شیخ الاسلام امام بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:محمود۔کنیت:ابومحمد۔لقب:بدرالدین،امام عینی،قاضی الشام۔عرفی نام: شارحِ بخاری امام بدرالدین عینی ۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:محمود بن احمد بن موسیٰ بن احمد بن حسین بن یوسف بن محمود عینی حنفی۔علیہم الرحمۃ والرضوان۔آپ کے والد اور دادا دونوں قاضی تھے۔آپ کے اجداد میں حسین بن یوسف بہت ہی معروف "مفسرِ قرآن "تھے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 26/رمضان 762ھ،مطابق 30/جولائی 1361ءکو قلعہ "عین تاب"حلب ،شام میں ہوئی۔اسی عین تاب کی نسبت سے آپ کو"عینی"کہاجاتا ہے۔
تحصیلِ علم: آپ نے ابتدائی تعلیم اور حفظِ قرآن اپنے والدِ گرامی سے کیا۔فقہِ حنفی جمال الدین یوسف بن موسی ملطی ،اور ملک العلماء علاؤالدین سیرامی ،شیخ تقی الدین،اور شیخ زین الدین عراقی،شیخ سراج الدین بلقینی،وغیرہ جید علماء سے علمی استفادہ کیا۔علم کے لئے آپ نے دوردراز علاقوں کاسفرکیا۔
سیرت وخصائص:شیخ المحدثین،امام المتکلمین،رأ س المفسرین،مؤیدالحنفیین،قاضی الاسلام والمسلمین،حافظ وشارح الاحادیث ِ سیدالمرسلین،استاذالفقھاء الکاملین،جامع المنقولاتِ والمعقولات،شارحِ بخاری حضرت امام بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ۔امام فاضل،محدث کامل،فقیہ بے عدیل، علامہ بے تمثیل،عارف عربیت و تصریف،حافظ لغت،سریع الکتابت، تخریج احادیث اور اور ان کےکشف معانی میں وسعت کامل رکھتے تھے۔آپ کے تبحرِ علمی کااندازہ آپ کی "عمدۃ القاری،شرح صحیح بخاری"سے لگایا جاسکتا ہے۔
شیخ ابوالمعالی حسینی فرماتے ہیں:امام،عالم، علامۃ ،حافظ ،متقی،وحیدِ زمانہ،استاذالکل،امام المحدثین،منفرد فی الروایۃ والدرایۃ،معاندین پر اللہ کی حجت، اور بدمذہبوں پر قاہر،امام بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ نے صحیح بخاری کی ایسی شرح لکھی جس کی مثال ہمیں نہیں ملتی۔اپنے معاصرین میں علم وعمل تقویٰ ودیانت،فقہ اور حدیث میں بالخصوص اور جملہ علوم میں بالعموم یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔(مقدمہ عمدۃ القاری :14)
آپ کو عہدۂ قضا بغیر طلب کے دیا گیا، آپ نے عدل وانصاف کی مثال قائم کردی تھی۔اس کے علاوہ دیگر اہم عہدوں پر فائز رہے۔لیکن آپ نے درس وتدریس ،تصنیف وتالیف کو ہمیشہ جاری وساری رکھا۔
بستان المحدثین میں ہے: کہ جب سلطان نے "مدرسہ مؤیدیہ" کو بنوایا اس کے مناروں میں سے ایک منارہ جو بُرج شمالی پر بنا ہوا تھا ٹیڑھا ہوکرگرنے کےقریب ہوگیا۔باشاہ نے حکم دیا کہ اس کو گراکراز سر نو تیار کرایا جائے۔اتفاقاً اس وقت"علامہ عینی "اس کے سایہ میں بیٹھے ہوئے درس دے رہے تھے۔علامہ ابنِ حجر اور حافظ عینی میں معاصرانہ چشمک تھی ۔اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علامہ ابنِ حجر عسقلانی نے مندرجہ ذیل اشعارلکھ کر بادشاہ کے حضور میں پڑھے:
لجامع مولانا المؤید رونق ۔۔۔۔۔۔منارتہ تزھو بالحسن وبالزین
تقول و قدمالت علیہھم امہلوا ۔۔ فلیس علیٰ حسنی اضر من العین
ترجمہ:جامع مؤید بڑی بارونق ہے،اس کامنارہ بہت حسین وجمیل تھا،وہ جھکتے وقت زبانِ حال سے کہ رہا تھاکہ مجھے چھوڑ دوکیونکہ میرے جمال کےلئے اصل نقصان دہ"عین"یعنی نظرِ بدہے۔عین سے انہوں نے تعریض کی۔
علامہ عینی کو جب ان اشعار کامعلوم ہوا تو علامہ ابنِ حجر کی طرف یہ اشعار لکھ بھیجے۔
منارۃ کعروس الحسن قد حلیت۔۔۔۔وھد مھا بقضاء اللہ والقدر
قالوا اصیبت بعین قلت ذاغلط۔۔ ما اوجب اٰفۃ الحجر الا خسۃ الحجر
وہ منارہ دلہن کی طرح حسین اورخوبصورت تھا۔جس کا گرنا حقیقت میں قضا وقدر کے سبب سےتھا۔لوگوں نے کہا :اس کو نظر لگ گئی،میں کہتا ہوں:وہ غلط ہیں۔لیکن اس کو گرانے کا سبب "حجر"کی خستہ حالی تھی۔
آپ نے اپنی کتاب "عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری"میں احناف کی وکالت کا حق اداکردیا ہے۔جہاں امام بخاری علیہ الرحمہ نے بعض مقامات پر"بعض الناس"سے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ پر اعتراضات کیے ہیں،ایسے مقامات پر امام المحدثین حافظ عینی علیہ الرحمہ نے امام اعظم کے دفاع کاحق اداکردیا ہے۔یہ آپ کا احانف پر بہت بڑ احسان ہے۔تمام علماءِ احناف کو اس کتاب کامطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔یہی وجہ ہے کہ غیر مقلدین آپ کی شرح پر غیر مہذبانہ الزام لگاتے ہیں ،اس کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
وصال: آپ کاوصال 4/ذوالحج 855ھ،28/دسمبر1451ء کوہوا۔اپنی مسجد اور مدرسے کے صحن میں دفن کیے گئے۔آپ کی قبر "قاہرہ"مصر میں ہے۔
ماخذمراجع:حدائق الحنفیہ۔مقدمہ عمدۃ القاری مطبوعہ بیروت۔