علامہ نیازی:
قائدِ اعظم محمد علی جناح مرحوم، نوجوان نیازی کو کس قدر عزیز رکھتے تھے، اس کا اندازہ اس سے ہوجاتا ہے کہ ۱۹۴۲ء میں مٹر خالد لطیف گابا کے دیوالیہ ہوجانے سے لاہور کے شہری حلقے میں انتخاب ہونا قرار پایا۔ قائد اعظم نے مولانا عبدالستار خان نیازی کو جو اس وقت ایم اے کے طالب علم تھے، امیدوار نامزد کیا اور ملک برکت علی مرحوم کو ٹیلی فون پر ہدایت کی کہ نیازی کے لیے ضمانت فراہم کی جائے اور کاغذات نامزدگی داخل کیے جائیں۔ صوبائیں مسلم لیگ نے میاں امیرالدین کو ٹکٹ دیا، لیکن قائدِ اعظم نے نیشنل ڈیفنس کونسل کی رکنیت کے سلسلے میں سر سکندر حیات سے اختلاف کی بنیاد پر نیازی صاحب کو مقابلے میں آجانے کا حکم دیا۔
علامہ نیازی کو بیس ہزار روپے کی پیشکش کی گئی کہ وہ مقابلے سے دستبردار ہوجائیں، لیکن ان کا جواب تھا کہ بکنے اور جھکنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ قائداعظم کے حکم سے میدان میں اُترا ہوں، وہ حکم دیں گے تو دستبردار ہوجاؤں گا، ورنہ ہرگز ہرگز نہیں۔
قاتلانہ حملے:
مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی کی مقبولیت سے کالا باغ کے نواب ہمیشہ خائف رہے۔ آپ نے ہمیشہ ان کا مقابلہ کیا اور ملک امیر محمد خان کے لڑکے ملک مظفر کے مقابلے میں قومی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لیتے رہے۔ انہوں نے آپ پر قاتلانہ حملے کرائے۔ آپ کے کارکنوں کو تنگ کیا گیا۔ان پر ہر قسم کا ظلم روا رکھا گیا، لیکن اس کے باوجود آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔
پہلا حملہ اپریل ۱۹۶۸ء میں بمقام داؤد خیل اس وقت ہوا، جب آپ بطورِ امیدوار نیشنل اسمبلی بی ڈی ممبران کو خطاب کرنے کے لیے جلسۂ عام میں جا رہے تھے۔ نواب کالا باغ کے ملازمِ خاص بمعہ دوسرے مسلح غنڈوں کے حملہ اور ہوئے، مگر مولانا صاحب کے جلوس میں دائیں بائیں اور آگے پیچھے سینکڑوں کارکن موجود تھے۔ نیز مکان کے چھت پر اُن کے حامی مسلح مجاہدین موجود تھے، اس لیے یہ حملہ ناکام رہا۔
دوسرا حملہ مورخہ ۱۷؍ستمبر ۱۹۶۴ء کو میکلوڈ روڈ لاہور پر دفتر روزنامہ ’’کوہستان‘‘ کیا گیا۔ مقابلہ میں مولانا زخمی ہوگئے۔ سڑک پر لوگوں کے اجتماع کی وجہ سے حملہ آور بھاگ گئے۔ مولانا نے حملہ آوروں کو پہچان لیا اور رپورٹ درج کرائی، مگر پولیس نے کچھ نہ کیا۔
تیسرا حملہ اکتوبر ۱۹۶۴ء میں بمقام موسیٰ خیل اس وقت کیا گیا جب مولانا نیازی جامع مسجد میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔ نواب کالا باغ کے غنڈوں نے مسجد پر فائرنگ کی۔ اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔ جب اس کے جواب میں سر فروشانِ نیازی نے فائرنگ کی تو غنڈے رفوچکر ہوگئے۔
اور چوتھا حملہ ۳۱؍دسمبر ۱۹۶۴ء کو اس وقت ہوا، جب مولانا نیازی ایک عزیز کی تعزیت کے لیے کالا باغ سے گزر کر عیسیٰ خیل جا رہے تھے، اڈرہ لاریاں پر غنڈوں سے مقابلہ ہوگیا۔ مولانا نے کالا باغ کے غنڈوں کو پسپا کردیا۔ مگر چلتی گاڑی میں ان ظالموں نے فائرنگ کی اور بھاری پتھر مولانا کے سینے پر مارے جس سے وہ زخمی ہوگئے۔ اس حملہ کی رپورٹ عیسیٰ خیل تھانہ میں درج کرائی، مگر کوئی کارروائی نہ ہوئی۔
