شہید غزوہ احد حضرت سیدنا خارجہ بن زید بن ابو زھیر الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نام و نسب:۔
خارجہ بن زید رضی اللہ عنہ بن ابی زہیر بن مالک بن امریٔ القیس بن مالک الاغر بن ثعلبہ بن کعب بن کزرج بن حارث بن خرزج، انصاری۔
یہ لوگ بنو الاغر یعنی مالک الاغر کی اولاد اور نسل کہلاتے ہیں۔ آپ کی کنیت ‘‘ابو زید’’ ہے اور آپ کی والدہ کا نام سیدہ بنت عامر بن عبید بن غیان بن عامر بن خطمہ ہے وہ قبیلہ اوس سے تھیں۔
خارجہ رضی اللہ عنہ کو بیعت عقبہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ بدری صحابی ہیں۔ بعد ازاں غزوۂ احد میں مرتبۂ شہادت پر فائز ہوئے۔
آپ کی بیٹی حبیبہ بنت خارجہ رضی اللہ عنہا امیر المومنین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں ۔ آپ کو اور سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا تھا۔ شہداء احد کے بارے میں یہی طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔ کہ دو دو تین تین آدمیوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا تھا۔ شہداء احد کے بارے میں یہی طریقہ اختیار کیا گیا تھا کہ دو دو تین تین آدمیوں کا ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا البتہ یہ خیال رکھا جاتا کہ جسے قرآن زیادہ یاد ہوتا اسے قبر میں پہلے اتار اجاتا۔ مدینہ منور ہ آنے کے بعد جب انصار اور مہاجرین کے درمیان مواخات کرائی گئی تو ان کے اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے درمیان مواخات کی گئی تھی۔ زید بن خارجہ رضی اللہ عنہ انہی کے فرزند ہیں جنہوں نے وفات کے بعد کلام کی تھی۔
ان کے متعلق بیان ہے کہ وفات سے قبل ان پر غشی طاری ہوئی اور ان کی روح پرواز کر گئی۔ان کے اوپر ایک کپڑا ڈال کر انہیں ڈھانپ دیا گیا۔ پھر ان کی روح لوٹ آئی۔ پھر انہوں نے امیر المومنین سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ امیر المومنین سیدنا عمر اور امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم کے متعلق کچھ گفتگو کی اور پھر اسی وقت فوت ہوگئے ۔ ان کی وفات امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ہوئی۔ وفات کے بعد نہیں ایک کپڑے ڈھانپ دیا گیا۔ تو لوگوں نے ان کے سینے میں سے کچھ آوازیں سنیں۔ پھر انہوں نے واضح طور پر بول کر کہا:احمد، احمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر پہلی کتاب (تورات یا انجیل)میں ہے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سچے تھے۔ جو جسمانی طور پر نحیف اور اللہ کے دین کے بارے میں ازحد قوی تھے۔
یہ بات بھی پہلی کتاب میں مذکور ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی سچے تھے۔ پہلی کتاب میں ان کے متعلق بیان ہے کہ وہ ازحد قوی اور حد درجہ امانت دار ہوں گے۔ عثمان بن عفا رضی اللہ عنہ بھی سچے ہیں۔ یہ اپنے سے پہلے لوگوں یعنی ابو بکر صدیق اور عمر رضی اللہ عنہما کے طریقے پر چل رہے ہیں۔ چار سال گزر چکے اور دوسال باقی ہیں۔
اب فتنوں کا دور آرہا ہے۔ ہر طاقت ور کم زور کو کھاجائے گا۔ اور قیامت برپا ہونے والی ہے۔ عنقریب تمہارے پاس اریس نامی کنوئیں کے بارے میں ایک اہم خبر آئے گی۔ بیئر اریس۔۔۔۔کیا خوب ہے بیئر اریس ۔(الاستیعاب لابن عبد البر، تذکرہ زید بن خارجہ رضی اللہ عنہ)
کسی کامر نے بعد کلام کرنا نا ممکنات میں سے ہے۔ ممکن ہے کہ انہیں موت سے پہلے سکتہ طاری ہوگیا ہو یا شدید قسم کی غشی ان پر طاری ہوئی ہو اور حاضرین نے اسے موت سمجھ لیا یا موت سے تعبیر کیا ہو۔ (واللہ اعلم)
بیئر اریس:۔
قباء میں مسجد قباء کے قریب ایک باغ میں کنواں تھا۔ بسا اوقات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کنوئیں پر تشریف لے جاتے اور اس میں پاؤں لٹکا کر اس کی مڈیر پر تشریف رکھا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی مہر مبارک پر ‘‘محمد رسول اللہ’’ کے الفاظ کندہ تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ مہر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آگئی۔ ان کے بعد یہ مہر امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس رہی اور ان کے بعد یہ مہر امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی تحویل میں رہی۔ ایک دن آپ اس کنوئیں کی مڈیر پر آکر بیٹھے اور انگلی سے مہر نکال کر ایک سے دوسرے ہاتھ میں الٹنے پلٹنے لگے اسی دوران ذراسی غفلت سے وہ انگوٹھی کنوئیں میں جاگری۔انگوٹھی کی تلاش میں غوطہ خورون کو کنوئیں میں بھیجا گیا۔ بڑی کوشش کر کے کنوئیں کا سارا پانی نکلوایا گیا۔ بے پناہ تگ ودو کے باوجود وہ انگوٹھی نہ مل سکی۔
بیان کیا جاتا ہے کہ خارجہ بن زید بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ پر احد کے دن دشمن نے تیروں کی بوچھاڑ کردی۔ اور آپ کو دس سے زیادہ شدید قسم کے زخم آئے ۔ اسی حالت میں صفوان بن امیہ آپ کے پاس سے گزرا۔ اس نے آپ کو پہچان کر آپ کو شہید کر کے آپ کا مثلہ بھی کیا۔ اور بولا کہ اسی خارجہ رضی اللہ عنہ نے بدر کے دن میرے والد ابو علی امیہ بن خلف کو قتل کرنے پر لوگوں کو اکسایا تھا۔ صفوان کے باپ امیہ بن خلف کی کنیت ابو علی تھی۔ وہ بھی بدر کے دن اپنے باپ کے ساتھ ہی قتل ہوا تھا۔
ابن اسحاق کے بیان کے مطابق امیہ بن خلف کو انصار کے بنی مازن خاندان کے ایک فرد نے اور ابن ہشام کی روایت کے مطابق معاذ بن عفراء نے قتل کیا تھا۔ اور خارجہ بن زید اور حبیب بن اساف اس کی مدد کی تھی۔ابن اسحاق کہتے ہیں کہ امیہ کے بیٹے علی کو بدر کے دن عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے جہنم رسید کیا تھا۔
احد کے دن جب صفوان متعدد اہل اسلام کو قتل کر چکا تو کہنے لگا کہ آج میں نے اصحابِ محمد ﷺ میں سے اہمیت کےحامل افراد ابن قوتل ، ابن ابی زہیر یعنی خارجہ بن زید اور اوس بن ارقم رضی اللہ عنہم کو قتل کیا ہے تو یرے دل کو سکون اور ٹھنڈک ملی ہے۔
رضی اللہ عنہ و ارضاہ، آمین۔
(شہدائے بدر و احد)
//php } ?>