اے عشق تیرے صدقے
اے عشق تیرے صدقے
تحریر: مولانا محمد ملک الظفر سھسرامی
عشقِ رسولِ کونینﷺ، قومِ مسلم کا وہ عظیم و گراں قدر سرمایہ ہے جس سے ہر پست کو بالا کرنے کا حوصلہ پروان چڑھتا ہے۔ نعتِ مقدّس اسی عشق کے والہانہ انداز کا خوبصورت و حسین وسیلۂ اظہار ہے۔ لفظوں کی بازی گری سے اس صنفِ مقدّس کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ فن اپنے کمال پر ہو اور جذبۂ عشقِ مصطفیٰ ﷺ دل میں ہو، تو نعت اپنے حقیقی مفہوم و معانی سے قریب تر نظر آئے گی۔ شریعت و شعریت کے اصول و ضوابط کی مکمل پاس داری کے بغیر نعت گوئی کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ اس راہ میں بھٹکا تو نہ دنیا کا رہا، نہ دین کا۔
اگر شعری ضابطوں کے عدمِ التزام سے زبان و ادب کی لطافتیں مجروح ہوں گی اور شعر علمائے ادب کے نزدیک ساقط الاعتبار قرار پائے گا تو شرعی مسلّمات کی خلاف ورزی شاعر کی گمراہی وضلالت کا سببِ جلی بن کر سامنے آئے گی۔ مثلاً ؎
کر رحم ریاض اپنے پر اے شہ انس و جاں
وہ ان دنوں ہستی کے دشوار سفر پر ہے
دل و جگر کو حرارتیں دیں نگاہ کو تابیش عطا کیں
تراشے پتھر سے جس نے انساں میں ایسے آزر کی نعت لکھوں
اوّل الذّکر شعر، اگر تعقیدِ لفظی کے سبب علمائے ادب کی نقد و نظر سے بچ نہیں سکتا تو ثانی الذّکر شعر میں سرکارِ دو عالم ﷺ کی ذاتِ اقدس کو ایک بت ساز و بت پرست سے گھٹیا تشبیہ دے کر شرعی دستور کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی گئی ہیں۔ ہمیں تواس ذات ِ پاک کے تعلق سے ادب و احترام کی نہایت سخت تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ الفاظ کے استعمال میں بھی حد درجہ محتاط رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رٰعِنَا وَقُوۡلُوا انۡظُرْنَا (اَلْبَقَرَۃ: 104)
ترجمہ: اے ایمان والو!راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور! ہم پر نظر رکھیں۔(کنز الایمان)
(اس میں تو ہمیں یہی درس دیا جا رہا ہے)
لیکن صد افسوس کہ بعض شعرا کے یہاں اگر افراط کی مثالیں موجود ہیں تو دوسری طرف ہمیں تفریط کا نقص و عیب نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ کہیں نبوّت کا ڈانڈا الوہیت سے ملانے کی روایت ہے تو دوسری جانب افضل البشر سیّد الانبیاءﷺ کو عام انسانوں کی صف میں لا کر کھڑا کرنے کی جسارتِ بے جا بھی۔ جب کہ ہر دو خیال کی صاف اور واضح تردید قرآنِ مقدّس میں موجود ہے۔ اگر ایک شرک ہے تو دوسرا کفر اور دونوں نا قابلِ معافی جرم ہیں۔
اردو زبان و ادب میں نعت کی روایت اتنی ہی قدیم ہے جتنی قدیم خود اس زبان و ادب کی پاکیزہ روایتیں ہیں۔ یعنی اردو ادب روزِ اوّل سے ہی وصفِ مومنانہ سے متصف رہا، کیوں کہ جس ماحول میں اس نے آنکھیں کھولیں وہاں دین و مذہب کا پرچم لہرا رہا تھا۔
یہ الگ بات ہے کہ اس کی منفی حیثیت کو تسلیم کرنے میں ناقدانِ سخن نے حق و انصاف سے کام نہیں لیا اور خود کو اس موڑ پر منصف اور غیرِ جانب دار نہیں رکھ سکے۔ ۱۸۵۷ء کا انقلابی دور جہاں اردو زبان و ادب کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، وہیں اس دور میں اردو کی حمدیہ و نعتیہ شاعری کے خط و خال میں بھی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں اور کچھ نئے نقوش سامنے آئے۔ چناں چہ اس دور کی حمدیہ و نعتیہ شاعری میں کرب و اضطراب اور بے چینی و بے بسی کی واضح تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔
اہلِ سنّت و جماعت جس دور میں داخلی و خارجی بحران سے گزر رہی تھی اسی دور میں بریلی کی سر زمین پر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضلِ بریلوی قُدِّسَ سِرُّہٗ نے اپنے شعور کی آنکھیں کھولیں۔ عشقِ رسول عَلَیْہِ التَّحِیَّۃُ وَالثَّنَآء تو جیسے انہیں گھٹی میں پلا دیا گیا تھا۔ چناں چہ جب آپ نے گردو پیش کے حالات کا جائزہ لیا تو احساسِ درد و کرب کی شدّت سے ترپ اٹھے۔ عشقِ رسول عَلَیْہِ التَّحِیَّۃُ وَالثَّنَآء کے چراغ کی لو کو مدھم کرنے کی تحریک کا شباب دیکھا تو وہ اپنے حساس دل کے ہاتھوں مجبور ہو گئے اور ناموسِ رسالت کی چوکیداری کے لیے سینہ سپر ہو گئے۔ اس ظلمت بدوش دور میں اگر ایک طرف یہود و نصاریٰ کی اسلام مخالف ریشہ دوانیوں سے اہلِ اسلام ابتلا و آزمائش کے دور سے گزر رہے تھے تو دوسری طرف توہب پسند افراد کے سازشی جال نے سادہ لوح عوام کے لیے سخت مشکلات کھڑی کر دی تھیں۔ اگر بریلی کے اس مردِ مجاہد نے تحفّظِ ناموسِ رسالت کی تحریک کو رنگ و روغن فراہم نہ کیا ہوتا تو حالات کے زیرِ اثر قیاس یہ کہتا ہے کہ ہندوستان میں خوش عقیدگی کے شجرِ سر سبز و شاداب کو خزاں رسید ہوتے دیر نہ لگتی۔
عشقِ رسول عَلَیْہِ التَّحِیَّۃُ وَالثَّنَآء، امام احمد رضا قُدِّسَ سِرُّہٗ کی حیات کا مرکزی نقطہ تھا۔ ان کے شب و روز کا تجزیاتی مطالعہ کرنے والوں پہ یہ گوشہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ عنوان امام موصوف کی زندگی کا سرنامہ بنا۔ آپ کی اس وارفتگی اور عشق ومحبّت کا اقرار و اعتراف تو ان کے سخت سے سخت تر مخالف کو بھی رہا۔ جبھی تو وہ یہ اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکے۔
مولانا کوثر نیازی، مولوی ادریس کاندھلوی کا بیان نقل فرماتے ہیں:
’’حقیقت میں جسے لوگ امام احمد رضا کا تَشدّد قرار دے رہے ہیں وہ بارگاہِ رسالت میں ان کے ادب و احتیاط کی روش کا نتیجہ ہے۔‘‘ (امام احمد رضا ایک ہمہ جہت شخصیت)
اسی طرح مولانا کوثر نیازی صاحب مولوی مفتی محمد شفیع دیوبندی (بانی دار العلوم کراچی) کا یہ بیان بھی روایت فرماتے ہیں:
’’مولانا احمد رضا خاں کی بخشش تو انہیں فتووں کے سبب ہو جائی گی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: احمد رضا! تمہیں ہمارے رسول سے اتنی محبّت تھی کہ بڑے بڑے عالموں کو بھی تم نے معاف نہیں کیا۔‘‘ (امام احمد رضا ایک ہمہ جہت شخصیت)
اسے کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ تاریخ کی یہ وہ صداقتیں ہیں جنہیں مستقبل کا مؤرّخ نظر انداز کر کے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ عشقِ رسول عَلَیْہِ التَّحِیَّۃُ وَالثَّنَآء اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کی حیات کے پورے منظر نامے پر کچھ اس طرح سایہ فگن ہے کہ کوئی لمحہ اس سے خالی نظر نہیں آتا اور سچ تو یہ ہے کہ اس جذبے کے بغیر ایمان کا دعویٰ کھوکھلا اور ہر نعرہ بے قدر و قیمت ہے۔
