(سیدنا) حذیفہ ابن یمان (رضی اللہ عنہ)
(سیدنا) حذیفہ ابن یمان (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن یمان۔ ہ حذیفہ بیٹے ہیں عسل کے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ بیٹے ہیں حسیل بن جابر بن عمرو بن ربیعہ بن جروہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس بن بغیض بن لیث بن غطفان کے۔ کنیت ان کی ابو عبداللہ عبسی ہیں۔ یمان لقب ہے حسل بن جابر کا۔ ابن کلبی نے کہا ہے کہ یہ لقب ہے جو وہ بن حارث کا ان کو یمان اس وجہس ے کہتے ہیں کہ انھوںنے اپنی قوم میں ایک خون کیا تھا پھر بھاگ کر مدینہ چلے گئے اور بنی عبد الاشہل سے جو انصار کی ایک شاخ ہے انھوں نے حلف کی دوستی کر لی لہذا ان کی قوم نے ان کا یمان رکھ دیا کیوں کہ انھوں نے انصار سے حلف کی دوستی کی اور وہ لوگ یمن کے رہنے والے تھے۔ ان سے ابو عبیدہ اور عمر بن خطاب اور علی بن ابی طالب اور قیس بن ابی حازم اور ابو وائل اور زید بن وہب وغیرہم نے روایت کی ہے۔ نبی ﷺ کے حضور میں ہجرت کر کے آئے تھے حضرت نے ان کو ہجرت اور نصرت کے درمیان میں اختیار دیا انھوں نے نصرت کو اختیار کیا اور رسول خدا ﷺ کے ہمراہ احد میں شریک ہوئے ان کے والد اسی جنگ میں شہید ہوگئے تھے۔ ان کا نام اس طرح لیا جاتا ہے حذیفۃ صاحب سر رسول اللہ ﷺ فی المنافقین منافقیوں کے حالات رسول خدا ﷺ نے سوا حذیفہ کے اور کسی کو نہیں بتائے تھے حضرت عمر نے ایک مرتبہ ان سے پوچھا کہا کیا میرے اعمال میں کوئی منافق ہے حضرت حذیفہ نے کہا ہاں ایک ہے حضرت عمر نے پوچھا وہ کون ہے انھوں نے کہا میں یہ نہ بتائوں گا حضرت حذیفہ کہتے تھے کہ حضرت عمر نے اس منافق کو معزول کر دیا گویا ان کو کسی نے بتا دیا حضرت عمر کی عادت تھی کہ جب کوئی شخص مر جاتا تو حذیفہ سے پوچھتے تھے اگر وہ اس کی نماز میں شریک ہوتے تو حضرت عمر اس کے جنازہ کی نما زپڑھاتے اور اگر حضرت حذیفہ نہ شریک ہوتے تو خود بھی نہ جانتے۔ حضرت حذیفہ جنگ نہادند میں شریک تھے جب نعمان بن مقرن سردار لشکر شہید ہوئے تو انھوں ن جھنڈا لیا ہمدان اور ری اور دنیور کی فتح انھیں کے ہاتھ پر ہوئی۔ فتح جزیرہ میں سے شریک تھے نصیبین کی سکونت اختیار کی تھی اور وہیں نکاح کر لیا تھا۔ نبی ﷺ سے فتنہ کے حالات بہت پوچھا کرتے تھے تاکہ اس سے بچیں۔ غزوہ احزاب کی شبکو نبی ﷺ نے انھیں ایک سریہ کے ساتھ بھیجا تھا تاکہ کفار کی خبر لے آئیں۔ غزوہ بدر میں شریک نہ تھے مشرکوں ن ان سے عہد لے لیا تھا کہ ہم سے نہ لڑنا انھوں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ لڑیں یا نہ لڑیں حضرت نے فرمایا نہیں بلکہ ہم کو اپنا عہد پورا کرنا چاہئے اور اللہ سے ان کے مقابلہ میں مدد مانگنی چاہئے۔ ایک شخص نے حضرت حذیفہ سے پوچھا کہ سب سے زیادہ سخت فتنہ کون ہے انھوں نے کہا یہ کہ نیکی اور بدی دونوں تمہارے سامنے پیش کی جائیں اور تم نہ سمجھ سکو کہ کس کو اختیار کرو ہمیں ابو جعفر یعنی عبید اللہ بن احنف بن عسلی وغیرہ نے اپنی سند سے ابو عیسی ترمذی تک خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ہناد نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں امیر معاویہ نے اعمش سے انھوں نے زید بن وہب سے انھوں نے حضرت حذیفہ سے روایت کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے ہم سے رسول خدا ﷺ نے دو حدیثیں بیان کیں میں نے ایک کو دیکھ لیا اور دوسری کا منتظر ہوں آپ نے ہم سے بیان کیا تا کہ امانت لوگوںمیں تازل کی گئی بعد اس کے قرآن نازل ہوا اور لوگوںنے قرآن اور سنت کا علم حاصل کیا پھر آپ نے ہم سے رفع امانت کی کیفیت بیان کی کہ ایک شخص سو کے اٹھے گا تو امانت اس کے دل ے نک جائے گی اور اس کا نشان مثل ایک نقطہ کے رہ جائے گا پھر وہ سوئے گا تو اور بھی امانت اس کے دل سے نکل جائے گی اور اس کا نشان مثل نقطہ کے رہ جائے گا پھر وہ سوئے گا تو اور بھی امانت اس کے دل سے نکل جائے گی اور اس کا نشان مثل نقطہ کے رہ جائے گا پھر وہ سوئے گا تو اور بھی امانت نکل جائے گی اور اس کا نشان مثل آبلہ کے رہ جائے گا جس طرح تم آگ کا انگارا اپنے پیر پر لڑھکائو اس سے قبلہ پڑ
