آیت مغفرتِ ذنب کاعلمی جائزہ

آیت مغفرتِ ذنب کاعلمی جائزہ

علامہ مفتی سیدشاہ حُسین گردیزی مدظلہ العالی

مولاناغلام رسول سعیدی نے مسئلہ ‘‘ذنب’’پراپنی چندسالہ تحقیق کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے لکھاہے کہ:

سورہ فتح کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کی اگلی اور پچھلی کلی مغفرت کاقطعی اعلان کردیاہے۔قرآن مجیدمیں حضرت محمدرسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی اور نبی، رسول یا کسی بھی شخص کی کلی مغفرت کااعلان نہیں کیاگیااورآپ کے سوا کسی کی بھی کلی مغفرت قطعیت کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن آپ کے سواتمام انبیاءاورمرسلین کو اپنی اپنی فکردامن گیرہوگی اور پہلے مرحلہ میں بجزآپ کے تمام نبی اور رسول شفاعت سے گریزکریں گےاور صرف آپ شفاعت کبریٰ فرمائیں گے۔یہ اللہ تعالیٰ کی آپ پرعظیم نعمت ہے اور آپ کی منفردخصوصیت ہے۔لیکن آپ کی یہ خصوصیت اس وقت ہوگی جب مغفرت ذنوب کا تعلق جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیاہےاس کو برقراررکھاجائے۔۱؎

مولاناغلام رسول سعیدی کایہ مؤقف ان کی چندسالہ تحقیق کا خلاصہ ہے۔لیکن ان کی یہی بات حضرت عزالدین شافعی برسوں پہلے لکھ چکےہیں مگراسے کسی نے قبول نہیں کیا۔حضرت عزالدین شافعی لکھتےہیں:

اللہ تعالیٰ نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ خبردی تھی کہ آپ کے اگلے پچھلےذنب معاف فرمادیےگئے ہیں اور یہ کہیں منقول نہیں نہ کسی نبی نے اپنے متعلق اس قسم کی خبردی ہو، بلکہ یہ ظاہرہے کہ انہوں نے ایسی کوئی خبرنہیں دی۔اسی لیے جب قیامت میں ان سے شفاعت کرنے کی درخواست کی جائے گی توہرایک اپنی لغزش یادکرکےجو سرزدہوئی ہے نفسی نفسی پکارےگا۔اگران میں سے کسی کوبھی یہ معلوم ہوتاکہ ان کی لغزش معاف کردی گئی ہے تو شفاعت کے نام سے جھجک کاسوال ہی نہ پید اہوتا۔۲؎

گویامحققانہ مؤقف اصلی میں حضرت عزالدین شافعی کی عبارت کی نقل ہے۔

مماثلت کی وضاحت :

مولاناسعیدی کےمؤقف کی حضرت عزالدین شافعی کی عبارت سے جومماثلت ہے اس کی ہم وضاحت کرناچاہتے ہیں تاکہ یہ حقیقت اظہر من الشّمس ہوجائے کہ صدیوں کے فاصلہ کے باوجودعبارت میں کس قدرقربت ہے۔حضرت عزالدین شافعی نے لکھاہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کوخبردی تھی کہ آپ کے اگلے اور پچھلے ذنب معاف فرمادیے گئے ہیں۔

مولاناسعیدی نے اس میں ترمیم و تضعیف کرتے ہوئے لکھاسورہ فتح کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کی اگلی اور پچھلی کلی مغفرت کا اعلان کردیا۔

حضرت عزالدین شافعی نے لکھا:

یہ کہیں منقول نہیں کہ کسی نبی نے اپنے متعلق اس قسم کی خبردی ہو،بلکہ یہ ظاہر ہے کہ انہوں نے ایسی کوئی خبرنہیں دی۔

مولاناغلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:

قرآن مجید میں حضرت محمدرسول اللہﷺ کے علاوہ کسی اور نبی،رسول یا کسی بھی شخص کی کلی مغفرت کااعلان نہیں کیاگیااورآپ کے سواکسی کی بھی کلی مغفرت قطعیت کے ساتھ ثابت نہی ہے۔

حضرت عزالدین شافعی لکھتےہیں:

اسی لیے جب قیامت میں ان سے شفاعت کرنے کی درخواست کی جائے گی توہر ایک اپنی لغزش یاد کرکے جوسرزدہوئی ہےنفسی نفسی پکارے گا۔اگران میں سے کسی کو بھی یہ معلوم ہوتاکہ ان کی لغزش معاف فرمادی گئی ہے توشفاعت کے نام سے جھجک کاسوال ہی نہ پیداہوتا۔

مولاناغلام رسول سعیدی لکھتےہیں:

یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن آپ کے سواتمام انبیاء اور مرسلین کو اپنی اپنی فکردامن گیر ہوگی اور پہلے مرحلے میں بجزآپ کے تمام نبی اور رسول شفاعت سے گریزکریں گے۔

اور پھر لکھتے ہیں:

اور آپ کی یہ خصوصیت اسی وقت ہوگی جب مغفرت ذنوب کا تعلق جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا ہے اس کو برقراررکھاجائے۔

اس تفصیل سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ اصل مؤقف حضرت عزالدین شافعی کاتھا جسے کمال ہوشیاری سے مولاناسعیدی نے اپنامؤقف ظاہرکرکےان کی عبارت کو اپنی تائید میں پیش کردیااور ہر جگہ ‘‘کلی’’اور‘‘قطعی’’کی قیدلگائی اور پھر‘‘قرآن مجید’’کااضافہ بھی کیا اور مغفرت ذنوب کا تعلق آپﷺ کے ساتھ برقراررکھنےپراصرار کیا۔تاہم حضرت عزالدین شافعی ہوں یا مولاناغلام رسول سعیدی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔دیکھنایہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ لکھاہے وہ حقیقت کے مطابق ہے یا نہیں۔ ہم اس بات کو پانچ وجوہات سے بیان کریں گے۔

(۱)قطعیت کی نفی :

سورہ فتح کی اس آیت کریمہ لیغفرلک اللہ ماتقد م من ذنبک وماتاخرمیں ‘‘مغفرت کا قطعی اعلان نہیں ہے۔اس میں توکوئی شک نہیں کہ یہ آیت کریمہ قطعی ہے۔کیونکہ یہ قرآنِ حکیم میں ہےمگراس سے جو مفہوم ثابت کیاجارہاہےوہ قطعی نہیں ہے۔آیت کریمہ تو قطعی الثبوت ہے مگراس سے جو مفہوم کشیدکیاجارہاہے وہ قطعی الدلالت نہیں ہے۔ کیونکہ نص قطعی سے جو چیزثابت ہوتی ہے اس کا قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت ہوناضروری ہوتاہے۔ یہ اس معنی میں تو قطعی الثبوت ہے کہ یہ آیت کریمہ ہے۔مگراس مقام میں جو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرح ‘‘مغفرت ذنب’’ کی نسبت کی جارہی ہے وہ قطعی الدلالت نہیں ہے۔یعنی اس میں بے شماراحتمالات موجود ہیں۔ان احتمالات کاموجودہونااس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس بیان کردہ مفہوم پردلالت کرنے میں قطعی نہیں ہے۔حضرت عزالدین شافعی کے شیخ، حضرت محی الدین ابن عربی قدس سرہ لکھتےہیں:

ان قد شرک اھل البیت مع رسول اللہ ﷺ فی قولہ تعالیٰ لیغفرلک اللہ ما تقد م من ذ نبک وماتاخر۔ ۳؎

اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اہل بیت کو بھی شریک کیاہےتواگراس آیت کریمہ سے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی‘‘مغفرت کلی قطعیت’’ کے ساتھ ثابت ہوتی ہے تواہل بیت اور صحابہ کرام کی بھی ‘‘مغفرت گلی قطعیت’’ کے ساتھ ثابت ہوگی اور اس کے قائل مولاناسعیدی خودبھی نہیں ہیں اور وہ برملااس کی نفی کرچکے ہیں۔ حضرت ابن عربی قدس سرہ کی عبارت ہم نے اس لیے پیش کی ہے کہ حضرت عزالدین شافعی ان کے فیض یافتہ اور معتقدخاص تھے۔ ان کے دمشق کے زمانہ قیام میں ان کی خدمت کرتے رہے اورا نہیں وضو تک کراتے تھے۔توجب کسی بات میں حضرت عزالدین شافعی کو قبول کیاجاسکتاہے تواس معاملہ میں ان کے شیخ حضرت ابن عربی قدس سرہ کاقول بدرجہ اولیٰ قبول کیاجاسکتاہے۔

اوردوسری بات یہ ہے کہ علماء امت کاایک بڑاطبقہ اس بات کاقائل ہے کہ اس سے مراد صحابہ کرام یعنی امت کے ذنب ہیں توپھربھی یہ اپنے مذکورہ معنی میں قطعی الدلالت نہ ہوئی تو جب یہ آیت کریمہ اپنے معنی و مراد میں غیرواضح ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت کریمہ کے اس حصہ میں‘‘مغفرت کلی قطعیت’’کے ساتھ ثابت نہیں ہوسکتی۔

(۲)قرآن حکیم اور مغفرت کلی وقطعی :

حضرت عزالدین شافعی کایہ کہناکہ ‘‘کسی نبی نے اپنے بارے میں ایسی کوئی خبرنہیں دی’’ اور مولاناسعیدی کا یہ کہنا کہ‘‘قرآن مجید میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ کسی اور نبی، رسول یا کسی بھی شخص کی کلی مغفرت کااعلان نہیں کیاگیاہے’’۔یہ خبرنہ دینااوراعلان کرنااس کے وجود کی نفی ثابت نہیں کرسکتا۔کیونکہ کسی چیزکاعدم ذکر اس کے عدم وجود کو مستلزم نہیں ہوتا۔اگرحضرات انبیاء کرام کے بارے میں ‘‘کلمہ مغفرت’’سے خبریااعلان مغفرت نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی مغفرت نہیں ہے۔ہم ان شاء اللہ اس کی آئندہ صفحات میں وضاحت کریں گے۔البتہ حضرت عزالدین شافعی نے تو‘‘کسی نبی ’’ کی بات کی تھی مگرمولاناسعیدی نے‘‘کسی نبی،رسول’’کے ساتھ‘‘کسی بھی شخص’’کاذکرکرکے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات عالی کو عام آدمی کے مقابل لا کھڑاکیاجو افسوسناک بات ہے۔مگرہم مولاناسعیدی کی خدمت میں عرض کناں ہیں کہ انطاکیہ کا وہ شخص جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نمائندوں سے ملاقات کی قرآنِ حکیم میں اس کا ذکر ہے کہ ایک شخص اس شہرکے کسی دورکے مقام سے دوڑتاہواآیا،کہنےلگاکہ اے میری قوم ان فرستادہ لوگوں کی اتباع کرو۔ایسے لوگوں کی اتباع کروجو تم میں سے کوئی اجراور بدلانہیں مانگتےاور وہ خودبھی سچائی کی راہ پرہیں اور میرے پاس کون ساعذرہے کہ اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھ کو پیداکیااورتم لوگوں کو اس کی طرف لوٹ کرجاناہے۔کیامیں اللہ تعالیٰ کے سوا ایسے معبود بنالوں کہ اگررحمٰن یعنی اللہ تعالیٰ مجھےکوئی تکلیف پہنچاناچاہے تو نہ ان کی سفارش میرے کام آئے اور نہ وہ مجھ کو چھڑاسکیں۔اگر میں ایساکروں توکھلی گمراہی میں ہوں۔

اِنِّی اٰمَنتُ بِرَبِّکُم فَاسمَعُون ۴ Oقِیلَ الد خُلِ الجَنَّۃ قَالَ یٰلَیتَ قَومِی یَعلَمُون Oبِمَاغَفَرَ لِی رَبِّی وَجَعَلَنِی مِنَ المُکرَمِینَ

یعنی میں توتمہارےرب پر ایمان لاچکاہوں تم میری بات سن لو۔حکم ہواجنت میں داخل ہوجا،تواس نے کہاکہ کاش میری قوم کو معلوم ہوتاکہ میرے رب نے میری مغفرت کردی اور مجھے عزت داروں میں شامل کردیا۔

علماء تفسیرکے ایک طبقہ نے اسے ظاہرہی پر رکھاہے کہ ‘‘اس شخص کو زندہ ہی جنت میں داخل کردیاگیااوربتادیاگیاکہ تیری مغفرت ہوگئی توپھراس نے کہامیرے رب نے میری مغفرت کردی اور مجھے عزت داروں میں شامل کرلیاکاش کہ میری اس مغفرت کا علم میری قوم کو بھی ہوجاتا۔اوردوسرےطبقہ نے یہ کہا کہ جب اس شخص نے کہاکہ میں رب پرایمان لاچکا تو لوگوں نے اس پر سنگ باری شروع کردی جس سے اس کاانتقال ہوگیااورپھر‘‘اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایاجنت میں داخل ہوجا۔تواس نے کہاکہ کاش میری قوم کو معلوم ہوتاکہ میرے رب نے میری مغفرت کردی اور مجھے عزت داروں میں شامل کردیا’’۔دونوں صورتوں میں کوئی بھی ہواس کی مغفرت کلی اورقطعی ہوگئی اور اس کی اطلاع بھی اسے کردی گئی۔ اس آیت میں ‘‘غفر’’ماضی کا صیغہ ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کام وقوع پذیرہوچکااور اب اس کی خبردی جارہی ہے اور اس خبرکی اطلاع اس مغفور شخص کو بھی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ پہلے اس کی مغفرت ہوئی پھردخول جنت ہوا۔لہٰذا جب کسی کو جنت کی بشارت دی گئی تواس کامطلب یہ ہوگاکہ اس کی مغفرت ہوگئی ہے اور اس سے‘‘کلی’’کامسئلہ حل ہوگیاکہ مغفرت کاثمردخول جنت ہے۔جب اسے دخول جنت کا مژدہ جانفزامل گیاتو اس کی ‘‘کلی’’مغفرت ہوگئی۔

اب اگریہ کہاجائے کہ اس میں‘‘مَاتَقَدَّ مَ وَمَاتَاَخَّرَ’’کی قیدنہیں ہے تو اس سے ‘‘کلی مغفرت’’ کا اثبات نہیں ہوسکتاتواس کا جواب یہ ہے کہ اس شخص کی کلی مغفرت ہوچکی اور دخول جنت ہوچکایااس کا فیصلہ ہوچکاہےکیونکہ ‘‘ماتقدم وماتاخر’’کی قیدسے جو چیزثابت کی جا سکتی ہے وہ اس کے بغیر بھی اس مقام میں حاصل ہے اور‘‘قطعی’’بھی ہوگئی کہ اس آیت کریمہ میں کوئی دوسرا احتمال نہیں ہے۔کیونکہ جو چیزنص قطعی سے ثابت ہوتی ہے اس کے دو جزء ہوتے ہیں ایک قطعی الثبوت ہوناوہ تو ظاہرہے کہ آیت کریمہ ہے اور دوسرقطعی الدلالت ہوناتووہ بھی واضح ہے کہ مغفرت اوردخول جنت کی بات اسی شخص کے بارے میں ہے‘‘جوشہرکے کسی دوسرے مقام سے دوڑتاہواآیا’’۔اس میں علماء کی تفسیرکے دو رائے نہیں ہیں لہٰذامولاناسعیدی کا یہ لکھنا کہ:

