حضرت امام بدرالدین عینی

شارح بخاری حضرت علامہ محمود بن احمد بن موسیٰ

المعروف

امام بدرالدین عینی

           محمود بن احمد بن موسیٰ بن احمد بن حسین بن یوسف بن محمود عینی: بدرالدین لقب اور قاضی  القضاۃ خطاب تھا،امام فاضل،محدث کامل،فقیہ بے عدیل، علامہ بے تمثیل،عارف عربیت و تصریف،حافظ لغت،سریع الکتابت، تخریج احادیث اور اور ان کےکشف معانی میں وسعت کامل رکھتے تھے۔نصف ماہِ رمضان ۷۶۲ھ میں مصر میں پیدا ہوئے۔فقہ جمال یوسف ملطی اور علاء سیرافی سے حاصل کی اور حدیث کو شیخ زین الدین عراقی اور شیخ تقی الدین سے سنا اور نحو واصول فقہ اور معانی کو علامہ جبرمل بن صالح بغدادی سے اخذ کیا،۷۸۷؁ھ کو قاہرہ میں تشریف لائے اور پہلے پہل آپ کو ظاہریہ میں تصرف و ظائف کی خدمت سپرد ہوئی پھر کئی دفعہ تدابیر امور کا عہدہ آپ کو ملا اور قضاء مذہب امام ابو حنیفہ کی آپ کے سپرد ہوئی۔آپ نے جامع ازہر کے پاس ایک مدرسہ بنوایا اور اپنے کتب خانہ کو اس میں وقف کردیا۔

          تصنیفات عالیہ کیں جن میں سے عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری،شرح پارہ سنن ابو داؤد،بنایہ شرح ہدایہ،رمز الحقائق شرح کنز الدقائق،منھۃ السلوک شرح تحفۃ الہلوک،شرح معانی الآثار،شرح مجمع،شرح درر البحار،طبقات الحنفیہ،طبقات الشعراء،مختصر تاریخ ابن عساکر،شرح شواہد لصغیر والکبیر،شرح منار،کتاب العروض،تاریخ کبیر وغیرہ نہایت مشہور و معروف ہیں۔کہتے ہیں کہ ہدایہ کی شرح آپ نے اس وقت لکھی تھی کہ جب آپ کی عمر نوے سال کے قریب تھی۔ماہ ذی الحجہ ۸۵۵ھ میں وفات پائی۔’’محدث سلیم القلب‘‘ تاریخ وفات ہے۔عینی آپ کو اس لیے کہا کرتے تھے کہ آپ کا باپ شہر مین عین تاب کا جو حلب سے تین منزل کے فاصلہ پر واقع ہے،قاضی تھاپس آپ شہر مزکور کی طرف منسوب ہوئے۔

          بستان المحدثین میں لکھا ہے کہ جب سلطان نے مدرسہ مویدیہ کو بنوایا اس کے مناروں میں سے ایک منارہ جو بُرج شمالی پر بنا ہوا تھا ٹیڑھا ہوکر قریب گرنے کے ہوگیا۔باشاہ نے حکم دیا کہ اس کو گراکرز سر نو تیار کرایا جائے۔اتفاقاً اس وقت عینی اس کے سایہ میں بیٹھے ہوئے درس دے رہے تھے کہ ابنِ حجر عسقلانی نے قبعہ مندرجہ ذیل لکھ کر بادشاہ کے حضور میں پڑھا

لجامع مولانا المؤید رونق        منارتہ بالحسن یز ہو وبالزین

تقول و قدمالت عن القصد امہلوا          فلیس علیٰ جسمی اضر من العین

          لوگوں نے عینی سے اس قصہ کو ایک ایسے انداز سے بیان کر کے کہا کہ حافظ ابن حجر نے آپ پر تعریض کی ہے۔آپ کو اس بات سے بڑا غصہ آیا اور آپ شعر کہنے میں چنداں مہارت نہ رکھتے تھے اس لیے آپ نے نواجی مشہور شاعر کو طلب کر کے مندرجہ ذیل قطعہ ابنِ حجر کی تعریض میں نظم کراکر شائع کرایا    ؎

منارۃ لعروس الحسن قد حلبت            وہد مہا بقضاء اللہ والقدر

قالو ااصیبت لعین قلت واغلط            ما اوجب الہدم الاخیبۃ الحجر

(حدائق الحنفیہ)

تجویزوآراء