حضرت سید غریب اللہ چشتی صابری ابن سید عبدالرسول کیرانوی
حضرت سید غریب اللہ چشتی صابری ابن سید عبدالرسول کیرانوی (تذکرہ / سوانح)
حضرت سید غریب اللہ چشتی صابری کیرانوی
نام ونسب: اسم گرامی: سید غریب اللہ چشتی صابری۔والد کا اسم گرامی: حضرت سید عبد الرسول ۔خاندانی تعلق کیرانہ کےسادات کرام سے تھا۔آپ کے والد گرامی اپنے وقت کے عظیم صوفی اور عارف کامل تھے۔صاحبِ اقتباس الانوار شیخ محمد اکرم قدوسی چشتی صابری فرماتے ہیں کہ صاحب سیر الاقطاب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے:’’کہ سید غریب اللہ بن سید عبد الرسول آپ میرے رضاعی بھائی اور رشتہ دار ہیں۔ یعنی میری دادی اور ان کی دادی سگی بہنیں ہیں۔(اقتباس الانوار، ص843)
تحصیل علم: آپ تمام علوم ظاہری و باطنی کے جامع تھے۔
بیعت و خلافت: آپ حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی کے جانشین حضرت شاہ محمدجی بندگی چشتی صابری کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور مجاہدات و سلوک کے بعد خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے۔
سیرت و خصائص: عارف ربانی ،صاحب کشف و کرامات حضرت سیدغریب اللہ چشتی صابری کیرانوی۔آپ سادات کرام کےعظیم روشن چراغ اور سنت رسول ﷺکےمتبع اور نیک سیرت باکردارعبادت و ریاضت زہد و تقویٰ سےمرصع اور صاحب کشف وکرامت اورعلوم ظاہری وباطنی سےلبریزتھے۔ آپ اکثرحضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیکےمزار پرسالانہ عرس میں ضرور تشریف لے جاتے تھے۔ایک مرتبہ عرس خواجہ پر تشریف لے گئے تو کیا دیکھا کہ ایک نقشبندی بزرگ جن کو بادشاہ عالمگیر کے ہاں قرب حاصل تھا۔سرکاری محتسب کو ساتھ لے کر احتساب کی خاطر مجلس سماع میں پہنچ گئےاور قوالوں کو سماع سے روکا۔ اس سے تمام فقیر اہل درد بے ذوق ہوگئے۔ حضرت سید غریب اللہ شاہ چشتی صابری نے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار شریف کی طرف متوجہ ہوکر دیکھا تا کہ معلوم ہوسکےیہ سب کچھ آپ کی مرضی سے ہورہا ہے یا یہ لوگ خود اپنی طرف سے کررہے ہیں۔ عین توجہ کے وقت حضرت سید غریب اللہ شاہ نے دیکھا کہ حضرت قطب الاقطاب کی قبر مبارک پھٹتی ہے اور آپ سرخ لباس پہنے رعب و جلال کے ساتھ باہر آکر قبر پر سوار ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ اور یہ شعر پڑھ رہے ہیں۔ترجمہ:’’محبوب رنگین لباس زیب تن کر کے گھوڑے پر سوار ہو کر باہر آیا ہے۔ ودستو خیال کرو شعلہ آتش بلند ہوگیا ہے‘‘۔ جب آپ نے یہ شعر سنا اور یہ منظر دیکھا تو آپ کی حالت دگر گوں ہوگئی اور رقص کرنے لگے بس پھر کیا تھا۔ پوری مجلس ان پیر زادوں سمیت سب پر حال طاری ہوگیا۔ اس کیفیت سے وہ نقشبندی بزرگ اور محتسب بھی متاثر ہوئے اور قوالوں نے بڑے ذوق و شوق سے قوالی شروع کردی اور مجلس میں ایسا ذوق و شوق پیدا ہوا کہ پہلے نہ ہوا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ نقشبندی بزرگ حضرت خواجہ قطب الاقطاب کی غیرت کی وجہ سے فوت ہوگئے۔(اقتباس الانوار، ص 844)