‘‘قرآن مجید میں حضرت محمدرسو ل اللہﷺ کے علاوہ کسی نبی،رسول یا کسی بھی شخص کی کلی مغفرت کااعلان نہیں کیاگیااورآپ کے سواکسی کی بھی ‘‘کلی مغفرت قطعیت’’ کے ساتھ ثابت نہیں ہے’’۔

غلط ثابت ہوا۔قرآنِ حکیم میں موجود چیزکاانکار کیاگیااور حضورعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی ذاتِ عالی کوایک عام آدمی کے مقابل لاکھڑاکیاگیااور یہ زیادتی ہے۔ایساکرنابہرحال کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ اوردوسری بات یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں ہے حضرت نوح علیہ السلام نے دعاکی۔

رَبِّ اغفِر لِی وَلِوَالِدَ یَّ وَلِمَن دَخَلَ بَیتِیَ مُؤمِناً وَّلِلمُؤمِنِینَ وَالمُؤمِنَاتِ وَلَاتَزِدِ الظَّالِمِینَ اِلَّاتَبَارَا ۵؎

یعنی اے میرے رب میری مغفرت فرمااورمیرےوالدین اورجوایمان کے ساتھ میرے گھرمیں ہے اور سب مؤمنین اور مؤمنات کی۔

اورکافروں کی تباہی میں زیادتی فرما۔

اس آیت کریمہ میں حضرت نوح علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی میں جودرخواست ودعا کی ہے اس کے آخری حصہ میں تو طے ہے کہ وہ قبول ہوگیا۔اس وقت کے کافر عذاب میں غرق ہوگئے لیکن اس کا پہلاحصہ‘‘رَبِّ اغفِرلِی’’اللہ تعالیٰ نے قبول نہیں فرمایاہے مولاناسعیدی کو اس کا ثبوت فراہم کرناچاہیے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حضرات انبیاءکرام مستجاب الدعوات ہوتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی اس دعاکو شرف پذیرائی بخشی ہےاور اس لیے بھی کہ ان کی دعاکی قبولیت کے سلسلہ میں قرآنِ حکیم میں کوئی تردیدی بیان نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں فرمایاہے کہ میں نے آپ کی دعارد کردی ہےاور میں آپ کی مغفرت نہیں کروں گایامیں نے مغفرت نہیں کی ہے۔

اس طرح قرآنِ حکیم میں ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گزارش کی:

لَھُم عَلٰی ذَ نبٌ فَاَخَافُ اَن یَّنقَلِبُون ۶؎

انکامجھ پر ذنب ہے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ فرعونی مجھے قتل کردیں گے۔

اس قبطی کے قتل پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خودہی ‘‘ذنب’’کااطلاق کیاہے۔اللہ تعالیٰ نے اسے ذنب قرارنہیں دیا۔پھراس کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گزارش کی:

رَبِّ اِنِّی ظَلَمتُ نَفسِی فَغفِرلِی فَغَفَرَلَہٗ۔۷؎

یعنی اے میرے رب میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے تومیری مغفرت فرمادےپس ان کی مغفرت کردی گئی۔قرآن حکیم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ ایک ہی ذنب ثابت ہے اور اس کی مغفرت ہوگئی۔اس کے علاوہ ان کے کسی اور‘‘ذنب’’کاثبوت قرآنِ حکیم سے نہیں ہے۔لہٰذاان کی مغفرت کلی اور قطعی ہوگئی۔اس کے علاوہ بھی ایسی مثالیں قرآنِ حکیم سے پیش ہوسکتی ہیں لیکن ہم اختصار کو پیش نظررکھتےہوئے ان ہی پراکتفاکرتے ہیں اور ایک دفعہ پھر یہ گزارش کرناچاہتے ہیں کہ مولاناسعیدی نے جو یہ لکھاہے کہ:

قرآنِ مجیدمیں حضرت محمدرسول اللہﷺ کے علاوہ کسی نبی،رسول یاکسی بھی شخص کی کلی مغفرت کااعلان نہیں کیاگیااور آپ کے سوا کسی کی بھی ‘‘کلی مغفرت قطعیت’’کے ساتھ ثابت ہیں ہے۔

باطل محض ہے لائق اعتبارنہیں ہے۔اس لیے کہ‘‘فغفرلہ’’میں‘‘غفر’’ماضی کا صیغہ ہے جس سے خبردی جارہی ہے کہ ماضی میں یہ کام ہوچکاہے۔لہٰذا قرآنِ حکیم سے ان کی کلی اور قطعی مغفرت کا اعلان ثابت ہے۔

(۳)حدیث شفاعت سے استدلال:

قرآنِ حکیم کی آیات سے بحث کے بعداب ہم خبرواحدسے استدلال کی بات کرتے ہیں۔

ایک حدیث ہے:

قال رسول اللہ ﷺ اذاکان یوم القیٰمۃ ماج الناس بعضھم فی بعضٍ فیاتون آدم ، فیقولون اشفع الی ربک فیقول لست لھا،ولکن علیکم بابراھیم فانہ خلیل الرحمٰن، فیاتون ابراھیم، فیقول لست لھا،ولکن علیکم بموسیٰ فانہ کلیم اللہ ، فیاتون موسیٰ فیقول لست لھا،ولکن علیکم بعیسیٰ فانہ روح اللہ وکلمتہ، فیاتون عیسیٰ فیقول لست لھا،ولکن علیکم بمحمد فیاتونی فاقول انالھا۸؎

یہ حدیث مشکوٰ ۃ المصابیح سے ہم نے نقل کی ہے اور اس کے مصنف نے کہاکہ یہ حدیث بخاری و مسلم دونوں میں ہے۔اس حدیث میں لوگوں کو چارانبیاءکرام کے پاس سفارش کے لیے جانے کاذکرہےتوان چاروں کا ایک ہی جواب ہے۔‘‘لست لھا’’یعنی اس بارگاہ میں ہمیں اس کی اجازت نہیں لیکن آخرمیں جب لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں حاضرہوتےہیں اور درخواست کرتے ہیں توآپ فرماتے ہیں‘‘انالھا’’یہ میرامنصب ہے اور یہ کام میں کروں گا۔چنانچہ آپ بارگاہ خداوندی میں شفاعت کریں گے۔اللہ تعالیٰ آپ کی شفاعت قبول کرےگا۔شفاعت کبریٰ کا یہ عظیم منصب اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطافرمایاہے۔ ہمارامؤقف یہ ہے کہ دوسرے انبیاءکرام نے معذرت کرکے لوگوں کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت عالیہ میں پہنچنے میں مددفرمائی۔

اس حدیث میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منصب شفاعت کا بیان ہے جس کا فیصلہ آپ کے حق میں ہوچکاتھا۔اس حدیث میں شفاعت کبریٰ کے منصب کو‘‘مغفرت ذنب’’ یا کسی بھی اور چیزسے معلق اور منسلک نہیں کیاگیا۔لیکن مولاناسعیدی نے اس حدیث سے استدلال اور کوئی استفادہ نہیں کیا۔اس لیے کہ ان کی ‘‘حدیث نفس’’کی تائیداس روایت سے نہیں

ہوسکتی۔ اس سلسلہ میں انہوں نے ایک دوسری روایت کومستدل بنایااور وہ یہ ہے:

عن انس ان النبی ﷺ قال یجس المؤمنون یوم القیمۃ، حتی یھموابذ الک فیقولون لواِستشفعناالی ربنافیریحنامن کاننا،فیاتون آدم، فیقولو ن انت آدم ابوالناس خلقک اللہ عھدہ واسکنک جنۃ واسجد لک ملئکتہ وعلم اسماء کل شئی اشفع لناعند ربک حتی یریحنامن مکاننا ھذا،فیقول لست ھناکم ویذکر خطیئتہ التی اصاب اکلہ من الشجرۃ وقد نھی عنھاولکن ائتوانوحاً اول نبی بعثہ اللہ الی اھل الارض فیاتون نوحافیقول لست ہناکم ویذ کر خطیئتہ التی اصاب سوالہ ربہ بغیرعلم ولکن ائتواابراھیم خلیل الرحمٰن قال فیاتون ابراھیم فیقول انی لست ھناکم ویذ کرثلث کذ بات کذ بھن ولکن ائتواموسیٰ عبداً اتاہ اللہ التوراۃ وکلمہ وقربہ نجیاقال فیاتون موسیٰ فیقول انی لست ھناکم ویذ کرخطیتہ التی اصاب قتلہ النفس ولکن ائتواعیسیٰ عبداللہ و رسولہ وروح اللہ کلمتہ قال فیاتون عیسیٰ فیقول لست ھناکم ولکن ائتو محمداً عبداًغفراللہ لہ ماتقد م من ذنبہ وماتاخرقال فیاتون۔ ۹؎

ہم نے اس روایت کو مشکوٰ ۃ المصابیح سے نقل کیاہےاور اس کے مؤلف نے کہاہے کہ یہ روایت بخاری ومسلم دونوں میں ہے مولاناسعیدی نے اس روایت کو استدلال کے لیے اس لیے منتخب فرمایاہے کہ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے غفرلہ ماتقد م من ذ نبہ وماتاخر کااستعمال ہواہے۔اس کی وضاحت ہم آگے بیان کریں گے۔

اس حدیث میں حضرت آدم علیہ السلام کاابوالناس ہونا،دست خداوندی سے ان کا تخلیق ہونا، جنت میں رہائش پذیرہونا،فرشتوں کا ان کے سامنے سجدہ ریزہونا،انہیں ہر شئی کے اسم کا علم ہونا،حضرت نوح علیہ السلام کا اہل زمین کی طرف مبعوث ہونےوالوں میں اول ہونا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خلیل الرحمٰن ہونا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عبدہونا،تورات کا ان پر نازل ہونا، اللہ تعالیٰ کاان سے ہم کلام ہونااور خاص قرب بخشنا،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا عبدہونا،رسول ہونا،روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہونایہ ان کے اوصاف جمیلہ کا بیان ہے لیکن ان اوصاف کایہ تقاضانہیں ہے کہ شفاعت کبریٰ کامنصب بھی انہیں عطاکیاجاتا۔بس اسی طرح بات ہے کہ لِیَغفِرَلَکَ اللہ مَا تَقَدَّ مَ مِن ذَ نبِکَ وَمَاتَاخَّرَکانزول اورمغفرت ذنب کی آپ کی طرف نسبت کا یہ تقاضانہیں ہے کہ شفاعت کبریٰ کامنصب آپ کو عطاکیاجائے، جس طرح حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کونبوت عطاکرنےکاکوئی سبب نہیں ہے۔واللہ یختص برحمتہ من یشاءاللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں جسے چاہتاہےاپنی رحمت سے خاص فرمالیتاہے، اس طرح آپ کو شفاعت کبریٰ کامنصب عطافرمانے کاکوئی سبب نہیں ہے بلکہ یہ محض اس کی عطاہے۔

(الف)حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بیان کی وضاحت

حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے روزحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے تعارف کے لیے جو کلمات فرمائیں گے وہ یہ ہیں۔

عبداً غفراللہ لہ ماتقد م من ذنبہ وماتاخر

چونکہ دوسرےانبیاکرام نے معذرت کی کہ لَستَ ھَنَاکُمیعنی ہم اس بارگاہ میں تمہارے لیے اس وقت کوئی سفارش نہیں کراسکتےلہٰذاحضرت عیسیٰ علیہ السلام نے لوگوں کی رہنمائی ایک ایسی ہستی کی طرف کی جس کی وجہ سے دنیامیں اس قسم کا اعلان ہوچکاتھا۔یعنی اس وقت ایسی ہستی کی ضرورت تھی جو نہ صرف اپنی ذات کی حد تک محفوظ ہو بلکہ دوسروں کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دےجو نہ صرف اپنی ذات کی حدتک مغفور ہو بلکہ دوسروں کی مغفرت کے لیے سبب اور باعث بنے اس لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایاکہ تم لوگ حضرت محمدﷺ کی بارگاہ میں جاؤ جو اللہ تعالیٰ کے ایسے عبدکامل ہیں جن کے سبب اللہ تعالیٰ نے اگلوں اور پچھلوں کے ذنب کی مغفرت فرمائی ہے۔

اوراس وقت ایسی ہی ہستی کی ضرورت تھی جو دوسروں کے لیے اتنی نفع رساں ہوں نہ یہ کہ اپنی ذات کی حدتک اس کا نفع اور فائدہ محدودہو۔اوروہ حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی ہی ذات گرامی تھی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے لوگوں کی رہنمائی آپ کی طرف اس لیے کی کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں یہ فرماچکاہے۔

تاکہ مغفرت کرے اللہ تعالیٰ آپ کے سبب اگلوں اورپچھلوں کے ذنب کی۔ یعنی اس مقام کا اقتضاء یہی تھاکہ دنیامیں آپ کے بارے میں یہ اعلان ہوچکاہو۔اس لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایاجن کے سبب لوگوں کی مغفرت ہوتی ہے وہ ذات توحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہے اور آج اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کرنی ہے کہ وہ مخلوق کا حساب شروع فرمائے تاکہ لوگ جواس مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں اورکشمکش میں مبتلاہیں،امیدوبیم اورخوف ورجاء کی کیفیت میں مبتلاہیں اس سے خلاصی اوررہائی کی کوئی صورت پیداہوتواس کام کے لیے بھی آپ ہی کی طرف رجوع کیاجائے۔اس لیے ہم یہ سمجھتےہیں کہ اس مقام میں حضرت عطاء خراسانی کامؤقف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بہترترجمان کرسکتاہے۔اس لیے مولاناسعیدی کا یہ کہنا‘‘آپ کے سواکسی کی بھی کلی مغفرت قطعیت کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے

کہ قیامت کے دن آپ کے سواتمام انبیااور مرسلین کو اپنی اپنی فکردامن گیرہوگی’’۔

اس میں ‘‘یہی وجہ ہے’’درست نہیں ہے بلکہ یہ ان انبیاکرام کا منصب ہی نہیں۔اگر‘‘یہی وجہ ہے’’کوتسلیم کیاجائےتوپھرحضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سفارش کرنی چاہیے تھی کیونکہ انہوں نے یہ توکہا‘‘لَستُ ھُنَاکُم’’مگراس کے ساتھ اپنے کسی عذرکوبیان نہیں کیاکہ میں یہ کام کیوں نہیں کرسکتایعنی اپنی کسی کمزوری کوبیان نہ کیااس کامطلب یہ ہے کہ ان کی کوئی کمزوری تھی ہی نہیں اور بیان بھی نہیں ہوئی توپھرانہیں شفاعت کبریٰ کامنصب ہی نہیں تھا۔اگرکوئی یہ کہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے نکلے ہوئے کلمات شفاعت کا سبب بنے ہیں تولازم آئے گاکہ حضرت آدم علیہ السلام کی زبان سے نکلے ہوئے کلمات حضرت نوح علیہ السلام کے لیے شفاعت کبریٰ کے حصول کاسبب بنتے۔اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کی زبان سے نکلے ہوئے کلمات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے اور ان کے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے نکلے ہوئے کلمات تعارفی حیثیت رکھتےہیں۔نہ یہ کہ وہ شفاعت کبریٰ کاسبب بن گئے۔شفاعت کبریٰ آپﷺ کا منصب تھا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بغیر کسی مطالبہ کے عطافرمایا۔

