امام احمد رضا اور مسائل جدیدہ

امام احمد رضا اور مسائلِ جدیدہ

مولانا محمد انور کاظمی مصباحی

(یہ مقالہ امام احمد رضا سمینار  ڈونڈا رانچی جھاڑ کھنڈ، منعقدہ۳۰/جولائی ۲۰۰۵ء میں پیش کیا گیا)

          اسلام دینِ فطرت ہے، اس میں حیاتِ انسانی کے ہر  شعبے کے لئے جامع قوانین موجود ہیں اور ان کا اصل منبع قرآن و سنّت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام تمام انسانی ضروریات کی تکمیل اور ان کی رہ نمائی کے لیے کافی ہے۔ خواہ وہ معاشرتی ہوں یا  معاشی، مذہبی ہوں یا سیاسی، شخصی ہوں یا اجتماعی، صنعت و حرفت سے متعلق ہوں یا  تجارت و سرمایہ کاری ۔ غرض یہ کہ  حیاتِ انسانی  کو در پیش مسائل کا حل شریعتِ اسلامیہ میں موجود ہے اور وہ بھی کسی خاص عہد یا زمانے کے لیے نہیں، بلکہ قیامت تک پیش آنے والے مسائل کے لیے ایسے رہ نما خطوط متعین کر دیے گئے ہیں جن کی روشنی میں کسی بھی نوپید  مسئلے کی تنقیح و توضیح فقہائے اسلام کے لیے مشکل نہیں۔ ہر دور میں ایسے ماہرین فقہا پیدا ہوتے رہے ہیں جو امّتِ  مسلمہ کو درپیش ایسے نئے مسائل جن کی صراحت قبل کے فقہائے کرام کی تحریروں میں نہیں ملتی ان رہ نما اصولوں کی روشنی میں حل کر کے ان کی رہ نمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں اور قیامت تک ایسے فقیہ پیدا ہوتے رہیں گے جو اپنے دور میں پیش آنے والے مسائل کا حل قرآن و سنّت کے اصولوں کی روشنی میں پیش کرتے رہیں گے۔ چناں چہ فتاوٰی رضویہ میں ہے:

’’ہمارے اماموں نے اس دینِ حنیف کا شافی بیان فرما دیا،  جس میں اصلاً پوشیدگی نہیں، تو بحمد اللہ یہ شریعت ایسی روشن چمکتی ہو گئی کہ اس کی رات بھی دن  کی طرح ہے، تو انہوں نے قواعد مقرر فرمائے اور ہر بات جدا جدا  دکھا دی اور ایسے کلّیے ذکر فرمائے کہ بے شمار جزیوں پر منطبق آئیں، تو نئی پیدا ہونے والی باتیں اگر چہ ختم ہونا نہیں مانتیں مگر وہ علم جو ائمہ ہم کو دے گئے ہیں، اس سے کوئی باہر رہتی نہیں معلوم ہوتی اور اللہ نے چاہا تو زمانہ ایسوں سے خالی نہ ہو گا جسے اللہ ان پوشیدہ باتوں کے نکالنے اور بخششوں اور فضیلتوں سے نفع اٹھانے پر قدرت دے۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ، قدیم  ج۷، ص ۱۲۷، جدید ج ۱۷، ص ۳۹۷ ،کفل الفقیہ الفاہم)