تلاش مرشد اور بیعت کا واقعہ: آپ نے تلاش مرشد کے لیے بہت سے سفر کئے۔ اس کیلیے آپ مختلف بزرگوں کے سالانہ اعراس میں جایا کرتےاور وہاں پر درویشوں میں بیٹھتے کہ شاید مقصد حقیقی مل جائے۔ ایک مرتبہ آپ مخدو العالمین سلطان الاولیاء حضرت سیدنا علاءالدین علی احمدصابر کلیری کے سالانہ عرس پر کلیر شریف تشریف لے گئے۔عرس کے موقع پر کثیر تعداد میں اولیائے کاملین بزرگان دین موجود تھے۔ کہ آپ کی نگاہ حضرت شیخ محمد جی بندگی چشتی صابری کے چہرہ انور پر پڑی تو دل سے بے ساختہ کہنے لگے مرشد ہو تو ایسا ہو۔ جو اوصاف ایک شیخ کامل میں ہونے چاہئیں وہ سب آپ کی ذات والا صفات میں موجود ہیں۔پیر ان کلیر شریف کے عرس کے اختتام پر آپ حضرت شیخ محمد جی بندگی گنگوہی چشتی صابری کے ساتھ ایک مرتبہ گنگوہ شریف ضلع انبالہ تشریف لے آئے اور ایک سال تک متواتر خدمت و عبادت و ریاضت زہد و تقویٰ میں مشغول و معروف رہے۔ پھر وہ وقت آگیا کہ حضرت شیخ محمد جی چشتی صابری کے دست حق پرست پر شرف بیت سے مشرف ہو کر مجاہدات و منازل سلوک کی تکمیل میں مشغول ہوگئے۔ اس دوران بے شمار واقعات و مشاہدات آپ پروارد ہوئے مگر خاموشی سے کسی کو بتائے بغیر اپنے کام میں مصروف رہے۔
حضرت شیخ صابر کلیر کی طرف سے انعام و اکرام: ایک مرتبہ آپ کے پیر و مرشد بندگی حضرت شیخ محمد جی چشتی صابری مع درویشوں اور خادمان حضرت مخدوم پاک کے عرس مبارک کے لیے روانہ ہوئے تو آپ بھی مرشد کے ہمراہ تھے۔آپ کے ہمراہی درویشوں نے اپنا سامان بھی آپ کی پشت اور سر پر لاددیا۔ جس سےا گرچہ آپ کوتکلیف تو ہوئی۔مگر آپ نے کسی سےانکار نہیں کیا۔چلتےچلتے جب رام پور پہنچے تو وہاں سولانی ندی کے کنارے جب قیام ہوا تو کسی نے وضو کیااورکسی نےغسل اور سب نے ارادہ یہ کیاکہ حسب دستور یہاں سےکلیرشریف تک ذکر جہرکرتےہوئےجائیں گے۔آپ کے پیر و مرشد حضرت بندگی شیخ محمد جی چشتی صابری ایک طرف مراقبہ کے لیے بیٹھ گئے۔ابھی مراقبہ میں سر جھکایا ہی تھا تو کیا دیکھا کہ حضرت مخدوم پاک اپنے روضہ انور پر تشریف فرما ہیں اور درویشوں کو بلارہے ہیں۔ مگر حضرت شیخ محمد جی سے فرماتے ہیں: ’’ کہ تم میرے ہاں نہ آؤ۔جب تک میرے غریب کا حق ادا نہ کردو‘‘۔عرض کیا حضور وہ کون ہے۔ حضرت مخدوم نے فرمایا غریب اس کا نام؛ غریب اس کی عادت ہے غریب اس کی قوم ہے۔ غریب اس کی صورت ہے اختیار پور کا رہنے والا ہے۔ حضرت شیخ محمد جی نے عرض کیا حضور آپ کے آستانہ پاک پر حاضر ہو کر اس کا حق ادا کروں گا۔ حضرت مخدوم پاک نے فرمایا نہیں اسی جگہ رامپور کے تکیہ میں اس کا حق ادا کرو۔ حضرت شیخ محمد جی چشتی صابری نے مراقبہ سے سر اٹھایا اور حضرت شاہ غریب ا للہ کو بلا کر فرمایا جلدی جاؤ اور غسل کر کے میرے پاس آجاؤ۔حضرت سید غریب اللہ شاہ نے غسل کیااور حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت شیخ محمد جی صابری نے اپنے سامنے بٹھا کر اسرار حق تعلیم کئے اور اسم اعظم سکھایا اور نسبت صوری و معنوی منتقل کی اور فرمایا کہ سید غریب اللہ شاہ کو خلافت حضرت صابر کلیر نے عطا فرمائی ہے۔ لہٰذا جو شخص حضرت مخدوم العالمین کی خوشنودی چاہے وہ غریب اللہ شاہ کو پالکی میں بٹھا کر ان کی پالکی کو کندھا دے۔ چنانچہ آپ کو بحکم شیخ پالکی پر سوار کیا گیا کسی نے کندھا دیا۔ کسی نے ہاتھ لگایااور چلتے چلتے سولانی ندی کے پاراتارا۔جب اس عزت کے ساتھ کلیر شریف پہنچے اور وہاں سے عرس کے بعد واپس آئے تو اس سے آپ کی مقبولیت و شہرت میں بہت اضافہ ہوا۔کثیر مخلوق خدا آپ سے فیض یاب ہوئی۔(ایضا،844)
مرشد کےلئے اولاد کی دعا: جب آپ اپنے مرشد کے ہمراہ واپس پہنچے تو آپ کے پیر و مرشد کی اہلیہ محترمہ نے اپنی خادمہ سے کہلوا کر بھیجا کر حضرت سید غریب اللہ شاہ سے جا کر کہو کہ بی بی صاحبہ فرماتی ہیں کہ اگر تم اپنے مرشد کا چراغ جلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہو تو ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے اولادِ نرینہ کی دعا کرو۔ سخت سردی کا موسم تھا آپ اُسی وقت صدر پور کی جھیل میں جہاں ناف ناف جتنا پانی تھا کھڑے ہو گئے اور دعا میں مصروف ہو کر بارگاہ الٰہی میں عرض کی اے مالک الملک! ہلاک ہوجاؤں گا۔ لیکن نامراد واپس نہیں جاؤں گا۔بطفیل حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ میری دعا کو قبول کر اور میرے مرشد کے گھر میں فرزند عنایت کر۔سرد موسم کے باوجود آپ مسلسل دعا و التجا میں مصروف رہے حتٰی کہ مغلوب الحال ہوگئے مگر اپنی جان کی پرواہ نہ کی۔چنانچہ شب کےوقت آپ کو الہام ہوا کہ تمہارے پیر کے ہاں ایک بیٹا ہوگا۔ آپ نے عرض کی اے کریم تو وہاب ہے اور زیادہ عطاکر آواز آئی دو بیٹے ہوں گے۔ پھر عرض کیا اور زیادہ دے۔ پھر آواز آئی چار بیٹے ہوں گے۔ پھر آپ نے عرض کیا مالک میری تمنا ہے کہ چاروں حافظ و عالم اور صوفی ہوں۔اُدھر آپ کے شیخ حضرت محمد جی صابری کو عالم مکاشفہ میں میں معلوم ہوا کہ سید غریب اللہ شاہ خدا سے ضد کررہا ہے۔ چنانچہ اُس وقت مرشد کامل کی صورت روحانی طور پر نظر آئی اور کہا غریب اللہ شاہ اس ضد سے بازرہو جو کچھ خدا نے عطا کر دیا ہے اس پر شکر خداوندی کرو اور پانی سے باہر چلے آؤ۔ مرشد کا حکم ملتے ہی آپ پانی سے باہر آگئے اور صبح کو بعد نماز اشراق دروازہ پر جاکر بی بی صاحبہ کو خوشخبری سنائی کہ مبارک ہو چار بیٹے ہوں گے۔ وہاں سے واپس ہو کر پیر و مرشد کی خانقاہ میں حاضر خدمت ہوئے اور سلام عرض کیا تو حضرت شیخ آپ کو دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا اب تم یہاں سے اختیار پور چلے جاؤ۔ مرشد کا حکم ملتے ہی آپ وہاں سے رخصت ہو کر اختیار پور تشریف لےگئے اور خانقاہ قائم کر کے مسند ارشاد پر جلوہ افروز ہوئے اور لنگر عام جاری کیا۔ اختیار پور میں خلق خدا آپ کے گرد رہنے لگی۔ ہزاروں افراد آپ سے بیعت و مستفیض ہوئے۔ آپ نے ان میں بہت سے طالبان حق کو منزل مقصود تک پہنچایا۔
تاریخ ِ وصال: آپ کا وصال13؍ رمضان المبارک 1133ھ کو ہوا۔ مزار پُر انوار اختیار پور انڈیا میں مرجع خاص و عام ہے۔