امام احمد رضا اور نظریہ دعوت
امام احمد رضا اور نظریۂ دعوت
تحریر: مولانا محمد توفیق برکاتی مصباحی
مجددِ اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی علیہ الرحمۃ والرضوان (۱۲۷۲ھ- ۱۳۴۰ھ) کی ہمہ جہت ذات اور قابلِ قدر شخصیت کسی تعارف، تبصرے اور ترجمے کی محتاج نہیں، آپ نے پوری زندگی دین کی ترویج و اشاعت کے لیےوقف کر دی، پژ مردہ قلوب میں عشقِ نبویﷺ کا چراغ جلایا، شعائرِ اسلام کے تحفّظ و بقا کی خاطر قلمی جہاد کیا، امّتِ مسلمہ کے عقائد کو استحکام عطا کیا، خدا اور رسول کی ذات پر، معمولاتِ اہلِ سنّت پر اور مسلّمہ عقائد پر ہونے والے حملوں کا بھر پور دفاع کیا اور دلائل و شواہد کی روشنی میں احقاقِ حق و ابطال باطل کا فریضہ انجام دیا۔ آپ کے علمی و فقہی کارہائے نمایاں اور دینی و ملی خدماتِ جلیلہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں، جن پر عالمی جامعات میں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ آپ کی آفاقی شخصیت کے نت نئے گوشے سامنے آرہے ہیں، تابندہ نقوش سے عالمِ اسلام بہرہ ور ہو رہا ہے۔ مذہب کے فروغ و ابلاغ میں امام احمد رضا کی تعلیمات اور عالم گیر ذات سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہے، جس کی خوش نما اور رنگا رنگ کرنوں سے پوری دنیائے اسلام رہ نمائی حاصل کر رہی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد نقشبندی رقم طراز ہیں:
امام احمد رضا کی ذات ایک بحرِ ذخّار اور روشن آفتاب و ماہتاب ہے، جس کی موجوں اور شعاؤں کا شمار کرنا ممکن نہیں۔
حضرت علامہ سیّد آلِ رسول حسنین میاں نظمی مارہروی فرماتے ہیں:
امام احمد رضا علیہ الرحمۃ والرضوان کا یہ کمال نہیں کہ وہ علومِ عقلیہ و نقلیہ کے ماہر تھے، یہ بھی کمال نہیں کہ وہ بہت بلند پائے کے فلسفی تھے، یہ بھی کمال نہیں کہ ریاضی و ہیئت کے دانائے راز تھے، یہ بھی کمال نہیں کہ فقہ کے افق کے درخشاں آفتاب تھے، یہ بھی کمال نہیں کہ عربی، فارسی، اردو اور ہندی میں اچھی شاعری کرتے تھے۔ کمال تو یہ ہے کہ وہ اُن تمام خوبیوں کے جامع تھے جو انفرادی طور پر دوسرے لوگوں میں شانِ افتخار اور اولوالعزمی کا سبب بنا کرتی ہیں۔
دعوت و ارشاد کی حقیقت، اس کا حقیقی مفہوم:
اُسلوبِ دعوت اور اس کے بنیادی نکات امام احمد رضا کی نگاہ میں کیا کرتے تھے، آپ کی تعلیمات سے کیا اشارہ ملتا ہے، اس کی اہمیت و افادیت کے تعلق سے آپ نے کیا نظریہ پیش کیا؟ زیرِ ترتیب مضمون میں ان تمام باتوں پر قدرے تفصیلی بحث کی گئی ہے۔
