اعلیٰ حضرت امام اہلسنت اور شواہد

اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت اور شواہد

تحریر: مفتی محمد امان الرّب رضوی

تمھیں پھیلا رہے ہو علمِ حق اکنافِ عالم میں
امامِ اہلِ سنّت! نائبِ غوث الوریٰ تم ہو

یقیناً حتماً  اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت ہیں، آپ کا یہ منصب مواہبِ الٰہیہ و عطائے نبویّہ ہے۔ اس کی دلیل و شہادت  یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے اپنے  اپنے بزرگوں کو اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت کے اوصاف سے متصف کیا، مگر  وہ قیمتی و رسمی کی حد تک  محدود رہا اور فاضلِ  بریلوی کے مذکورہ بالا اوصاف آپ کے نام کی طرح  اکنافِ عالم میں پھیل گئے جو عطا و بخشش کی شان ہے۔ فاضلِ بریلوی دنیوی لذّات کو تج  کر عقائد و مسائلِ اہلِ سنّت کی مگس رانی میں لگے رہے جس سے فضلِ ایزدی نے خوش ہو کر

وَلَا تَہِنُوۡا وَلَا تَحْزَنُوۡا وَاَنۡتُمُ الۡاَعْلَوْنَ(آلِ عمران:139)

کا تاج آپ کے فرقِ اقدس پر سجادیا۔ آپ کے امامِ اہلِ سنّت و اعلیٰ   حضرت ہونے کی دوسری بڑی شہادت یہ ہے کہ اہلِ سنّت و جماعت  کے عقائد  و مسائل کی تشریحات و توضیحات میں کثیر کتب و رسائل لکھے جو جماعتِ اہلِ سنّت کے تحفّظ کے لئے کافی ہیں۔ چناں چہ اعلیٰ حضرت کے تلمیذ و خلیفہ ملک العلما فاضل بہاری علیہ الرحمۃ،  مولانا امجد رضا خاں صاحب نوری مقیم گوالیا کو اپنے مکتوب (مؤرّخہ ۲۹؍رمضان المبارک ۱۳۶۳ھ) میں تحریر فرماتے ہیں:

          ’’اس وقت اعلیٰ حضرت قُدِّسَ  سِرُّہُ الْعَزِیْز کی جملہ تصانیف و تالیفات و تحریرات چھپ جائیں  تو سنّیوں کو کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہ ہو گی، تفسیر، حدیث، فقہ، تصوّف، عقائد، اخلاق کے علاوہ تاریخ، جغرافیہ، ہیئت، توقیت، حساب و جبر مقابلہ، جفرزائچہ کون سے علوم ہیں جن میں اعلیٰ حضرت کی تصنیف نہیں۔ جس وقت یہ کتابیں جناب کی ہمت و محنت و توجہ سے چھپ جائیں گی اس  وقت لوگوں  کی آنکھیں کھلیں گی کہ اعلیٰ حضرت کیا تھے۔‘‘

(مقدمہ جامع الرضوی المعروف صحیح البہاری)

          فاضلِ بریلوی کے امامِ اہلِ سنّت ہونے کی تیسری شہادت یہ ہے کہ تمام فقہا نے احکامِ شریعت کی درجہ بندی سات قسموں میں کی ہے، مگر اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت نے گیارہ قسمیں اپنے ذاتی افادات سے تحریر فرمائی  ہیں:

          (۱) فرض (۲) واجب (۳)سنّتِ مؤکدہ  (۴) سنّتِ غیرِ مؤکدہ  (۵) مستحب (۶) مباح  (۷) حرام (۸) مکروہِ  تحریمی  (۹) اساءت  (۱۰) مکروہ ِ تنزیہی (۱۱) خلافِ اولیٰ۔