مولانا نے ان حملوں کے دوران موچی دروازہ کے جلسۂ عام میں (حاضری چار لاکھ سے زیادہ تھی) مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی تقریر کے بعد خطاب کرتے ہوئے نواب کالا باغ کو للکارا تھا کہ لمبی لمبی مونچھوں اور موٹے موٹے بازوؤں سے کام نہیں چلے گا۔ تیری مونچھوں سے بغاوت ہوسکتی ہے، مگر کالی کملی والے محبوب رب العالمین کی زلفوں سے بغاوت نہیں ہوسکتی۔ زمانہ نئی تاریخ مرتب کر رہا ہے اس میں تمہارا نام یزیدوں، ابن زیادوں اور شمروں کی فہرست میں شامل ہوگا اور میرا نام شہیدِ کربلا کے غلاموں میں شامل ہوگا۔ میں حسین منصور حلاج کا ہمنوا ہوکر کہوں گا ؎
من حسینِ وقت و نااہلاں یزید و شمر من
روزگارم جملہ عاشورہ و منزل کربلا
کوہِ ارادتم متزلزل نمی شود
لَو بُسَّتِ الجِبَالُ وَلَو دُکَّتِ السّماء
قومی اتحاد اور علامہ نیازی:
۱۹۷۷ء کے انتخابات کا اعلان ہوتے ہی حزبِ اختلاف کی نو جماعتوں پر مشتمل ’’قومی اتحاد‘‘ وجود میں آیا جس نے ملک میں ایک تاریخ ساز تحریک کے ذریعے ملک کو ظلم و استبداد کے مکروہ پنجوں سے آزاد کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’قومی اتحاد‘‘ کا قیام تمام سیاسی راہنماؤں کے تدبر اور باہمی تعاون کا نتیجہ تھا، لیکن اتحاد کی تشکیل میں جمعیت علماء پاکستان نے مرکزی کردار ادا کیا۔ عہدوں اور سیٹوں کی قربانی دے کر اتحاد کو برقرار رکھنا اور نظامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ کی خاطر تمام اختلافات کو پسِ پشت ڈال دیا اور اس ضمن میں مولانا نیازی سیکرٹری جنرل جمعیت علماء پاکستان نے جو خصوصی اور نمایاں کردار ادا کیا، اسے نوائے وقت کے نمائندہ خصوصی جناب ریاض پرویز ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’گزشتہ سال ۹؍اکتوبر (۱۹۷۶ء) کو مسٹر رفیق احمد باجوہ کے مکان پر اجتماع ہوا، اس میں سابق متحدہ جمہوری محاذ (یو۔ڈی۔ایف) میں شامل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، پاکستان جمہوری پارٹی، کالعدم نیپ (موجودہ این ڈی پی) اور جمعیت علماء اسلام کی طرف سے تحریکِ استقلال اور جمعیت علماء پاکستان کو اشتراکِ عمل کی دعوت دی گئی اور اصول طور پر متحد ہونے پر اتفاق رائے کرلیا گی۔ متحدہ جمہوری محاذ سے مطالبہ کیا گیا کہ تحریک اور جمعیت علماء پاکستان کو پنجاب میں چالیس فیصد نشستیں دی جائیں۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے کہا کہ وہ اتحاد چاہتے ہیں۔ اپنے انتخابی کوٹہ کو سنجیدہ مسئلہ بنانے کو تیار نہیں۔ مولانا مفتی محمود نے کہا وہ تیس فیصد سے زیادہ نشستیں دینے کو تیار نہیں۔ بات سرے نہ چڑھ سکی، اجلاس ملتوی ہوگیا، مولانا عبدالستار خان نیازی کو معلوم ہوا تو وہ اتحاد قائم کرنے کی مہم میں سرگرم ہوگئے، ان کی کوششوں سے مولانا مفتی محمود اور پیر صاحب پگارا اس بات پر راضی ہوگئے کہ تحریکِ استقلال اور جمعیت علماء پاکستان کو چھتیس فیصد کوٹہ ملے گا۔ مولانا عبدالستار خان نیازی نے جب ایر مارشل اصغر خان سے بات کی تو انہوں نے چالیس فیصد سے کم پر راضی ہونے سے انکار کردیا، اس پر مولانا عبدالستار خان نیازی نے کہا کہ چالیس فیصد کوٹہ سے پنجاب میں ۴۶ نشستیں بنتی ہیں۔ ان میں سے ۲۳ تحریکِ استقلال اور ۲۳ جمعیت علماء پاکستان کی ہیں، جبکہ ۳۶ فیصد کے حساب سے ۴۲ نشستیں بنتی ہیں، مولانا نیازی نے پیشکش کی کہ تحریکِ استقلال ۲۳ نشستیں حاصل کرے جمعیت اپنی چار نشستیں اتحاد پر قربان کرتے ہوئے ۱۹ نشستوں پر قناعت کرے گی۔[۱]