دعوت و تبلیغ ایک عظیم مذہبی فریضہ ہے جو ایمان والوں پر خدا وندِ قدّوس کی جانب سے تفویض ہوا ہے۔ قرآنِ مجید کی بہت سی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں، خود امّتِ محمدیہ کی افضلیت و برتری اور شان و عظمت کی وضاحت میں قرآن۔ انبیائے کرا م و رسولانِ عظام کی بعثت و تشریف آوری کا مقصد دعوت الی الحق ہی تھا، بقدرِ استطاعت گرد و پیش کے پھیلے ہوئے منکرات کا قلع قمع اور خلافِ شرع امور کا انسداد اور قوم کی نسبت رہ نمائی بہت ضروری ہے۔
اعلیٰ حضرت قُدِّسَ سِرُّہٗ فرماتے ہیں:
ازالۂ منکر بقدرِ قدرت فرض ہے۔(فتاوٰی رضویہ، جدید جلد ۲۴، ص ۱۶۷)
مزید فرماتے ہیں:
امر بالمعروف و نہی عن المنکر ضرور بنصوصِ قاطعۂ قرآنیہ اہم فرائضِ دینیہ سےہے اور بحالِ وجوب اس کا تاریک آثم و عاصی اور ان نافرمانوں کی طرح خود بھی مستحق ِ عذابِ دنیوی و اخروی۔ احادیثِ کثیرہ اس معنیٰ پر ناطق ہیں۔ (فتاوٰی رضویہ، جدید جلد ۲۴، ص ۱۶۷)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
یوں نہیں، خدا کی قسم! یا تو تم ضرور امر بالمعروف کرو گے اور ضرور نہی عن المنکرکرو گے، یا ضرور اللہ تعالیٰ تمہارے دل آپس میں ایک دوسرے پر مارے گا پھر تم سب پر اپنی لعنت اتارے گا جیسی ان بنی اسرائیل پر۔
(سننِ ابو داؤد، کتاب الملاحم، باب الامر والنھی؛ فتاوٰی رضویہ، جدید جلد ۲۴، ص ۱۶۰)
دعوت و تبلیغ کی اہمیت و افادیت و ضرورت مسلّم تو ہے ہی اس سے زیادہ اہمیت لازمی امور کی ہے، جن کی بجا آوری اس عمل میں بے حد ضروری ہے، یہ میدان بڑا دشوار گزار اور پُر آشوب ہے جس میں حکیمانہ طرزِ عمل اور ناصحانہ اسلوبِ بیان اختیار کرنا، نیز عصری تقاضوں کو پیشِ نظر رکھنا اور بہترین تدابیر کو عمل میں لانا بہت ضروری ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ (النحل: ۱۲۵)
اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے۔(کنز الایمان)
یہی وجہ کہ حدیث شریف کے اندر حکم دیا گیا کہ تبلیغ سامعین کے حال کے مطابق ہونی چاہیے۔ اعلیٰ حضرت قُدِّسَ سِرُّہٗ نے فتاوٰی رضویہ میں اس طرز کی کئی احادیث ذکر فرمائی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جب تو کسی قوم کے ا ٓگے وہ باتیں بیان کرے گا جن تک ان کی عقلیں نہ پہنچیں تو ضرور کسی پر فتنہ ہوں گی۔
دین کی ترویج و اشاعت میں حکمت و موعظت ، نرمی و ملائمت، خوش اخلاقی و نرم خوئی کو روح کا درجہ حاصل ہے، اس لیے کہ سنجیدہ گفتگو دل پذیر ہوتی ہے اور اذہان خود بخود اس کی جانب جھکتے ہیں، اس کے بر خلاف غیر سنجیدہ جذباتی اور تشدّد پسندانہ طرز تکلم سے کام بننے کی بجائے بگڑ جاتا ہے اور اس سے منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔
نرمی کے فوائد کے بارے میں امامِ اہلِ سنّت ارشاد فرماتے ہیں:
دیکھو نرمی کے جو فوائد ہیں وہ سختی میں ہرگز حاصل نہیں ہو سکتے۔ اگر اس شخص سے سختی برتی جاتی تو ہر گز یہ بات نہ ہوتی۔ جن لوگوں کے عقائد مذبذب ہوں ان سے نرمی برتی جائے کہ وہ ٹھیک ہو جائیں۔ یہ جو وہابیہ میں بڑے بڑے ہیں ان سے بھی ابتداءً بہت نرمی برتی گئی۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت)
