قرآن پرظلم کا ناقدانہ جائزہ

‘‘قرآن پرظلم’’ کا ناقدانہ جائزہ

تاج الشریعہ حضرت علامہ شاہ اختر رضا خاں ازہری، دام ظلہ

اپنی کتاب کے مقدمہ میں (فاضل مقالہ نگار جناب امام علی قاسمی رائے پوری نے) اس مختصر تمہید کے بعد کہ ‘‘ہرمسلمان کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں سکون و راحت اور آخرت میں نجات و مغفرت حاصل کرنے کا ذریعہ اس دین کی پیروی ہے جسے اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ نے پیش فرمایا’’ قاسمی صاحب یوں شعلہ افشانی کرتے ہیں‘‘اس کے ساتھ یہ ایک تکلیف دہ اور افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہر زمانہ میں اپنے مسلمان کہنے والوں میں ایسے گمراہ لوگ بھی پیدا ہوتے رہے ہیں اور آج بھی ہیں جو زبان سے کتاب و سنت کی اتباع کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اپنی طرف سے کچھ عقیدے اور احکام نکال لیتے ہیں پھر انہیں ثابت کرنےکے لئے قرآن مجید کی غلط تفسیر اور حدیثوں کی مہمل تاویل کرتے ہیں ایسے ہی گمراہ لوگوں میں نام نہاد بریلوی مکتب فکر کے لوگ ہیں الخ’’۔

فاقول :آپ نےدوسروں کو تودل کھول کر گمراہ کیا۔قرآن وحدیث کی غلط تفسیرمہمل تاویل کرنے اپنی طرف سے عقیدے اور احکام نکالنے کا الزام دیاقطع نظر اس کے کہ یہ الزام ہرگز صحیح نہیں۔ یہاں آپ سے آپ ہی کے امام کی عبارتیں پیش کرکے پوچھنایہ ہے کہ کیا آپ اور آپ کے امام الطائفہ پر یہ الزام عاید نہیں ہوتے۔ اب ہم وہ عبارتیں ذکر کرتیں ہیں جن سے بعونہ تعالیٰ یہ ثآبت ہوگاکہ یہ الزام انہیں پرعائدہیں اور بزورزبان انہوں نے ہمارے اوپر تھوپے ہیں۔امام الطائفہ اپنی کتاب ‘‘تقویت الایمان’’ میں رقمطراز ہیں:

‘‘جس کانام محمدیاعلی ہے کسی چیزکا مختارنہیں’’(ص۳۷) نیزکہتے ہیں‘‘اللہ صاحب نے کسی کو عالم میں تصرف کرنیکی قدرت نہیں دی’’(ص۱۷) اور اسے آیت سے ثابت بتایاہے، دریافت طلب یہ امر ہے کہ امام الطائفہ کا یہ دعویٰ اس آیت مذکورہ سے کس طرح ثابت ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔‘‘ فالمد برات امرا’’، یعنی قسم ان کی جوکاموں کی تدبیر کریں۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس جگہ قسم سے مراد ملئکہ ہیں اور علامہ بیضاوی نے بطور احتمام فرمایاکہ اس قسم سے مراد کاملین کی روحیں ہیں جوشدت کے ساتھ جسموں سے جدا ہوتی ہیں اور جلد عالم ملکوت میں پہنچتی اور خطائر قدس(کذا) کی طرف بڑھ کر تدبیر امور کرتی ہیں۔ان کی عبارات زیرآیت کریمہ‘‘والنازعات’’یہ ہے۔

‘‘او صفات النفوس الفاضلہ حال المفارقہ فانھا تزع عن الابدان غرقا ای نزعا شدید ا من اغراق النازع فی القوس فتنسط الی عالم الملکوت و تسبیح فیہ۔۔۔۔۔’’الخ

اقول :دونوں توجیہوں پر(خواہ مٰلئکہ مراد ہوں خواہ ارواح کاملین) تصرف غیراللہ ثابت اور امام الطائفہ کا دعویٰ باطل،‘‘وللہ الحمد۔۔۔۔۔’’نیزحضرت عیسیٰ علیہ السلام سے حکایت فرماتاہے کہ انہوں نے فرمایا:

‘‘انی اخلق من الطین کھئیۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیراباذ ن اللہ وابریٗ الاکمہ والابرص واحی الموتیٰ باذ ن اللہ۔۔۔۔۔’’یعنی میں تمہار ےلئے مٹی سے پرند کی سی صورت بناتاہوں پھراس میں پھونک مارتاہوں تو وہ فوراپرندہوجاتی ہے اللہ کے حکم سے اور میں شفا دیتاہوں مادرزاد اندھے اور سفید داغ والے کو اور میں مردے جلاتاہوں اللہ کے حکم سے۔

اب بتاؤ غلط تفسیر کا الزام کس کے سر ہے؟ امام الطائفہ کے اس قول سے ان آیات و احادیث کی جن میں انبیاء واولیاء کے تصرف کی تصریح ہے تعطیل لازم آتی ہے کہ نہیں؟۔۔۔۔۔ قرآن وسنت کا نام لیں اور قرآن وسنت کو جھٹلائیں۔ سچ کہا(معترض نے(کہ‘‘زبان سے کتاب و سنت کا دعویٰ کرتے ہیں’’اگر کسی کے لئے تصرف کی قدرت ثابت کرناشرک ہے جیساکہ اس کی مذکورہ عبارتوں کا مفاد ہے۔‘‘کمالایخفیٰ’’بلکہ خود اس نے تصریح کی کہ ‘‘جو کوئی کسی مخلوق کا عالم میں تصرف ثابت کرے اور اپناوکیل سمجھ کر اس کو مانے، سو اب اس پر شرک ثابت ہوجاتاہے گو کہ اللہ کے برابرنہ سمجھےاور اس کے مقابلے کی طاقت اس کونہ ثابت کرے’’، تو بتائیے ان ائمہ اعلام، اساطین دین و فقہاء و محدثین کے لئے کیاحکم ہوگا جو تصرف ثابت کرگئے۔ اگر وہ مشرک ہیں(تمہارے زعم پر ) تو مشرک کی خبردیانات میں نامعتبر تو قرآن و سنت (جو دین کی اصل ہیں اور ہمیں انہیں سے پہنچےہیں) کا اعتبار کیوں کر ہوگا۔ اور جب یہ نامعتبرٹھہرے تو دین کس چیز کا نام رہ گیا‘‘ولاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم’’جانے دووہ اپنے مستند ابن تیمیہ کو کیاکہوگے جو یہ تصریح کرگئے۔

‘‘ولأن الأمۃ لایصلون مابینھم وبین ربھم الا بوساطۃ الرسول لیس لاحد طریق غیرہ ولا سبب سواہ وقد اقامہ اللہ مقام نفسہ فی امرہ و نہیہ۔۔۔۔۔الخ’’

کتناعظیم تصرف حضورﷺ کے لئے ثابت کیا کہ ساری امت کا واسطہ عظمیٰ خداکے دربار میں انہیں قراردیابلکہ خداکے امرونہی، خبروبیان میں خداکا نائب ٹھہرایا۔ بولو کتنا بڑا شرک اس نے کیا۔۔۔۔۔رہا حدیثوں کی مہمل تاویل کا الزام، تو سنو!امام الوہابیہ نے شفاعت کی تین قسمیں کیوں اور تیسری کو جائز مانالکھاہے‘‘تیسری صورت یہ ہے کہ چور پر چوری ثابت ہوگئی مگر وہ ہمیشہ کا چورنہیں اور چوری کو اس نے کچھ اپناپیشہ نہیں ٹھہرایامگر نفس کی شامت سے قصور ہوگیا، سو اس پر شرمندہ ہے’’ آگے لکھاہے‘‘سو اس کا یہ حال دیکھ کر بادشاہ کے دل میں اس پر ترس آتاہے مگرآئین بادشاہت کا خیال کرکے بے سبب درگذر نہیں کرتاکہ کہیں لوگوں کے دلوں میں اس آئین کی قدر گھٹ نہ جاوے’’ آگے لکھا‘‘سو اللہ کی جناب میں اسی قسم کی شفاعت ہوسکتی ہے اور جس نبی و ولی کی شفاعت کا ذکر قرآن و حدیث میں مذکور ہے سو اس کے معنی یہی ہیں[ص۲۸۔۲۹]

اولاً ۔۔۔۔۔اس کے زعم پر اس قسم کی شفاعت کیوں کر ہوسکتی ہے۔ وہ تو کہہ چکا‘‘سو جو کوئی کسی سے یہ معاملہ کرےگاگوکہ اس کو اللہ کا بندہ و مخلوق ہی سمجھےسو ابوجہل اور وہ شرک میں برابر ہے۔[ص۷ملتقطاً]

ثانیاً ۔ ۔۔۔۔اس کایہ کہنا‘‘اورجس نبی و ولی کی شفاعت کا قرآن و حدیث میں مذکور ہے۔۔۔۔الخ۔ اپنے منہ قرآن و سنت کو جھٹلانے کا اقرار ہے کہ نہیں؟ سچ کہامعترض نے ‘‘اپنی طرف سے عقیدے واحکام نکال لیتے ہیں’’الخ شفاعت بالوجاہت کے معنی اپنی طرف سے گڑھ کر اس کا انکار کرتے ہیں اور بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑتے ہوئے خود کہا‘‘ان کے تو محض ارادے ہی سے ہر چیزہوجاتی ہے کسی کام کے لئے کچھ سامان اور اسباب جمع کرنے کی کچھ حاجت نہیں’’للہ انصاف تویہاں کیوں سبب کی حاجت ہوگئی۔‘‘ماقدرواللہ حق قدرہ’’ اللہ کی قدر ہی نہ جانی۔ امام الطائفہ الوہابیہ کے کلام سے ظاہر ہے کہ جس نے چوری کو اپناپیشہ بنالیا اللہ اس سے درگذر نہ فرمائےگا۔ تو نصوص شفاعت کی طرح نصوص عفو ودرگذر بھی مخصوص ہوگئیں۔ یہ تخصیص بھی اسمٰعیلی وحی باطنی میں اتری ہے یا اس پر کوئی دلیل ہے؟ جب گناہ کے پیشہ وروں سے درگذرنہیں تو‘‘لاجرم’’وہ بھی مثل شفاعت اس کے زعم پراسی کے لئے ہواجس نے گناہ کواپنا پیشہ نہیں ٹھہرایا، مگر نفس کی شامت سے قصور ہوگیاتویہ درگذر دنیاہی میں ہوگی، اس لئے کہ شرمساری گناہ پر توبہ ہے اور توبہ دنیاہی میں ہوگی ‘‘کمالایخفیٰ’’احادیث شاہد کہ اللہ کی رحمت بڑے بڑے گنہ گاروں کو برزخ میں نوازتی ہے اور قیامت میں بھی وہ غفورورحیم ہے جسے چاہے طفیل نبی رحیم و کریمﷺ بے حساب جنت میں داخل فرمائے گا۔ شرح الصدور میں وہ احادیث بکثرت ہیں ہم ایک طویل حدیث کا کچھ حصہ ذکر کریں۔