قُلْ اِنۡ کُنۡتُمْ تُحِبُّوۡنَ اللہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحْبِبْکُمُ اللہُ (آلِ عمران: 31)
ترجمہ: اے محبوب! تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرماں بردار ہو جاؤ" اللہ تمہیں دوست رکھے گا۔ (کنز الایمان)
بغیرِ اتباعِ رسولﷺ، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول ممکن نہیں اور اتباع رسولﷺ محبّت رسول ﷺ کے بغیر ممکن نہیں۔ جبھی تو امامِ عشق و محبّت اعلیٰ حضرت عشقِ رسولﷺ کو جانِ ایمان قرار دیتے ہوئے یوں گویا ہوئے ؎
اللہ کی سر تا بہ قدم شان ہیں یہ
ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے اِنھیں
ایمان یہ کہتا ہے میری جان ہیں یہ
اسی بات کو دوسرا پیرایۂ اظہار دیا تو عشق مصطفیٰ عَلَیْہِ التَّحِیَّۃُ وَالثَّنَآء کی حقیقت اور واضح انداز میں سامنے آئی۔
جان ہے عشقِ مصطفیٰ روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزا نازِ دوا اٹھائے کیوں
عشقِ رسول عَلَیْہِ التَّحِیَّۃُ وَالثَّنَآء کا یہ رشتہ جس قدر حساس و بیدار ہو گا ایمان کی فصل بھی اسی قدر ہری بھری ہو گی۔ روایت ہے کہ حضرت سیّدنا امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ایک مجلس میں کدو کا تذکرہ نکلا کہ سرکارِ دو عالمﷺ کو کدو بہت پسند تھے۔ اسی مجلس میں کسی شخص نے کہا کہ لیکن مجھے پسند نہیں ہے حضرت سیّدنا امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تلوار نیام سے باہر نکال لی اور فرمایا:
جَدِّدِ الْاِیْمَانَ وَاِلَّا لَاَقْتُلَنَّکَ
تجدیدِ ایمان کرو، ورنہ تمہاری گردن اڑادوں گا۔
یہ حسین جذبہ اسی نازک و حساس رشتے کی علامت تھا اور مسلمانوں کی قوت و طاقت کے اس سر چشمے سے واقفیت ہم سے زیادہ ہمارے مخالفین کو رہی۔ اس برِّ صغیر میں مسلمانوں کی قوت و طاقت کو منتشر کرنے کے لئے جہاں ان کے قومی، ملی ورثے کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی گئی، ۱۸۵۷ء کے بعد مسلمانوں کو مِنْ حَیْثِ الْقَوْم باغی قرار دے دیا گیا، وہیں دشمنوں کی جانب سے اس بات کی بھی کوشش ہوئی کہ رسولﷺ کی ذاتِ اقدس پر حملے کیے جائیں۔ سیرتِ طیّبہ کا پاکیزہ آئینہ غلط سلط روایات کے ذریعے دھندلا کرنے کی کوشش ہوئی تاکہ مسلمانوں کا روحانی تعلّق اس سر چشمۂ قوّت و طاقت سے کٹ کر رہ جائے اور آپﷺ کی ذاتِ اقدس سے جواُن کا قلبی و روحانی رشتہ ہےاس کی گرفت دھیرے دھیرے کمزور ہونے لگے۔ چناں چہ اس تحریک کو بال و پر فراہم کرنے کے لیے عیسائی و یہودی مشینری نے نہایت عیاری سے کہنہ مشق اور تجربہ کار اساتذہ و پروفیسرز کی ذہانت و فطانت کو آلۂ کار بنا کر اپنے عزائم کو منزل سے ہم کنار کرنے کی جدو جہد شروع کر دی۔ پہلے ان اساتذہ کی قدر و قیمت کے تعین کے لیے ماحول سازی کی گئی اور ان کی ہمہ دانی اور تحقیقات کو روشن خیال طبقے میں مستند و معتبر بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اس کے بعد ان سے اقدارِ اسلامی اور شانِ رسالت والوہیت پر نہایت شاطرانہ انداز میں شب خون مارنے کا کام لیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہماری قوت و طاقت کا سر چشمہ عشقِ مصطفیٰ عَلَیْہِ التَّحِیَّۃُ وَالثَّنَآء ہی ہے۔ ؏:
جان ہے عشقِ مصطفیٰ روز فزوں کرے خدا
نعتیہ شاعری عشقِ رسول عَلَیْہِ التَّحِیَّۃُ وَالثَّنَآء کے اظہار کا وسیلہ ہے؛ لہٰذا، نعتیہ شاعری کے لئے عشق کا التہاب اور جذباتِ صادقہ کا زادِ سفر ساتھ ہو تو اس راہ کی مسافت طے کرنے کا ارادہ کیا جا سکتا ہے، ورنہ اس مقدّس پتھر کو آنکھوں سے بوسہ دے کر یہ کہتا ہوا سمتِ سفر بدل دے۔ ؏:
عرفی مشتاب ایں رہِ نعت ست نہ صحرا ست
غالب نے کہا تھا:
درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا بُرا نہ ہوا
اس شعر میں غالؔب نے دردِ محبّت کے منّت کشِ دوا نہ ہونے پر اظہارِ شکر ادا کیا تھا۔ لیکن فاضل بریلوی نے مذکورہ شعر میں عشقِ رسول عَلَیْہِ التَّحِیَّۃُ وَالثَّنَآءکے کیف و سرور کو ارفع و اعلیٰ مقام دے کر بتایا ہے جسے اس درد و کرب کا مزا مل گیا ہووہ نازِ دوا اٹھائے گا کیوں؟
فاضلِ بریلوی قُدِّسَ سِرُّہٗ کی ساری زندگی عشقِ رسولعَلَیْہِ التَّحِیَّۃُ وَالثَّنَآء کی اسی آنچ کو تیز سے تیز تر کرنے میں گزری۔ نثر نگاری کا میدان ہو یا نظم نگاری کا، فتویٰ نویسی کا معاملہ ہو یا درس گاہ کا، وعظ و تقریر ہو یا پند و نصائح ہرمحاذ پر آپ نے عظمتِ رسول عَلَیْہِ التَّحِیَّۃُ وَالثَّنَآءکے خلاف ہونے والی سازشوں کا دندان شکن جواب دیا۔ وہ مومن کی قوت و طاقت کا اصل سرمایہ عشقِ رسول عَلَیْہِ التَّحِیَّۃُ وَالثَّنَآء ہی کو جانتے اورسمجھتے تھے چناں چہ نعتیہ شاعری میں بھی انہوں نے اس پاکیزہ چراغ کی مدھم ہوتی لو کو تیز تر کرنے میں اپنی ساری توانائی صرف فرمائی۔ حدائقِ بخشش کا اگر تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو عشقِ رسول ﷺ پورے دیوان کا سرنامہ قرار پائے گا۔ عشق کے اس اظہار میں وہ خلاف ِ واقعہ باتوں کو نظم کرنے کے قائل نہ تھے وہ اس بات کے شدید مخالف تھے کہ دنیاوی شاعروں کی طرح بے سروپا باتیں نعتِ مقدّس میں نظم کر کے اپنی عاقبت خراب کی جائے کیوں کہ اس سلسلے میں سرکارِ دو عالمﷺ کی اس وعید پر ان کی نگاہ تھی۔
مَنْ کَذِبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّاْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ
جو عمداً مجھ پر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ آگ بنا لے۔
نعتیہ شاعری کے میدان میں غلو اور مبالغے کے قطعی قائل نہ تھے، جو بات بھی نظم کی جائے وہ واقعات و حقائق کے عین مطابق ہو۔ کوئی واقعہ خلافِ روایت نہ بیان کیا جائے کیوں کہ مذہبی شاعری ہماری عبادت ہے اور عبادت میں اخلاص وللہیت، راست بازی و صداقت کے عناصر شامل نہ ہوں تو پھر وہ عبادت، عبادت نہیں رہ جاتی بلکہ معصیت بن جاتی ہے۔ ہجر و وصال کے تعلق سے گزرنے والی وارداتِ قلبی کو مبالغہ اندازی کے ساتھ بیان کرنے کو بارگاہِ نبوی عَلَیْہِ التَّحِیَّۃُ وَالثَّنَآءکے آداب و احترام کے منافی قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے خود بھی اس قسم کے مضامین سے اجتناب و پرہیز کیا ہے اور دوسروں کے اشعار میں بھی اس قسم کی بے احتیاطی کا عیب دیکھا تو بہت ہی نفیس انداز میں اس کی اصلاح کا فریضہ انجام دیا۔