          ایسی ہی نابغۂ  روز گار شخصیات میں سے ایک ممتاز شخصیت فقیہِ اعظم امام احمد رضا علیہ الرحمۃ والرضوان (۱۲۷۲ھ/ ۱۸۵۶ء-۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء) کی ہے، جنھوں نے چودھویں صدی ہجری میں امّتِ مسلمہ کو درپیش نت نئے مسائل کا شریعتِ اسلامیہ کی روشنی میں مدلل حل پیش فرما کر ان  کی رہ نمائی فرمائی۔ علم و درایت اور فقہی روش کے  خلاف آنے والے تمام فتاوٰی  کا ردِّ بلیغ فرما کر حکمِ شرع کی تنقیح فرمائی اور گمراہی سے نجات دی۔ امام احمد رضا کے زمانے میں جو جدید مسائل در پیش ہوئے، اُن میں سے منی آرڈر، کرنسی نوٹ، تار سے ثبوتِ ہلال، بیمہ، فوٹو گراف وغیرہ کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان مسائل کے حل میں جس فقہی بصیرت اور محققانہ شان کی جلوہ نمائی آپ کے فتووں سے نمایاں ہے، وہ آپ ہی کا حصّہ ہے۔ جدید و قدیم مسائل کی تحقیقات پر مشتمل آپ کے فتاوٰی بارہ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہیں، جو غیر منقسم ہندوستان میں فتاوٰی عالمگیری کے بعد  سب سے اہم فقہی انسائیکلوپیڈیا ہے۔ یہ ’’العطایا فی الفتاوی الرضویّۃ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔

          رضا فاؤنڈیشن لاہور  نے ترجمہ و تخریج کے بعد ۳۰؍ جلدوں میں اسے شائع کیا ہے۔

          آپ نے اپنے عہد کے جن اہم جدید مسائل کا محققانہ و فاضلانہ انداز میں حل پیش فرمایا ہے، ان میں سے کچھ مسائل کا  سرسری جائزہ پیش ہے تاکہ مسائلِ جدیدہ میں آپ کی شانِ  تحقیق کا ایک عمومی اندازہ لگایا جا سکے۔

 

مسئلۂ منی آرڈر:

          محکمۂ ڈاک کے ذریعے خطوط، پارسل، رجسٹری، بیمہ وغیرہ کے ساتھ منی آرڈر کا کاروبار بھی شروع ہوا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خطوط، پارسل، رجسٹری وغیرہ کا کاروبار محکمۂ ڈاک اجرت پر کرتا ہے، ان چیزوں کو ان پر لکھے پتے پر پہنچانے کی ذمے داری محکمۂ ڈاک اپنے سر لیتا ہے اور اس کی مزدوری ایک مقررہ شرح کے مطابق وصول  کرتا ہے، خواہ وہ ڈاک ٹکٹ کے نام پر ہو یا کسی اور طریقے سے، یہ کاروبار بھی بلا نکیر جاری ہے اور اس کے جواز میں کوئی کلام  نہیں۔تقریباً یہی صورتِ حال منی آرڈر کی ہے، محکمۂ ڈاک اپنی دیگر خدمات کی طرح روپیہ پہنچانے کا کام بھی مقررہ اجرت پر کرتا ہے اور یہ کاروبار بھی آج تک جاری ہے، پوری دنیا کے مسلم وغیر مسلم سبھی اس  خدمت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور یہ بھی بلا شبہ جائز و حلال ہے۔

          مگر مولوی رشید احمد گنگوہی نے اپنے ایک فتوے میں منی آرڈر کو حرام و ناجائز قرار دیا ہے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ ڈاک کو جو رقم پہنچانے کو دی جاتی ہے وہ قرض ہے اور منی آرڈر فیس کے نام پر جو  پیسے دیے جاتے ہیں وہ سود ہے۔ کیوں کہ ڈاک خانے کو مثلاً ایک سو پانچ دیتے ہیں تو صرف سو روپئے  پہنچتے ہیں، گویا سو کے بدلے  ہمیں ڈاک خانے کو ایک سو پانچ دینے ہوتے ہیں؛ لہٰذا،  یہ پانچ روپئے جو زائد فیس کے نام پر دیے جاتے ہیں وہ سود کے ہیں۔ اس طرح منی  آرڈر کے ذریعے روپئے بھیجنا سود  پرمشتمل ہوا؛ لہٰذا، منی آرڈر کرنا ناجائز ہے۔