اپنے ایک فتوے میں تحریر کرتے ہیں:
مقاصدِ شرع سے ماہر خوب جانتا ہے کہ شریعتِ مطہرہ رفق و تیسیر پسند فرماتی ہے، نہ معاذ اللہ تضییق و تشدید۔(فتاوٰی رضویہ، جدید جلد ۱۱، ص ۱۵۱)
لوگوں کو برائیوں سے منع کرنے اور نیک باتوں کا حکم دینے میں حدود اللہ کی رعایت اور اس کا پاس و لحاظ ناگزیر ہے، بے جا تشدد اور تعصّب زدہ اسلوبِ بیان سخت نقصان کا پیش خیمہ ہے۔
فرماتے ہیں:
امر بالمعروف و نہی عن المنکر عمدہ تمغائے مسلمانی ہے۔ اس نیک کام میں بہت لوگ حدودِ خداوندی کا خیال نہیں رکھتے اور تشدد و تعصّب کو یہاں تک نباہتے ہیں کہ ان کا گناہ ان جاہلوں کے گناہ سے بدر جہا زائد ہو جاتا ہے جن کے لیے یہ ناصح مشفق بنے تھے۔(فتاوٰی رضویہ، جدید جلد ۱۱، ص ۱۰۹)
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی تائید قرآن و حدیث میں واضح الفاظ میں کی گئی ہے۔ ان کی دل داری اور اطاعت بہر حال لازمی ہے؛ ہاں، اگر یہ دل داری اور فرماں برداری شرعی امور میں حائل ہو تو جائز نہیں۔ ماں باپ اگر خلافِ شرع کام بھی کریں تو انہیں اس سے روکنے اور باز رکھنے کے لیے سختی سے پیش آنے کی ممانعت ہے، بلکہ نرمی اور ان کا ادب و احترام بہر صورت ضروری ہے۔ امر و نہی میں والدین سے سخت کلامی جائز نہیں۔
ایک دوسرے فتویٰ میں تحریر کرتے ہیں:
اطاعتِ والدین جائز باتوں میں فرض ہے، اگرچہ وہ خود مرتکبِ کبیرہ ہوں، ان کے کبیرہ کا وبال ان پر ہے، مگر اُس کے سبب یہ امورِ جائزہ میں ان کی اطاعت سے باہر نہیں ہو سکتا، ہاں اگر وہ کسی ناجائز بات کا حکم کریں تو اس میں ان کی اطاعت جائز نہیں۔
لا طاعۃ لأحد فی معصیۃ اللہ تعالٰی”(مسندِ امام احمد بن حنبل، جلد ۵، ص ۶۶)
ماں باپ اگر گناہ کرتے ہوں ان سے بہ نرمی و ادب گزارش کرے؛ اگر مان لیں بہتر، ورنہ سختی نہیں کر سکتا، بلکہ غیبت میں ان کے لئے دعا کرے۔
(فتاوٰی رضویہ، جدید جلد ۲۱، ص ۱۵۷)
انسدادِ جرائم و دفعِ منکَرات میں جہاد کافی مؤثر ذریعہ ہے اور منکَر کے ازالے میں بہت اہم رول ادا کرتا ہے۔ امام احمد رضا قادری قُدِّسَ سِرُّہٗ جہاد کی تقسیم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جہاد کہ اعظم وجوہ ازالۂ منکر ہے اسی کی تین قسمیں ہیں:
(۱) جنانی (۲) لسانی (۳) سنانی
جہادِ جنانی یعنی کفر و بدعت، فسق کو دل سے برا جاننا، جو ہر کافرمبتدع و فاسق سے ہے اور ہرمسلمان کہ اسلام پر قائم ہو، یہ کرتا ہے، مگر جنہوں نے اسلام کو سلام اور اپنے آپ کو کفار و مشرکین کا غلام کیا ان کی راہ جدا ہے، ان کا دین غیرِ دینِ خدا ہے۔