[۱۔ ہفت روزہ طاہر جلد۵، شمارہ ۳۹ (۲۶؍اپریل تا ۲؍مئی ۱۹۷۶ء) ص۱۶]
چنانچہ علامہ عبدالستار خان نیازی کی کوششوں سے قومی اتحاد قائم ہوگیا اور جمعیت علماء پاکستان نے اپنی سات نشستوں کی قربانی دے کر ثابت کردیا کہ جمعیت کو عہدوں یا نشستوں کی لالچ نہیں، بلکہ اس کا واحد مقصد ملک میں نظام مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا نفاذ ہے۔
قومی اتحاد کے عہدیداروں کے انتخاب کے موقع پر پھر وہی اختلافی کیفیت پیدا ہوئی لیکن مولانا عبدالستار خان نیازی کا خلوص یہاں بھی کام آیا اور اختلافات دور کردیے گئے۔
ریاض پرویز لکھتےہیں:
پیر صاحب پگارا کی صدارت میں اجلاس ہوا جس میں قومی اتحاد کے عہدیداروں کا انتخاب ہونا تھا۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے صدارت کے لیے مفتی محمود کا نام پیش کیا۔ جمعیت علماء پاکستان نے مولانا مفتی محمود کی مخالفت کی۔ پیر صاحب کو کچھ دیر کے لیے اپنے دوستوں سے صلاح و مشورہ کرنے کے لیے باہر جانا پڑا، وہ واپس آئے تو انہوں نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت مفتی صاحب کو صدر تسلیم نہیں کرتی۔ معاملہ یہیں ختم ہوتا نظر آیا تو جمعیت علماء پاکستان کے مولانا عبدالستار خان نیازی ایک بار پھر آگے بڑھے۔ انہوں نے جمعیت علماء پاکستان کی طرف سے نہ صرف مولانا مفتی محمود کی مخالفت ترک کرنے کا اعلان کیا، بلکہ ان کی صدارت کی حمایت کی۔[۱]
[۱۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور، ۲۱ ذیقعدہ ۱۳۹۷ھ/ ۴نومبر ۱۹۷۷ء (ملتان کی ڈائری ملحضاً)]
پیر کرم شاہ بھیروی لکھتے ہیں:
’’پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو بھلا کر متحد ہونے کے لیے مشورہ کرنے لگیں تاکہ اجتماعی قوت سے اس عفریت کو بچھاڑ سکیں۔ مقصد بڑا بلند تھا، جذبات بڑے قیمتی تھے، لیکن پہلی چٹان جس سے ٹکرا کر سفینۂ اتحاد کے پاش پاش ہونے کا خطرہ پیدا ہوا، وہ سیٹوں کی تقسیم کی، کوئی جماعت ایسی نہ تھی جو اتحاد کو مستحکم کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اس کو بچانے کے لیے ایک سیٹ کی قربانی بھی دینے پر آمادہ ہو، ہر پارٹی نے تعصب اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے کی قسم کھالی۔ اب صرف اتنی دیر تھی کہ یہ اجلاس ختم ہواور اس میں شامل ہونے والے راہنما ملکی اور عالمی پریش کو یہ بتادیں کہ اتحاد کی تجویز ناکام ہوگئی ہے۔ اب وہ پھر ۱۹۷۰ء کے الیکشن کی طرح اکیلے اکیلے میدان انتخاب میں کودیں گے تاکہ پیپلز پارٹی بڑی آسانی سے انہیں ایک اور عبرتناک شکست دے دے۔ اس وقت وہ شخص اٹھا جس کے دل میں اسلام کا درد تھا جو ملت مسلمہ کو اشتراکیت کو زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھنا گوانا نہیں کرسکتا تھا جو اپنا تن من دھن پہلے ہی نظامِ مصطفےٰ کے نفاذ کے لیے قربان کرچکا تھا۔ اس نے اپنی جماعت کے کوٹے سے چار سیٹوں کو ایثار کرکے قومی اتحاد کو اپنی زندگی کے پہلے دن ہی زندہ درگور ہونے سے بچالیا۔
