بشریت مصطفیٰ کے حوالے سے تفسیرات امام احمد رضا کا تقابلی مطالعہ

بشریت مصطفیٰ کے حوالے سے تفسیرات امام احمد رضا کا تقابلی مطالعہ

مولانامحمدعبدالعلیم رضوی

میرا موضوع بشریت مصطفیٰ کے حوالے سے امام احمد رضا اور دیگر مفسرین کی تفسیرات کا تقابلی مطالعہ ہے۔ اس سلسلہ میں پہلے آیت کریمہ پھر دیگر مترجمین ومفسرین کی تفسیرات اور آخر میں امام احمد رضا کی تفسیرات پیش کی جارہی ہیں قارئین اس سے بخوبی اندازہ لگا لیں گےان تمام مفسرین میں امام احمد رضا کا مقام و مرتبہ کتنا بلند و برتر اور ان کی تفسیر معتمد تفاسیر سے کتنا قریب تر بلکہ اس کے مطابق ہے۔

خداوند قدوس کا ارشاد ہے:

قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الی انما الٰھکم الٰہ واحد ۔(سورۂ حم سجدہ آیت ۶)

مولانا اشرف علی تھانوی :

(۱)ترجمہ:آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم ہی جیسا بشر ہوں، تفسیر، آپ یوں بھی کہد یجئے کہ تم جو میرے ساتھ انکار سے پیش آتے ہو تو میں امر ممتنع یا مستعبدکامدعی نہیں ہوں، بلکہ میں تو تم ہی جیسابشر ہوں اس کا اقرار کرتاہوں، ملکیت وغیرہ کا مدعی نہیں کہ موجب توحش ہو اور میرےپاس بس یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود برحق ایک ہی معبود ہے۔۲؎

سورۂ حم سجدہ میں لکھتے ہیں ‘‘آپ فرمادیجئےکہ بھائی!تم کو ایمان پر مجبور کرنے کی تو میں قدرت رکھتا نہیں، جو زبردستی قبول کر اسکوں کیونکہ میں بھی تم ہی جیسا بشر ہوں، لیکن خدا تعالیٰ نے مجھکو یہ امتیاز دیا ہے کہ تمہارا معبود ایک معبود ہے’’۔۳؎

مولانا محمود الحسن، تفسیر مولاناشبیر احمد عثمانی :

(۲)ترجمہ:‘‘توکہہ میں بھی ایک آدمی جیسے تم، حکم آتا ہے مجھ کو کہہ معبود تمہارا ایک معبود ہے۔ (ترجمہ:مولانامحمودالحسن) مولاناشبیر احمد عثمانی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں ‘‘یعنی میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں، خدا نہیں، جو خود بخود ذاتی طور پر تمام علوم وکمالات حاصل ہوں، ہاں اللہ تعالیٰ علوم حقہ اور معارف قدسیہ، میری طرف وحی کرتا ہے، جن میں اصل اصول علم توحید ہے، اسی کی طرف میں سب کو دعوت دیتا ہوں’’۴؎

اور سورہ حم سجدہ میں لکھتےہیں ‘‘یعنی نہ میں خداہوں کہ زبردستی تمہارے دلوں کو پھیر سکوں، نہ فرشتہ ہوں، جس کے بھیجے جانے کی تم فرمائش کیاکرتے ہو، نہ کوئی اور مخلوق ہوں، بلکہ تمہاری جنس و نوع کا ایک آدمی ہوں، جس کی بات کا سمجھنا تم کو جنس کی بنا پر آسان ہونا چاہئےاور وہ آدمی ہوں، جسے حق تعالیٰ نے اپنی آخری اور کامل ترین وحی کے لئے چن لیا ہے’’۔۵؎

مولانا ثناءاللہ امرتسری :

(۳)ترجمہ:‘‘توکہہ، میں تمہاری طرح ایک آدمی ہوں، میری طرف وحی پہنچتی ہے کہ تمہارا معبود برحق ایک ہی ہے’’۔