لسانی کہ زبان و قلم سے رد، ۔۔۔ یہ بحمد اللہ تعالٰی خادمانِ شرع ہمیشہ سے کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہو تو دمِ آخر تک کریں گے، وہابیہ، نیاچرہ، دیوبندیہ، قادیا نیہ، روافض، غیرِ مقلدین، ندویہ، آریہ، نصارٰی وغیرہُم سے کیا اور اب ان گاندھویہ سے بر سرِ پیکار ہیں۔ حق کی طرف بلاتے اور باطل کو باطل کر دکھاتے ہیں اور مسلمانوں کو گمراہ گروں کے شر سے بچاتے ہیں، وللہ الحمد۔ آگے ہدایت رب عزوجل کےہاتھ ہے۔ (فتاوٰی رضویہ، جدید جلد ۱۴، ص ۵۴۰)
اس اہم اور پُر اثر کام میں اپنے معمولات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتےہیں:
“دفعِ گمراہاں میں جو کچھ اس حقیر ہیچ میرز سے بن پڑتا ہے بحمد اللہ تعالٰی ۱۴ برس کی عمر سے اس میں مشغول ہے اور میرے ربِّ کریم کے وجہِ کریم کو حمد کہ اس نے میری بساط، میرے حوصلے، میرے کاموں سے ہزاروں درجے زائد اس سے نفع بخشا۔”
(فتاوٰی رضویہ، جدید جلد ۲۹، ص ۵۹۹)
آپ نے پوری زندگی اشاعتِ دین و مذہب میں گزاری، بد مذہبوں کا ردِّ بلیغ کیا، ہزار سے زائد کتب و رسائل تصنیف کیے، تحریر و تقریر اور وعظ و نصیحت بلکہ اپنے کردار و عمل، معمولات و تعلیمات کے ذریعے مذہبِ اسلام کی بیش بہا خدمات انجام دیں اور ہمیشہ ہر وقت فکرِ امّت میں لگے رہے۔
دین کی اشاعت کے لیے خاطر خواہ کام نہ ہونے کی وجہ سے اپنا دردِ دل کچھ یوں بیان کیا:
بڑی کمی امراءکی بے توجّہی اور روپے کی ناداری ہے۔ حدیث کا ارشاد صادق آیا کہ وہ زمانہ آنے والا ہے کہ دین کا کام بھی بے روپیہ کے نہ چلے گا۔ کوئی باقاعدہ عالی شان مدرسہ تو آپ کے ہاتھ میں ہے نہیں۔ کوئی اخبار، پرچہ آپ کے یہاں نہیں؛ مدرّسین، واعظین، مناظرین، مصنّفین کی کثرت بقدرِ حاجت آپ کے پاس نہیں۔ جو کچھ کر سکتے ہیں فارغ البال نہیں، جو فارغ البال ہیں وہ اہل نہیں۔ بعض نے خونِ جگر کھا کر تصانیف کیں تو چھپیں کہاں سے۔ کسی طرح سے کچھ چھپا تو اشاعت کیوں کر ہو۔
(فتاوٰی رضویہ، جدید جلد ۲۹، ص ۵۹۹)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری نے خود اپنے طرزِ عمل اور مدبّرانہ تفہیم کے ذریعے نظریۂ دعوت کو آشکارا کیا، اور مخاطب کی نفسیات کو پرکھ کر تبلیغِ دین کے لئے زاویے متعیّن فرمائے۔
ایک سیّد صاحب کی اصلاح کا ایمان افروز واقعہ ملاحظہ ہو، امام احمد رضا قُدِّسَ سِرُّہٗ ارقام فرماتے ہیں:
ایک صاحب ساداتِ کرام سے اکثر میرے پاس تشریف لاتے اور غربت و افلاس کے شاکی رہتے۔ ایک مرتبہ بہت پریشان آئے میں نے ان سے دریافت کیا کہ جس عورت کو باپ نے طلاق دے دی ہو کیا وہ بیٹے کو حلال ہو سکتی ہے؟ فرمایا: نہیں؟
حضرت امیر المومنین مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے، جن کی آپ اولاد ہیں، تنہائی میں اپنے چہرۂ مبارکہ پر ہاتھ پھیر کر ارشاد فرمایا:
’’اے دنیا! کسی اور کو دھوکہ دے، میں نے تجھے وہ طلاق دے دی، جس میں کبھی رجعت نہیں۔‘‘
پھر ساداتِ کرام کا افلاس کیا تعجب کی بات ہے!