‘‘اخرج الطبرانی فی الکبیر و الحکیم الترمذی فی نواد رالاصول و الاصبھانی فی الترغیب عن عبدالرحمن بن سمرہ قال خرج علینا رسول اللہﷺ ذات یوم قال انی رائیت البارحہ عجبارائیت رجلا من امتی جاءہ ملک الموت لیقبض روحہ فجاء برہ لوالد یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ’’

یعنی طبرانی، کبیر اور حکیم ترمذی نوادرالاصول میں اور اصبہانی ترغیب میں عبدالرحمٰن بن سمرہ سے راوی کہ انہوں نے فرمایاہمارے پاس رسول اللہﷺ ایک دن تشریف لائے اور فرمایاآج رات میں نے عجیب منظردیکھا میں نے اپنے ایک امتی کو دیکھاکہ اس کے پاس موت کا فرشتہ اس کی روح کھینچنے کو آیاتو اس کے والدین کے ساتھ اس کے حسن سلوک نے اسے روک دیا،(یعنی علم الٰہی میں اس کی موت معلق تھی صحف مٰلئکہ میں معلق نہ تھی) اور میں نے اپنے ایک امتی کو دیکھا جس پر عذاب قبر بچھادیاگیاتواس کے وضونے آکر اسے بچالیا اور ایک امتی کو دیکھاکہ پیاس سے ہانپ رہاہے جب کسی حوض پرجاتاہے روکاجاتاہے تو اس کا روزہ آیا اور اسے اس نے سیراب کیا اور ایک امتی کو دیکھا کہ آگ کی گرمی اور لپیٹ کو اپنے چہرے سے ہاتھ کے ذریعہ بچاناچاہتاہے تو اس کا صدقہ آیا جو اس کے چہرے کی آڑ اور سر کا سایہ بن گیا اور ایک امتی کو دیکھا کہ اس کے نامۂ اعمال نے اسے بائیں جانے گرادیاتواس کا خوف خداآیااور اس نے اپنے نامۂ اعمال کو دائیں ہاتھ میں لے لیااور ایک امتی کو دیکھا کہ جہنم کے کنارے پر کھڑاہے تو اس کے پاس اس کا اللہ سے لرزنا آیا، جس نے اسے بچالیااور میں نے ایک امتی کو دیکھا کہ پل صراط پرکبھی گھٹنوں کے بل اور کبھی کولہوں کےبل چل رہا ہے تو اس کا میرے اوپر بھیجاہوادرود آیا جس نے اس کی دست گیری کی اور اسے کھڑاکردیا تو وہ پل پر گذرگیااور میں نے ایک امتی کو دیکھاکہ جنت کےدروازوں پر پہنچاہے تو دروازے اس پر بند ہوگئے ہیں تو کلمۂ طیبہ آیا اور اس کے لئے دروازے کھول کر اسے جنت میں لے گیا’’ یہ حدیث ذکرکرکے علامہ سیوطی نے فرمایا:

‘‘قال القرطبی ھٰذا حدیث عظیم ذکر فیہ اعمالا خاصہ تنجی من اھوال خاصۃ’’ یعنی یہ حدیث عظیم ہےجس میں خاص اعمال کا ذکر ہے جو خاص مصیبتوں سے بچاتے ہیں۔ ‘‘الحمد للہ’’یہ حدیث برزخ و قیامت میں عفو درگذر کی جامع ہے۔ان احادیث کا کیا جواب ہوگا؟ ایک سوال اور پوچھ لوں، آگے چل کر (معترض نے)خود کہا‘‘وہ بڑا غفورورحیم ہے سب مشکلیں اپنے ہی فضل سےکھول دے گااور سب گناہ اپنی ہی رحمت سے بخشدےگا’’ یہ کھلااقرارہے کہ اللہ ہر گنہ گار کو بخشنے پر قادر ہے خواہ وہ ہمیشہ کا گناہگارہویانہ ہو۔ توبھلا یہ گناہ گاروں کی تفصیل اور یہ تین صورتیں پھر شفاعت کا تیسری صورت میں حصر، یہ سب پاپڑ کیوں بیلے۔ اپنے منھ پر خود طمانچہ مارلیا کہ بے دلیل تخصیص کی تھی‘‘وللہ الحمد کفی اللہ المومنین القتال’’۔ اسی پر بس کروں۔ ورنہ امام الطائفہ کے کلام میں معارضہ و تناقض بہت ہے۔اور اسی طرح اس کے پیروان امام کے کلام میں۔۔۔۔۔ناظر منصف اسی کو دیکھ کر یہ سمجھ لے گا کہ واقعی یہ لوگ اپنی طرف سے کچھ عقیدے اور احکام نکال لیتے ہیں پھر انہیں ثابت کرنے کے لئے قرآن کی غلط تفسیر اور حدیثوں کی مہمل تاویل کرتے ہیں۔

آگے چل کر قاسمی صاحب رقمطراز ہیں‘‘کہ قرآن مجید کو سمجھنےکے لئے بہت سے علوم کی ضرورت ہے جنہیں تفسیر لکھنے والےعلماء نے بیان فرمایاہے۔ بعد میں ان علوم کا ذکر کیا ہے جو قرآن فہمی میں شرط ہیں پھر قرآن مجید سمجھنےکا غلط طریقہ بیان کیا ہے وہ یہ کہ آدمی میں شرطیں موجود نہ ہوں اور محض ترجمہ کی مددسے مفسر بن جائے۔یاہوں مگروہ غلط عقیدہ ونظریہ کے لئے شرطوں کی مخالفت کرے۔ایسے کو تفسیربالرائےکا مرتکب بتایاہے اور اس پر جو وعیدیں آئی ہیں ان کا ذکرکیاہے’’۔

اقول آپ تو کہتے ہیں کہ قرآن مجیدکو سمجھنےکے لئے بہت سے علوم کو ضرورت ہے مگرکچھ خبر بھی ہے امام الطائفہ الوہابیہ کیا کہتاہے سنئے وہ صاف کہتاہے کہ اللہ و رسول کے کلام کو سمجھنے کے لئے بہت علم نہیں چاہئے الخ’’۔

الحمد للہآپ نےاپنے امام کے کلام کو خودہی رد کردیا اور اپنے کلام سے اسے ان سب وعیدوں کابھی مستحق بھی بتادیاکہ یہ وعید جس طرح تفسیر بالرائے کے مرتکب پر ہے۔ بدرجۂ اولیٰ اس پر بھی ہے جو اسے جائزبتائے۔رہاآپ کا امام احمدرضاومولانانعیم الدین علیھماالرحمہ والرضوان کے بارے میں یہ کہنا:

‘‘مگر ان کے ترجمے کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتاہے کہ انہوں نے اپنے ذاتی اعتقاد و نظریہ کو اصل قراردے کر ترجمہ کیا ہے۔اور جو کچھ کمی رہ گئی تھی اس ان کے معتقد مولوی نعیم الدین مرادآبادی نے حاشیہ چڑھاکر پوری کردی ہے’’۔

صریح افتراء وبہتان ہے یہاں بھی آپ نے اپنے الزام کو دوسروں کے سر تھوپاہے۔ ابھی ابھی خوب مبرہن ہوچکاہے کہ امام الطائفہ نے اپنے دل سے کیسے کیسےعقائد گڑھےہیں اور انبیاء اولیاء اور اپنے پیروں کے ساتھ کیسی دورنگی چلا ہے اور غلط تفسیر ومہمل تاویل کے نمونے بھی گذر چکے ہیں اور آیت و احادیث کی تکذیب کی مثالیں بھی دی جا چکی ہیں۔ آگے چل کرمعترض ترجمہ رضویہ وہ تفسیر نعیمی کی خامی بیان کرتےہوئے لکھاہے:

اس ترجمہ و تفسیر کی بنیادی خامی یہی ہے کہ مولوی احمدرضااور مولوی نعیم الدین نے قرآن مجید کے اس ترجمہ و مفہوم کو نظرانداز کردیاہے۔ جسے مستند مفسر لکھتےآئے ہیں۔چلئے ابھی کھلاجاتاہے کہ اس دعوے میں کتنی صداقت ہے۔ اب ہم بعونہ تعالیٰ معترج کے پہلے اعتراض کا جواب دین جو اس نے‘‘شاھدا’’کاترجمہ ‘‘حاضروناظر’’ کرنے پر کیا ہے۔

‘‘فنقول وباللہ التوفیق’’مناسب ہے کہ پہلے‘‘شہادۃ وشاھد’’وغیرہ کے جو معانی لغت میں بیان ہوئے ذکر کئے جائیں کہ شاھد کی حقیقت آشکاراہوجائے قاموس میں ہےَ

‘‘الشہادۃ خبر قاطع وقد شہد کعلیم و کرم قد لتسکن ھاء ہ و شھدہ کسمعہ شھوداً حضرہ فھو شاھد و شھد لزید بکذادی ماعندہ من الشہادۃ فھو شاہد واستشھدہ سالہ ان یشھد و الشھید وتکسر شیئہ الشاھد و الامین فی شھادۃ الذی لایغیب عن علمہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’

ناظر دیکھے شہادت، شہود،شاہد،شہیدکے معانی میں حضور غالب ہے۔ ہم ان معانی کو ذیل میں درج کریں۔‘‘شھد وشھدہ’’حاضر ہوا‘‘شاھد’’حاضر،‘‘شھد لزید بکذ ا’’زید کے لئے گواہی دی، شہادت کے لئے حضورضروری۔فقہاءکرام کی عبارتیں اس پر شاہد ہیں۔ تنویرودرمختارکی عبارتیں عنقریب آتی ہیں۔‘‘شہید،شاہد،’’شہادت میں امانت والا، جس کے علم سے کوئی چیزغائب نہ ہو۔ اللہ کی راہ میں قتل ہونے والا۔اسے شہید اس لئے کہتے ہیں کہ مٰلئکہ رحمت اس کے پاس حاضر ہوتے ہیں۔یا اس لئے کہ اللہ اور اس کے فرشتےاس کے لئے جنتی ہونے کے گواہ ہیں۔۔۔یااس لئے کہ وہ اگلی امتوں پر قیامت کے دن گواہ ہوگا۔ اس لئےکہ وہ شاہدہ (زمین پر گرتاہے(زمین کو شاہدہ کہاگیااس لئے کہ وہ قیامت کےدن گواہی دے گی۔‘‘قال تعالیٰ یومئذ تحد ث اخبارھا’’اس کے تحت تفسیرعزیزی میں ہے۔