تفسیر،‘‘میں بھی تمہاری طرح ایک آدمی ہوں، یعنی آدمیت کے وصف میں، تم اور میں برابر ہیں، رسالت کا درجہ الگ رہاجو صرف اتنا ہے کہ میری طرف الہام اور وحی پہنچتی ہے کہ تمہارا سب کا معبود برحق ایک ہی ہے اور کوئی نہیں’’۔۶؎

سورۂ حم سجدہ میں لکھتےہیں ‘‘بطور تبلیغ تو اے نبی ان لوگوں کو کہہ کہ سوائے اس کے نہیں کہ میں تمہاری طرح کا ایک آدمی ہوں، جیسے تم ماں باپ سے پیداہوئے، میں بھی ہوں، جیسے تم کھاتے ہو، میں بھی کھاتاہوں، ہاں فرق مراتب ضروری ہے سو وہ یہ ہے کہ میری طرف وحی کی جاتی ہے، یعنی مجھ کو خدائی حکم پہنچتاہے کہ تمہاراسب کا معبود ایک ہے’’۔۷؎

مولانامحمد جونا گڑھی، تفسیر حافظ صلاح الدین یوسف :

(۴)ترجمہ:‘‘آپ کہہ دیجئے کہ میں تم جیساہی ایک انسان ہوں (ہاںٰ) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے’’۔ (مولانا محمد جوناگڑھی)

تفسیر:‘‘اس لئے میں بھی رب کی باتوں کا احاطہ نہیں کرسکتا’’ پھرپھر حاشیہ نمبر۲/میں لکھتے ہیں‘‘البتہ مجھے یہ امتیاز حاصل ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے، اسی وحی کی بدولت میں نے اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ باتیں بتائیں، جن پر مرور ایام کی دبیزتہیں پڑی ہوئی تھیں، یا ان کی حقیقت انسانوں میں گم ہوگئی تھی’’۸؎ سورۂ حم سجدہ میں اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتےہیں‘‘یعنی میرے اور تمہارے درمیان کوئی امتیاز نہیں کہ عقل و فہم میں نہ آسکت، پھراس سے اعراض کیوں’’۔۹؎حافظ صلاح الدین یوسف)

مولاناابوالاعلیٰ مودودی :

(۵)ترجمہ:‘‘اے محمدکہو کہ میں تو ایک انسان ہوں، تم ہی جیسا، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہاراخدابس ایک خداہے’’۱۰؎مودودی صاحب نے یہاں تو تفسیر نہیں کی، البتہ سورۂ حم سجدہ میں حاشیہ نمبر۵ کے تحت لکھا ہے ‘‘یعنی میرے بس میں نہیں کہ تمہارے دلوں پر چڑھے ہوئے غلاف اتاردوں، تمہارے بہرے کان کھول دوں اور اس حجاب کو پھاڑ دوں جو تم نے خود ہی میرے اور اپنے درمیان ڈال لیا ہے، میں تو ایک انسان ہوں، اسی کو سمجھا سکتا ہوں، جو ملنے کے لئے تیار ہو’’۔۱۱؎

ان تمام تراجم و تفاسیر پر تبصرہ سے گریز کرتے ہوئے ہم یہ دیکھیں کہ حضور اکرمﷺ، کس اعتبار سے انسان کی مثل ہیں۔ کیا حضورکے اعضائے جسمانی، یعنی آنکھ، ناک، کان اور ہاتھ وغیرہ کے خواص و افعال، انسان کی طرح ہیں لیکن یہ بات کیسے صحیح ہوگی کیونکہ احادیث طیبہ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات، بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ آپ کے خواص و افعال اور عام انسانی خواص و افعال میں کسی طرح یکسانیت و مماثلت نہیں، بلکہ کئی اعتبار سے امتیاز و فرق موجود ہے مثلاً

