حضرت خواجہ اویس قرنی
جناب رسالت مآب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے بعد سر دفتر اولیاء اللہ حضرت سہیل یمنی المعروف اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا اسمی گرامی آتا ہے آپ کی فضیلت کے لیے یہ دلیل بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ آپ سرکار دو عالم کے عاشق جانباز تھے۔ آپ نے حضور کے دیدار پر انوار کے بغیر اور خدمت اقدس میں حاضر ہوئے بغیر ہی دولتِ ایمان اور عظمتِ اسلام حاصل کی۔
حضرت خواجہ فریدالدین اپنی کتاب تذکرۃ الاولیاء میں فرماتے ہیں کہ ’’حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات یمن کی طرف منہ کرکے فرمایا کرتے۔ اِنِّیْ لَاَجدُ نَفْسُ الرَّحْمٰنِ مِنْ قَبْلِ یَمَنْ (مجھے یمن کی طرف سے اللہ کی خوشبو آتی ہے) حضور فرمایا کرتے قیامت کے دن حضرت اویس قرنی کی شکل میں ستر ہزار فرشتوں کا مجمع آپ کو اپنی جلو میں لے کر جنت میں داخل ہوگا تاکہ اس عاشق نبی کو کوئی پہچان نہ سکے‘‘۔
شہزادہ داراشکوہ اپنی تصنیف سفینہ الاولیاء میں لکھتے ہیں کہ آپ کا اسم گرامی اویس تھا ۔ نجد کے قبیلہ قرن سے تعلق رکھتے تھے، آپ دو وجوہ کی بنا پر اپنے محبوب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکے ایک تو آپ کی والدہ ماجدہ ضعیف تھیں۔ آپ اُن کی خدمت میں حاضر رہتے دوسرے حضور کے عشق میں غلبۂ حال اور مغلوب الاحوال رہتے۔ ضروریات زندگی شتر بانی سے پوری کرتے۔ جو کچھ کماتے والدہ کی خدمت میں لا رکھتے۔ جو بچ جاتا۔ غریبوں میں بانٹ دیتے۔
آپ نے جنگ احد میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت مبارک کی شہادت کی خبر سنی تو تفصیل معلوم نہ کرسکے کہ کون سا دانت شہید ہوا تھا۔ غلبۂ محبت میں اپنے سارے دانت توڑ ڈالے۔ حضور سرور دو عالم نے اپنی رحلت سے پہلے حضرت علی اور عمر رضی اللہ عنہما کو وصیت فرمائی کہ میرا مرقع میرے اویس قرنی کے پاس جانا اور میرا سلام پہنچانا اور میری امت کے لیے دعا طلب کرنا۔ کیونکہ اویس کی دعا میری امت کے لیے مقبول ہوگی۔ جب آپ لوگ یمن میں جاؤ گے تو اویس کو شتربانوں کے درمیان بیٹھا پاؤ گے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عمر اور حضرت علی دونوں قبیلہ قرن میں گئے۔ لوگوں سے پوچھا کہ آپ لوگوں میں نجد کا رہنے والا کوئی شخص ہے۔ اس کا نام اویس ہے۔ لوگوں نے بتایا ہاں، ایک دیوانہ آدمی عام لوگوں سے علیحدہ بیٹھا رہتا ہے۔ وادی عرنہ میں شتر بانی کرتا ہے۔ دونوں حضرات وادی عرنہ میں پہنچے۔ دیکھا کہ آپ نماز میں مشغول ہیں اور آپ کے اونٹوں کی نگہبانی پر فرشتے مامور ہیں۔ صحابہ کے قدموں کی آواز آپ کے کانوں میں آئی تو آپ نے سجدے سے سر اٹھایا۔ صحابہ نے حضورﷺ کا سلام پہنچایا۔ جواب میں کہا وعلیکم السلام یا اصحاب و ابنائے رسول اللہ! دونوں حضرت اویس کے سامنے بیٹھ گئے۔ حضور کا مرقع مبارک دیا۔ امت محمدیہ کے لیے دعاء مغفرت طلب کی۔ حضرت اویس نے مرقع اٹھایا ۔ چوما اور سر بسجود ہوگئے اور روتے ہوئے کہنے لگے: اے اللہ تیرے محبوب کا مرقع اس وقت تک نہیں پہنوں گا جب تک امت محمدیہ نہ بخشی جائے، تیرے محبوب نے یہ کام میرے ذمہ لگادیا ہے۔ غائب سے آواز آئی۔ اتنے ہزار افراد امت تمہارے لیے بخش دیے گئے مگر آپ اصرار کرتے رہے حتی کہ آواز آئی تمہاری التجا پر اتنی امت محمدیہ بخش دی گئی جتنی تعداد میں بنی ربیع اور بنی مضر کی بکریوں کے بدنوں کے بال ہیں۔
حضرت اویس یہ بشارت پاکر سجدے سے اٹھے۔ مرقع پہنا اور حضرت علی اور عمر رضی اللہ عنہا کو اللہ کی رحمت سے آگاہ کیا۔ یاد رہے کہ بنی ربیع اور بنی مضر دو ایسے قبائل تھے جو کوفے میں لاتعداد بکریوں اور بھیڑوں کے مالک تھے۔ یہ بھیڑ بکریاں اپنے بالوں کی کثرت کی وجہ سے سارے عرب میں مشہور تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اویس کی دعا کی برکت اس صدی کی ساری امت کے علاوہ اتنی تعداد میں امت محمدیہ بخش دی تھی۔