چناں چہ ایک شاعر کی اصلاح کے تعلق سے یہ واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔ ایک حافظ صاحب جو حضورِ پُر نور عَلَیْہِ التَّحِیَّۃُ وَالثَّنَآءامامِ اہلِ سنّت قُدِّسَ سِرُّہٗ کے مخلصین میں تھے، کچھ کلام بغرض ِ اصلاح سنانے کے لئے حاضر ہوئے۔ اجازت عطا ہوئی سنانا شروع کیا درمیان میں اس مضمون کے اشعار تھے۔ یارسول اللہ میں حضور کی محبّت میں دن رات تڑپتا ہوں۔ کھانا، پینا، سونا سب موقوف ہو گیا ہے، کسی وقت مدینۂطیّبہ کی یاد دل سے علیحدہ نہیں ہوتی، اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا حافظ صاحب! اگر جو کچھ آپ نے لکھا ہے یہ سب واقعہ ہے تو اس میں شک نہیں کہ آپ کا بہت بڑا مرتبہ ہے کہ حضورِ اقدسﷺ کی محبّت میں فنا ہو چکے ہیں اور اگرمحض شاعرانہ مبالغہ ہے تو خیال فرمائیے کہ جھوٹ اور کون سی سرکار میں جنہیں دلوں کے ارادوں، خطروں، قلوب کی خواہشوں اور نیتوں پر اطلاع ہے جن سے اللہ عَزَّوَجَلّ نے ماکان وما یکون کا کوئی ذرّہ نہیں چھپایا اور اس کے بعد اس قسم کے اشعار کو کٹوا دیا، درج بالا واقعے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نعتِ رسولﷺ کے تعلّق سے فاضلِ بریلوی کا مزاج و منہاج کس قدر محتاط اور مؤدّب تھا۔ وہ تعریف و ستائش میں شاعرانہ مبالغے کے قطعی قائل نہ تھے، انہوں نے تو نعتیہ شاعری میں اپنا واضح نظریہ بیان فرما دیا:
قرآن سے میں نے نعت گوئی سیکھی
یعنی رہے احکامِ شریعت ملحوظ
میں اس قسم کا کوئی دعویٰ نہیں کروں گا کہ امامِ عشق و محبّت حضرت رضا بریلوی نے عشقِ رسالت مآبﷺ کے جذبے سے سرشار ہو کر نعتیہ شاعری کے گلشن کو مہکانے اور بزمِ نعت کو سجانے سنوارنے کی عملی پیش رفت کی تو میؔر، داؔغ، غالؔب، ذوقؔ اور ان جیسے دوسرے اساتذۂ سخن کے فکری سرمائے کی قدر و قیمت میں حد درجہ گراوٹ آئی اور حضرت رضا بریلوی کے نعتیہ اشعار کے مقابلے میں ان کا فکری سرمایہ فرو تر نظر آیا۔ میں اس قسم کے تقابل کے خلاف اپنی فکر رکھتا ہوں۔ میر و غالب، داغ و ذوق سے موازنہ کر کے نعتیہ ادب میں حضرت رضا بریلوی کے مقام و مرتبہ کا تعیّن درست نہیں، اس قسم کے تقابل کو میں سرے سے باطل قرار دیتا ہوں۔ جس طرح ایک انجینئر سے ایک ڈاکٹر کا، ایک استاد سے ایک طبیب کا تقابل نار و اقرار پائے گا؛ ٹھیک اسی طرح ایک ناعتِ رسول عَلَیْہِ التَّحِیَّۃُ وَالثَّنَآء کا تقابل، زلف و رخسار، کاکل و گیسوئے خم دار کے شاعر سے غیر مناسب ہو گا، بلکہ یہ تقابل تو اہانت پر محمول کیا جائے گا۔ امامِ عشق و محبّت حضرت فاضلِ بریلوی قُدِّسَ سِرُّہٗ عشقِ رسول عَلَیْہِ التَّحِیَّۃُ وَالثَّنَآءکی شاہراہ کے راہی تھے، دنیوی محبوب کی محبّت میں سر گرداں رہنے والے شعرا سے ان کا کسی قسم کا تقابل اور موازنہ ناروا و غیر مستحسن ہے۔
فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ کے نعتیہ دیوان کا مطالعہ کرنے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے اردو نعتیہ شاعری میں اپنی ایک انفرادی شناخت قائم کی اگر بہاریہ شاعری کے امیر، میر و غالب ہیں تو یقیناً اردو کی نعتیہ شاعری کے امام سیّدی امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ ہیں۔ آپ نے نئے لب و لہجہ، دل کو چھونے والی ترکیب، محتاط، الفاظ، انوکھے و اچھوتے مضامین نے نعت کے خدو خال سجائے سنوارے اور نعت گو شعرا کے لیے اس راہ میں واضح خطوط متعیّن فرما کر اس راہ کی مشکلات آسان کر دیں۔