آں روزباوجودشدت زلزلہ وکمال بےتابی و بیقراری سخن گوید زمین از خبرہائے خود یعنی اعمال بنی آدم را اظہارکندوبگوید کہ فلاں کس برمن نماز گذاشت و روزہ داشت وکار ہائے نیک کرد و فلاں کس خون ناحق کردوزنابعمل آوردودزدی۔۔۔۔۔الخ

یا اس لئے کہ وہ زندہ ہے اور اپنے رب کے حضور میں ہے یا اس لئے کہ وہ اللہ کی ملکوت و ملک کا مشاہدہ کرتاہے۔ ‘‘شاہدھ عاینہ’’کسی چیز کا مشاہدہ ومعاینہ کرنا‘‘امراۃ مشھد’’وہ عورت جس کا شوہرحاضر۔‘‘شاھد’’حضورﷺ کانام (اسی میں تمہیں نزاع ہے) نیز فرشتہ، یوم جمعہ، ستارہ، گھوڑے کی جودت کی علامت ہے جسے مجازاً شاہد کہاگیا۔جلدہونے والا کام اسے بھی مجازاً شاہد بمعنی حاضر سے تعبیر کیا گیا۔ گویاوہ جلد ہونے کی وجہ سے حاضر ہی ہے۔‘‘صلوٰۃ الشاھد’’۔ مغرب کی نماز۔‘‘المشھود’’۔جمعہ یا عرفہ قیامت کا دن ‘‘واشہدہ’’۔کسی کو حاضرکرنا۔‘‘اشھد ت الجاریۃ’’لڑکی کابلوغ کو پہنچنا۔‘‘المشھدہ’’ لوگوں کے حاضرہونے کی جگہ۔دیکھوان تمام معانی میں‘‘حضور’’ملحوظ ہے۔اور یہ معانی لغت میں غالب ہیں تو ‘‘لاجرم’’شہود کا حقیقی معنی‘‘حضور’’ٹھہرا۔اس لئے کہ یہی معنی عندالاطلاق متبادرہوتے ہیں اور تبادرامارات حقیقت سے ہے، جیساکہ‘‘فتح القدیر’’ اور ‘‘ردالمختار’’سے مستفاد ہےاور‘‘نسمات الاسحار حاشیہ منار للشامی’’میں ہے۔ ‘‘التبادر من امارات الحقیقۃ ملتقطا’’لہٰذاکہنےدو کہ ‘‘شاھدا’’کاترجمہ حاضر و ناظر ٹھیک لغوی معنی کے مطابق ہے۔ بلکہ شرعابھی یہ اس کا حقیقی معنی ہے۔اسی لئے قرآن عظیم میں جابجاشہودکے مشتقات بمعنی حضور وارد ہیں۔‘‘فمن شہد(حضر)منکم الشھر الآیۃ ’’جو رمضان کو پائے تو اس مہینے کے روزے رکھے۔اور زانی مردعورت کے کوڑے مارے جانے کو مسلمانوں کی ایک جماعت آکر دیکھے۔‘‘ام کنتم شھد اء اذحضرا یعقوب الموت’’کیاتم اس وقت حاضر تھے جب یعقوب علیہ السلام کو موت آئی‘‘و کنت شھیداعلیہم الآیۃ(رقیباامنعھم مما یقولون’’[جلالین])یعنی عیسیٰ علیہ السلام ان پر نگہبان تھےجب تک ان میں تھے۔للہ الحمد ان آیات کریمہ سے ثابت ہوگیاکہ شہود بمعنی حضور حقیقت لغویہ ہی نہیں بلکہ شرعیہ بھی ہے۔ بلکہ پچھلی آیت نے توخاص شاھداکا فیصلہ کردیا کہ جب شہید بمعنی نگہبان ٹھہرااور اس کے لئے حضور ضروری اور وہ اسم فاعل کے معنی میں ہے ‘‘کمالایخفیٰ’’تو‘‘ شاھدا’’بھی بمعنی نگہبان و حاضر ہے۔ یہیں سے ظاہر کہ حاضر شاہدکااسلامی معنی ہے اور اعتبارات علماء کرام سے مزیدظاہر ہوجائےگا۔ اب ذرا بتائیےکہ آپ کا اسے امام احمد رضا کا ذاتی نظریہ قراردے کر ان پر کھلی خیانت کا الزام لگانا اور اس کے اسلامی معنی ہونے سے انکار کرناکس درجہ کی بدترین خیانت ہے، جسے آپ نے اس کے سردھراہے، جس کادامن بحمدہ ہرخیانت سے پاک ہے۔۔۔یہ تو تمہیں اور تمہارے امام ہی کو مبارک ہو، جس نے اپنے گڑھےہوئے عقاید کے لئے کتنی آیات و احادیث کو جھٹلایا اور اپنے خائن ہونے کا ثبوت دیا۔ آگے آپ یوں گویاہوئے ہیں‘‘اس ترجمے میں لفظ شاہد کا ترجمہ حاضروناظر لکھا ہے جبکہ یہ تمام مفسرین کے خلاف ہے’’۔۔۔یہ آپ نے کیسے کہہ دیا کیا جناب نے تمام تفاسیر دیکھ لی ہیں؟ اگر ایساہے تو ڈبل خیانت مبارک ہو کہ جناب نے ان تفسیروں کی عبارتوں کو نظرانداز کردیاجن سے آپ کا مطلب نہیں نکلتااور پھرمنہ بھر کے یہ جھوٹ بول دیا کہ ‘‘یہ تمام مفسرین کی تفسیر کے خلاف ہے’’تمام مفسرین تو تمام مفسرین، کسی ایک معتمدسنی صحیح العقیدہ مفسرکی تفسیر کے خلاف ثابت کردکھاؤ، اور اگر نہیں، تو یہ قرآن فتویٰ مبارک ہو‘‘الالعنۃ اللہ علی الکاذبین’’۔پھر یہ امر قدردلچسپ ہے کہ آپ نے اپنے دعویٰ کے ثبوت میں دوترجمے ترجمہ شاہ رفیع الدین و ترجمہ شاہ عبدالقادرپیش کئے ہیں کیا جناب کے نزدیک ترجمہ و تفسیر کا مفہوم ایک ہی ہے اور اس سے زیادہ پرلطف آپ کا یہ کہنا کہ ‘‘شاہ صاحب نے بھی شاہد کا ترجمہ حاضر وناظر نہیں کیا ہے بلکہ گواہ کے مرادف بتانیوالاکر کے یہ سمجھایاہے کہ نبی اکرم اس معنی میں گواہ ہیں کہ آپ سیدھاراستہ بتاتے ہیں’’۔

اولا بتانےوالاگواہ کے مرادف ہرگز نہیں، ہرشخص جانتاہے کہ بتانے والاعام ہے گواہ وغیر گواہ دونوں کو شامل ہے اور گواہ خاص ہے تو یہاں وحدت معنی من کل وجہ متحقق نہیں اور مترادفین میں وحدت معنی کل وجہ کا اعتبارہے۔علامہ عبدالحق خیرآبادی علیہ الرحمہ شرح مرقات میں فرماتے ہیں ‘‘المعتبرفیھما وحدۃ المعنی من کل وجہ فالمتحد ان الا من کل وجہ کالناطق والفصیح لیسامترادفین’’مگر شاہ صاحب علیہ الرحمہ چونکہ امام الطائفہ کے بزرگوں میں ہیں۔ اس لئے ان کی بات بتانے کے لئے اپنے مبلغ علم کے مطابق کچھ کہنا ضرور تھا۔

ثانیابتانےوالا گواہ کے مرادف ہے اس پر کسی مستندکی شہادت اگر نہ لاسکو اور ہم کہے دیتے ہیں کہ ان شاء اللہ ہرگزنہ لاسکوگے۔ تو یہ سنتے چلو کہ تم توامام احمد رضاعلیہ الرحمہ کو مستند تفسیروں کی مخالفت کا الزام دیتے تھے اپنے گھر کی تو خبر لو کہ تمہارے زعم پر تو شاہ صاحب علیہ الرحمہ کا دامن بھی اس سے داغدارہے۔‘‘ولاحول ولاقوۃ الابااللہ العلی العظیم’’

ثالثا یہ ایک ہی رہی کہ نبی اکرم اس معنی میں گواہ ہیں کہ آپ سیدھاراستہ بتاتے ہیں۔ کیوں صاحب گواہ بایں معنی کسی لغت میں آپ نے دیکھا۔آیاکسی عالم کا یہ قول ہے۔ یابات یہ ہے کہ آپ خودہی چلتی پھرتی لغت ہیں۔یابات یہ ہے کہ گواہ میں جناب نے حضور ضروری نہ سمجھا تو اندھیرے میں یہ دور کی سوجھی کہ کسی طرح سرکارکے حاضرہونے کاانکار ہوجائے مگر یہ توبتائیےکہ جس نے راستہ دیکھا ہی نہ ہو وہ کیا راستہ بتائے گا۔ایمان والے تویہی سمجھتے ہیں کہ سرکارﷺ راہ دیدہ منزل شنا س ہیں۔ ہاں کوئی کسی اندھے کےپیچھےہولے تو اور بات ہے ‘‘کل حزب بمالدیھم فرحون’’پھرآپ نے بیضاوی و خازن و ابن کثیر و نسفی کے ارشادات کو ذکرکرکے یوں منہ کھولاہے۔

‘‘مسلمانوں سوچو بلندپایہ مفسرین شاہد کے معنی گواہ لے رہے ہیں دوسری آیتوں سے مطابقت بھی اسی معنی کے مراد لینے میں ہے۔مگر فاضل بریلوی سب کے خلاف محض اپنے غلط عقیدے کو ثابت کرنے کے لئے ‘‘شاہدا’’کاترجمہ حاضروناظرکررہے ہیں، الخ۔