          مولوی رشید احمد گنگوہی کے اس فتوے سے وہ لاکھوں مسلمان جو محکمۂ ڈاک سے منی آرڈر کے ذریعے روپئے بھیجتے تھے  بے چین ہو گئے اور منی آرڈر سے متعلّق سوال امام احمد رضا علیہ الرحمۃ و الرضوان کی بارگاہ میں پیش کیا۔

          فقیہِ اعظم امام احمد رضا نے جواب میں ایک مفصّل رسالہ ’’المنی و الدر لمن عمد منی آرڈر‘‘ تحریر فرمایا اور قرآن و حدیث اور فقہی جزئیات سے ثابت فرما دیا کہ منی آرڈر کے ذریعے جو روپیہ بھیجا جاتا ہے ا س میں منی آرڈر فیس دی جاتی ہے وہ سود نہیں بلکہ روپیہ پہنچانے اور اس کی وصولی کی رسید لانے کی اجرت ہے۔ محکمۂ ڈاک بھی اسے اجرت سمجھ کر لیتا ہے اور منی آرڈر کے ذریعے روپیہ بھیجنے والے بھی اسے اُجرت سمجھ کر دیتے ہیں، امام احمد رضا  تحریر فرماتے ہیں:

"وہ فتوائے مطبوعہ فقیر غَفَرَ اللہُ تَعَالٰی لَہٗ  کی نظر سے گزرا ہے، اس میں مفتی صاحب فرماتے ہیں:

’یہ رِبا (سود) ہے۔ دو آنے دس کے عوض دس ملتے ہیں۔‘

          مگر یہ بات وہی کہہ سکتا ہے کہ جسے اتنی خبر نہیں کہ دو آنے کاہے کے دیے جاتے ہیں، شاید انہیں معلوم نہیں کہ ڈاک خانہ ایک اجیرِ مشترک کی دکان ہے،  جو بغرضِ تحصیلِ اجرت کھولی گئی ہے۔ دو آنے قطعاً وہاں جانے اور روپیہ دینے اور واپس  آنے اور رسید لانے ہی کی اجرت ہیں، جیسے لفافے پر اور پارسل پر ۴/(چار آنے) وغیرہ ذلک، اس کو تو کوئی عاقل رِبا (سود) خیال  ہی نہیں کر سکتا۔ یہ ہر گز نہ اس کا معاوضہ، نہ زنہا دینے والوں میں کسی کو اس روپے کے معاوضے میں کمی بیشی مقصود۔

و ھٰذا من البدیھیات التی لا یتوقف فیھا الا امثال المفتین الذین لا بصرلھم فی الدین۔

(فتاوٰی رضویہ،قدیم ج ۸، ص۱۹۷؛ جدید ج ۱۹، ص۵۶۴؛ رسالہ المنٰی والدرر لمن عمد منی آرڈر)

          امام احمد رضا نے اس رسالے میں فقہی جزئیات، اقوالِ ائمہ اور عرف و تعامل کی روشنی میں مسئلے کی ایسی توضیح فرمائی کہ مخالفین آج تک حیران ہیں۔ مزید تفصیلات اور فقہی ابحاث کے لیے فتاوٰی رضویہ جلدِ ہشتم (قدیم  جلد ۸، جب کہ جدید جلد ۱۹) میں شامل ’’المنٰی والدرر لمن عمد منی آرڈر‘‘  کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ اس مطالعہ سے عیاں ہو جاتا  ہے کہ اعلیٰ حضرت کی فقہی بصیرت کس درجہ کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔

تار سے ثبوتِ ہلال کا مسئلہ:

