امام احمد رضا اور فن تاریخ گوئی
امام احمد رضا اور فنِ تاریخ گوئی
تحریر: مولانا غلام مصطفیٰ رضوی مصباحی
مادّۂ تاریخ کے قواعد مختلف ہیں۔ کبھی اعدادِ شمسی لیتے ہیں، کبھی اعدادِ قمری لیتےہیں، کبھی بقاعدۂ مشہور اور کبھی بقاعدۂ زُبُر وبیّنہ۔ اس عنوان پر امام احمد رضا قُدِّسَ سِرُّہٗ کی تحریرات کو اگر قلم بند کیا جائے تو دفترتیار ہو جائے۔ جملہ علوم و فنون کی طرح فنِّ تاریخ گوئی میں بھی آپ کو کمال حاصل تھا، جس پر آپ کی تصنیفات کے اکثر تاریخی نام شاہد عدل ہیں۔
حضرت مَلک العلما سیّد مولانا ظفر الدین بہاری قُدِّسَ سِرُّہٗفرماتے ہیں کہ امام احمد رضا کو تاریخ گوئی میں وہ کمال حاصل تھا کہ انسان جتنی دیر میں کوئی مفہوم لفظوں میں ادا کرتا ہے اعلیٰ حضرت اتنی ہی دیر میں بے تکلف تاریخی مادّے اور جملے فرما دیا کرتے تھے، جس کا بہت بڑا ثبوت حضور کی کتابوں میں اکثر و بیشتر کا تاریخی نام اور وہ بھی ایسا چسپاں کہ بالکل مضمونِ کتاب کی توضیح وتفصیل کرنے والا۔
۱۲۸۶ھ میں ایک صاحب نے امام باڑہ بنایا، تاریخی نام کے لئے امام احمد رضا کی بارگاہ میں حاضر ہوئے فی البدیہہ فرمایا بدر رفض (۱۲۸۶ھ) رکھیں۔ اس جواب کو سن کر بولے کہ امام باڑہ گذشتہ ہی سال تیار ہوا۔ مقصد یہ تھا کہ حضور دوسرا لفظ فرمائیں گے، جس میں لفظِ رفض نہ ہو۔ حضور نے فوراً ہی فرمایا تو دار رفض (۱۲۸۵ھ) رکھیں۔ یہ سن کر چپ ہوئے، پھر عرض کیا کہ اس کی ابتدا ۱۲۸۴ھ ہی میں کی تھی اس لئے اس سنہ کا نام مناسب ارشادفرمایا جائے تو آپ نے برجستہ ارشاد فرمایا: دُرِّ رفض (۱۲۸۴ھ) رکھیں۔
حضرت مولانا محمد سیّد شاہ اسماعیل حسن جی میاں علیہ الرحمۃ کی تاریخِ وصال پر باون عربی اشعار قلم برداشتہ تحریر فرمائے کہ ہر شعر سے مادّۂ تاریخ ۱۳۱۷ھ نکلتا ہے۔
امام احمد رضا قُدِّسَ سِرُّہٗ کی ذکاوت و ذہانت اور علمی استخصار کو دیکھ کر دانش وروں نے کہا تھا کہ امام احمد رضا کا علم و عقل ہماری سمجھ سے باہر ہے۔
پیشِ نظر عنوان میں ہمارا مقصود ان تفصیلات کی طرف جانا نہیں کہ امام احمد رضا نے علم الاعداد، علم الحروف پر کیا کیا تحقیقات یادگار چھوڑی ہیں۔ بلکہ صرف ان دو شبہات کا ازالہ مقصود ہے جو بار بار سامنے آتے رہتے ہیں کہ
(۱) الملفوظ ۱۳۳۸ھ کی تالیف ہے جب کہ اس کا مادۂ تاریخ ۱۳۳۸ھ نہیں بلکہ ۱۰۸۷ھ نکلتا ہے جو اس طرح ہے:
ا |
ل |
م |
ل |
ف |
و |
ظ |
مجموعہ |
۱ |
۳۰ |
۴۰ |
۳۰ |
۸۰ |
۶ |
۹۰۰ |
۱۰۸۷ |
(۲) یہ کہ امام احمد رضا نے آیتِ کریمہ:
اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ
سے اپنی تاریخِ ولادت ۱۲۷۲ھ استخراج فرمائی، حالاں کہ اس کا عدد صرف ۱۲۶۳ھ اس طرح نکلتا ہے:
ا |
و |
ل |
ء |
ک |
|||||||||||
۱ |
۶ |
۳۰ |
۱ |
۲۰ |
|||||||||||
ک |
ت |
ب |
ف |
ی |
|||||||||||
۲۰ |
۴۰۰ |
۲ |
۸۰ |
۱۰ |
|||||||||||
ق |
ل |
و |
ب |
ہ |
م |
||||||||||
۱۰۰ |
۳۰ |
۶ |
۲ |
۵ |
۴۰ |
||||||||||
۱ |
ل |
ا |
ی |
م |
ا |
ن |
|||||||||
۱ |
۳۰ |
۱ |
۱۰ |
۴۰ |
۱ |
۵۰ |
|||||||||
د |
ا |
ی |
د |
ہ |
م |
||||||||||
۶ |
۱ |
۱۰ |
۴ |
۵ |
۴۰ |
||||||||||
ب |
ر |
و |
ح |
م |
ن |
ہ |
|||||||||
۲ |
۲۰۰ |
۶ |
۸ |
۴۰ |
۵۰ |
۵ |
|||||||||
مجموعہ |
۱۲۶۳ |
||||||||||||||
معلوم ہوا کہ یہ بھی صحیح نہیں۔
لیکن علم و فن کی روشنی میں غور کیجیے تو یہ اور اس طرح کے شبہات کم علمی یا عناد کی پیداوار ہیں کیوں کہ امام احمد رضا قُدِّسَ سِرُّہٗنے الملفوظ کا مادّۂ تاریخ نہ تو باعدادِ شمسی استخراج فرمایا، نہ باعدادِ قمری بقاعدۂ مشہورہ بلکہ بحسابِ زُبُرو بیّنہ ، جس کا قاعدہ یہ ہے کہ لفظ کے تمام حروف کے اعداد جمع کیے جائیں، یہ مجموعۂ اوّل ہوگا؛ پھر ہر حرف کا تلفظ کریں، تلفظ میں جتنے حروف آئیں ہر پہلے حرف کا عدد چھوڑ کر بقیہ حروف کے اعدادجمع کر لیں، یہ مجموعۂ ثانی ہوگا؛ پھر دونوں مجموعے کو جمع کر دیں۔
فن کی اصطلاح میں ملفوظ حروف میں پہلے حرف کو“زُبُر” اور بقیہ کو “بَیِّنَہ” کہتے ہیں۔
منتخب میں ہے:
“زبر” بضمتین حرفِ اوّل اسماء تہجی است وسوائے آں حرف کہ در تلفظ می آید “بینہ” است۔
غیاث میں ہے:
بینات بفتحِ اوّل و تشدید ہائے تحتانی مکسور و بعدہ نون بمعنیٰ روشن کنندگان و حجتہائے روشن و گواہان صادق وایں جمع بینہ است و بینات نوعے ازحساب اعداد حروف ابجد است وآں چناں باشد کہ رسم باعتبار تلفظ گیرند یعنی حروف دو حرفی را دو حرف گرفتہ اوّل کہ مسمّٰی او است ترک کنند۔ جز وِ ثانی کہ الف است باقی ماند بایں حسابِ سین و شین و عین و غین ہریکے شصت عدد باشد و الف رایک صد و دہ وصاد و ضاد ہر یک را پنج، وَعَلٰی ھٰذَا الْقَیَاس و با وتا وثا و زا یک را یک یک عدد باشد و سرِ حرف راکہ می اندازند اعدادِ آنہاں را زبر نامند بضمتین۔
مذکورۂبالا قاعدے کی روشنی میں الملفوظ کے اعداد اس طرح ہوں گے:
زُبُر |
ا |
ل |
م |
ل |
ف |
و |
ظ |
مجموعۂاوّل |
اعداد |
۱ |
۳۰ |
۴۰ |
۳۰ |
۸۰ |
۶ |
۹۰۰ |
۱۰۸۷ |
بینات |
الف |
لام |
میم |
لام |