(ب)بخاری ومسلم کی روایت میں اختلاف

یہ روایت بخاری میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے روز حضورعلیہ الصلوٰہ والسلام کے بارے میں کہیں گے عبداً غفراللہ لہ ماتقد م من ذنبہ وماتاخر مگر‘‘مسلم’’ میں اس طرح بھی ہے:

اذ ھبو االیٰ محمدﷺ فیاتونی،فیقولون یا محمدانت رسول اللہ وخاتم الانبیاء وغفراللہ لک ماتقد م من ذ نبک وماتاخر،اشفع لناالیٰ ربک۱۰؎

یعنی ان لوگوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ تم محمدﷺ کے پاس جاؤ تووہ میرے پاس آئیں گے۔چنانچہ وہ لوگ کہیں گے۔اےمحمد!آپ اللہ کے رسول اورخاتم الانبیا ہیں اوراللہ نےآپ کے سبب اگلوں اور پچھلوں کے ذنب کی مغفرت کردی ہے۔اپنے رب کی بارگاہ میں ہمارے لیے شفاعت کیجیے۔اس مقام میں حضرت خراسانی کی توجیہ یامؤقف بالکل درست ہے اس لیے کہ ابتداء میں اَنتَ رَسُول اللہاورخَاتَمُ الاَنبِیَاءآپ کی ذاتی تعریف ہے اور غَفَرَ اللہُ لَکَ مَا تَقَدَّ مَ مِن ذَ نبِکَ وَمَاتَاَخَّرَوہ تعریف ہے جو دوسروں کے حوالے سے ہے جس میں آپ کی وجہ سے امت کی مغفرت کاثبوت ملتاہےتوجب صحابہ کرام کی مغفرت آپ کی وجہ سے ہوئی تو اس لیے لوگوں کو ہمت ہوئی اور آپ کی بارگاہ میں حاضرہوکرشفاعت کے طالب ہوئے۔قیامت کے روزاللہ تعالیٰ کے مقبول بندے اس کے سایہ رحمت میں ہوں گے۔انہیں حساب کی اتنی جلدی نہیں ہوگی بلکہ وہ پچاس ہزارسال کادن ان پر چشم زدن میں گزرجائےگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تواللہ تعالیٰ کے مقبول ترین بندہ ہیں اور وہ مقبول ترین لوگوں میں ہوں گے۔

اب جب ‘‘صحیح مسلم’’کی روایت کو دیکھاجائےتومعلوم ہوگاکہ یہ قول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نہیں ہے بلکہ قیامت کے روزوہ لوگ جو پریشان حال اورپراگندہ اعمال ہوں گے وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت گرامی میں گزارش کریں گے:

انت رسول اللہ وخاتم الانبیاء وغفراللہ لک ماتقد م من ذ نبک و ماتاخر۔ اشفع لنا الیٰ ربک۔

توگویاگنہگاراورعام لوگوں کاقول ہوگا۔اس لیے اسے سندکے طورپرپیش کرنادرست نہیں ہے۔ عام لوگوں کاقول اس دنیامیں دلیل نہیں ہوتاتوآخرت میں کیسے دلیل ہوسکتاہے۔ اگر یہ گنہگارلوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت عالیہ میں حاضرنہ ہوں توبھی شفاعت کبریٰ آپ کرتے اس لیے کہ یہ آپ کا منصب ہے۔

(ج)حضرات انبیاکرام اورمیدان حشر

قیامت کے روزتمام انسان میدان حشرمیں جمع ہوں گے۔ ان میں ایک طبقہ فرمانبرداروں کا ہوگااوردوسراطبقہ نافرمانوں کا ہوگااورپھران دونوں طبقات میں درجات ہوں گےاور یہ حساب کا دن ہوگاقرآن حکیم میں ہے:

مِقدَ ارُہٗ خَمسِینَ اَلفَ سَنَۃ۔۱۱؎

اس ایک دن کی مقدارپچاس ہزارسال جتنی ہوگی۔اور اس کی ہولناکیوں کو قرآن حکیم میں جابجابیان کیاگیاہے۔لیکن وہ طبقہ جو فرمانبرداروں کا ہوگاوہ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے تلے ہوگااور خوش و خرم ہوگا۔ان پر اس دن کی ہولناکیوں کاکوئی اثرنہیں ہوگا۔ وہ نہایت مطمئن اور شاداں وفرحاں ہوگا۔قرآن حکیم میں ہے:

اَمَّا الَّذِ ینَ ابیَضَّت وُجُوھُھُم فَفِی رَحمَۃِ اللہِ۔۱۲؎

یعنی وہ لوگ جن کے چہرے سفیداورروشن ہوں گے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے تلے ہوں گے اور قرآنِ حکیم میں ہے:

وُجَوہٌ یَّومَئِذٍ نَاضِرَۃ Oاِلیٰ رَبِّھَا نَاظِرَۃٌO۱۳؎

یعنی قیامت کے روزایسے چہرہ بھی ہوں گے جو تروتازہ اور خوش وخرم اپنے رب کودیکھ رہے ہوں گے اور قرآن حکیم میں ہے:

وُجُوہٌ یَّومَئِذٍ مُّسفِرَۃٌ Oضَاحِکَۃٌ مُّستَبشِرۃO۱۴؎

یعنی اس روزایسے چہرہ بھی ہوں گے جوچمکتے ہوں گے جو چمکتے ہوئے،ہنستے ہوئے خوش و خرم ہوں گےاورقرآنِ حکیم میں ہے:

وُجَوہٌ یَّومَذٍ نَّاعِمَۃٌOلِّسَعیِھَارَاضِیَۃO۱۵؎

یعنی ایسےروزایسے چہرے بھی ہوں گے جو تازہ اور خوش ہوں گے اور اپنی سعی و کوشش پر راضی ہوں گے۔

ان آیات کریمہ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ حشرکے روزایک طبقہ نہایت خوش و خرم ہوگا، ان کے چہروں پرخوف وحزن اور رنج وملال کاکوئی اثرنہیں ہوگا۔جواس روزاطمینان وسکون سے ہوگا وہ آگے والے مرحلے سے مطمئن ہوگا۔قرآن حکیم میں ہے:

یَومَ نَحشُرُ المُتَّقِینَ اِلَی الرَّحمٰنِ وَفداً۔۱۶؎

یعنی قیامت کے روزہم پرہیزگاروں کو رحمٰن کے ہاں مہمانوں کی حیثیت سے جمع کریں گے۔ گویامتقین اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوں گے۔جتنےمتقی لوگ ہیں سب سے حسن سلوک کاوعدہ ہے اور اس دنیامیں حضرات انبیاکرام متقی بلکہ اتقی ہیں اور ان سے زیادہ کوئی تقوے دارنہیں ہے۔چنانچہ ان حضرات کاقیامت کے روزمیدان حشرمیں مہمان ہونا،معزز و محترم ہونا اور خوش و خرم ہونایقینی امر ہے۔قرآن حکیم میں ہے:

ھٰذَا یَومَ یَنفَعُ الصّٰدِ قِینَ صِدقُھُم۔۱۷؎

یعنی قیامت کے روز صادقین کو ان کا صدق بھرپورفائدہ دے گا۔کیونکہ وہ ظلم زیادتی کا دن نہیں ہوگابلکہ عدل و انصاف کا دن ہوگا۔اس روز کسی سے ذرہ برابرزیادتی نہیں ہوگی اور تمام انبیاکرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سب سے زیادہ صادق ہیں لہٰذاان کا سکون و اطمینان یقینی چیز ہے اور قرآن حکیم میں ہے:

فَلَنَسئَلَنَّ الَّذِ ینَ اُرسِلَ اِلَیھِم وَلَنَسئَلَنَّ المُرسَلِینَ،فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیھِم بِعِلمٍ وَّمَا کُنَّا غَآئِبِینَ۔۱۸؎

