علامت عشق کی آخر کو ظاہر ہو کے رہتی ہے
علامت عشق کی آخر کو ظاہر ہو کے رہتی ہے جبیں سے رنگ سے پژ مردگی سے چشم گریاں سے کرم کی، رحم کی، امداد کی ہے آس ارؔشد کو خدا سے، مصطفی ٰ سے، غوث سے احمد رضا خاں سے ...
علامت عشق کی آخر کو ظاہر ہو کے رہتی ہے جبیں سے رنگ سے پژ مردگی سے چشم گریاں سے کرم کی، رحم کی، امداد کی ہے آس ارؔشد کو خدا سے، مصطفی ٰ سے، غوث سے احمد رضا خاں سے ...
ہمیشہ جوش پر بحرِ کرم ہے میرے خواجہ کا زمانہ بندۂ جود و نعم ہے میرے خواجہ کا نچھاور ہے متاعِ دوجہاں اس دل کی قیمت پر کہ نامِ پاک جس دل پر رقم ہے میرے خواجہ کا منور ہند کا ظلمت کدہ خواجہ کے دم سے ہے دیارِ ہند ممنونِ کرم ہے میرے خواجہ کا نوازش ہے کہ دریا بہہ رہا ہے فیض ورحمت کا زمانے پر سدا لطفِ اتم ہے میرے خواجہ کا نگوں ہوکر رہا ہر ایک کا پرچم زمانے میں بلندی پر نصب اب تک ہے پرچم میرے خواجہ کا ہزاروں پرچمِ شوکت اڑے اور مٹ گئے آخر بلند...
اُن کے روضے پہ بہاروں کی وہ زیبائی ہے جیسے فردوس پہ فردوس اُتر آئی ہے پاؤں چھو جائے تو پتھر کا جگر موم کرے ہاتھ لگ جائے تو شرمندہ مسیحائی ہے جانے کیوں عرش کی قندیل بجھی جاتی ہے ان کے جلووں میں نظر جب سے نہا آئی ہے مل گئی ہے سرِ بالیں جو قدم کی آہٹ روح جاتی ہوئی شرما کے پلٹ آئی ہے سر پہ سر کیوں نہ جھکیں ان کے قدم پہ ارؔشد اک غلامی ہے تو کونین کی آقائی ہے...
تم نقشِ تمنّائے قلمدانِ رضا ہو برکات کا سورج ہو بریلی کی ضیا ہو جب خالق ِ کونین ہی خود مدح سرا ہو ’’نعتِ شہِ کونین کا حق کس سے ادا ہو‘‘ ہر آن پہ ہو جب کہ مدارج میں ترقی ’’نعتِ شہ کونین کا حق کس سے ادا ہو‘‘ جبرئیل بھی بے مثلی پہ جب مہر لگائیں ’’نعتِ شہ کونین کا حق کس سے ادا ہو‘‘ فردوس میں جب جب بھی ہوئی نعت کی محفل آقا نے کہا اہلِ بریلی کا بھلا ہو کیوں اپنی گل...
تیرے قدموں میں شجاعت نے قسم کھائی ہے یاد آئے گی تِری یاد کی ہر محفل میں عزم و ہمت کے مریضوں سے یہ کہہ دے کوئی جان آجائے گی شبیر کو رکھ لو دل میں...
اپنے مستوں کی بھی کچھ تجھ کو خبر ہے ساقی مجلسِ کیف تِری زیر و زبر ہے ساقی اب نہ وہ دن ہیں نہ وہ شام و سحر ہے ساقی بند مَے خانۂ فیضانِ نظر ہے ساقی بات مت پوچھ غمِ عشق کے افسانوں کی خاک چہروں پہ اڑا کرتی ہے ویرانوں کی اب تو جنّت بھی ہے سرکار کی قربت بھی ہے تِرے مولا کی تِرے حال پہ رحمت بھی ہے زیبِ سر تاجِ شہہِ ملکِ ولایت بھی ہے ہاتھ میں عالمِ جاوید کی دولت بھی ہے جب سبھی کچھ ہے تو خیرات لٹا دے ساقی چشمِ مخمور سے پھر جام پلا دے ساقی تِ...
آبگینوں میں شہیدوں کا لہو بھرتے ہیں صبح سے آج فلک والوں میں بے تابی ہے ہو نہ ہو اس عرقِ روحِ عمل سے مقصود شجرِ امّتِ مرحوم کی شادابی ہے...
ہاتھ پکڑا ہے تو تا حشر نبھانا یا غوث اب کسی حال میں دامن نہ چھڑانا یا غوث اپنے ہی کوچے میں سرشارِ تمنّا رکھنا اپنے محتاج کو در در نہ پھرانا یا غوث دل سے اترے نہ کبھی تیرے تصور کا خمار ایسا اک جام حضوری کا پلانا یا غوث تیرے نانا کی سخاوت کی قسم ہے تجھ کو اپنے در سے ہمیں خالی نہ پھرانا یا غوث دوست خوش ہوں مِرے دشمن کو پشیمانی ہو کام بگڑے ہوئے اس طرح بنانا یا غوث آستیں اپنی بڑھانا مِری پلکوں کی طرف اپنے غم میں ہمیں جب جب بھی رلانا ...
پیار سے تم کو فرشتوں نے جگایا ہوگا اور جنّت کی بہاروں میں سلایا ہوگا تیری ٹھوکر میں جو آیا اسے ٹھوکر نہ لگی کیا گرے گا وہ جسے تو نے سنبھالا ہوگا قبر بھی منزلِ عشاقِ نبی ہے، یارو! کہ وہیں چہرۂ زیبا کا نظارا ہوگا شمعِ عشقِ رخِ شہ ساتھ گئی ہے جب تو روز و شب مرقدِ نوری میں اُجالا ہوگا کہہ کہ لبیک یہ دنیا جو سمٹ آئی ہے آپ نے مرقدِ اَنور سے پکارا ہوگا اپنی دنیا میں جو محبوب سے تنہا نہ رہا منزلِ قبر میں کیوں کر وہ اکیلا ہوگا آستانے سے چلے ...
خون ہے یہ شہِ لولاک کے شہزادوں کا کوئی قیمت بھی لگائے تو لگائے کیوں کر عفوِ امت پہ صلح کرنے کو آمادہ ہے سیّدہ آپ کا ممنون ہے سارا محشر...