          جدید مسائل میں ثبوتِ رویتِ ہلال کے لیے تار کے ذریعے آئی خبر بھی ایک اہم مسئلہ ہے، اس کے متعلق  علمائے دیوبند نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ دوسری جگہ ثبوتِ رویتِ ہلال کی خبر تار سے آئے تو اس پر عمل واجب ہو گا۔  جب کہ تمام  کتبِ فقہ میں صراحت ہے کہ ایک شہر کی رویت دوسرے شہر کے لیے اس وقت معتبر ہو گی جب وہ بطریقِ موجب ثابت ہو۔ اس کے لیے شہادت علَی الشہادہ   یا شہادت علَی القضا ضروری ہے، لیکن ان کی  پرواہ کیے بغیر ہی مذکورۂ بالا علما نے تار کی خبر سے ثبوتِ رویت  کا فتویٰ دے دیا۔

امام احمد رضا ان علمائے دیوبند کے فتوائے جواز کو حماقت قرار دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

          ’’ان بزرگوں کے اکثرفتاوٰی فقیر  نے ایسے ہی عجائب پرمشتمل پائے،  ابھی قریبِ زمانہ میں ان کا ایک فتویٰ دربارۂ جوازِ شہادتِ ہلال بہ ذریعۂ تارِ برقی نظر سے گزرا، جس میں تار کو خط پر قیاس کیا۔ جامع  یہ کہ لکھنا ایک سا، قلم سے  لکھا، خواہ بانسِ طویل سے۔ گویا حضرت کے نزدیک تار  کا طریقہ یہ ہے کہ کسی لمبے بانس سے لکھ دیتے ہیں۔ پھر لطف یہ کہ اصل مقیس علیہ (خط) میں حکم غلط،  علما تصریح فرما چکے۔ ایسے امورِ شرعیہ  میں خطوط کا اعتبار نہیں۔ ظلم پر  ظلم یہ کہ وہ بانس طویل ہی کی تحریر سہی، تار بھیجنے والا بے چارہ اس لمبے بانس سے خود نہیں لکھتا، بلکہ  تار بابو سے کہتا ہے،  وہ ایک واسطہ ہوا، جہاں کو تار دیا گیا وہ دوسرا واسطہ بیچ میں تار موصول نہ ہوا تو وسائط کی گنتی ہی کیا اور یہ اکثر کفّار و فساق و مجہول الحال ہوتے ہیں، اس نفیس سند سے جو خبر آئے اس پر امورِ شرعیہ کی بنا کرنی ان کیفیتوں کا ادنیٰ اجتہاد ہے۔

(فتاوٰی رضویہ، قدیم ج۸، ص۱۹۸؛ جدیدج ۱۹، ص۵۶۴؛ رسالہ المنٰی والدرر)

          مسئلۂ ہلال میں تار کے عدمِ اعتبار سے متعلّق تفصیل آپ کے رسالہ ’’ازکی الاھلال فیما احدث الناس فی امر الھلال‘‘ میں ہے۔ یہ رسالہ فتاوٰی رضویہ جلدِ چہارم (جدید جلدِ دہم)  کتاب الصوم میں شاملِ اشاعت ہے۔ قرآن و حدیث اور فقہِ اسلامی کی معتبر کتابوں کے حوالے سے آپ نے ثابت کیا کہ تار شہادتِ شرعیہ کے لیے کافی نہیں؛ اس سے استفاضہ ہو سکتا ہے، نہ ہی کتاب القاضی کے قبیل سے ہے۔ کتاب القاضی پر اس کا قیاس بھی درست نہیں؛ لہٰذا، رویتِ ہلال کے معاملے میں یہ محض نا معتبر ہے۔ مذکورہ رسالے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