ہرم بن خبان فرماتے ہیں کہ جب میں نے حضرت اویس قرنی کی شفاعت کا مقام معلوم کیا۔ تو بذات خود کوفہ میں پہنچا تاکہ ان بھیڑ بکریوں کی تعداد دیکھ سکوں۔ حضرت اویس قرنی کے متعلق معلوم کیا تو لوگوں نے مجھے بتایا کہ وہ دریائے فرات کے کنارے پر بیٹھے ہیں۔ میں وہاں پہنچا تو آپ کو کپڑے دھوتے دیکھا۔ میں نے پہچان لیا۔ سلام عرض کیا: جواب میں آپ نے وعلیکم السلام کہا، میں نے آگے بڑھ کر دست بوسی کی۔ آپ کی کمزوری کی وجہ سے مجھے اتنا خیال آیا کہ میں رونے لگا۔ آپ نے مجھے تسلی دی اور فرمایا: حَیَّاکَ اللہَ یَا ہَرَمَ۔ اے ہرم اللہ تجھے عمر دے تم یہاں کیسے آئے ہو؟ اور مجھے کیسے پہچانا ہے میں نے بتایا کہ جس طرح آپ نے مجھے پہچان لیا ہے۔ دراصل میری روح نے آپ کو پہچان لیا ہے کیونکہ دونوں کی روحوں کو ایک دوسرے سے آشنائی ہوتی ہے۔ میں نے کہا: اگر اجازت ہو تو میں کچھ عرصہ آپ کے زیر سایہ گزاروں۔ آپ نے فرمایا: جاؤ! اور اللہ کے ذکر کے سائے میں رہو۔ میں نے گذارش کی کوئی نصیحت فرمائیں فرمایا: جب سونے لگو تو موت کو اپنے سرہانے کے نیچے خیال کرو۔ جب اٹھو تو اپنے سامنے کھڑی پاؤ۔ تم جانتے ہو تمہارے والد فوت ہوئے حضرت آدم، حوا، نوح، ابراہیم، موسیٰ، داؤد اور میرے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اسی موت کے ہاتھوں اللہ کے پاس پہنچے ہیں۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر جو خلفاء رسول تھے۔ فوت ہوگئے میں نے یہ بات سن کر کہا اللہ آپ پر رحم فرمائے۔ کیا امیرالمومنین حضرت عمر فوت ہوگئے ہیں؟ آپ نے فرمایا: مجھے اللہ نے خبر دی ہے کہ حضرت عمر شہید کردیے گئے ہیں، بعد میں جب میں مدینہ پہنچا تو مجھے اس خبر کی تصدیق ہوگئی۔
ایک وقت ایسا آیا کہ حضرت اویس رضی اللہ عنہ کو تین روز تک کھانے کو کچھ نہ ملا، چوتھے روز آپ باہر نکلے تو راستے میں سونے کا ایک دینار پڑا پایا۔ آپ نے نہ اٹھایا۔ اور صحراء و بیابان کو نکل گئے اور چاہا کہ درختوں کے پتوں سے پیٹ بھریں۔ صحراء میں ایک بکری کو دیکھا کہ منہ میں ایک روٹی دبائے آپ کی طرف دوڑی چلی آ رہی ہے۔ آپ کے سامنے آکر رک گئی۔ حضرت اویس نے سوچا کہ یہ بکری غالباً اپنے مالک کی روٹی اٹھالائی ہے اس کے منہ سے روٹی کھینچنا اچھی بات نہیں بکری نے زبان حال سے کہا میں اللہ کے بندوں میں سے ایک ہوں۔ یہ روٹی آپ کے لیے لائی ہوں۔ آپنے منہ سے روٹی پکڑی تو بکری اسی وقت غائب ہوگئی۔
کشف المجوب کے مؤلف نے لکھا ہے کہ حضرت اویس قرنی عمر کے آخری دنوں میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملے کچھ دن آپ کی خدمت میں رہے۔ پھر جنگ صفین میں شریک ہوئے اور حضرت علی کے زیر قیادت شہادت کے مرتبہ کو پہنچے بعض احباب نے آپ کے لیے قبر تیار کی۔ مگر سامی کی جگہ ایک سخت پتھر آگیا۔ جسے کاٹنا مشکل تھا۔ مگر غائب سے پتھر میں شگاف پڑ گیا۔ اور آپ کے لیے لحد بن گئی۔ آپ کے کفن کے لیے کپڑے کی تلاش ہوئی تو آپ کے صندوقچے کو کھولا گیا تو کفن کا کپڑا پایا گیا۔ مگر اسے کسی انسانی ہاتھ نے نہیں بنا تھا۔ اسی کفن میں آپ کو دفن کیا گیا۔
حضرت اویس قرنی نے سوم رجب المرجب ۳۲ھ کو وفات پائی۔ مگر امام عبداللہ روضۃ الریاض میں ۳۷ھ اور صاحبِ مخبر الواصلین نے ۳۹ھ سالِ وصال لکھا ہے۔
تاریخ وصال:
شاہ دور زمن اویس قرن |
|
گل باغِ یمن اویس قرن |
||||
ہادی بود |
زاہد ہادی |
سرور حبیب |
ہادیٔ واھد |
ہادی ادیب |
||
۳۲ |
۳۰ |
۳۷ |
۳۹ |
۳۹ |
||
تاریخ ہائے وصال ہیں۔
(خزینۃ الاصفیاء)