آپ جانتے ہیں وہ کون شخص تھا جس کے حسنِ تدبر اور جرأت مندانہ ایثار نے قوم کو ایک اندھے غار میں گرنے نہ دیا۔ آپ تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہیں، تو میں عرض کیے دیتا ہوں، وہ مرد غازی مولانا عبدالستار خان نیازی تھے اور آپ کو شاید یاد ہو کہ وہ کس جماعت کا نمائندہ تھا؟ جمعیت علماء پاکستان کا وہ جماعت جو ملک کے سوادِ اعظم کی نمائندہ جماعت ہے۔ وہ جماعت جس نے پاکستان کا جھنڈا اس وقت ہاتھ میں پکڑا اور فضا میں لہرایا جبکہ بڑے بڑے تقدس مآب پاکستان کو پلیدستان[۱] کہتے تھے۔
[۱۔ ماہنامہ ضیائے حرم، لاہور، جولائی ۱۹۷۸ء]
تحریک نظامِ مصطفےٰ(صلی اللہ علیہ وسلم):
۱۴؍مارچ ۱۹۷۷ء کو ملک بھر میں نظامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ کے لیے تحریک چلائی گئی تو ملک کے ہر طبقے سے متعلق افراد حتی کہ خواتین نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ حکومت کی طرف سے گرفتاریاں، مقدمات گولیوں اور آنسو گیس کی بھرمار، خانہ جنگی، مارشل لاء غرضیکہ ہر حربہ تحریک کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا، لیکن بفضلہٖ تعالیٰ ہر حربہ ناکام ہوا اور تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
سوادِ اعظم اہل سنت و جماعت کو اس تحریک میں یہ خصوصیت حاصل رہی کہ نظامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا مقصدِ حیات اور انہی کی نمائندہ جماعت جمعیت علماء پاکستان کے منشور کا ایک حصہ ہے، جبکہ دیگر جماعتوں نے اسے بعد میں اپنایا، اس لیے اہل سنت و جماعت اس تحریک میں پیش پیش تھے، یہاں تک کہ تحریک کا پہلا شہید انجمن طلباء اسلام کا جیالا کارکن محمد افتخار احمد (بورے والا) تھا جس نے اس نیک مقصد کے حصول کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
مجاہدِ ملت مولانا عبدالستار خان نیازی کو ۱۸؍مارچ ۱۹۷۷ء کو میانوالی سے گرفتار کرکے کیمبلپور جیل بھیج دیا گیا۔ تین ماہ بعد ۱۰؍جون کو کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کردیا گیا اور ۱۹؍جون کو مولانا نیازی دردِ گردہ کی شکایت کی وجہ سے میو ہسپتال کی البرٹ وکٹر ہسپتال داخل کردیے گئے۔ ۵؍جولائی کو مسلح افواج نے ملک کا نظم و نسق سنبھالا اور ۱۴؍جولائی ۱۹۷۷ء کو آپ میوہسپتال[۱] سے رہا کردیے گئے۔
[۱۔ راقم ۳۱؍مارچ ۱۹۷۸ء بروز جمعہ رات نو بجے حضرت مجاہد ملت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مولانا غلام فرید ہزاروی بھی ہمراہ تھے۔ علامہ نیازی نے بکمالِ شفقت اپنی گرفتاریوں اور مقدمات کی مکمل تفصیل مہیا فرمائی، جس کے لیے راقم آپ کا ممنون ہے۔]
حج و زیارت:
مولانا نیازی مدظلہ نے پہلا حج بس کے ذریعے کیا۔ ۲۲؍دسمبر کو آپ روانہ ہوئے اور حج بیت اللہ شریف اور روضۂ پاک کی زیارت سے مشرف ہوکر ۲۰؍جنوری ۱۹۷۳ء میں واپسی ہوئی۔
دوسری مرتبہ ۲۰؍دسمبر ۱۹۷۴ء کو حضرت قائدِ اہلِ سنّت علامہ شاہ احمد نورانی کی رفاقت میں حج و زیارت کا شرف حاصل کیا اور پھر عالمی تبلیغی دورہ کرکے ۱۴؍اپریل ۱۹۷۵ء کو واپس تشریف لائے۔
بیعت:
آپ کے خاندان کا روحانی تعلق سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں پیرِ طریقت حضرت مولانا جان محمد رحمۃ اللہ علیہ میبل شریف سے ہے۔ حضرت پیر صاحب سومرو خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت محمد رضا صاحب (زکوڑی شریف) کے خلیفہ تھے۔ علامہ نیازی کی بیعت حضرت مولانا جان محمد رحمہ اللہ کے پوتے فقیر قادری بخش نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے ہے۔
(تعارف علماءِ اہلسنت)