اقول یہ ساراواویلا بیکار ہے۔اولااگرہم یہ تسلیم کرلیں کہ شاھداسے محض گواہ بلا لحاظ معنی دیگر مراد ہے تو تمہیں کیامفیداور ہمیں کیامضر۔اجی گواہ کے لئے تو حضور ضروری۔ فقہائے کرام کے ارشادات دیکھنے کی فرصت نہ ملی تو ہم سے سنو۔تنویرالابصار و درمختار میں ہے ‘‘و شرائط التحمل ثلثۃ العقل الکامل وقت التحمل و البص و معاینۃ المشھود بہ’’ اسی میں ہے ‘‘ورکنھا لفظ اشھد لاغیر لتضمنہ معنی مشاہدہ’’ردالمختارمیں اسی کے تحت ہے ‘‘وھی الاطلاع الی الشئی عیانا’’نیزآگے اسی میں ہے۔‘‘ولایشھد احد بما لم یعاینہ بالاجماع’’الخ دیکھو یہ عبارتیں تصریح فرمارہی ہیں کہ شہادت میں بینائی اور امر مشہود بہ کو آنکھوں دیکھناشرط ہے اور صاف بتارہی ہیں کہ معاینہ مشہود بہ اصل ہے اور اصل سے عدول بے دلیل جائزنہیں۔ اس لئے اس کا رکن لفظ اشہدٹھہراکہ وہ مشاہدہ ومعاینہ کو متضمن ہے۔لاجرم ثابت کہ شاہد و حاضر میں منافات نہیں تو جو شاہد مانے گاوہ ضرور حاضر مانے گااور تم نہیں مانتے تو بولو کہ شاھدا کے منکر ہوئے کہ نہیں، ضرورہوئےتوپھر کسی منہ سے بے گناہوں پر مخالفت کی تہمت دھرتے ہو۔کیاقرآن کوماننااسی کا نام رہ گیاہے۔ نام کو لفظ بولے جاؤاور معنی کا انکارکئے جاؤ۔یہیں سے ثابت ہوگیاکہ امام احمد رضاعلیہ الرحمہ پر مفسرین کی مخالفت کا الزام محض بہتان ہے۔‘‘وللہ الحمد’’۔

ثانیاتمہاری ان منقولہ عبارتوں سے ظاہرہے کہ یہاں‘‘شاہد اعلی الناس علی من بعث الیھم’’محض گواہ کے معنی میں نہیں اس لئے کہ حضورﷺ مومن و کافردونوں کے اعمال کے گواہ ہیں توباعتبارمومنین شاھداکاصلہ لھم اورباعتبار کفار علیھم ہوناچاہئے اور یہاں ‘‘من بعث الیھم’’مطلق فرمایالاجرم یہاں رقیباکے معنی کی تضمین مانناپڑے گی کہ سبب کے لحاظ سے شاھداکاعلیٰ کے ذریعہ متعدی ہوناصحیح ہوجائے۔ تمہاری ہی مبلغ علم تفسیر بیضاوی میں ہے۔‘‘وھذا الشھادۃ وان کانت لھم لکن لماکان الرسول علیہ السلام کالرقیب المھیمن علیھم عدی بعلی’’اورتفسیر نسفی میں ہے ‘‘لماکان الشھید کالرقیب جنی بکلمۃ الاستعلاء کقولہ تعالیٰ کنت انت الرقیب علیھم’’۔

دیکھو یہ دونوں علماء صاف بتارہے ہیں کہ اگرچہ شہادت مومنین کے لئے ہے تو صلہ لام ہونا چاہئے تھامگرچونکہ رسول اللہﷺ اپنی امت پر رقیب و نگہبان ہیں اس لئے علیٰ سے متعدی کیاگیالہٰذاکہنےدو کہ اسی لئے مفسرین کرام نے نگہبانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے مطلقا‘‘ن علی من بعثت الیھم’’فرمایا۔لاجرم علامہ ابوالسعود نے اسی لئے فرمایاترجمہ:۔ یعنی ہم نے بھیجا گواہ ان لوگوں پر جن کے لئے تجھےنبی بنایاگیاکہ تو ان کی حالتوں پر نگاہ رکھتااور ان کے اعمال کا مشاہدہ کرتاہے اور ان کی تصدیق و تکذیب وہدایت وگمراہی کی شہادت کا حامل ہے اور قیامت کے دن تو اس شہادت کو ادافرمائے گا۔بحمدہ تعالیٰ یہاں سےظاہر ہوگیاکہ حضورﷺ شہید بھی ہیں اور اپنی امت پر نگہبان ورقیب بھی ہیں اور دونوں وجوہ پر حضورﷺ کاحاضروناظرہوناظاہروباہروللہ الحمد۔۔۔۔۔اسی لئے تفسیر کبیر میں فرمایا ‘‘ثالثھا انہ شاھد فی الدنیا باحوال الاخرۃ من الجنہ و النار والصراط والمیزان و شاھد فی الاخرۃ باحوال الدنیا من الطاعۃ و المعصیۃ والصلاح والفساد’’ یعنی تیسری توجیہ یہ ہے کہ حضورﷺ دنیامیں آخرت کے احوال پر(یعنی جنت و دوزخ وپل صراط و میزان)حاضرہیں اور آخرت میں دنیا کے احوال طاعت و معصیت و صلاح و فساد پر حاضر ہیں۔دیکھو کیسی صریح عبارتیں ہیں کہ سرکارﷺ حاضروناظر ہیں۔ یہیں سے ظاہر کہ جسے تم اپنی دلیل سمجھے تھے وہ توہماری دلیل ہے‘‘وللہ المنۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’اب بتائیے جن نصوص سے حضورﷺ کے حاضروناظر ہونے کا اثبات ہو، انہیں اس کی نفی کی دلیل بتانا خصم کا مال ہتھیانانہیں تو پھراورکیا ہے۔پھر اسی کے سرخیانت کا الزام چوری اور سینہ زوری ہی تو ہے۔کہنے کو تو کہہ دیامگریہ نہ سوچاکہ یہ الزام کسے کسے لپیٹےگااور سنو علامہ طاہر فتنی مجمع بحارلانوارمیں‘‘ان فرطکم فاناشھید’’کی توجیہ میں فرماتے ہیں‘‘ای اشھدعلیکم باعمالکم فکانی باق معکم’’یعنی میں تمہارے اعمال کی گواہی دوں گا تومیں تمہارے ساتھ باقی ہوں۔

نیزاسی میں ہے۔ میں ان شہیدوں کے لئے کل گواہی دوں گا یعنی ان کی شفاعت کروں گا اور گواہی دوں گا کہ انہوں نے اپنی جانیں اللہ کے لئے دیں۔ مطلب یہ ہے کہ میں ان کا نگہبان ہوں کہ ان کے احوال پر نظر رکھتاہوں اور انہیں معاصی سے بچاتاہوں۔ نیزاسی میں ہے۔ ‘‘والشاھد من اسماءہ ﷺ لانہ یشھد للانبیاء بالتبلیغ ویشھد علی امتہ ویزکیھم او ھوبمعنی الشاہد للحال کانہ الناظرالیھا’’یعنی نبی کریمﷺ کانام شاہد ہے۔ اس لئے کہ وہ قیامت میں انبیاء کے لئے تبلیغ کی گواہی دیں گے۔ اور اپنی امت کے لئے گواہی دینگے اور انہیں عدل (صالح شہادت)فرمائیں گے یااس معنی کو کہ حضورﷺ حال کا مشاہدہ فرمارہے ہیں۔

دیکھو کیساصاف ارشاد ہے کہ حضور ﷺ حاضروناظرہیں۔ بولوکس کس کا عقیدہ غلط بتاؤ گے اور اگریہ خیات ہے تو بولو کسے کسے خائن بتاؤگے اور سنوعلامہ اسمعیل حقی رومی تفسیر روح البیان میں‘‘ویکون الرسول علیکم شھید ا’’کے تحت فرماتے ہیں‘‘ومعنی شہادۃ الرسول علیکم اطلاعۃ علی رتبۃ کل متد ین بد ینہ و حقیقۃ التی ھو علیھا من دینہ وحجابہ الذی ھو محجوب عن کمال دینہ فھو یعرف ذنوبھم وحقیقۃ ایمانھم و اعمالھم وحسناتھم وسیاتھم و اخلاصھم ونفاقھم و غیر ذالک بنور الحق’’شاہ عبدالعزیزصاحب فتح العزیز میں بعینہ یہی فرمارہے ہیں ترجمہ:یعنی قیامت میں تمہارے رسول تم پرگواہ ہوں گے اس لئے کہ وہ مطلع ہیں نورنبوت سے اپنے دین سے ہر متدین کے رتبہ پر کہ وہ میرے دین میں کس درجہ پر پہنچاہے اور اس کے ایمان کی حقیقت کیا ہے اور وہ حجاب جس کی بدولت وہ ترقی سے محجوب رہا کیا ہے تو وہ جانتے ہیں تمہارے گناہوں کو اور تمہارے درجات ایمان کو اور تمہارے اچے برےاعمال کو اور تمہارے اخلاص و نفاق کو لہذاان کی شہادت امت کے حق میں دنیا و آخرت میں بحکم شرع مقبول و واجب العمل ہے۔

اب بتاؤ شاہ صاحب کے عقیدہ ودیانت کے بارے میں کیاکہتے ہو۔بحمدہ تعالیٰ عبارات علماء کرام سے مسئلہ خوب روشن ہوگیااور ازاں جا کہ کسی عبارت میں خلاف کی حکایت نہیں یہ معلوم ہوتاہےکہ یہ مسئلہ علماء کے درمیان اجماعی ہے ۔ہم نے جو عبارتیں لکھیں وہ معترض کی عبارتوں کے علاوہ ہیں۔ بحمدہ تعالیٰ ہم نے ثابت کیا کہ وہ تمام عبارتیں ہمارے مدعی(اعلیٰ حضرت) کی واضح دلیل ہیں۔ناظرین کرام دیکھیں کہ معترض ایسے مسئلہ میں خلاف کا مرتکب ہے اور بے گناہ پر خیانت اور جمہور کے عقیدہ کی مخالفت کا الزام دے رہے ہیں اور خودہی فیصلہ کرلیں کہ یہ الزام کس کے سر ہے۔ رہی یہ بات کہ مسئلہ اجماعی ہے اگر اس میں اب بھی معترض کو شک باقی ہے تو شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی کی یہ شہادت بھی سنتا چلے۔ وہ ‘‘اقرب السبل’’میں فرماتے ہیں:

‘‘وباچندیں اختلافات و کثرت مذاہب کہ درعلماء امت است یک کس دریں مسئلہ خلاف نیست کہ آنحضرت ﷺ بحقیقت حیات بے شائبہ مجازوتوہم تاویل دائم وباقی است و براعمال امت حاضر وناظر مرطالبان حقیقت راہ متوجہان آنحضرت رامفیض و مربی است’’۔