اصغر گونڈوی نے حشر میں شانِ کرم کے بے تابانہ اظہار پر …………… اپنے جذبات کی ترجمانی اور اس شانِ کرم سے خود کو بہرہ ور کرنے کی آرزو و اشتیاق کو ایک نرالے انداز میں نظم کے ساتھ دل پذیر خیال آرائی کی تھی۔
سنا ہے حشر میں شانِ کرم بے تاب نکلے گی
لگا رکھا ہے سینے سے متاع ذوقِ عصیاں کو
شانِ کرم اور متاع ذوقِ عصیاں مین جو لفظی و معنوی مناسبتیں ہیں ان کی شعری اعتبار سے جس قدر داد دی جائے کم ہے، لیکن عقیدے کی رو سے اس کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو شعر محلِ نظر قرار دیا جائے گا اور شاعر خود کو اعتراض کی بالا دستیوں سے محفوظ نہیں رکھ پائے گا۔ کیوں کہ شانِ کرم کے بے تابانہ اظہار کے موقع پر………….. متاعِ ذوقِ عصیاں کو سینے سے لگا کر اس کی شانِ کریمی سے بہرہ ور ہونے کی آرزو تمنّا بہر حال محلِ نظر رہے گی۔ اب ذرا اسی قسم کی مضمون آفرینی کو شریعت و شعریت کی خوبصورت فضا میں پرورش پاتا ہوا سیّدی امام احمد رضا فاضل بریلی کے اس شعر میں دیکھیں:
کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمہاری واہ واہ
قرض لیتی ہے گنہ پرہیز گاری واہ واہ
ندرتِ خیال، پاکیزگیِ فکر اور زبان و بیان کی تمام خوبیاں اس شعر میں اکٹھی ہو گئی ہیں۔ پرہیز گاری کے قرضِ گنہ لینے میں جو مضمون آفرینی اور ندرتِ بیانی ہے وہ حد درجہ لائق داد ہے۔ سرورِ عالمﷺ کی شفاعتِ عظمیٰ سے خود کو بہر ور کرنے کی آرزو و تمنّا کا اظہار شریعت کی پاس داری کرتے ہوئے جس بے تابانہ انداز میں کیا جا رہے اس پر یہ شعر نعتیہ شاعری میں خود اپنی مثال آپ ہے، لیکن عشق و محبّتِ امام نے اس مضمون کو کس قدر محتاط انداز میں کہ زبان و بیان اور جذبات کے تلاطم میں کسی قسم کی کمی کیے بغیر شریعت کی بالادستی قائم رکھی ہے۔
درِرسولﷺ پر حاضری کے وقت مردِ مومن جن قلبی واردات سے گزرتے ہیں ان کا اظہار مختلف اسلوب و انداز میں شعرائے کرام نے کیا ہے۔
مثلاً ایک شاعر نے یوں اظہارِ خیال کیا:
چلوں میں جانِ حزیں کو نثار کر ڈالوں
نہ دیں جو اہلِ شریعت جبیں کو اذنِ سجود
بیؔدم شاہ وارثی نے اس مضمون کو یوں نظم کیا اور ان کے ہاتھوں سے دامنِ احتیاط بھی چھوٹ گیا:
بیدؔم مِری قسمت میں سجدے ہیں اسی در کے
چھوٹا ہے نہ چھوٹے گا سنگ در جاناناں
لیکن امام احمد رضا فاضلِ بریلوی کی احتیاط کا ایک پُر کیف منظر ملاحظہ کریں، فرماتے ہیں:
پیشِ نظر وہ نو بہار سجدے کو دل ہے بے قرار (۱)
روکیے سر کو، روکیے ہاں! یہی امتحان ہے
سیّدی امام احمد رضا فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی نعتیہ شاعری کا تجزیاتی مطالعہ اس یقین کو پختہ کرتا ہے کہ انہوں نے شعریت و شریعت کی مکمل پاس داری فرماتے ہوئے گلشنِ نعت میں ایک خوش گوار اور قابلِ قدر اضافہ کیا ہے۔ یقیناً وہ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں۔
؏: مُلکِ سخن کی شاہی تم کو رؔضا مسلّم
(پیغامِ رضا ممبئی (فکر و تدبیر نمبر)، اپریل تا جون 2009ء)