فا |
واؤ |
ظا |
مجموعۂ ثانی |
اعداد |
۱۱۰ |
۴۱ |
۵۰ |
۴۱ |
۱ |
۷ |
۱ |
۲۵۱ |
الملفوظ………………………….۱۳۳۸ھ
چناں چہ امام احمد رضا قُدِّسَ سِرُّہٗنے اپنے کلام میں اس قاعدے کی طرف اشارہ بھی فرما دیا ہے:
میرے ملفوظ کچھ ہوئے محفوظ
مصطفیٰ مصطفیٰ کا ہو ملحوظ
نام تاریخی اس کا رکھتا ہوں
زُبُر و بینہ میں الملفوظ
امام احمد رضا قُدِّسَ سِرُّہٗنے اپنی تاریخِ فراغت بھی بحسابِ زُبُر و بیّنہ لفظِ “تعویذ” سے نکالی ہے، جس کا عدد (۱۲۸۶)ہے۔ اپنے خلفِ اکبر حضرت حجۃ الاسلام قُدِّسَ سِرُّہٗ کا تاریخی نام “حامد رضا” بھی بحسابِ زُبُر و بیّنہ تجویز فرمایا، جس کا عدد ۱۳۶۲ھ ہے اور یہی حجۃ الاسلام کی تاریخ وفات بھی ہے۔ اسی طرح حضرت ملک العلما سیّد مولانا ظفر الدین بہاری علیہ الرحمۃ کی ایک بچی کا نام “ولیہ خاتون” اسی قاعدہ کے تحت تجویز فرمایا جس کا عدد ۱۳۳۳ھ ہے۔ رہے اولئک کتب الخ۔ کے اعداد تو وہ اس طرح نہیں جس طرح معترضین نے سمجھ لیا کہ اُولٰٓئِکَ میں بعدِ لام، ہمزہ کا عدد ایک لے لیا، بلکہ ہمزہ کے بجائے یہاں (ی)کا عدد (۱۰) لیا جاتا ہے کیوں کہ ہمزہ مرکز(ی) پر واقع ہے اور ہمزہ کی کوئی خاص شکل وضع نہیں ہوتی۔
ہمزہ اگر لفظ کے شروع میں ہو تو بشکلِ الف (۱) ہوتا ہے جیسے احد واحد وابل اور اگر وسط میں ہوتو دو حال سے خالی نہیں۔ ساکن ہوگا یا متحرک، اگر ساکن ہو تو اپنے ماقبل کی حرکت کے موافق حرف سے لکھا جاتا ہے جیسے یأ کل ویؤمن وییئس اور اگر متحرک ہو اور اس سے قبل ساکن ہو تو اپنی حرکت کے موافق حرف سےلکھا جاتا ہے۔ جیسے یسأل ویلؤم ویسئم۔
علامہ ابنِ حاجب قُدِّسَ سِرُّہٗنے فرماتے ہیں۔
النظر بعد ذالک فیما لا صورۃ لہ تخصہ………. فالاول المھموز وھواول ووسط وآخر فالاوّل الف مطلقا مثل احد واحد وابل۔ والوسط اما ساکن فبحرف حرکۃ ما قبلہ مثل یأ کل ویؤمن وییئس واما متحرک قبلہ ساکن فیکتب بحرف حرکتہ مثل یسأل ویلؤم ویسئم(شافعیۃ، ص۱۷۲)
حاشیۂ شافعیہ ماخوذ از رضی میں ہے:
یکتب الوسط الذی قبلہ الف باعتبار حرکتہ لان تخفیفہ باعتبارھا فیکتب سأل بالالف والتساؤل بالواو وسائل بالیاء۔(ص ۱۷۲)
لہٰذا ہمزہ اگر مرکز (و) پر ہو تو (و) کا عدد (۶) لیا جاتا ہے۔ اگر مرکزی (ی) پر ہوتو (ی) کا عدد(۱۰) لیا جاتا ہے اور اگر ہمزہ مرکز (۱) پہ ہو تو الف کا عدد(۱) لیا جاتا ہے۔
معرفۃ الرسوم میں ہے:
“ہر حرف کے لئے خاص خاص صورتیں موضوع ہیں بخلافِ ہمزہ کے کہ اس کے لئے کوئی خاص اصلی وضع نہیں، بلکہ بقاعدہ متعینہ ہمزہ کبھی الف اور کبھی واؤ اور کبھی یا کی صورت میں ہوتا ہے نیز اسی میں ہے کہ اگر ہمزہ متحرک ہو اور واؤ یا یا کی شکل میں ہو تو اس واؤ یا یا پر عین کا سرا لکھتے ہیں جیسے مؤجلا اور اولئک”۔
حاشیہ قران از بحرالعلوم میں ہے “اولئک درہمہ قران بے الف بعد لام و واؤ زائدہ بعد ہمزۂ اوّل و ہمزہ دوم زیریا (ی)است”
اس لئے صاحب سوال با سولی نے فرمایا:
لان الفہ مجھو لا الاصل واذا کان الفہ مجھو لا فتکتب بالیاء۔
حاشیہ ملا عصام الدین میں ہے:
لا یظن انھا تکتب بالیا فی اولئک لان المکتوب فیہ مرکز الھمزۃ۔
امام احمد رضا قُدِّسَ سِرُّہٗ فرماتے ہیں:
رئیسہ خاتون کے عدد (۱۳۴۲) ہیں کہ کتاب میں دو (ی) ہیں۔ ہمزہ کے لئے کوئی عدد نہیں، نہ اس کے عدد لئے جائیں۔ اگر مرکز یعنی و۔ا۔ی پر ہے تو اس مرکز کے عدد لیں گے جیسے رأس،رؤس،رئیس میں ۱۔۶۔۱۰، ورنہ کچھ نہیں، جیسے علما، نساء۔”
یہی وجہ ہے کہ کاش برنی نے رموز الحفر میں اور حضرت شیخ بونی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے شمس المعارف میں اور دیگر ماہرین علم الاعداد نے اپنی اپنی تصنیف میں اسمائے باری تعالیٰ رؤف میں واؤ کےعدد (۶)، مؤمن میں واؤ کے عدد (۶)،مؤخر میں واؤ کے عدد (۶)؛ اسی طرح مبدئ میں یا کے عدد (۱۰) اور لفظ میکائیل، جبرائیل، عزرائیل میں مرکزِ ہمزہ یعنی ی کے عدد (۱۰)لئے ہیں۔
مذکورۂ بالا تحقیقات کی روشنی میں یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ امام احمد رضا قُدِّسَ سِرُّہٗ کے مادّۂ تاریخِ ولادت اولٓئک کتب ……….میں ہمزہ کے بجائے یا کا عدد (۱۰) لیا جائے گا اور (۱۲۷۶) کے عدد اس طرح پورے ثابت ہوں گے:
اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ
ا |
و |
ل |
ی (ہمزہ کی جگہ) |
ک |
|||||||||||
۱ |
۶ |
۳۰ |
۱۰ |
۲۰ |
|||||||||||
ک |
ت |
ب |
ف |
ی |
|||||||||||
۲۰ |
۴۰۰ |
۲ |
۸۰ |
۱۰ |
|||||||||||
ق |
ل |
و |
ب |
ہ |
م |
||||||||||
۱۰۰ |
۳۰ |
۶ |
۲ |
۵ |
۴۰ |
||||||||||
ا |
ل |
ا |
ی |
م |
ا |
ن |
|||||||||
۱ |
۳۰ |
۱ |
۱۰ |
۴۰ |
۱ |
۵۰ |
|||||||||
وَاَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ
و |
ا |
ی |
د |
ہ |
م |
||||||
۶ |
۱ |
۱۰ |
۴ |
۵ |
۴۰ |
||||||
ب |
ر |
و |
ح |
م |
ن |
ہ |
|||||
۲ |
۲۰۰ |
۶ |
۸ |
۴۰ |
۵۰ |
۵ |
|||||
مجموعی اعداد: ۱۲۷۲
تاریخِ ولادت امام احمد رضا قُدِّسَ سِرُّہٗ
["پیغامِ رضا"ممبئی(فکر و تدبیر نمبر)، اپریل تا جون ۲۰۰۹، ص ۱۵۵تا ۱۵۷]