پھر ہر ایک کی ایسی جامع تعریف و مجمل بیان فرمایا کہ کوئی کیسا ہی ذہین  طباع ہو اس کو کہنا پڑے گا کہ بلاشبہ اعلیٰ حضرت اجتہاد پر قدرت رکھتے تھے اور بات  ہے کہ  اعلیٰ حضرت اجتہاد کے دروازے بند مانتے ہیں۔ آپ کی کسرِ نفسی کا حال یہ تھا کہ صدر الشریعہ مصنّفِ  بہار شریعت  فرماتے ہیں کہ میں نے اعلیٰ حضرت کی زبانِ اقدس سے یہ فرماتے ہوئے بار ہا سنا کہ میرے خیال میں بھی یہ نہیں ہے کہ میں مولوی ہوں۔ ہاں ، مذکورۂ بالا احکامِ شریعت کی  درجہ بندی پر القائے ربّانی و عطائے مصطفائی کے انوار و تجلیات  سے قلم و جد میں آ گیا۔ تحدیث ِ نعمت کا   اظہار، بایں طور فرمایا:

          اس تقریرِ منیر کو حفظ کر لیجیے کہ اِن سطور کے غیر   میں نہ ملے گی اور ہزارہا مسائل  میں کام دے گی اور صدہا عقدوں کو حل کرے گی۔ کلمات اس کے موافق، مخالف سب طرح ملیں گے مگر بِحَمْدِ اللہِ تَعَالٰی حق اس سے متجاوز نہیں، فقیر طمع رکھتا ہے کہ اگر سیّدنا امامِ اعظم رضی اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے حضور یہ تقریر عرض کی جاتی، ضرور ارشاد فرماتے کہ یہ عطرِ مذہب و طرازوِمُذَہَّب  ہے۔

(فتاوٰی رضویّہ، جدید جلد ۱، ص ۶۷۶)

          اعلیٰ حضرت کے اظہارِ نعمت کی تائیدمکۃ المکرّمہ کے ایک عالمِ نبیل، فاضلِ جلیل، محافظِ کتبِ حرم سیّد اسماعیل  بن سیّد خلیل علیھما الرحمۃ کے اس بیان سے بخوبی ہو جاتی ہے جنہوں نے اعلیٰ حضرت کے ایک فتویٰ کو دیکھ کر ارشاد فرمایا:’’ …………. وللہ اقول والحق اقول انہ لو راھا ابوحنیفۃ النعمان لا قرت عیناہ لجعل مؤلفھا من جملۃ الا صحاب‘‘  اللہ کی قسم کھا کر کہتا  ہوں اور حق کہتا ہوں کہ اس فتوے کو ابو حنیفہ نعمان دیکھتے تو یقیناً ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں اور انہیں اپنے  اصحاب یعنی امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر وغیرہم کے زمرے میں شامل فرماتے۔ اس تأثّر سے صاف عیاں ہے کہ  امام ِاہل ِسنّت اعلیٰ حضرت کی فکرِ  عالی اصحابِ ابو حنیفہ کے دماغ سے مستعار تھی۔

          فاضلِ بریلوی کے امامِ اہلِ سنّت ہونے کی چوتھی شہادت یہ ہے کہ آپ کے نام آنے والے جملہ خطوط  میں اعلیٰ حضرت امام ِاہل ِسنّت کے القاب ضرور ہوتے۔ علما  کا ان لقب کو التزاماً  تحریر فرمانا اس امر  کا متقاضی ہے کہ آپ کے عہد کے جملہ علما آپ کی عظمت و فوقیت تسلیم کرتے تھے۔

چناں چہ ملک العلما فاضل ِ بہاری علیہ الرحمۃ رقم طراز ہیں:

’’اعلیٰ حضرت کے نام باہر سے خطوط آیا کرتے تھے، جن کی تعدادِ مجموعی سیکڑوں نہیں، ہزاروں  نہیں، لاکھوں تک پہنچتی ہے۔ ان سب میں اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت  مُجدّدِ مأۃ حاضرہ مؤیّدِملّتِ طاہرہ یہ چار صفتیں ضرور ہوا کرتیں۔‘‘ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، ج۲، ص ۲۵)

          آپ کے امامِ اہلِ سنّت ہونے کے مزید ان گنت شواہد آپ کی تصانیف میں پائے جاتے ہیں،  زیرِ دست انھیں چند شواہد پر اکتفا کرتا ہوں۔

[’’پیغامِ رضا‘‘، ممبئی (فکر و تدبیر نمبر)،  اپریل تا جون ۲۰۰۹ء، ص۱۲۵ تا ۱۲۶]


متعلقہ

تجویزوآراء