(۱)آپ کے جسم پاک کا زمین پر سایہ نہیں پڑتاتھا۱۲؎جبکہ عام انسانی جسم کا سایہ زمین پر پڑتا ہے۔

(۲)آپ کے جسم پاک پر مکھی نہیں بیٹھتی تھی۱۳؎جبکہ عام انسانی جسم پر مکھیاں بیٹھتی ہیں۔

(۳)آپ کے جسم کا پسینہ مشک و عنبرسےبہتر۱۴؎جبکہ عام انسانی پسینہ بدبودار ہوتا ہے۔

(۴)آپ کی آنکھیں سوتی تھیں اور دل بیدار رہتاتھا۱۵؎جبکہ عام انسان سوتا ہے تواس کے دل پر تاریکیوں کے پردے پڑجاتے ہیں۔

(۵)آپ کی آنکھیں بیک وقت آگے پیچھے دیکھتی تھیں۱۶؎انسان صرف اپنے سامنے کی چیزیں دیکھتا ہے۔

(۶)آپ ایسی چیزیں دیکھتے اور ایسی باتیں سنتے ہیں جنہیں دوسرے نہ دیکھ سکتے ہیں، نہ سن سکتے ہیں۔۱۷؎

حاصل کلام یہ کہ اعضائے جسمانی کے خواص و افعال میں کوئی انسان بھی ایسا نہیں، جو ان خصوصیات یا ان میں سے کسی ایک خصوصیت ہی میں سہی، آپ کے مثل ہو۔ پھر مطلقاً یہ کہنا

کیسے صحیح ہوگا کہ آپ عام آدمی جیسے ہیں۔

توکیا آپ شرعی احکام میں انسان جیسے ہیں؟لیکن یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ کتب سیر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی احکام میں بھی کوئی انسان آپ کے جیسانہیں۔اس لئے کہ:

(۱)دن اور رات میں آپ پر چھ نمازیں فرض تھیں یعنی آپ پر تہجد کی نماز بھی فرض تھی،۱۸؎جبکہ آپ کی امت پر صرف پانچ نمازیں فرض ہیں۔

(۲)آپ پر زکوٰۃ فرض نہیں تھی۱۹؎مگرآپ کی امت صاحب نصاب ہوتو اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔

(۳)آپ کے لئے بیک وقت چار عورتوں سے زیادہ نکاح کرناجائز جبکہ مسلمان کے لئے بیک وقت چار سے زیادہ جائز نہیں۔۲۰؎

(۴)آپ کا وضو نیندسے نہیں ٹوٹتاتھا۲۱؎جبکہ مسلمان کا کروٹ یا ٹیک لگاکر سوجانے سے وضو ٹوٹ جاتاہے۔

(۵)آپ کی بیویوں سے آپ کے وصال کے بعد بھی کوئی دوسرا نکاح نہیں کرسکتا۲۲؎ جبکہ ہر مسلمان کی بیوی اپنے شوہر کے مرنے کے بعد عدت گزارکر جس غیر محرم مسلمان سے چاہے نکاح کرسکتی ہے۔

(۶)آپ کی ازواج مسلمانوں کی مائیں ہیں،۲۳؎پھریہ بھی دیکھیں کہ خود حضور اکرمﷺ فرماتے ہیں ایکم مثلی ۲۴؎یعنی،تم میں میراجیساکون ہے۔یہاں استفہام انکاری ہے، تو معنی ہوئے تم میں سے کوئی بھی میرے جیسانہیں۔دوسرے مقام پر بالکل واضح انداز میں ارشاد فرمایا لست کاحد منکم۲۵؎یعنی،میں تم میں سے کسی کے جیسا نہیں۔

پھر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ آپﷺ کی شان توارفع واعلیٰ ہے، قرآن پاک تو آپ کی بیویوں کے بارے میں فرمارہاہے یٰنساء النبی لستن کاحد من النسا۲۶؎یعنی اے نبی کی بیبیو!تواور عورتوں کی طرح نہیں ہو۔