جائے اس آبلہ کو تم پھولا ہوا دیکھتے ہو مگر اس میں کچھ بھی نہیں ہوتا پھر آپ ے ایک کنکڑی اپنے پیر پر لڑھکائی حضرت نے فرمایا پھر لوگوںکی یہ حالت ہو جائے گی کہ آپس میں خرید و فروخت کریں گے اور کوئی امانت سے کام نہ کرے گا یہاں تک کہ یہ چرچا کیا جائے گا کہ فلاں قبیلہ میں ایک امانت دارشخص ہے یہاں تک کہ ایک شخص کی اس طرح تعریف کی جائے گی کہ وہ کیسا دلیر ہے اور کیسا خوش طبع اور کیسا عقلمند ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان نہ ہوگا حضرت حذیفہ کہتیت ھے وہ زمانہ تو آچکا کہ میں جس سے چاہتا تھا معاملہ کر لیتا تھا اگر وہ مسلمان ہوتا تھا تو اس کا ایمان میرے نقصان کی واپسی پر مجبور کرتا تھا اور وہ یہودی یا نصرانی ہوتا تھا اس کا ساعی مجھے واپس دیتا تھا مگر اج میں صرف فلاں فلاں شخص سے معاملہ کرتا ہوں۔ زید بن اسلم نے اپنے والد سے روایتکی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے (ایک مرتبہ) اپنے اصحاب سے کہا کہ اپنی اپنی خواہشیں بیان کرو چنانچہ لوگوں نے خواہش کی کہ یہ گھر مال سے اور جواہر سے بھر جائے مگر حضرت عمر نے فرمایا کہ میں ایسے لوگوں کی خواہش رکھتا ہوں جیسے ابو عبیدہ اور معاذ بن جبل جبل اور حذیفہ بن یمان تاکہ میں ان سے خدا کا کام لوں پھر حضرت عمر نے کچھ مال حضرت ابو عبیدہ کے پاس بھیج اور کہا دیکھو وہ کیا کرتے ہیں حضرت ابو عبیدہ نے اس کو تقسیم کر دیا پھر کچھ مال حضرت حذیفہ کے پاس بھیجا اور کہا دیکھو یہ کیا کرتے ہیں انھوں نے بھی اس کو تقسیم کر دیا حضرت عمر نے فرمایا میں تو تم سے کہتا تھا لیث بن سلیم نے کہا ہے کہ جب حضرت حذیفہ پر موت کی کیفیت طاری ہوئی تو انھوں نے بہت جزع کی اور بہت اوئے کسی نے پوچھا کہ آپ کیوں روتے ہیں انھون نے کہا کہ میں دنیا کے چھوٹنے کے افسوس میں نہیں روتا بلکہ موت مجھے بہت محبوب ہے مگر (میں اس سبب سے روتا ہوں کہ) میں نہیں جانتا کہ میں خدا کی رضامندی کی طرف جارہا ہوں ا خوشی کی طرف جب ان کی موت بالکل قریب آگئی تو انھوں نے کہا کہ یہ دنیا کی آخری ساعت ہے اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں تجھے دوست رکھتا ہوں پس تو مجھے اپنی ملاقات میں برکت عنایت فرما بعد اس کے انک ی وفات ہوگئی۔ انک ی وفات حضرت عثمان کی شہادت کے چالیس دن کے بعد سن ۳۶ھ میں ہوئی محمد بن سیریں کہتے تھے کہ حضرت عمر کا دستور تھا مکہ جب کسی کو حاکم مقرر کرتے تھے تو اس کے پروانہ میں لکھ دیتے تھے کہ میں فلاں شخص کو مقرر کرتا ہوں وار اسے میں نے فلاں فلاں بات کا حکم دیاہے مگرجب انھوں نے حضرت حذیفہ کو زان کا حاکم مقرر کیا تو ان کے پروانے میں لکھا کہ اے لوگوں ان کی بات سنو اور مانو اور جو کچھ یہ مانگیں ان کو دو چنانچہ جب یہ مدائن پہنچے تو وہاں کے سرداروں نے ان کا استقبال کیا جب انھوں نے اپنا پروانہ پڑھا تو ان لوگوں نے کہا کہ آپ جو چاہیں مانگیں حضرت حذیفہ نے کہا کہ میں تم سے کوئی ایسی چیز چاہتا ہوں جو میں کھا لیا کروں اور اپنے گدھے کا چارہ مانگتا ہوں جب تک میں تمہارے یہاں رہوں۔ پھر یہ وہاں مقیم رہے بعد اس کے حضرت عمر نے انھیں لکھا کہ میرے پاس چلے آئو پس جب حضرت عمر کو ان کے آنے کی خبر معلوم ہوئی تو راستہم ین چھپ کے بیٹھ رہے جب حضرت عمر نے ان کو اسی حال میں دیکھا جس حال میں وہ ان کے پاس سے گئے تھے تو آئے اور ان کو لپٹا لیا اور کہا کہ تم میرے بھائی ہو اور میں تمہارا بھائی ہوں۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)