منظومات  

اُس پہ کھل جائے ابھی تیغِ علی کا جوہر

اُس پہ کھل جائے ابھی تیغِ علی کا جوہر چشمِ ساقی کی اگر کوئی نظر پہچانے وحشتِ شوق کو کہہ دو ابھی آواز نہ دے اپنے سرکار کی سرکار میں ہیں دیوانے اب بدلنے کا نہیں کیف و جنوں کا موسمدرِ مُرشِد پہ کھلے ہیں ابدی مَے خانے...

سہرا شادی

موسمِ گُل ہے بہاروں کی نگہبانی ہے میرے گھر قافلۂ عیش کی مہمانی ہے مستی و کیف میں ہنگام ِ غزل خوانی ہے جس طرف دیکھیے جلووں کی فراوانی ہے باغِ فردوس سے بارات اُتر آئی ہے چاندنی بامِ شریعت پہ نکھر آئی ہے آج بن آئی ہے اسلام کے معماروں کی رحمتیں پھوٹ پڑی ہیں مِرے سرکاروں کی کوئی توقیر تو دیکھے ذرا دستاروں کی کتنی پیاری ہے خوشی اپنے فدا کاروں کی آگئی بادِ صبا خلوتِ زیبا لے کر باغِ طیبہ سے مہکتا ہوا سہرا لے کر حافظ ِ ملّتِ بَیضا کی نظر کا ...