یعنی ہم ان لوگوں سے پوچھیں گےجن کی طرف انبیاورسل کوبھیجاگیاہے حضرات مرسلین سےبھی پوچھیں گے۔پھرہم خودان پر بیان کریں گےاس لیے کہ ہم کوئی غائب و غیرحاضر تو نہیں تھے۔یہاں حضرات مرسلین سے پوچھنےکامطلب یہ ہے کہ کیاواقعی ان لوگوں نے آپ پرایمان لایاتھاجب آپ نے انہیں دعوت و تبلیغ سے نوازا۔اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ حضرات مرسلین سے حساب ہوگااوروہ اس لیے پریشان ہوں گے۔وہ تومعصوم و مغفور ہیں اور اگرکسی نے نیک اوراچھاکام کیاہےاور اپنی ذمہ داری کو حسن و خوبی سے سرانجام دیاہے تو اس سے معلوم کرلیناکہ یہ کام آپ نے کیاہے،سرزنش نہیں ہے اور جس کے سامنے وہ عمل وقوع پذیرہواہےاس سے معلوم کرلینابھی عتاب نہیں ہے۔اس آیت میں ‘‘المرسلین’’ الجمع مُعَرف باللامہےاورایسی جمع کے بارے میں حضرت علامہ تفتازانی نے لکھاہے کہ: الجمع المعروف بلام الاستغراق یتناول کل واحد من الافراد۔۱۹؎

یعنی جمع بلام الاستغراق افراد میں سے ہر ہر فرد کو شامل ہوتاہے ،جیسےقرآن حکیم میں علم اٰد م الاسماءہے۔اس میں‘‘الاسماء’’میں اسماء، اسم کی جمع ہےاور اس پر الف لام داخل ہے تواب یہاں ‘‘الاسماء’’سے مراد ہرہراسم ہوگا۔چنانچہ مندرجہ بالاآیت کریمہ میں ‘‘المرسلین’’مرسل کی جمع ہے اور اس پر الف لام داخل ہے اور جمع پر الف لام کا دخول استغراق کافائدہ دیتاہے۔اس سے یہ معلوم ہواکہ ‘‘ہرہرمرسل’’سے یہ سول ہوگاحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی مسئول ہوں گے اس لیے کہ آپ مرسل ہیں۔اوریہ سوال کرنا کوئی تہدیدیاعتاب نہیں ہے۔ہمارے اس بات کی تائیداس آیت کریمہ سے بھی ہوئی ہے کہ: ۲۰؎

یعنی قیامت کے روز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور وہ اہل ایمان جوآپ کے ساتھ ہوں گے اللہ تعالیٰ ان پر نوازش ومہربانی فرمائے گا۔یعنی جن لوگوں کواس روز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایمانی معیت نصیب ہوگی ان پر بھی نوازش و عطا ہوگی۔جب غیر انبیااہل ایمان اور اہل تقویٰ کو یہ اعزازواکرام حاصل ہوگاتوحضرات انبیاءکرام کا کیاکہنا۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضرات انبیاکرام اس روزراحت وسکون سے ہوں گے،ان پر کوئی خوف و حزن کی کیفیت نہیں ہوگی،اللہ تعالیٰ کی خصوصی نوازشات وعنایات ان پر ہوں گی۔ اس لیے ہمیں یہ زیب نہیں دیتاکہ ہم اس طرح لکھیں کہ:

تمام انبیاومرسلین کو اپنی اپنی فکردامن گیرہوگی۔

حضرات انبیاکرام کا نفسی نفسی کہنےکامطلب یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کی حد تک محفوظ و مصون ہیں اورسردست کسی کی شفاعت و سفارش کی اجازت نہیں ہے۔ہمیں اس کا امراورارشاد نہیں،یہ ہماری ذمہ داری نہیں، ہم اس کے پابندنہیں ہیں۔ یہ کسی حدیث میں نہیں ہے کہ جب ‘‘الناس’’ان کے پاس پہنچےتووہ خوف زدہ تھے،لرزرہے تھے،ان سے بات نہیں ہوپا رہی تھی بلکہ جب یہ ‘‘الناس’’ان کی خدمت میں حاضرہوئے۔انہوں نے ان کی بات سنی اور عمدہ طریقہ سے انہیں جواب دیا کہ فی الحال شفاعت و سفارش کی اجازت نہیں۔اس طرح ہر ایک نے دوسرے کی طرف رجوع کامشورہ دیا۔

ایک فروگزاشت کی طرف اشارہ :

حضرات انبیاکرام کی تعدادکے بارے میں مشہورقول یہ ہے کہ وہ ایک لاکھ چوبیس ہزار یااس میں معمولی کم و بیش پر مشتمل ہےاور ان میں سے تقریباًدودرجن حضرات گرامی کے اسماء قرآن حکیم میں ۃیں اور ہم نےجواحادیث شفاعت ذکرکی ہیں ان میں سے ایک میں چار اوردوسری میں پانچ انبیاکرام کے اسماء گرامی مذکورہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ ان لوگوں کے پاس ‘‘الناس’’کی حاضری ہوگی۔بہرصورت میدانِ حشر میں حضرت آدم سے لے کرحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک تمام انبیاکرام موجودہوں گے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔لیکن جن کے پاس ‘‘الناس’’کی حاضری کاذکرہے وہ چارپانچ ہی ہیں۔مگرمولانا سعیدی نے لکھاکہ: ‘‘تمام’’انبیاکرام اورمرسلین کو اپنی اپنی فکر دامن گیرہوگی۔

مولاناسعیدی نے چار پانچ انبیاکرام پر‘‘تمام’’کااطلاق کیاہے،جودرست نہیں ہے۔ کیونکہ ‘‘چار’’اور‘‘پانچ’’جمع توضرورہیں۔مگر‘‘تمام’’نہیں ہیں۔‘‘تمام’’،‘‘کل’’کامعنی ہے، جس میں حصرواستغراق پایاجاتاہے۔جاءنی القوماورجاء نی القوم کلھمکےمعنی ومفہوم میں بڑافرق ہے۔صرف‘‘قوم کاآنا’’اور‘‘تمام قوم کاآنا’’میں فرق اور امتیازنہ کرنا،غفل اکبر اور تحقیقی بحث میں غیر محتاط کلمات کااستعمال ہے۔حضرت عزالدین شافعی نے اپنی عربی عبارت میں ایساکوئی کلمہ استعمال نہیں کیا۔یہ مولاناسعیدی کی اختراع ہے۔

(۴)شفاعت کبریٰ اور کلی مغفرت ذنب :

مولاناغلام رسول سعیدی کایہ مؤقف کہ‘‘کلی مغفرت ذنب کی وجہ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام قیامت کے روزشفاعت کبریٰ فرمائیں گے’’اس لیے بھی غیرصحیح ہے کہ آیت کریمہ:

عَسیٰ اَن یَّبعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماًمَّحمُودًا۔۲۱؎

سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ہےاور سورہ بنی اسرائیل مکی دورمیں نازل ہوئی۔توگویااللہ تعالیٰ نے مکی دور میں آپ سے وعدہ فرمایاتھاکہ ہم آپ کو مقام محمود پر فائزفرمائیں گے اور اس پر حدیث:

وَابعَثَہُ مَقَامّامَّحمُودًا نِ الَّذِ ی وَعَد تَّہٗ۔۲۲؎

میں‘‘اَلَّذِ ی وَعَد تَہٗ’’بھی دلالت کررہاہے۔یعنی وہ مقام محمود جس کا وعدہ تونے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیاہے۔اذان کے بعد کی جانے والی یہ دعامدنی دورکے ابتداء سے تعلق رکھتی ہےجوبہر صورت معاہدہ حدیبیہ سے پہلے ہی کازمانہ ہے اور لِیَغفِرَ لَکَ اللہمعاہدہ حدیبیہ کے بعدنازل ہوئی ہے اور ‘‘مقام محمود’’اس مقام کو کہتے ہیں کہ جہاں قیامت کے روز میدان حشرمیں جلوہ گرہوکرحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایسی حمدوثناءکریں گے جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کی ہوگی اور وہیں آپ شفاعت فرمائیں گے۔جسے شفاعت کبریٰ اور عظمیٰ کہا جاتاہے۔چنانچہ حضرت جاراللہ زمخشری ‘‘مقاماًمحمودا’’کی تفسیرمیں لکھتےہیں:

