سیّدناعتبہ ابن غزوان رضی اللہ عنہ
سیّدناعتبہ ابن غزوان رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن جابربن وہب بن نسیب بن زید بن مالک بن حارث بن عوف بن حارث بن مازن بن منصوربن عکرمہ بن خصفہ بن قیس عیلان اوربعض نے (اس طرح نسب)بیان کیاہے کہ غزوان بن حارث بن جابرابن مندہ اورابونعیم نے(اس طرح)بیان کیاہے کہ عتبہ بن غزوان بن جابربن وہب بن نسیب بن مالک بن حارث بن ماذن (ان دونوں) نےان کے نسب سے زیداورعوف کو ساقط کردیاہے ابن مندہ نے (یہ بھی)کہاہے کہ بعض نے بیان کیاہے کہ غزوان بن بلال بن عبدمناف بن حارث بن منقذ بن عمروبن معیص بن عامر بن لوئی ہیں اور ابن مندہ نے کہاہے کہ اس کو ابن ابی خیثمہ نے مصعب زبیری سے نقل کرکے بیان کیاہے ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی بعض نے کہاہے کہ ابوغزوان تھی اوربنی نوفل بن عبدمناف بن قصی کے حلیف تھے۔یہ قدیم الاسلام تھے کیوں کہ جو لوگ مسلمان ہوکررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوگئے تھے ان میں یہ ساتویں شخص تھے۔ اوراسی کوانھوں نے اپنے خطبے میں بمقام بصرہ بیان کیاکہ میں نے اپنے کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسلام میں ساتواں شخص دیکھا(اورعسرت کی حالت یہ تھی کہ)ہمیں کوئی غذا میسر نہ تھی سوادرختوں کے پتوں کے (جس سے )ہم لوگوں کی باچھیں زخمی ہوجاتی تھیں (جب)انھوں نے شہر حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی تویہ چالیس برس کے تھے پھررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے(اس زمانے میں)رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ مین تشریف رکھتے تھے یہ بھی وہیں رہنےلگے یہاں تک کہ انھوں نے مقدادکے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی یہ دونوں شخص اول اسلام لانے والے لوگوں میں سے ہیں۔اوریہ دونوں کفارکے ساتھ (مکہ سے)چلے تھے تاکہ (ان کی معیت میں)مدینہ پہنچ جائیں کفارکاایک چھوٹاسالشکرتھاجس کا سردار عکرمہ بن ابی جہل تھا(یہ اسی لشکرکے ساتھ تھے اثناء راہ میں ان کو مسلمانوں کا ایک چھوٹاسالشکرجس کے سردار عبید بن حارث تھے۔مقداداورعتبہ مسلمانوں میں (جاکر)مل گئے۔اس کے بعدعتبہ غزوہ بدراورتمام غزوات میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو روانہ کیاتوفرمایاابلہ۱؎ والوں سے جو ملک فارس میں ایک موضع ہے جہادکریں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روانہ کیا توفرمایاکہ تم اورتمھارےہمراہی یہاں سے برابرچلے جاؤ اورجہاں تک تم سے ہوسکےاللہ سے ڈرتے رہنااورسمجھ لو کہ تم دشمن کے مقابلہ پرجارہے ہو میں امید کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ ان پر تمھاری مددکرے گااور میں نے علاء بن حضرمی کو لکھدیاہے کہ عرفجہ بن ہرثمہ کوتمھاری مددکے لئے بھیج دیں وہ دشمن سے لڑنے میں بڑے تجربہ کار اورفن حرب سے خوب واقف ہیں پس تم ان سے مشورہ لیاکرنااور(فتحیاب ہونے کے بعد وہاں کے لوگوں کو) اللہ کی طرف بلانا جو شخص تمھاری بات مان لے اس کااسلام قبول کرلینااورجوشخص نہ مانے اس پرجزیہ مقررکرناجس کو وہ خود اپنے ہاتھ سے عاجزی اورذلت کے ساتھ اداکرےاورجواس کونہ بھی مانے توتلوارسے کام لیناہاں بچوں بوڑھوں اور عورتوں کونہ مارنااورمسلمانوں کوجہاد کی ترغیب دیتے رہنا اور اپنے دشمن کے ساتھ ہوشیاری سے برتاؤکرنااوراپنے پروردگاریعنی اللہ سے ڈرتے رہنا چنانچہ عقبہ روانہ ہوگئے اور انھوں نے مقام ابلہ کوفتح کرکے بصرہ کو اپنے لیے مخصوص کرلیا یہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے بصرہ کو رونق دی اورآبادکیااور انھوں نے محجن بن اورع کوحکم دیاچنانچہ انھوں نے بصرہ کی بڑی مسجد کی بنیاد ڈالی اوراس کو نرکل سے( چھت پاٹ کر) تیارکیاپھرعتبہ حج کرنے گئے اورمجاشع بن مسعود کووہاں خلیفہ کردیااوران کو فرات کی طرف روانگی کا حکم دیااورمغیرہ بن شعبہ کو حکم دیا کہ وہ نمازکی امامت کیاکریں جب عتبہ حضرت عمرکے پاس پہنچے توانھوں نے بصرہ کی حکومت کا استعفٰی دیاحضرت عمرنے ان کا استعفیٰ منظورنہ کیاتوانھوں نے دعاکی اے اللہ بصرہ میں اب مجھ کو نہ بھیج (یہ دعاان کی مقبول ہوگئی)یہ اپنے اونٹ پر سے گرپڑے (اسی صدمہ میں)ان کا ۱۷ھ ہجری میں انتقال ہوگیا(یہ واقعہ اس وقت ہواجبکہ)یہ مکہ سے لوٹ کر بصرہ کی طرف جارہے تھے اوراس مقام پرپہنچ گئے تھےجس کو لوگ معدن بنی سلیم کہتے تھےاس کوابن سعد نے بیان کیاہےمداینی نے کہاہے کہ ۱۷ھ ہجری میں مقام زبدہ میں ان کا انتقال ہواتھا۔بعض نے کہاہے کہ ۱۵ھ ہجری میں ان کی عمرستاون برس کی تھی یہ درازقد اورخوبصورت شخص تھے ہم کوعبدالوہاب نے اپنی سند کے ساتھ عبداللہ بن احمد سے نقل کرکے خبردی وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے وکیع نے بیان کیا وہ کہتےتھےہم سے قرہ بن خالد نے حمیدبن ہلال عدوی سے انھوں نے خالد بن عمیر سے انھوں نے اپنی قوم سےانھوں نے اپنی قوم کے ایک شخص سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتے تھے میں نے عتبہ بن غزوان کوکہتے ہوئے سنا کہ میں نے اپنے کورسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (اسلام)میں ساتواں شخص دیکھاہےہمارے پاس کیلے کے پتے کے سوا کچھ کھانے کونہ تھا(اسی کو کھاتےتھے) یہاں تک کہ ہمارامنہ زخمی ہوجاتاتھا۔عتبہ نے دست میسان کو فتح کیاتھا اورجوکچھ وہاں مال تھا اس کو لوٹ لیاتھا۔اوران کی عورتوں اوراولاد کوقید کرلیاتھا۔اورجن لوگوں کو انھوں نے گرفتار کیاتھا ان میں یسار یعنی ابوالحسن بصری اور ارطبان جد عبداللہ بن عون بن ارطبان وغیرہم بھی تھے ہم کو یحییٰ بن مسعود بن سعد نے اپنی سند کے ساتھ ابوبکر بن عاصم سے نقل کرکے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے ازہر بن حمیدیعنی ابوالحسن نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے محمد بن عبدالرحمن طفاوی نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے ایوب سخستانی نے حمید بن ہلال سے انھوں نے خالد بن عمیر سے نقل کرکے بیان کیاکہ عتبہ بن غزوان نے جوبصرے کے سردارتھے(ایک مرتبہ)خطبہ پڑھا اوراپنے خطبہ میں کہا (اے لوگو)خبردارہوجاؤ کہ دنیابہت جلد بھرجائے گی اور اس میں سے کچھ بھی باقی نہ رہےگا سو ا پس خوردہ کے جیساکہ برتن میں پس جوکوئی شخص تم میں سے چھوڑدے تم لوگ دنیاسے ضروری منتقل ہوجاؤگےپس جب تم منتقل ہوئے تونیکی کے ساتھ منتقل ہوجودنیامیں تمھارے سامنے ہے ہم سے بیان کیاگیاہے کہ ایک پتھرجہنم کے کنارے پرڈالاجائے گاوہ ستربرس تک دوزخ میں گرتا رہے گامگراس کی تہ تک نہ پہنچے گااورخداکی قسم وہ دوزخ (جواس قعرکے )بھیرجائےگی اورمجھ سے یہ بھی کہاگیاہے کہ جنت کے کواڑوں میں سے دوکواڑوں کے درمیان چالیس برس کا فاصلہ ہوگا اور خداکی قسم اس پر بھی ایک دن آئے گا کہ وہ بھی آدمیوں سے پرہوگی اور میں اللہ سے پناہ مانگتاہوں کہ اپنے آپ کوتومیں بڑا سمجھوں اور لوگوں کی نظرمیں حقیر سمجھاجاؤں اورتم لوگ میرے بعد سرداروں کا تجربہ کروگے ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
۱؎ابلہ بضم الف وبای وفتح لام بصرے میں ایک مقام ہے اورایک قبیلہ کابھی نام ہے۱۲۔
(اسد الغابۃ ۔جلد ۔۶،۷)