          ’’بالفرض اگر اصل خبر میں کوئی خللِ شرعی نہ ہو، تاہم اس کا جامہ اعتبار تار میں آکر یکسر تار تار کہ وہ بیان ہم تک اصالتاً  نہ پہنچا، بلکہ نقل در نقل ہو کر آیا۔ صاحبِ خبر تو وہاں کے تار والے سے کہہ کر الگ ہو گیا، اس نے تار کو جنبش دی اور اس سے کھٹکوں سے جن کے اطوارِ مختلفہ کو اپنی اصطلاحوں میں  علامتِ حروف قرار دے رکھا ہے، اشاروں اشاروں میں عبارت بتائی، اب وہ بھی جدا ہو گیا۔ یہاں  کے تار والے نے ان کھٹکوں پر نظر کی اور ضروریات ِمعلومہ سے جو فہم میں آیا، نقوشِ معرفہ میں لایا۔ اب یہ بھی الگ رہا،  وہ کاغذ کا پرچہ کسی ہر کا رے کے سپرد ہوا کہ یہاں پہنچا کر چلتا  بن۔ سبحان اللہ! اس نفیس روایت کا سلسلۂ سند تو دیکھیے۔ مجہول عن مجہول عن مجہول۔ نا مقبول از نا مقبول از نامقبول۔‘‘

          پھر ایسی خبر پر امورِ شرعیہ کی بنا کرنا استغفراللہ علما تو علما، میں نہیں جانتا  کہ کسی عاقل کا کام ہو۔

(فتاوٰی رضویہ، ج۴، ص۵۲۵، رسالہ ازکی الاھلال فیما احدث الناس فی امر الھلال)

          چوں کہ ان  علما نے تار کو خط سمجھتے ہوئے اس کا اعتبار کیا تھا،  اس کا رد تحریر کرتے ہوئے امام احمد رضا رقم طراز ہیں:

’’علما تصریح فرماتے ہیں کہ دوسرے شہر سے بذریعۂ خط خبر شہادت دینا  صرف قاضیِ شرع سے خاص جسے سلطان نے فیصلِ مقدمات پر والی فرمایا ہو، یہاں تک کہ حکم کا خط مقبول نہیں، درِّمختار میں ہے: ’’القاضی یکتب الی القاضی وھو نقل الشھادۃ حقیقۃً ولا یقبل من محکم بل من قاض مولی من قبل الامام الخ الملتقط‘‘ فتح میں ہے: ’’ھذا النقل بمنزلۃ القضاء ولھذا لا یصح الا من القاضی‘‘ غیر قضاۃ تو یہیں سے الگ ہوئے۔ رہے قاضی، ان کی نسبت صریح ارشاد ہے کہ اس بارے میں نامہ قاضی کا قبول بھی اس  وجہ سے ہے کہ صحابہ و تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بر خلاف قیاس اس کی اجازت پر اجماع فرما لیا، ورنہ قاعدہ یہی چاہتا تھا کہ اس خط کا بھی انہیں وجوہ سے جو اوپر گزریں مقبول نہ ہو اور پُر ظاہر کہ جو حکم خلافِ قیاس مانا جاتا ہے مورد سے آگے تجاوز نہیں کر سکتا اور دوسری جگہ اس کا اجرا محض باطل و فاحش خطا۔ پھر حکم خط سے گزر کر تار تک پہنچنا کیوں کر روا۔‘‘

(فتاوٰی رضویہ، ج۴، ص۵۲۵، رسالہ ازکی الاھلال فیما احدث الناس فی امر الھلال)

          پھر آگے تحریر فرماتے ہیں:

          ’’قاضیِ شرع کا نامہ بھی صرف اسی وقت مقبول جب دو مرد ثقہ یا ایک مرد دو عورتیں عادل دار القضاء سے یہاں آ کر شہادتِ شرعیہ دیں کہ یہ خط بالیقین اسی قاضی کا ہے اور اس نے ہمارے سامنے لکھا ہے۔ ورنہ ہر گز قبول نہیں، اگر چہ ہم اس قاضی کا خط بھی پہنچاتے ہوں اور اس کی مہر بھی لگی ہو اور اس نے خاص اپنے آدمی کے ہاتھ بھیجا بھی ہو۔

          مسئلے کی تائید میں ہدایہ، عالمگیری اور عقود الدریّہ سے جزئیات پیش فرمانے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:

          ’’سبحان اللہ! یہ خطوط یا تار جو یہاں آتے ہیں ان کے ساتھ کون سے دو گواہ عادل آ کر گواہی دیتے ہیں کہ فلاں نے ہمارے سامنے لکھا  یا تار دیا، مگر  ہے یہ کہ  نا واقفی کے ساتھ امورِ شرع میں بے جا مداخلت سب کچھ کر آتی ہے۔‘‘

          ان جملوں پر رسالے کا اختتام فرماتے ہیں:

          ’’اے عزیز! اس زمانۂ پُر فتن میں لوگوں کو احکامِ شرع پر سخت جرأت ہے، خصوصاً ان مسائل میں جنہیں حوادثِ جدیدہ سے تعلّق و نسبت ہے، جیسے تارِ برقی وغیرہ۔ سمجھتے ہیں کہ کتبِ ائمۂ دین میں ان کا حکم نہ نکلے گا، جو مخالفت شرع کا ہم پر الزام چلے گا؛ مگر نہ جانا کہ علمائے دین شکر اللہ تعالٰی مساعیھم الجمیلۃ نے کوئی حرف ان عزیزوں کے اجتہاد کو اٹھا نہیں رکھا ہے۔ تصریحاً، تلویحا، تفریعاً، تاصیلاً سب کچھ فرما دیا ہے۔ زیادہ علم اسے ہے جسے زیادہ فہم ہے اور ان شآء اللہ العزیز زمانہ ان بندگانِ خدا سے خالی نہ ہو گا جو مشکل کی تسہیل، مفصّل کی تحصیل، صعب کی تذلیل، مجمل کی تفصیل سے ماہر ہوں؛ بحر سے  صدف، صدف سے گہر، بذر سے درخت، درخت سے ثمر نکالنے پر باذن اللہ تعالٰی قادر ہوں۔ ’

لا خلا الکون عن افضالھم وکثر اللہ فی بلادنا من امثالھم اٰمین اٰمین بر حمتک یا ارحم الراحمین وصلی اللہ تعالٰی علی خاتم النبیین الخ

(فتاوٰی رضویہ، ج۴، ص ۵۲۶ تا ۵۲۷، رسالہ ازکی الاھلال)

کرنسی  نوٹ کا مسئلہ:

          چاندی کے سکوں کی جگہ  کاغذ کے نوٹوں کا رواج ہوا تو علما کے سامنے مختلف قسم کے  مسائل آئے۔ علمائے دیوبند نے نوٹ  کو مال ماننے سے انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ مال کا وثیقہ و سند ہے، مال نہیں۔ امام احمد رضا علیہ الرحمۃ والرضوان جب حج کے لیے مکہ معظّمہ حاضر  ہوئے تو وہاں کے علما نے بھی نوٹ سے متعلق سوالات پر مشتمل ایک استفتا آپ کی خدمت میں پیش کیا:

۱۔         کاغذ کے یہ نوٹ مال ہیں یا سندِ  مال ؟

۲۔      جب یہ نوٹ بقدرِ نصاب ہوں تو زکوٰۃ فرض  ہے یا نہیں؟

۳۔      نوٹ کو مہر مقرر کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟

۴۔      اگر کوئی اسے محفوظ جگہ سےچرا لے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

          فقیہِ اعظم امام احمد رضا علیہ الرحمۃ والرضوان نے مذکورہ سوالات کا مفصّل، مدلل اور محقق جواب مکہ معظّمہ ہی میں عربی میں تحریر فرما کر ان علما کے حوالے کیا، علمائے عرب نے آپ  کے جواب کی تصدیق فرمائی، اس پر تقریظات تحریر فرمائیں اور اس کی نقلیں حاصل کیں، یہ رسالہ:

’’کفل الفقیہ الفاھم فی احکام قرطاس الدرارھم‘‘ سے موسوم ہے۔

          بعد میں اس مسئلے میں مولوی رشید احمد گنگوہی کے رد میں ایک ذیلی رسالہ ’’کاسر السفیہ الواھم‘‘  کا اضافہ فرمایا، جو اس میں شامل ہے۔