اب آنکھوں کی پٹی اتارکربغور دیکھیں کہ یہ شیخ محقق کیساصاف صاف تحریرفرمارہے ہیں کہ اس میں کسی کو خلاف نہیں حضورﷺ حیات حقیقی کے ساتھ جس میں نہ مجاز کا شائبہ نہ تاویل کا وہم دائم وباقی ہیں اور امت کے اعمال پر حاضروناظرہیں کہ ان کا مشاہدہ فرماتے ہیں اور طالبان حقیقت اور متوجہان درگاہ کے لئے فیض رساں ومربی ہیں۔ مگر آن جناب سے بعید نہیں کہ یہ سب دیکھ کر بھی اندھے ہوجائیں کہ آخرآپ کے امام الطائفہ‘‘تقویت الایمان’’میں حضورﷺ پر یہ جھوٹ دھرچکا‘‘یعنی میں بھی ایک دن مرکرمٹی میں ملنے والا ہوں[ص۵۵] خیانت اسے کہتے ہیں کہ احادیث و ارشادات علماء کوہضم کرکے یہ کہا اور اسے جان دوعالمﷺ کی طرف منسوب کردیا۔‘‘ولاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم’’۔

اچھااگرحاضروناظر آپ کی چڑ ہے تویہی سہی، آپ ہی کی منقولہ عبارت اخیرہ میں یہ فقرہ وارد ہے۔‘‘وقیل شاہد علی الخلق’’اورکہاگیاکہ خلق پرحاضر ہیں۔اس فقرہ کے بارے میں کچھ اور سہی:

دل اعداء کورضاتیزنمک کی دہن ہے

اک ذرااورچھڑکتاہے خامہ تیرا

سگ رضا انہیں سے اکتساب فیض کرکے کہتاہے۔اولافقرہ جناب کے نزدیک لائق استناد ہے کہ نہیں۔ثانیامستندہے تو سبحان اللہ چشم ما روشن ودل ماشاد، اور مستند نہیں ہے تو کیوں؟ جبکہ آپ یہ تمام عبارتیں اس دعویٰ پرلائے ہیں کہ آیت میں شاھدابمعنی گواہ وارد ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اپنی لیاقت علمی سے جناب نے گواہ کو حاضرکے منافی سمجھ لیا اور آیتوں میں مطابقت کا جملہ اس معنی پر کردیا۔ثالثامستندہونے کی تقدیر پریہ بتاتے چلیں کہ مخلوق پر سرکار کے شاہد ہونے کے کیامعنی ہیں؟رابعاحاضرسے تو چڑہے،تولامحالہ گواہ کہوگے اور مخلوق پر گواہ ہونے کے کیامعنی کہ سرکارگواہ ہیں کہ ہر شے سرکارکی رسالت کا اقرار کرتی ہےجیساکہ احایث سے ثابت اور گواہ میں حضوراصل اور اصل سے بے دلیل عدول ناجائز۔ تواب مخلوق پر گواہ ماننے سے لامحالہ حاضر علی الخلق ماننا لازم۔اب بتائیے کہ جس سے بھاگے وہیں پلٹے کہ نہیں۔ اسی کو کہتے ہیں ‘‘القرارعلی مامنہ الفرار وللہ الحمد ولامنتہ علی تمام الحجتہ واکمال النعمتہ’’۔

خامسا عجب نہیں کہ اصل سے عدول کر جائیں اور یوں منہ کھولیں کہ حضور کوئی ضروری نہیں، ہوسکتاہے کہ سرکاردورہی سے سن لیں یا اللہ تعالیٰ کےبتانے سے آپ شاہد ہوں۔ میں کہوں گاکہ دورہی سے سن لینےکی ٹھہراؤگے تووہ دیکھو سرپر تقویتہ الایمانی شرک سوار ہوتاہے جو:

‘‘بعضےاگلے بزرگوں کو پکارتے ہیں اور اتناہی کہتے ہیں کہ یا حضرت تم اللہ کی جناب میں دعاکرو کہ وہ اپنی قدرت سے ہماری حاجت رواکرے پھر یوں سمجھتے ہیں کہ ہم نے کچھ شرک نہیں کیا اس واسطے کے ان سے کوئی حاجت نہیں مانگی بلکہ دعاکروائی ہے۔ سویہ بات غلط ہے اس واسطے کہ گواس مانگنےکی راہ سے شرک ثابت نہیں ہوتالیکن پکارنے کی راہ سے ثابت ہوجاتا ہےکہ ان کو ایساسمجھا کہ دورسے نزدیک سے برابرسن لیتے ہیں جبھی ان کو اس طرح سے پکارا۔اورحضور کی نفی جب بھی نہ ہوگی کہ دور سے سننے کے لئے لامحالہ روح کا اتصال ضروری اور یہی ہمارادعویٰ ہے کہ سرکاردوعالمﷺ اپنی نورانیت اور روحانیت سے ہرجگہ حاضر و ناظرہیں۔ رہی دوسری شق یعنی اعلام الٰہی سے شاہدہونا۔

اقول حاضرکردینابھی تو اعلام الٰہی کی ایک شکل ہے ،تو اعلام الٰہی کو اس حضور کے ماسوا میں حصر کرناکیامعنی حالانکہ شاہدہونے کےلئے حاضرہونااصل ہے۔

اقول یہ کوئی کلیہ نہیں کہ جس کو قیل سے تعبیر کیاجائے وہ ضعیف ہی ہو۔بعض مرتبہ عدم شہرت کی بناپر قیل کہہ دیتے ہیں حالانکہ قول ضعیف نہیں ہوتا۔جلالین میں آیت کریمہ ‘‘من کایظن ان لن ینصرہ اللہ فلیمدد بسبب الی السماء ثم لیقطع الآیۃ’’کے معنی یہ بتائےکہ جس کا یہ گمان ہوکہ اللہ محمدﷺ کی مددہرگزنہ فرمائے گاتو وہ اپنے گھر کی چھت میں رسی لٹکائے اور اسے اپنی گردن میں باندھ کر خودکوپھانسی دے لے۔اس پر صاوی نے فرمایاترجمہ:یعنی پہلاطریقہ آیت کی تفسری میں مشہورہے اسی لئے مفسراسی پر چلے اور کہاگیا ہے کہ جسے گمان ہو کہ اللہ ہرگزمحمدﷺ کی مدد نہ فرمائےگاتوکوئی تدبیر کرے کہ آسمان تک پہنچ جائے۔پھران سے نصرت کو بندکردےاور دیکھ لے کیااس کی تدبیر اس کے غیظ کو دورکردےگی۔ کسی عاقل کے نزدیک یہ تفسیر ضعیف نہیں بلکہ بہت مناسب ہے اسی لئے علامہ صاوی نےصرف یہی اشارہ کیا کہ یہ معنی مشہورنہیں ہیں اور اس ضعیف نہیں بتایا۔ اور کبھی قول احسن کو بھی قیل سے تعبیرکردیتےہیں۔ اسی صاوی میں ہے‘‘قولہ (زائدۃ) الحاصل ان من الاولیٰ ابتدائیۃ والثانیہ فیھا ثلثۃ اوجہ قیل زائدۃ وقیل ابتدائیہ و قیل تبعیضیۃ وھو الاحسن’’دیکھو یہاں اقوال مختلفہ کو قیل سے تعبیرکیا اور قول آخر کو احسن بتایاجس سےصاف ظاہر ہے کہ اس کا مقابل قول ضعیف نہیں اس لئے کہ احسن کا مقابل حسن ہوتاہے نہ کہ ضعیف۔ معلوم ہوا کہ یہ کلیہ نہیں کہ جس قول کو قیل سے تعبیرکیاجائےوہ ضعیف ہو۔تومحض بلادلیل قیل سے تمسک کرکے اس قول کو ضعیف نہیں کہاجاسکتاہے۔اوروہ کیوں کر ضعیف ہوگاجب کہ اجلہ علماء یہ فرمارہے ہیں کہ حضورﷺ اپنی نورانیت سے ہرشے میں جلوہ گراور اپنی روحانیت مقدسہ سے ہرجگہ حاضر وناضرہیں۔ علامہ صاوی ‘‘وسراجامنیرا’’کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

‘‘یحتمل ان المراد بالسراج الشمس وھو ظاہر ویحتمل ان المراد بہ المصباح و حینئذ یقال انماشبہ بالسراج۔ولم یشبہ بالشمس مع ان نورھا اتم لان السراج یسھل اقتباس الانوار منہ وھوﷺ یقتبس منہ الانوار الحسیہ والمعنویہ’’۔

یعنی احتمال ہے کہ سراج سے مراد آفتاب ہو اور یہ ظاہرہے اور ہوسکتاہے کہ اس سے مراد چراغ ہو۔اس وقت یہ کہاجائے گاکہ سراج سے تشبیہ دی اور آفتاب سے نہ دی، حالانکہ اس کا نوراتم ہے۔ اس لئے کہ چراغ سے انوارلیناآسان ہے اور حضورﷺ سے انوارحسی و معنوی لئے جاتے ہیں۔علامہ علی قاری شرح شفامیں فرماتے ہیں۔ترجمہ:۔یعنی چمکتاآفتاب اس میں یہ عظیم تنبیہ ہے کہ سورج انوارحسیہ میں سب سے بلندہےاور تمام اس سے مستفیض ہیں۔ اسی طرح نبی علیہ السلام سب انوارمعنویہ سے افضل ہیں اور باقی ان سے مستفید ہیں۔ اسی وجہ سے کہ حضورﷺ کا واسطہ اور دائرہ کائنات کے مرکزہونےکاحکم رکھتےہیں۔ جیسا کہ حدیث‘‘اول ماخلق اللہ نوری’’(اللہ نے سب سےپہلے میرے نورکوپیدافرمایا) سے مستفادہے۔شفاومطالع المسرات میں کعب احباروسعید بن جبیر وسہل بن عبداللہ تستری سے مروی کہ ‘‘مثل نور’’الخ میں نورسے مرادحضورﷺہیں۔

‘‘واللفظ للمطالع قال کعب وابن جبیر و سھل بن عبداللہ المراد بالنور الثانی ھو محمدﷺ فقولہ تعالیٰ مثل نورہ ای نور محمدﷺ وحقیقۃا لنور ھواالظاہر بنفسہ امظہر لغیرہ’’۔