سیّد صاحب نے فرمایا:
’’واللہ! میری تسکین ہو گئی۔‘‘
وہ اب زندہ موجود ہیں۔ اس روز سے کبھی شاکی نہ ہوئے۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت)
سوچیے، غور کیجیے! کس خوب اندازِ تخاطب کے ذریعے اعلیٰ حضرت نے سیّد صاحب کی اصلاح فرمائی اور دین کا پیغام دیا۔ یہ اسلوبِ دعوت اور طرزِ عمل آپ نے حضور نبیِ کریمﷺ کے اسوۂ حسنہ سے سیکھا، جس میں سیّد عالمﷺ نے ایک نوجوان کو زنا کے متعلق اجازت طلب کرنے کے سوال و استفسار پر اس کی قباحت و شناعت سے آشنا کر دیا اور شائستہ طرزِ عمل سے زنا کاری جیسے عظیم تر گناہ کو اس کی نگاہ میں نا پسندیدہ بنا دیا۔
امام احمد رضا قُدِّسَ سِرَّہٗ نے اِس عظیم تاریخی واقعے کو یوں بیان فرمایا:
ایک شخص خدمتِ اقدسِ حضور سرورِ عالمﷺ میں حاضر ہوا، اور عرض کی یا رسول اللہ میرے لیے زنا حلال فرما دیجیے، صحابۂ کرام نے انہیں قتل کرنا چاہا کہ خدمت ِ اقدس میں حاضر ہو کر یہ گستاخی کے الفاظ کہے۔ حضور نے منع فرمایا اور ان سے فرمایا: قریب آؤ، وہ قریب حاضر ہوا، اور قریب فرمایا یہاں تک کہ اس کےزانو، زانوئے اقدس سے مل گئے؛ اس وقت ارشاد فرمایا:
کیا تو چاہتا ہے کہ کوئی شخص تیری ماں سے زنا کرے؟
عرض کی:نہ۔ فرمایا: تیری بیٹی سے؟ عرض کی: نہ۔ فرمایا: تیری بہن سے؟ عرض کی: نہ۔ تیری پھوپھی سے؟ عرض کی: نہ۔ تیری خالہ سے؟ عرض کی: نہ۔ فرمایا کہ جس سے تو زنا کرے گا آخر وہ بھی کسی کی ماں یا بیٹی یا بہن یا پھوپھی یا خالہ ہو گی یعنی جو بات اپنے لئے پسند نہیں کرتا دوسرے کے لیے کیوں پسند کرتا ہے۔
دستِ اقدس ان کے سینے پر مار کر دعا فرمائی کہ
الٰہی! زنا کی محبّت اس کے دل سے نکال دے۔
وہ صاحب کہتے ہیں کہ جب میں حاضر ہوا تھا تو زنا سے زیادہ محبوب میرے نزدیک کوئی چیز نہ تھی اور اب اس سے زیادہ کوئی چیز مجھے مبغوض نہیں۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت)
یہ حدیثِ پاک (مُسندِ امام احمد بن حنبل ص، ۲۵۶ تا ۲۵۷، ج۵) میں موجود ہے۔
امام احمد رضا نے اس طرز کے اور واقعات اپنی کتاب و رسائل میں تحریر کیے ہیں اور وعظ و نصیحت میں بیان فرمایا، جس سے یہ نظریہ اخذ ہوتا ہے کہ دعوت کی اہمیت کیا ہے اور اس کے اسلوبِ بیان اور موثر تدبیریں کتنا اثر رکھتی ہیں۔ اس لیے ہم پر لازم ہے کہ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو تعلیمات ہمیں عنایت فرمائی ہیں، اقوامِ عالم کو ان سے روشناس کریں اور دعوت و تبلیغ کا جو نظریہ پیش کیا ہے اس کی روشنی میں امّتِ مسلمہ کی مناسب رہ نمائی کریں۔
["پیغامِ رضا"،ممبئی (فکر و تدبیر نمبر)، اپریل تا جون، ۲۰۰۹ء، ص ۱۷۴تا۱۷۷]
[نوٹ: ’’پیغامِ رضا ‘‘ میں اس مضمون کے حوالہ جات شائع نہیں ہوئے؛ لہٰذا، ہم نے خودتلاش کرکے اکثر حوالے شامل کر لیے ہیں۔ (ندیم احمد نؔدیم نورانی، انجمن ضیائے طیبہ، کراچی)]