امام احمد رضا کے فتوے کی بنیاد یہ ہے کہ نوٹ مال ہے اور ثمنِ اصطلاحی ہے، جیسے مختلف دھاتوں کے سکے،  اس لیے اس کا بھی حکم وہی ہو گا جو فقہا نے ثمنِ اصطلاحی کا قرار دیا ہے۔ اعلیٰ حضرت نے رسالےمیں اصل دعوے پر دلائل کے انبار لگا دیے ہیں اور مخالفین کے مزعومہ پر کم و بیش  ایک سو بیس ایرادات قائم فرمائے ہیں۔ (مقدّمہ فتاوٰی رضویہ ہفتم، ص۱۰)

          امام احمد رضا رقم طراز ہیں:

          ’’نوٹ ایک سب سے زیادہ جدید اور نوپیدا چیز ہے، تالیفاتِ علما میں اصلاً اس کا نشان نہ پائیے گا، یہاں تک کہ  علامہ شامی اور ان کے مثل جن کا زمانہ ابھی قریب گزرا؛ مگر ہمارے اماموں  نے (اللہ اُن کی کوشش ٹھکانے لگائے) ایسے کلیے ذکر فرمائے کہ بے شمار جزئیوں پر منطبق آئیں۔ آپ کا پہلاسوال سب سوالوں کی اصل ہے اور  جب اس کاغذ کی حقیقت معلوم ہو جائے گی تو سب احکام  واضح ہو جائیں گے، جن میں کوئی شبہ نہ رہے گا۔ اس کی اصل تو معلوم ہے کہ وہ کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے اور کاغذ مالِ متقوم ہے اور اس سکہ (مہر چھپائی ) نے اسے کچھ زیادہ نہ کیا مگر  یہی کہ لوگوں کی رغبتیں اس  کی طرف بڑھ گئیں اور وقتِ حاجت کے لیے اٹھا رکھنے کے لائق ہو گیا اور مال کے یہی معنیٰ ہیں۔ یعنی وہ جس کی طرف طبیعت میل کرے اور حاجت کے لیے اٹھا رکھنے کے قابل ہو جیسا کہ بحر و شامی وغیرہما میں ہے اور معلوم کہ شرعِ مطہر نے کبھی مسلمان کو اس  سے نہ  روکا کہ اپنے پارۂ کاغذ میں جس طرح چاہے تصرف کرے، جیسا کہ شراب و خوک(خنزیر) کے بارے میں نہی وارد  ہوئی اور مال کی قیمت والے (متقوم) ہونے کا اسی پر مدار ہے، جیسا کہ ردّالمحتار، میں ہے اور اسی میں میں تلویح سے نقل فرمایا: المال مامن شانہ ان یوخر الانتفاع وقت الحاجۃ والتقویم یستلزم المالیۃ۔ ترجمہ:  مال وہ چیز ہے جس کی شان یہ ہو کہ وقتِ حاجت اس سے نفع لینے کے لیے اٹھا رکھا جائے اور قیمت والا ہونا مال ہونے کو مستلزم ہے۔       اور اسی میں بحوالۂ بحرالرائق حاوی قدسی سے ہے:

’’المال اسم لغیر الادمی وامکن احرازہ والتصرف فیہ علی وجہ  الاختیار‘‘ مال آدمی کے سوا ہر شئے کا نام ہے، جو آدمی کی مصلحتوں کے لیے پیدا کیا گیا اور اس قابل ہو کہ محفوظ رکھیں اور با اختیار خود اس میں تصرف کریں۔‘‘

(الفتاوی الرضویّۃ، ج۷، ص۱۲۸، رسالہ کفل الفقیہ الفاہم)