یعنی اللہ کے قول مثل نورہ کامعنی محمدﷺ کے نور کی مثال۔۔۔الخ اور نورکی حقیقت یہ ہے کہ خود ظاہرہواور دوسرے کوظاہر کرے۔اسی مطالع المسرات میں ہے ترجمہ یعنی حضور ﷺ کے نورہی سے تمام انوارخواہ آپ کی صورت ظاہرسے سابق ہوں یااس سے لاحق ہوں، لئے گئے ۔بغیر مانع و بےحجاب و بے کلفت اور جتنابھی حضورﷺ سے نوراقتباس کیاجائے وہ نورکچھ نہیں گھٹتااور آپ کے پردہ فرمانے کے بعد بھی حضور کے نور سے استمداد ناپیدنہ ہوئی بلکہ وہ تو ہر سابق و لاحق میں فضل کے چراغ ہیں۔ تو ہر ضیاان کی ضیاسے صادر ہوتی ہے۔نیزشرح شفاملاعلی قاری میں ہے۔‘‘قد انکشف بہ الحقائق الالٰھیۃ والاسرار الاحد یہ والاستارالصمد یۃ وبہ اشرقت الکائنات و خرجت عن حیزالظلمات’’۔یعنی حضور کےدم سے حقائق الٰہیہ واسرار ربانیہ و رموزصمدانیہ ظاہرہوئے ہیں اور انہیں کے نورسے کائنات روشن ہوئی ہے اور عدم کی ظلمتوں سے نکلی۔

ناظرین کرام دیکھیں کہ یہ عبارات علماء کرام صاف صاف کہہ رہی ہیں کہ کائنات کا ذرہ ذرہ حضورﷺ کی جلوہ گاہ ہے۔اسی لئے علماء نے فرمایاکہ حقیقت محمدیہ موجودات کے ذرے میں ساری وجاری ہے اور اس کی ادنیٰ مثال محسوسات میں آفتاب ہے کہ وہ تمام اجرام نیرہ میں اعلیٰ اور چاند ستارے سب اسی سے روشن ہوتے ہیں۔ سب میں اسی کانور جاری ہے۔ اور اسی کی روشنی متعددجگہ بیک وقت حاضرہوجاتی ہے۔پھر اس ذات مقدسہ کے حاضروناظر ہونے میں کسے شک ہوسکتاہے۔ جس کے نورمعنوی سے نہ صرف سورج بلکہ کائنات ظاہر ہوئی۔ کیاان بصیرت کے اندھوں کے نزدیک محمد رسول اللہﷺ سورج سے بھی کم ہیں یا سورج ان کے نزدیک خداہے۔والعیاذ باللہ العلی العظیم۔بھلاجس کے نور سے کائنات پیدا ہواورجس کا نور سارے جہاں میں جلوہ گر ہواسے روح کائنات کے سوااورکیاکہاجائے اسی لئے تو اس کے اسماء طیبہ میں ‘‘روح الحق’’وارد ہوا۔اس پر امام علام محمدبن مہد بن احمد بن علی یوسف فاسی کا کلام سننے کےقابل ہے:

‘‘وروحہﷺ ھو انسان عین الارواح و ابوھاواس وجودھاواول صادر عن اللہ عزوجل وایضا ہوﷺ روح اللہ الموضوع فی الوجود الذ ی لوبہ قوامہ و ثباتہ ولولاہ لاضمحل و ذھب’’۔

یعنی حضورﷺکی روح تمام روحوں کی آنکھ پتلی اور ان کی اصل اور ان کے وجود کی بنیاد اور اللہ کی پہلی مخلوق ہے۔نیزحضور علیہ السلام اللہ کی روح ہیں جو وجود میں وضع کی گئی ہے۔ جس سے اس کی بقاہے۔ اگر حضور نہ ہوں تو عالم فناہوجائے۔امام احمدرضافرماتے ہیں:

وہ جونہ تھے توکچھ نہ تھاوہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو

جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے

بھلاجب وہ کائنات کی روح ٹھہرے اور قالب کی زندگی کے لئے روح کاتن میں حاضر ہونا ضروری ہو تو لامحالہ وہ ضرورحاضروناظر ہیں۔ بلکہ افرادممکنات میں ان کی حقیقت جاری و ساری ہے جیساکہ عنقریب شیخ محقق کی شہادت اس پر گذرے گی۔ تو اب کوئی پاگل ہی کہے گا کہ میرے جسم میں میری جان نہیں۔ علماء کرام شارع علیہ السلام کے امین ہیں۔ میزان شعرانی میں ہے۔ ‘‘العلماءامناالشارع’’اوراوپر ظاہرکہ ان ارشادات میں رائے کو دخل نہیں۔ تو لاجرم یہ ارشادات، اقوال صحابہ کامفاد ہوئے۔اور اصول حدیث میں مقرر ہواکہ صحابی کا وہ قول جس میں رائے کودخل نہ ہو وہ حدیث مرفوع(حدیث رسول) کے حکم میں ہے۔ اب ایک صحابی جلیل کی تصریح بھی سنتے چلئے۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب عم رسول ﷺ نے حضور کی مدح میں آپ کے سامنے یہ اشعار پڑھے:

من قبلھاطبت فی الظلال

وفی مستودع حیث یخصف الوری

ثمرھبطت البلاد لابشر

انت ولا مضغۃ ولا علق

بل نطفۃ ترکب الشفین وقد

الحمر نسراواھلہ الغرق

تنقل من صالب الی رحم

اذامضی عالم بداطبق

وانت لماولدت اشرقت

الارضاونارت بنورک الافق

فنحن فی ذٰالک الضیاء

وفی النور وفی سبل الرشاد نخترق

یعنی حضور آپ دنیاسے پہلے جنت کے سایوں میں اور صلب آدم میں طیب و طاہر تھے۔ پھر حضوردنیا میں آئے۔ اس وقت حضور نہ بشر تھے۔ نہ مضغۂ گوشت نہ جماہواخون، بلکہ صلب نوح علیہ السلام میں نطفہ تھے جو کشتی میں ان کے ساتھ سوار ہواجبکہ نسرصنم اور اس کے پجاریوں کو طوفان نے گھیرلیاتھا۔ حضور آپ منتقل ہوتے رہےصلب سے رحم میں۔ جب ایک نسل گذرتی تو دوسری ظاہر ہوتی اور جب آپ پیداہوئےزمین آپ کے نور سے جگمگا اٹھی اور آسمان منو رہوگئےتو ہم اسی ضیاء اور اسی نور اور رشدوہدایت کے رستے میں داخل ہورہے ہیں۔

یہ ارشاد ووجہ سے حدیث مرفوع کے حکم میں ہے۔ ایک تو یہی کہ اس میں رائے کو دخل نہیں اور صحابی کا ایسا قول حدیث مرفوع کے حکم میں ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ اشعارر حضور کے سامنے حضور کی اجازت سے پڑھے گئے۔ شرح شفامیں ہے ترجمہ:یعنی حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان شعروں کو ابوبکر شافعی اور طبرانی نے روایت کیا خزیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے۔ انہوں نے فرمایامیں نے رسول اللہﷺ کی طرف ہجرت کی، تو میں ان کے حضور میں آیاجب حضور علیہ السلام تبوک سے واپس تشریف لائے تھے۔ میں اسلام لایااور میں نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے سنا ‘‘یارسول اللہ میں حضور کی مدح سرائی کی اجازت چاہتاہوں۔ حضور نے فرمایاکہو اللہ تمہارے منہ کو سلامت رکھے۔ معلوم ہواکہ یہ اشعار حضور علیہ السلام کے سامنے پڑھے گئے اور جو قول و فعل حضور کے عہد مبارک میں ہو پھر حضور اسے مقرررکھیں وہ محدثین کے نزدیک حضور علیہ السلام کی حدیث قرار پاتاہے۔‘‘ کما صرحوابہ فی اصول الحدیث’’تولاجرم یہ ارشادعباسی حدیث نبوی ہوا جس سے صاف معلوم ہوا کہ وہی نوردنیا سے پہلے جنت میں تھاپھراسی نورکالمعہ اپنے آباء کرام و امہات عظام کے اصلاب اور و ارحام میں چمکااور اسی نور کے جلوؤں نے آسمان و زمین کو جگمگایا۔بحمدہ تعالیٰ اب تو حضور علیہ السلام کی حدیث تقریرہی سے ثابت ہوگیا کہ سرکار اپنی روحانیت سے حاضروناظر اوراپنی نورانیت سے ہر شے میں جلوہ گر ہیں۔ آن جناب تو امام احمد رضاکوخیانت کا الزام لگاتے تھے۔ اب بتائیں یہ دریدہ دہنی کہاں تک پہنچی، مگر کوئی عجب نہیں کہ آپ کے امام کا شرک بھی آپ کے الزام کی طرح خداورسول کو بھی نہیں چھوڑتا۔ چنانچہ ہم اس کی مثالیں دے چکے ہیں۔ جی آپ کہاں ہیں۔ حضور کی روحانیت مقدسہ تو اس مقام کے اعلیٰ مرتبہ پر فائزہے جسے شیخ محقق مدارج النبوۃ میں فرمایا:

‘‘وانشراح صدر مقامیست عالی کہ بتمامہ و کمال جزدرذات بابرکات آن حضرت سیدالسادات علیہ افضل الصلوٰۃ واکمل التحیات وجودوثبوت ندارد و کمل اولیارانیزارباب تمکیں بقدرادراک بہ شرف متابعت وے نصیبہ ازاں حاصل است و ازینجاگفتہ اند کہ الصوفی کائن بائن نہ ازفرق در جمع ایشاں خللے چنانکہ محبوباں راباشد ونہ جمع رابروفرق غلبہ چنانکہ مجذ وباں رابود’’۔

یعنی شرح صدروہ مقام عالی ہےکہ یہ تمام و کمال حضورہی کی ذات میں موجودہے اور اولیاء کاملین ارباب تمکین کو بھی حضور کے شرف پیروی سے اس مرتبہ سے بہرہ حاصل ہے۔ اسی لئےعلماء نے کہاہے کہ صوفی شامل بہ خلق، واصل بہ خالق ہوتاہے نہ ان کے شمول سے ان کے وصول میں خلل ہوجیساکہ مجرموں کے لیے ہوتاہے نہ وصول کو شمول پر غلبہ جیساکہ مجذوبوں کے لئے ہوتاہے۔

دیکھو کیساصاف ارشاد ہے کہ سرکاربوجہ اتم و اکمل بارگاہ الٰہی میں حضور سے موصوف ہیں اور حضور کی روح پاک مخلوق میں بھی حاضر ہے۔ ہم اس قول کی تائید میں شفاسے حدیث ذکر کریں:

‘‘وعن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبیﷺ کانت روحہ نور ابین یدے اللہ تعالیٰ قبل ان یخلق اٰدم بالفی عام یسبح ذٰلک النور وتسبح الملئکہ بتسبیحہ’’الخ۔

یعنی حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام کے حضرت قرب میں نورتھے آدم کی پیدائش سے دوہزار سال پہلے یہ نور تسبیح کرتااور مٰلئکہ اس کے ساتھ تسبیح کرتے۔اسی لئے تو حضورﷺ کو امام حضرۃ اللہ کہاگیا۔عارف جزولی نے دلائل الخیرات میں فرمایا ‘‘وامام حضرتک’’یعنی درود بھیج اے اللہ اپنی بارگاہ کے امام پر۔ اس پر علامہ فاسی مطالع السرات میں فرماتے ہیں:

‘‘وامام حضرتک الذی ھو المقدی بہ والمتسک بہ باسبابہ فی الوصول الی محل قربک ومشاہد تک والحضرۃ ماخوذۃ من الحضور والاضافۃ علی معنی فی کامام المسجد’’الخ۔

یعنی جو تیرے محل قرب و مشاہدہ تک پہنچنےکے لئے مقتداہیں اورجن کا دامن پکڑاجاتاہے۔ اور حضرت ماخوذ ہےحضور سے اضافت بمعنی ‘‘فی’’ہے۔ جیسے امام المسجد میں۔نیزعلامہ نسفی فرماتے ہیں ‘‘وسراجاوحجۃ ظاہرۃ لحضرتنا’’یعنی ہم نے تجھے اپنی بارگاہ کا چراغ چمکتااور رہنمابنا کر بھیجا۔بحمداللہ اب تو علامہ نسفی کی ارشاد فرمائی ہوئی اس وجہ پر آیت مبارکہ سے بھی ثابت ہواکہ وہ روح پر فتوح حاضر بارگاہ الٰہی ہے۔اوراس بارگاہ میں حاضر ہونے والوں کی امام و پیشواہے۔حدیث ابن عباس میں گذراکہ حضور کی روح حضرت الٰہی میں نورتھی جو نور تسبیح کرتااور مٰلئکہ اس کی تسبیح پر تسبیح کرتے اور ملاعلی قاری کے کلام میں حدیث گذری ‘‘اول ما خلق اللہ نوری’’اللہ نے سب سے پہلےمیرے نور کو پیدافرمایاتو لاجرم حضورﷺ اس وجہ پر امام حضرۃ اللہ ہوئےاور قرآن اپنی جمیع وجوہ پر حجت ہے۔ تو جب سرکار سب کےحق میں سراج حضرۃ اللہ وامام حضرۃ اللہ باذن اللہ ٹھہرے۔توضرور عالم ارواح کے شاہد و رقیب و مربی و نقیب ہوئے اور جب عالم ارواح کے مربی ہوئے تو بالضرورۃ عالم اجساد واشباح کے بھی مربی قرارپائے۔ اسی لئے تو ان کے حق میں فرمایاگیا ‘‘وماارسلناک الا رحمۃللعالمین’’ ہم نے تمہیں سب جہانوں کی رحمت بناکربھیجا۔اس معنی پر سرکار کے معجزات شاہد ہیں۔ لا جرم اسی لئے شیخ محقق جو معترض کے بھی مستندہیں فرماتے ہیں:

‘‘ہمچنانکہ احادیث درتکثیرآب قلیل کثیر آمدہ در تکثیرطعام یسیرنیزکثیراست و ایں ہر دواثر تربیت وولی یعنی آں سید کائنات است کہ ہمچنانکہ بحسب رو حانیت مربی ومکمل قلوب و ارواح است درعالم جسمانیت نیزپرورندہ وخورش دہندہ ابدان و اشباح است اھ مدارج النبوہ’’۔

یعنی جس طرح کہ تھوڑے سے پانی کی افزائش کے بارے میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں اسی طرح تھوڑے کھانے کو بڑھانے کی حدیثیں بہت ہیں۔ اور یہ دونوں اس سیدکائنات کی تربیت کا اثر ہیں کہ جو روحانیت کے اعتبارسے قلوب و ارواح کے مربی ہیں اور عالم جسمانیت میں اجساد و اشباح کے پالنےبڑھانے والے بھی ہیں۔ اور جو عالم ارواح و اشباح کا مربی ہو بھلا وہ شاھد علی الخلق کیوں نہ ہوگا۔

کہئے اب بھی اس قول کے ضعف پر جمئے گااور جب شاھداًسے اور سراج منیراسے بحمداللہ سرکار عالی مدارعلیہ التحیتہ و الثناء کا حاضروناظر ہونا ثابت ہوگیاتو اب بتائیے کہ خداکو معاذاللہ کیا کیا الزام نہ دیجئے گا۔

نے فروعت محکم آمدنے اصول

شرم بادت ازخداوازرسول

اجی یہ تو کہئےکہ محمودحسن دیوبندی کوکیاکہیں گے جو گنگوہی کے بارے میں کہہ گئے۔

خداان کا مربی وہ مربی تھے خلائق کے

حدیث میں آیا‘‘ان اللہ لؤید ھذالدین بالرجل الفاجر’’اللہ تعالیٰ اس دین کی تائید فاجر مردسے بھی فرماتاہے۔ یہ میرے سرکار ابدقرارﷺ کامعجزہ ہے کہ جسے تم شرک کہتے ہو۔ تمہارے اکابر کے منہ سے اپنوں کے حق میں وہی کہلواکے ظاہر فرمادیا کہ حق وہی ہے جسے یہ چھپارہے ہیں اور باطل وہی ہے جسے یہ گارہے ہیں بلکہ خودتم سے شاھداعلیٰ الخلق لکھوا لیا۔اب تم اپنے ہی لکھے کو رد کرکے اپنے آپ کو جھٹلاؤ تو جھٹلاؤ۔‘‘ کذالک العذاب ولعذاب الاخرۃ اکبر لوکانو یعلمون’’اب ہم سرکارکے حاضر بارگاہ ہونے پر نیز ان کی حقیقت کے جاری وساری ہونے پر میزان ومدارج النبوۃ واشعتہ اللمعات کی عبارتیں مزید وضاحت کے لئے لکھیں وباالتوفیق۔

میزان میں سیدناعلی خواص سے افادہ فرمایاکہ التحیات میں حضورﷺ پر درود پڑھنے کا حکم اس لئے ہواکہ غافلوں کو اللہ متنبہ فرمادے کہ ان کانبی حضرت الٰہی میں حاضر ہے۔ وہ حضرت الٰہیہ سے کبھی جدانہیں ہوتا،تووہ بالمشافہ اسے سلام سے مخاطب کریں۔ میزان کی عبارت یہ ہے:

‘‘وسمعت سیدی علیا الخواص رحمہ اللہ تعالیٰ یقول انما امر الشارع المصلی بالصلاۃ والسلام علی رسول اللہ علیہ وسلم لینبہ الغافلین علی شھود وبینھم فی تلک الحضرۃ فانہ لایفارق حضرۃ اللہ تعالیٰ ابدافیخاطبونہ بالسلام مشافہۃ’’۔

مدارج النبوۃ میں فرمایا:

ودربعضی کلام بعضی عرفاء واقع شدہ کہ خطاب از مصلی بملاحظہ روح مقدس و سریان وے در ذراری موجودات خصوصادرارواح مصلین است بالجملہ دریں حالت از شہود وجودو حضور از آنحضرت غافل وذاہل نہ بایدبودبامیددرودفیوض از روح پرفتوح وےﷺ۔

اشعتہ اللمعات میں قدرے تفصیل کے ساتھ فرمایا۔

ونیزآنحضرت ہمیشہ نصب العین مومناں وقرۃ العین عابداں است و جمیع احوال واوقات خصوصاً درحالت عبادت وآخرآں کہ وجودنورانیت و انکشاف دریں احوال بیشترقومی تراست و بعض ازعرفاء گفتہ اندکہ ایں خطاب بجہت سریان حقیقت محمدیہ است درذرائرموجودات وافراد ممکنات پس آنحضرت درذوات مصلیان موجودہ حاضر است پس مصلی راباید کہ ازیں معنی آگاہ باشدوازیں شہود غافل نبودتابانوارقرب و اسرار معرفت متنوروفائزگردود۔

یعنی حضور ﷺ ہمیشہ مومنوں کے نصب العین اورعابدوں کے قرۃ العین ہیں تمام احوال واوقات خصوصاً حالت نماز میں اور اس کے آخرمیں کہ نورانیت وانکشاف ان احوال میں بیشتر و قوی تر ہوتے ہیں اور بعض عرفاء نے کہاہے کہ یہ خطاب یعنی (السلام علیک الخ) حقیقت محمدیہ کے ذرات موجودات و افراد ممکنات میں ساری ہونے کی وجہ سے ہے توحضورﷺ نمازیوں کی ذات میں حاضر ہیں تو مصلی کو چاہئےکہ اس معنی سے آگاہ رہے اور اس کے مشاہدے سے کبھی غافل نہ ہوتاکہ اسرارقرب و انوارمعرفت سے متنوروفائزہو۔نیزشیخ محقق نے تحصیل البرکات میں یہی مضمون افادہ فرمایاہے، فالیرجع۔ یہی وجہ ہے کہ درمختار و عالمگیری و مراقی الفلاح میں فرمایاکہ‘‘ضروری ہے کہ نمازی الفاظ تشہدسے ان کے معانی کا قصد کرے گویاکہ وہ اللہ کو تحیت کررہاہے اورنبیﷺ کوسلام عرض کررہاہے اور خود پر اور اولیاء پر سلام بھیج رہاہے۔ ترجمہ!یعنی الفاظ تشہد سے ان کے معانی کا قصد کرے کہ بطور انشاء وہی اس کی مراد ہوں گویاکہ وہ اللہ کو تحیت کرتاہے اور اپنے نبی پر اور خود پر اور اولیاء اللہ پر سلام بھیج رہاہے نہ کہ اس کی خبردینے کاقصد کرے(یعنی اس واقعہ کی خبروحکایت کا قصد نہ کرے جومعراج میں حضورﷺ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور مٰلئکہ کی طرف سے واقع ہوا۔درمختار)اسے ذکر کیا مجتیٰ میں اور ظاہر اس کا یہ ہے(علینا) کی ضمیر حاضرین کیلئے ہے اور اللہ تعالیٰ کے سلام کی بات نہیں ہے۔(ترجمہ درمختار)۔ نیزمسلک متوسط، علامہ رحمت اللہ مسندی ومنسک متقسط ملاعلی قاری میں ہے ترجمہ!یعنی زائر مدینہ پاک میں داخل ہونے کے وقت روضہ پاک میں پہنچنے تک اپنے ظاہر باطن سے متواضع رہے اور اس شہر کی حرمت کی تعظیم کرے اور اس میں جلوہ گرحضورﷺ کی عظمت وہیبت سے مملوہواور ان کی عظمت کا خیال رکھےگویاکہ وہ(ﷺ)اسے مقام مراقبہ ومشاہدہ میں دیکھ رہے ہیں نیز اسی میں ہے۔

