سیدنا) اویس قرنی (رضی اللہ عنہ)
سیدنا) اویس قرنی (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن عامر بن جزء بن مالک بن عمرو بن سعد بن عصوان بن قرن بن رومان بن ناجیہ بن مراد مرادی جو بعد کو قبیلہ قرن میں داخل ہوگئے تھے۔ یہ بڑے مشہور زاہد ہیں۔ ابن کلبی نے ان ک نسب اسی طرح ذکر کیا ہے۔ انھوںنے نبی ﷺ کا زمانہ پایا تھا مگر آپ کو دیکھا نہیں۔ کوفہ میں رہتے تھے وہاں کے علی طبقہ کے تابعین میں سے تھے۔ ابو نصر نے اسیہ بن جابر سے رویت کی ہے کہ ایک محدث کوفہ میں حدیث بیان کیا کرتے تھے جب وہ اپنی حدیث سے فارغ ہوتے تو سب لوگ چلے جاتے صرف چند لوگ باقی رہ جاتے تھے ان میں ایک شخص یسے تھے جو اس قسم کی باتیں کرتے تھے کہ میں س قسم کی باتیں کرتے ہوئے کسی کو نہ سنتا تھا۔ مجھے ان سے محبت ہوگئی چند روز کے بعد میں نے ان کو نہ دیکھا تو میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ تم فلاں شخص کو جو ہمارے پاس بیٹھتے تھے ایسے اور ایس یتھے جانتے ہو حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا کہ ہاں میں انھیں جانتا ہوں وہ اویس قرنی ہیں میں نے پوچھا کہ تم ان کا مکان بھی جانتے ہو اس نے کہا ہاں چنانچہ میں اس کے ساتھ گیا یہاں تک کہ میں ان کے حجرہ میں پہنچا وہ باہر ائے میں نے ن سے کہا کہ اے میرے بھائی تم اب کیوں نہیں آتے انھوں ین کہا برہنہ ہونے کی وجہس ے لوگ ان سے مذاق کیا کرتے تھے اور ستاتے تھے میں نے کہا کہ تم یہ میری چادر لے لو اور اوڑھ لو انھوںنے کہا تم ایسا نہ کرو لوگ مجھے ستائیں گے مگر میں نے بہت اصرار کیا یہاں تک کہ انھوںنے س کو اوڑھ یا اور باہر چلے لوگوں نے (حسب عادت مذاق کرنا شڑوع کیا اور) کہا کہ دیکھو اس شخص کی چادر کس نے چھین لی پس انھوں نے وہ چادر اتار دی اور کہا کہ تم نے دیکھا۔ میں ان لوگوں کے پاس گیا اور کہا کہ تم اس شخص سے کیا چاہتے ہو تم اس کو ستاتے ہو آدمی کبھی برہنہ ہوتا ہے کبھی کپڑے پہنتا ہے (اس میں تمہارے مذاق
کی کیا بات ہے) اور ین نے انھیں سخت سست کہا۔ پھر اتفاق سے اہل کوفہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ان میں ایک شخص وہ بھی تھا جو حضرت اویس سے مذاق کرتا تھا حضرت عمر رضی الہ عنہ نے پوچھا ہ یہاں کوئی قرنی بھیہے تو وہی شخص سامنے گیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول کدا ﷺ نے فرمایا ہے ہ یمن سے ایک شخص تمہارے پاس آئے گا جس کا نام اویس ہوگا اس کے صرف ایک ماں ہگی اسکے جسم رپ سپید داغ ہوگا وہ الہ سے دعا کرے گا تو اللہ اس کو دور کر دے گا صرف بقدر دینار یا درہم کے باقی رہ جائے گا جو شخص تم میں سے اس سے ملے تو اس کو چاہئیکہ ا سے کہے کہ تمہارے لئے استغفار کرے چنانچہ وہ شخص جب وہاں سے لوٹ کر کوفہ آیا تو قبل اس کے کہ انے گھر جائے اویس کے پاس گیا اویس نے کہا کہ آج خلاف عادت تم یہاں کیسے آئے اس شخص نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسا ایسا فرماتے تھے لہذا تم یرے لئے استغفار کرو اویس نے کہا میں نہ کروں گا تاوقت یہ کہ تم مجھ سے دو باتوں کا عہد نہ کر لو ایک تو ی کہ مجھ سے مذاق کبھی نہ کرنا دوسرے یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول کسی اور سے نہ بیان کرنا (اس شخص نے عہد کر لیا) بعد اسکے اویس نے اس کے لئے استغفار کیا۔ ہمیں ابو الفرج بن محمود بن سعد نے اپنی اسناد سے مسلم بن حجاج سے نقل کر کے خبر دی وہ کہتے تھے م سے اسحاق بن ابراہیم حنظلی اور محمد بن مثنی اور محمد بن بشار نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے معاذ بن ہشام نے بیان کیا وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد قتدہس ے وہ زرارہ بن ابی اوفی سے وہ اسیر بن جابر سے نقل کر کے بیان کرتے تھے کہ حضرت عمر بن خطاب رضیاللہ عنہ جب یمن کی جماعتوں میں آتے تھے تو پوچھتے تھے کہ کیا تم میں اویس بن عامر ہیں یہاں تک کہ (ایک مرتبہ) اویس کے پاس گئے ان سے پوچھا کہ تمہیں اویس بن عامر ہو انھوں نے کہا ہاں کہا کہ تم قبیلہ مراد سے ہو بعد اس کے قبیلہ قرن میں داخل ہوئے انھوں نے کہا ہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تمہارے سپیف داغ تھا اب اچھا ہوگیا صرف بقدر ایک درہم کے باقی رہے گیا ہے انھوں نے کہا ہاں حضرت عمر ضی اللہ عنہ نے کہا تمہاری ماں ہیں انھوں نے کہا ہاں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے رسول خدا ﷺ کو یہ فرمتے ہوئے سنا ہے کہ ویس بن عمر یمن ی جماعت کے ہمراہ تمہارے پس آئیں گے وہ پہلے قبیلہ مرد سے ہوں گے پھر قبیلہ قرن میں داخل ہو جائیں گے ان کے سپید داغ ہوگا وہ اچھا ہو جائے گا صرف ایک درہم کے برابر رہ جائے گا۔ ایک ان کی ماں ہوگی وہ اپنی ماں کی بہت خدمتگزاری (٭ماں کی اطاعت اس درجہ ر کتے تھے کہ ابوجودیہ کہ زمانہ مبارک حضرت سرور انبیا ﷺ کا ایا تھا مگر محص اس خیال سے کہ ماں تنہا ہیں ن کی خدمت کون کرے گا حضور کے جمال جہاں آرا سے مشڑف نہیں ہوئے۔ یہ ایک بہت بڑا کامت ھا جو حضرت اویس نے کیا ورنہ کسی سے ایسا صبر باوجود غلبہ شوق کے ممکن نہیں) کریں گے۔ (خدا کے نزدیک وہ ایسے پسندیدہ ہوں گے) اگر وہ (کسی بات پر) اللہ کی قسم کھا لیں گے تو اللہ ان کی بات پوری کرے گا لہذا اگر تم سے ہوسکے کہ تم ان سے اپنے لئے استغفار کرائو تو کرانا (٭اس سے یہ نہیں لازم آتا کہ ان کا مرتبہ صاحابہ سے زائد تھا ہاں اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑے عالی مرتبہ بزرگ تھے) لہذا تم میرے لئے استغفار کرو انھوں نے حضرت عمر رضیاللہ عنہ کے لئے استغفار کیا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ تم کہاں ک ارادہ رکھتے ہو انھوںنے کہا کوفہ کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا میں حاکم کوفہ کو تمہارے لئے کچھ لکھ دوں انھوں نے کہا نہیں مجھے کسم پرسی کی حالت میں رہنا زیادہ پسند ہے بعد اس کے یہ کوفہ واپس آگئے۔ پھر سال آئندہ میں کوفہ کے کچھ شرفا حج کرنے گئے اور وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے اویس کی حالت پچھی
انھوں نے کہا کہ م ان کو اس حال میں چھوڑ آئے یں کہ ان کے رہنے کا امکان بوسیدہ ہے اور ان کے پاس مال اسباب بہت کم ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے رسول خدا ﷺ سے سنا تھا آپ (مجھ سے) فرماتے تھے کہ تیرے پاس اویس بن عامر اہل یمن کے کچھ لوگوںکے ہمراہ آئیں گے وہ پہلے قبیلہ مراد سے ہوں گے پھر قرن میں داخل ہو جائیں گے ان کے سپید داغ ہوگا اور وہ اچھا ہو ائے گا صرف بقدر ایک درہم کے باقی رہ جائے گا۔ ان کی ایک والدہ ہوں گی وہ ان کی بہت اطاعت کریں گے وہ ایسے ہوں گے کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھالیں تو اللہ اس کو پوری کرے گا پس اگر تجھ سے ہوسکے کہ وہ تیرے لئے استغفار کریں تو کرانا یہ سن کے وہ لوگ اویس کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ تم میرے لئے استغفار کرو اویس نے کہا کہ تم ابھی سلف صالح کے پاس سے آتے ہو تم میرے لئے اسغفار کرو حضرت اویس نے پوچھا کہ تم حضرت عمر رضی اللہ عنہس ے ملے تھے انھوں نے کہا ہاں پھر انھوں نے ان لوگوںکے لئے استغفار کیا اب لوگ ان (کے مرتبہ) کو پہچاننے لگے تو وہ روپوش ہوگئے اسیر کہتے ہیں میں نے انھیں ایک مرتبہ ایک چادر اوڑھنے کو فدی تھی تو جب کوئی شخص انھیں دیکھتا تو کہتا کہ یہ چادر اویس کے پاس کہاں سے آئی۔ ہشام کلبی نے بیان کیا ہے کہ اویس قرنی جنگ صفین میں حضرت علی کی طرف سے شہید ہوئے۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)