          اس کے بعد فتح القدیر سے ایک  جزئیہ نقل کرتے ہیں کہ اگر کوئی اپنے کاغذ کے ٹکڑے کو ہزار روپے میں بیچے تو بلا کراہت  جائز ہے کہ امام نے پانچ سو برس قبل فرمایا تھا جو آج صادق آرہا ہے، کیوں کہ نوٹ ہی کاغذ کا وہ ٹکڑا ہے جو ہزار کا بکتا ہے، انہیں کے لفظوں میں:

          اور بے شک محقق  علی الاطلاق   نے فتح القدیر میں فرمایا: لو باع کاغذۃ بالف یجوز ولا یکرہ۔ اگر کوئی اپنے کاغذ کا ٹکڑا ہزار روپے کو بیچے تو بلا کراہت جائز ہے اور اگر تحقیق کیجیے تو بِعَیْنِہٖ نوٹ کا جزئیہ  ہے کہ امام نے اس (نوٹ) کی پیدائش سے پانچ سو برس پہلے فرما دیا کہ یہی وہ کاغذ ہے جو ہزار کو  بکتا ہے اور کچھ اچنبا نہیں، ایسی کرامتیں ہمارے علمائے کرام سے بکثرت ثابت ہوئیں۔ اللہ ہمیں ان کی برکتوں سے دنیا و آخرت میں نفع پہنچائے۔ آمین۔

          تو کوئی شک نہیں کہ نوٹ بذاتِ خود قیمت  والا مال ہے کہ بکتا ہے اور مول لیا جاتا ہے اور ہبہ کیا جاتا ہے اور وراثت میں آتا ہے اور جتنی باتیں مال میں جاری ہیں اس میں جاری ہوتی ہیں۔

(فتاوٰی رضویہ، ج۷، ص۱۲۷ تا ۱۲۹، کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم)

          امام احمد رضا کی شانِ تفقہ، جزئیات کا استحضار، قرآن و حدیث اور فقہ و فتاوٰی میں تبحر دیکھنا ہو تو ان کے فتاوٰی کا مطالعہ کیجیے جو فتاویٰ رضویہ کے نام سے مشہور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا:

"ہندوستان کے دورِ آخر میں ان جیسا طباع اورذہین  فقیہ پیدا نہیں ہوا،  میں نے ان کے فتاوٰی کے مطالعے سے یہ رائے قائم کی ہے اور ان کے فتاوٰی ان کی ذہانت، فطانت اور جودتِ طبع، کمالِ ثقاہت اور علومِ دینیہ میں تبحر ِعلمی کے شاہد عدل ہیں۔"

(مقالاتِ یوم رضا، لاہور، اپریل ۱۹۷۱،ء دبدعات و منکرات، ص۹۲)

          حافظِ کتب الحرم سیّد اسماعیل بن خلیل مکی تحریر فرماتے ہیں:

"اگر امامِ اعظم نعمان بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ آپ کے فتاوٰی ملاحظہ فرماتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں اور اس کے مؤلّف کو اپنے خاص شاگردوں میں شامل فرماتے۔" [الاجازات المتینۃ لعلماء بکۃ والمدینۃ (۱۳۲۴ھ)]

          یہ چند جملے نمونے کے طور پر تھے، امام احمد رضا کی تبحرِ علمی اور شانِ تفقہ دیکھنا ہوتو ان کی تصنیفات کا بلا واسطہ مطالعہ کیجیے اور ان کی شخصیت سے متعلّق اہلِ علم کی تحریریں پڑھیے۔ عصبیت کے پردے چاک ہو جائیں گے اور حقیقت اور حقانیت آشکارہ ہوتی چلی جائے گی۔؂

آنکھیں اگر ہوں بند تو پھر دن بھی رات ہے
اس میں قصور کیا ہے بھلا آفتاب کا

("پیغامِ رضا"،ممبئی، اپریل تا جون ۲۰۰۹ء، ص ۱۴۴ تا ۱۴۸)


متعلقہ

تجویزوآراء