(متمثلا صورۃ الکریمتہ فی خیالک مستشعراًبانہ علیہ الصلوۃ والسلام عالم بحضورک و قیامک و سلامک)ای بل بجمیع افعالک واحوالک ومقامک دارتحالک و کانہ حاضر جالس بازائک۔

یعنی اے زائرحضورکی بارگاہ میں یوں کھڑاہوکہ ان کی صورت کریمہ تیرے خیال میں بھی اور تو یہ سمجھ رہا ہو کہ حضورﷺ تیری حاضری اور تیرے سلام و قیام کو دیکھ رہے ہیں سن رہے ہیں بلکہ وہ تیرے افعال واحوال واقامت و رحلت کو دیکھ رہے ہیں اور وہ تیرے سامنے جلوہ افروز ہیں۔ہم نے عالم کا ترجمہ‘‘دیکھ رہے ہیں’’کیا، اس لیے کہ علم یہاں علم مشاہدہ ہے اوراس پر قریتہً فقرہ سابقہ ہے‘‘کانہ یراہ’’گویاکہ وہ اسے دیکھ رہے ہیں اور ‘‘کانہ حاضر الخ’’ہے۔ ‘‘کمالایخفیٰ’’اب کلام اس طرف متبحر ہوا کہ حضورأ کی رویت بیداری میں جائز ہے کہ نہیں فاقول ہاں بے شک حضورﷺ کی رویت جس طرح خواب میں ہوتی ہے اسی طرح بیداری میں ممکن بلکہ واقع ہے اور علماء کی ایک جماعت کا حضورﷺ کو جاگتے میں دیکھنااور بعض مشکلات کے بارے میں ان سے سوال اور ان کی کشود کے طریقے دریافت کرنا اور احادیث کی تصحیح کرنا ثابت ہے۔ بلکہ عرفاء کی ایک جماعت تو فرماتی ہے کہ اگرایک لمحہ حضورﷺ کی رویت ہم سے محجوب ہوجائے ہم اپنے کو مسلمانوں میں گنیں۔ المعتقد علامہ فضل رسول میں شرح منظومہ بحرسے نقل کیا ترجمہ!یعنیحضورﷺ کی رویت بیداری میں بالاتفاق ممکن ہے اور واقع ہے۔اس لیے کہ ابن ابی جمرہ نے ایک جماعت سے ذکرکیاکہ انہوں نے اسی پر محمول کیاہے اس روایت کو کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا وہ مجھے بیداری میں دیکھے گا۔اور انہوں نے حضورﷺکوخواب میں دیکھاپھرجاگتےمیں دیکھااور انہوں نے بعض اشیاء سے اپنی تشویش کے بارے میں حضور سے عرض کیاتوحضور نے انہیں ان کی کشود کے طریقے بتائے توویساہی کم نہ زیادہ۔شارح بحر نے کہا کہ اس امر کا منکراگرکرامات اولیاء کوجھٹلانے والاہے تو اس سے بحث نہیں اس لیے کہ وہ جھٹلاتاہے جسے سنت نے ثابت فرمایااوراگرکرامات اولیاء کو مانتاہے تویہ رویت بھی اسی سے ہے۔ اس لیے کہ اس کیلئے خلاف عادت عالم علوی و سفلی میں بہت سی اشیاء سے پردہ اٹھادیاجاتاہے۔ مدارج النبوۃ میں شیخ محقق نے‘‘من راٰنی فی المنام فسیر انی فی الیقظۃ’’کی توجیہات میں ایک توجیہ یہ بھی ذکر کی ہے کہ ممکن ہے کہ یہ بشارت بعض مقربان درگاہ وسالکان راہ کیلئے ہوجوگاہ وبیگاہ نعمت دیدار سے مشرف ہوتے ہیں۔ حالت یہ ہوجاتی ہے کہ جاگتےمیں بھی اس سعادت سے بھی بہرہ مندہوتے ہیں وھذانصہ۔

وتواندکہ این بشارت باشد بعض مستعدان ومقربان درگاہ و سالکان راہ راکہ گاہ وبیگاہ بایں نعمت مشرف شدہ اندحال بجائے رسد کہ دریقظہ نیزبایں سعادت مشرف شوند۔

پھرآخر میں اس بحث کا( کہ آیایہ روایت عینیت حس و غلبہ حال و بیخودی میں ہوتی ہے اور دیکھنےوالے اس کو بیداری میں گمان کرتے ہیں(یاحقیقتہً بیداری میں ہوتی ہے تصفیہ فرماتے ہوئے فرمادیا)۔

وبالجملہ حضورﷺ کادیداربعدوصال مثال ہے جس طرح سونے میں نظرآتی ہے جاگتے میں بھی جلوفرماہوتی ہےاور وہ شخص شریف جو مدینے میں قبر میں زندہ و آسودہ ہے وہی ایک آن میں متعددصورتوں کے ساتھ متمثل ہوجاتاہے۔ عوام کیلئے سوتے میں اور خواص کیلئے جاگتے ہیں۔ ناظرین کرام دیکھیں کہ شیخ محقق نے کتناصاف فرمایا کہ وہ روح پاک آن واحد میں عوام و خواص سب کیلئے خواب وبیداری میں حاضر ہوجاتی ہے۔ بحمدہ تعالیٰ شیخ نے جو معترض کے بھی مستندہیں ہمارے حق میں فیصلہ فرمادیا۔نیزاسی مدارج النوۃ میں فرمایا:

‘‘وبسیارے ازمحدثین تصحیح احادیث کہ مروی است از حضرت وے نمودہ و عرض کردہ یا رسول اللہ فلاں ایں حدیث از حضرت توروایت کردہ است پس فرمودآنحضرت نعم اولاد رویت کہ دریقظہ است بعضے مشایخ نیزہم چنیں استفادہ علوم نمودہ اندواللہ اعلم’’۔

یعنی بہت سے محدثین نے حضورﷺ سےان احادیث کی تصحیح کی جو حضورﷺ سے مروی ہیں اور عرض کیا یارسول اللہ فلاں نے آپ سےیہ حدیث روایت کی ہے تو حضور نے ہاں یانہ فرمایایہ سب کچھ اس رویت میں جوجاگتے میں انہیں نصیب ہوےی۔ بعض مشائخ نے بھی اسی طرح حضور سے علوم کا استفادہ فرمایاہے۔نیزمیزان شعرانی میں ہے۔

‘‘وقد بلغناعن الشیخ ابی الحسن الشاذلی و تلمیذہ الشیخ ابی العباس المرسی وغیرھما انھم کانو ایقولون لوحجبت عنارویتہ رسول اللہﷺ طرفتہ عین ماعدوناانفسنا من جملتہ المسلمین الخ۔

یعنی ہمیں شیخ ابوالحسن شاذلی اور ان کے شاگرشیخ ابوالعباس مرسی وغیرہماسے خبرپہنچی کہ وہ کہتے تھے کہ اگر ہم سے حضورﷺ کی رویت پلک جھپکنےبھر کومحجوب ہوجائےہم خود کو مسلمانوں میں شمارنہ کریں۔دیکھوکیسی تصریح ہے کہ بعض اللہ والے انہیں ہرجگہ حاضر وناظر دیکھتے ہیں۔واللہ الحجتہ الزاھرۃ۔اس مقام پر اگر اسماعلی دہلوی کی صراط مستقیم کی شہادت نہ دوں تو مزہ ہی کیا۔الفضل ماشھدت بہ الأعداء ع:

مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری

پھرسنو۔وہ اپنے پیروں کیلئے کیاگارہی ہے:

‘‘بالجملہ ائمہ ایں طریق واکابرایں فریق درزمرۂ مٰلئکتہ مدبرات الامرکہ درتدبیر اموراز جانب ملاء اعلیٰ ملہم شدہ دراجرائےآں می گوشندپس احوال ایں کرام براحوال مٰلئکتہ عظام قیاس باید کرد’’۔

دیکھوکیساصاف کہہ رہی ہےاور بیکدست میاں اسماعیل اور تمام وہابیہ کے منہ پر طمانچہ مار رہی ہے کہ میاں تم کیسے رسول اللہ کو حاضر و ناظرنہیں مانتےجبکہ تمہارے پیروں کی یہ حالت ہے کہ وہ مٰلئکتہ کی طرح مدبرعالم ہیں۔ارے جب وہ مثل مٰلئکتہ ٹھہرے اور مٰلئکتہ اپنے امور کی تدبیرکیلئے متعدد جگہ حاضر ہوجاتے ہیں تو وہ بھی ضرور ان کی طرح حاضرٹھہرے۔ پھر یہ کیسا دھرم ہے کہ امتی کیلئےیہ فضیلت مانواور نبی کیلئے شرک گاؤ۔‘‘ ولاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم’’۔

فقیرعاجزصراط مستقیم کی عبارت لکھنے کے بعد یہ قصدہی کررہاتھا کہ اب معترض کی باقی موشگافیوں کی خبرلی جائے کہ اچانک حاشیہ نورالایضاح مصنفہ اعزازعلی مدرس دارالعلوم دیوبند کی ورق گردانی کرتے ہوئے ان کی اس عبارت پر نظرپڑگئی۔لکھتے ہیں:

‘‘قولہ (حجب)فمثلہ ﷺ بعد وفاتہ کمثل شمع فی حجرۃ اغلق بابھا فھو مستور عمن

ھو خارج الحجرۃ ولکن نورہ کماکان بل ازید ولھذاحرم نکاح ازواجہ بعد ہ ﷺ ولایجری احکام المیراث فیھا ترکہ لانھمامن احکام الموت’’۔

یعنی حضورﷺ کی مثال بعد وصال ایک شمع کی ہے جو کمرہ میں ہو اور اس کا دروازہ بند کردیا گیا ہو توحضورﷺ اس سے مستور ہیں جو حجرہ شریفہ کے باہر ہیں لیکن ان کا نور ویساہی ہے جیساکہ تھا بلکہ زیادہ ہے اسی لیےحضورﷺ کی ازواج مطہرات سے نکاح حضور کے بعد حرام ہوا اور آپ کے مال کی میراث کے احکام جاری نہ ہوئے اس لیے کہ یہ دونوں تواحکام موت سے ہیں۔دیکھوکسی کھلی تصریح ہے کہ حضور نبی کریمﷺ مرقد انور میں جسم اطہر کے ساتھ زندہ ہیں اور ان کا نور ویساہی ہے جیساکہ تھا بلکہ زیادہ ہے۔یہی تو ہمارادعویٰ ہے کہ اس نور کا ظہور جیسے کل تھاویسے آج بھی ہے اور حضورﷺ اپنی نورانیت سے ہر شے میں جلوہ گرہیں ‘‘وللہ الحج السامیۃ’’۔

مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری


متعلقہ

تجویزوآراء