المرادالشفاعۃ۔۲۳؎

اس سے مرادشفاعت یعنی مقام شفاعت ہے۔حضرت علی مہامی لکھتے ہیں:

ھو مقام الشفاعۃ۔۲۴؎

یعنی مقام محمودسے مرادمقام شفاعت ہے۔حضرت بیضاوی قدس سرہ لکھتے ہیں:

المشھود انہ مقام الشفاعۃ لماروی ابوھریرۃ انہ علیہ السلام قال ھو المقام الذ ی اشفع فیہ لامتی۔۲۵؎

مشہوریہ ہے کہ وہ مقام شفاعت ہے جیساکہ ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ مقام محمودوہ مقام ہے جہاں میں اپنی امت کے لیے شفاعت کروں گا۔ اور حضرت محمودآلوسی لکھتےہیں:

المراد بذ الک المقام، مقام الشفاعۃ العظمیٰ۔۲۶؎

یعنی مقام محمودشفاعت عظمیٰ کے مقام کانام ہے۔اسی طرح حدیث شفاعت کے آخرمیں ہے:

ثم تلاھذ ہ الایۃ عسی ان یبعثک ربک مقامامحموداً قال و ھذ االمقام المحمود الذ ی وعدہ نبیکم۔۲۷؎

پھرانہوں نے عسیٰ ان یبعثک ربک مقام محموداًکی تلاوت کی اورفرمایایہ مقام محمودوہ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے وعدہ فرمایاہے:

چنانچہ اس‘‘مقام محمود’’یعنی شفاعت کبریٰ کا منصب عطاکرنے کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے ہجرت سے قبل مکی دورمیں کیاتھااور لِیَغفِرَ لَکَ اللہُ مَاتَقَدَّ م مِن ذ نبِک وَمَاتَاَخَّرَمعاہدۂ حدیبیہ سے واپسی پرنازل ہوئی۔اس لیے اس آیتہ کریمہ یا اس کے مضمون کو مقام محمود اور شفاعت کبریٰ کے حصول سےمنسلک کرناکس طرح صحیح ہوسکتاہے۔اور پھراللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ غیرمشروط اور غیر مقیدہے۔اس میں ایسی کوئی شرط یاقیدنہیں ہے کہ پہلے آپ کے اگلے پچھلے ذنب معاف کیے جائیں گے اور پھرآپ کو مقام محمود اور شفاعت کبریٰ کامنصب دیاجائےگا۔اور پھراللہ تعالیٰ نے بھی یہ بات نہیں کہ اورخود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی یہ نہیں فرمایاکہ‘‘کلی مغفرت کے نتیجے میں مجھے یہ منصب عطاہوا ہے’’۔توپھروہ لوگ جن کا دعویٰ یہ ہے کہ‘‘ہماراقبلہ حدیث ہے’’جدھرحدیث ہوتی ہے ہم ادھرہوجاتےہیں اور جدھروہ مڑتی ہے ہم ادھرمڑجاتے ہیں تویہاں ان کو کیا ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا صاف وعدہ موجود ہے اور وہ بھی غیرمشروط وغیر مقید اور پھر اس کی شان یہ ہے کہ ‘‘لایخلف اللہ المیعاد’’کہ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا تووہ اس بات کو کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ شفاعتِ کبریٰ آپ کا منصب ہے اور یہ وہ منصب ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بغیر مطالبہ کے عطافرمایاہے۔اس کا‘‘کلی مغفرت’’سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کا کلی مغفرت سے تعلق ثابت کرنااختراع و ابداع ہے۔

(۵)مغفرت ذنب میں نسبت ظنی ہے:

حضرت ابن عابدین شامی لکھتےہیں:

ان الاد لۃ المعیۃ اربعۃ الاول قطعی الثبوت والدلالۃ کنصوص القرآن المفسرۃ او المحکۃ،والسنۃ المتواترہ،التی مفھومھاقطعی،الثانی قطعی الثبوت ظنی الدلاۃ کالآیات المؤولۃ۔۲۸؎

سماعی دلائل کی چار قسمیں ہیں۔پہلی قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت ہے جیسے قرآنِ حکیم کی وہ نصوص جومفسرہ یا محکمہ ہیں اور سنت متواترہ جس کا مفہوم قطعی ہےاوردوسری قسم قطعی الثبوت اور ظنی الدلالت ہے جیسے آیات مؤولہ ہیں۔یعنی کوئی چیزقطعی الثبوت والدلالت ہو تواسے قطعی کہتے ہیں اوراگرکوئی چیزقطعی الثبوت اور ظنی الدلالت ہوتووہ قطعی نہیں ہوسکتی اسے‘‘ظنی’’کانام دیاجاتاہے۔جیسے وہ آیات جن میں تاویل ہوتی ہے اور کئی کئی احتمال ہوتے ہیں اورتاویل سےکام لے کرایک احتمال کو متعین کیاجاتاہےاور یہ چیزظنی ہوتی ہے۔ جس کی ایک مثال حضرت نظام الدین شاشی نےلکھی ہے:

لفظ القروء،المذکور فی کتاب اللہ تعالیٰ محمول اماعلی الحیض کما ھو مذھبنا او علیٰ الطھرکماھومذ ھب الشافعی۔۲۹؎

قرآن حکیم میں جو‘‘ثلثتہ قروء’’ہےاس میں سے لفظ ‘‘قروء’’یاتو‘‘حیض’’پرمحمول ہے (جیسا کہ ہمارامذہب حنفی ہے)یا‘‘طہر’’پر محمول ہے(جیساکہ شافعی مذہب ہے) یعنی ‘‘قروء’’ کے دو معنی ہیں ایک حیض دوسراطہراس لیے اصحاب علم نے اس میں تاویل سے کام لیاہے۔حنفیہ نے تاویل کرکے اس سے مرادحیض لیاہے اور شافعیہ نے تاویل کرکےاس سے مراد طہر لیا ہےچونکہ‘‘ثلثتہ قروء’’ قرآنِ حکیم کی آیت کا حصہ ہے اس لیے قطعی الثبوت ہے مگرمعنی مراد یعنی حیض پراطلاق ودلالت میں ظنی ہے۔ اس لیے کہ اس میں اوراحتمالات بھی ہیں۔ اس بناپریہ کہاجائےگاکہ‘‘قروء’’سے حیض مراد لیناظنی ہے،قطعی نہیں ہے۔حضرت شیخ احمدمؤدل کے حکم پر بحث کرتے ہوئےلکھتےہیں:

حکم الموؤل وجوب العمل بماجاء فی تاویل المجتھد مع احتمال انہ غلط و یکون الصواب فی جانب الآخر،والحاصل انہ ظنی واجب العمل غیر قطعی فی العلم۔۳۰؎

یعنی موؤل کاحکم یہ ہے کہ جب اس میں مجتہد تاویل کرکے ایک معنی متعین کرتاہے تو اس پر عمل کرنالازم ہوتاہےباوجود اس کے کہ اس میں یہ احتمال بھی موجود ہوتاہے کہ وہ غلط ہو اور صواب جانب مخالف میں ہو۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ موؤل دلیل ظنی ہوتاہےاس پر عمل کرنا لازم ہوتاہے۔لیکن علم کے معاملہ میں غیر قطعی ہوتاہے۔یعنی اگراس کا تعلق عمل سے ہے تو وہ لازم ہوتاہےاگراس کا تعلق یقین و عقیدہ سے ہے تو پھرموؤل کا اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔عام ازیں کہ موؤل کے معنی کا تعین خبرواحدسے ہواہویاقیاس سے ہو۔حضرت جلال الدین محلی لِیَغفِرَلَکَ اللہ مَاتَقَدَّ م مِن ذَنبِکَ وَمَاتَاَخَّرَکےبارے میں لکھتے ہیں:

ھوموؤل لعصمۃ الانبیاء علیہم السلام بالد لیل العقلی القاطع من الذ نوب۳۱؎

یعنی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف اس مقام میں ذنب کی نسبت کی تاویل کی گئی ہے یا اس

سے مرادامت کے ذنوب ہیں۔اس کے علاوہ دوسرے کئی احتمال حضرت صاوی نے اس مقام میں بیان کیے ہیں۔

ہمارامدعایہ ہے کہ جو چیزموؤل ہوگی وہ دلیل ظنی ہوگی۔دلیل قطعی نہیں ہوگی۔عمل میں تو اسے اہمیت حاصل ہوگی لیکن علم وعقیدہ کے باب میں وہ مفیدنہیں ہوگی۔اور اس آیت میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف ذنب کی نسبت موؤل ہے اور یہاں عمل کی نہیں علم و عقیدہ کی بات ہے۔

اورخود مولاناغلام رسول سعیدی نے اس میں حضرت سیوطی کے حوالے سے کوئی سترہ احتمالات ذکرکیے ہیں اور جب خبرواحد سے وہ ایک احتمال متعین کررہے ہیں تو یہ دلیل ظنی ہوئی۔

حضرت علامہ تفتازانی خبرواحدکے بارے میں لکھتےہیں:

ان خبرالواحد علیٰ تقد یر اشتمالہ علیٰ جمیع الشرائط،المذ کورۃ فی اصول الفقہ لا یفید الاالظن۔۳۳؎

یعنی خبرواحداگران تمام شرائط پر جو اصول فقہ میں مذکورہیں مشتمل ہوتو بھی صرف ظن کا فائدہ دیتی ہے اور اسکے بعد واضح طورپرلکھتے ہیں۔

لاعبرۃ بالظن فی باب الاعتقاد یات۔۳۴؎

یعنی اعتقادیات میں ظن کا کوئی اعتبارنہیں ہوتا۔یعنی خبرواحد دلیل ظنی ہوتی ہے۔اور دلیل ظنی اعتقادیات میں سودمندنہیں ہوتی لہٰذاخبرواحدیقینیات میں فائدہ نہیں دیتی۔ اور حضرت شیخ عبدالعزیزپرہاروی نے بھی لکھاہے:

ان خبرالواحد لایعتبرفی العقائد۔۳۵؎

عقائدچونکہ یقینیات کے باب میں شامل ہیں اس لیے خبرواحد ان میں سودمندنہیں ہوتی۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اصحاب بدرکے بارے میں فرمایاہے۔

اِعمَلُوا مَاشِئتُم قَد غُفِرَت لَکُم۔۳۶؎

یعنی تم لوگ جوچاہوعمل کرواللہ تعالیٰ نے تمہاری مغفرت کردی ہے۔مولاناسعیدی نے اس پر لکھاہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بدرکومغفرت کی نوید سنائی ہے۔لیکن یہ خبرواحدسے ثابت ہے اور ظنی ہے۔۳۷؎

یعنی جو چیزخبرواحد سے ثابت ہوتی ہے وہ ظنی ہوتی ہے۔مولاناسعیدی نے آیت کریمہ لِیَغفِرَ لَکَ اللہ مَا تَقَدَّ مَ مِن ذَنبِکَ وَمَا تَاَخَّر۔میں جوسترہ احتمال بیان کیے ہیں ان میں ایک احتمال کہ‘‘ذَنبِک’’میں ذنب کی نسبت حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی طرف ہے کو خبر واحد سے ثابت کیا ہے۔لہٰذایہ ثبوت ظنی سےہوااور چونکہ ذنب کی نسبت حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کی ذاتِ گرامی کی طرف ہوسکتی ہے یا نہیں علماء کرام نے عصمت انبیاعلیہم السلام کے ضمن اور ذیل میں بیان کیاہےاور عصمت انبیاعلیہم السلام کی بحث عقائدسےتعلق رکھتی ہے جو یقینیات کے قبیل سے ہے۔لہٰذاخبرواحد جو دلیل ظنی ہوتی ہےسے یقینیات و اعتقادیات میں استدلال کرناخلاف قاعدہ اور خلاف ضابطہ ہے اور یہ وہ قاعدہ اور ضابطہ ہے جو مولانا سعیدی کوبھی تسلیم ہے۔لہٰذانہیں اپنے اس مؤقف:‘‘آپ کے سواکسی کی بھی کلی مغفرت قطعیت کے ساتھ ثابت نہیں’’کے درست نہ ہونےکااعتراف کرناچاہیےاور حقیقت جیسی ہے ویسی ہی قبول کرنی چاہیے۔

‘‘حوالہ جات’’

شرح صحیح مسلم،ج۷،ص۳۳۸۔-1

جواہرالبحار،ج۱،ص۱۹۷۔ -2

فتوحاتِ مکیہ، ج ۱ ،ص ۳۵۷۔ -3

قرآن حکیم، سورۂ یٰسین،آیت۲۷۔ -4

قرآنِ حکیم،سورۂ نوح،آیت ۲۸۔ -5

قرآنِ حکیم،سورۃ الشعراء،آیت۱۴۔ -6

قرآنِ حکیم،سورۃ القصص،آیت۱۶۔ -7

مشکوٰۃ المصابیح،ص۴۸۸۔ -8

مشکوٰۃ المصابیح،ص۴۸۸۔ -9

صحیح مسلم،ج۱ ،ص۱۱۱۔ -10

قرآنِ حکیم سورۃ المعارج،آیت ۴۔ -11

قرآنِ حکیم، سورۂ آل عمران،آیت۱۰۷۔ -12

قرآنِ حکیم،سورۃ القیامہ،آیت ۲۲۔ -13

قرآنِ حکیم،سورۂ عبس،آیت ۳۸۔ -14

قرآنِ حکیم، سورۃ الغاشیہ،آیت۸۔ -15

قرآنِ حکیم،سورۂ مریم،آیت ۸۵۔ -16

قرآنِ حکیم،سورۂ مائدہ،آیت ۱۱۹۔ -17

قرآنِ حکیم،سورۂ اعراف،آیت۷۔ -18

مختصرالمعانی،ص۱۱۸۔ -19

قرآنِ حکیم،سورۃ التحریم،آیت۸۔ -20

قرآنِ حکیم،سورۂ بنی اسرائیل،آیت ۷۹۔ -21

مشکوٰۃ المصابیح،ص۶۵۔-22

تفسیرکشاف،ج۲،ص۶۸۷۔ -23

تفسیرتبصیرالرحمٰن،ج ۱، ص۴۳۵۔-24

تفسیربیضاوی،ص۴۹۶۔-25

تفسیرروح المعانی،ج۱۵،ص۱۴۰۔-26

مشکوٰۃ المصابیح،ص۴۸۸۔ -27

فتاویٰ شامی،ج۱،ص۷۰۔-28

اصول الشاشی،ص۱۳۔-29

نورالانوار،ص۸۵۔-30

تفسیرجلالین،ص۴۲۳۔-31

تفسیر جلالین،ص۴۲۳۔-32

شرح عقائد،ص۱۰۱۔-33

شرح عقائد،ص۱۰۱۔-34

نبراس،ص۴۵۰۔-35

صحیح البخاری،ج۲،ص۵۶۷۔-36

شرح صحیح مسلم،ج۷،ص۳۴۱۔-37


متعلقہ

تجویزوآراء