حضرت سید غریب اللہ چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ

آپ کے تیسرے خلیفہ حضرت سیدغریب اللہ بن سید عبدالرسول تھے صاحب سیر الاقطاب نے لکھا ہے کہ سید غریب اللہ ولد سید عبدالرسول میرے رضائی بھائی اور رشتہ دار ہیں۔ یعنی میری دادی اور انکی دادی سگی بہنیں تھیں۔ ایک دن انہوں نے یعنی سیرالاقطاب کےمصنف نےمجھ سےکہا کہ ایام صغیرسنی میں میں حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی قدس سرہٗ کےجانشین حضرت شاہ محمد کا مرید ہوگیا۔ جب سن بلوغ کو پہنچا میرے اعتقاد واخلاص میں خلل واقع ہوا لیکن اسکا کسی سے ذکرنہ کیا۔ جب عشق الٰہی نے دل میں جوش مارا تو میں گنگوہ جاکر حضرت شیخ ابو سعید قدس سرہٗ جو حضرت شیخ نظام الدین تھانیسری کے خلیفہ تھے کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے مجھے ذکر واشغال تعلیم فرمائے اور ریاضت و مجاہدہ پر لگادیا۔ کچھ عرصہ کے بعد میرے دل میں ازسرِنورمرید ہونے کا شوق پیدا ہوااور حضرت شاہ ابوسعید کی خدمت میں بیعت کی درخواست کی آپ نےپوچھا کہ پہلےمرید ہوچکے ہوپہلی دفعہ مرید ہوناچاہتے ہو۔ حضرت اقدس کی ہیبت سےبندہ اس قدرمتاثر ہوا کہ سچ بولنےکےسوا چارہ نہ رہا۔ میں نے عرض کیا کہ شیخ جلال پنای پتی کے پوتے حضرت شاہ محمد سے خورد سالی میں بیعت کرچکا ہوں اب تجدید بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا جلدی توبہ کرو۔ جب مجھے اور میرے مشائخ کو حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ سے شرف مریدی وغلامی حاصل ہے تو میری کیا مجال ہے کہ انکےمریدین کو مرید بناؤں۔ بہتر یہ ہے کہ تم فوراً وہاں جاؤ اور ہمارے پیران پیر حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی قدس سرہٗ کے روضۂ اقدس پر عجز و نیاس سے حاضری دو اور حضرت مخدوم زادہ صاحب سجادہ سے معافی مانگو تاکہ تمہارا قصوراور میراقصورمعاف ہو۔ اور پھر میرے پاس آکرذکر اللہ میں مشغول ہوجاؤ۔ چنانچہ میں پانی پت جاکر حضرت سجادہ نشین صاحب سے معافی حاصل کر کے حضرت شاہ ابو سعید کی خدمت میں واپس حاضر ہوا۔ اور مدت تک آپکی خدمت میں رہا۔آپکےوصال کےبعدآپکےخلیفہ اعظم واکرام حضرت شیخ محمدصادق ابن شیخ فتح اللہ الحنفی گنگوہی قدس سرہٗ کی صحبت اختیار کی۔ اور آپکے حکم کے مطابق آپکے فرزند ارجمند حضرت شیخ داؤد قدس سرہٗ نے بندہک خرقہ خلافت عطا فرمای اور اس راست گوئی کی بدولت اس نعمت عظمیٰ سےمشرف ہوا۔ اسکے بعد اس خطرہ کو دل میں نہ آنے دیا۔

کہ ملا بر سرِ بازار شُد مست

ایک روایت کےمطابق حضرت سید غریب اللہ بن سید عبدالرسول رحمۃ اللہ علیہ نے ایک خرقہ خلافت حضرت شیخ حسین بہوری سے بھی حاصل کیا تھا۔ حضرت سید غریب اللہ اکثر حضرت خواجہ قطب الدین بختیار اوشی قدس سرہٗ کے عرس میں شرکت کرتے تھے ایک دفعہ عرس کےموقع پر ایک نقشبندی بزرگ جنکو بادشاہ عالمگیرکے ہاں قرب حاصل تھا سرکاری محتسب کو ساتھ لیکر احتساب کی خاطر مجلس سماع میں پہنچ گئے اور قوالوں کو سرود سے منع کیا۔ اس سے تمام فقرا اہل درد بے ذوق ہوگے۔ سید غریب اللہ نے حضرت خواجہ قطب الاقطاب قدس سرہٗ کی روحانیت کی طرف متوجہ ہوئے تاکہ معلوم ہسکےکہ انکی مرضی کے مطابق احتساب ہورہاہے یا یہ لوگ از خود آکر احتساب کر رہے ہیں۔ عین توجہ کے وقت حضرت سید غریب اللہ نے دیکھا کہ حضرت قطب الاقطاب کی قبر پھٹ گئی ہے اور آپ سرخ لباس پہنے رعب وجلال کے ساتھ باہر آکر قبر پر سوار ہوکر بیٹھ گئے ہیں اور یہ شعر پڑھ رہے ہیں؎

گلگون لباس کرد وسوار سمند شد

 

یاران حذر نحنید کہ آتش بلند

عشق بے پناہ کا ایسا اثر ہوا کہ بُت پرست کے ساتھ بت اور بت گر بھی مست ہوگیا) اس سے وہ نقشبندی بزرگ اور محتسب بھی متاثر ہوئے اور قوالوں نے بڑے ذوق وشوق سے قوالی شروع کردی مجلس میں ایسا ذوق وشوق پیدا ہوا کہ پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ نقشبندی بزرگ بھی حضرت خواجہ قطب الاقطاب کی غریت کی وجہ سے بری حالت میں مرگیا اور بادشاہ عالمگیر بھی ملک دکن جاکر واپس نہ آیا۔ سید غریب اللہ کا مزار کیرانہ میں مرجع خلالق ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ (قتباس الانوار)

تجویزوآراء