ذراخیال کریں کہ حضور اکرمﷺ کی بیویاں، دنیا کی عورتوں کی طرح نہیں، پھر آپ کیونکر عام انسانوں کی طرح ہوسکتےہیں اس لئے ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتےہوئے آیت کریمہ کا مفہوم و معنی پر غور کرنا ہے۔

چنانچہ امام رازی اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں امر محمد ا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بان یسلک طریقۃ التواضع۲۷؎یعنی اللہ عزوجل نے حضور اکرمﷺ کو تواضع کا طریقہ اختیار کرنے کاحکم دیا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے ‘‘انا بشر مثلکم’’ خدا کے حکم سے بطور تواضع ارشاد فرمایاہے۔اور رب کریم ان کا مالک ہے، وہ اس کے محبوب و مملوک، تو مالک کو اختیار ہے کہ وہ اپنے مملوک سے جس طرح چاہے خطاب کرے۔

شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں

‘‘خواجہ رامیر سد کہ بابندۂ خود ہر چہ خواہد بگویدوبکندواستیلاواستعلانماید و بندہ نیزباخواجہ بندگی و فروتنی کند، دیگر راچہ مجال ویاری آنکہ دریں مقام در آیدودخل کندوازحدادب بیروں رود’’۲۸؎یعنی رب کو اختیارہے کہ وہ اپنے بندے سے جو چاہے فرمائے اور بندہ بھی اپنے رب کے ساتھ جیسا چاہے تواضع و انکسار سے پیش آئے، دوسرے کو کیا مجال کہ اس معاملہ میں دخل اندازی کرے اور حدادب سے باہر ہونےکی جرأت کرے۔

پھریہی شاہ صاحب، آیت مذکورہ اور اس قسم کی دوسری آیتوں کے بارے میں فرماتے ہیں ‘‘در حقیقت ازقبیل متشابہات اند’’۲۹؎یعنی حقیقتا یہ آیتیں متشابہات کے قبیل سے ہیں۔

ان مذکورہ حوالوں سے بخوبی واضح ہوگیا کہ عام امتی کو ہرگز یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ نبی کو اپنی مثل کہے کا خود نبی سے ہمسری کادعویٰ کرے۔اگر اسی بنیاد پر کہ قرآن پاک میں‘‘انا بشر مثلکم’’ارشاد ہے،عام امتیوں کو اس بات کی اجازت مل جائے کہ و ہ انبیاء کو اپنی مثل کہے،تودیکھیں کہ قرآن پاک میں تمام چرند و پرند کے لئےفرمایاگیا، ومامن دابۃ فی الارض ولا طائر یطیر بجناحیہ الاامم امثالکم۳۰؎ترجمہ:‘‘اور نہیں ہے کوئی زمین پر چلنے والا اور نہ کوئی پرند کہ اپنے پروں پر اڑتا ہے،مگر تم جیسی امتیں’’دیکھئے اس آیت کریمہ میں بھی مثل کا لفظ موجود ہے، تو کیا اس سے یہ استدلال کیاجائیگاکہ انسان بھی گائے، بیل،گدھے، گھوڑے اور چیل کووں جیساہے۔ یہ استدلال عقلوں سے کوسوں دور ہے۔ تو ثابت ہوا کہ نبی کو بھی اپنے جیسا نہیں کہا جاسکتا۔اگرانبیاء کرام کو‘‘اپنے جیسابشر’’ کہنےوالوں کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو سب سے پہلے ابلیس کا نام ہمارے سامنے آتا ہے جب خداتعالیٰ نے حضرت آدم کی تخلیق فرماکر تمام ملائکہ کو سجدہ آدم کا حکم دیا توابلیس کے سوا سارے ملائکہ نے سجدہ کیا،

قرآن فرماتاہے :

واذقلنا للملٰئکۃ اسجد والآد م فسجد واالاابلیس ابیٰ واستکبر وکان من الکفرین۳۱؎،

ترجمہ:اور یاد کروجب ہم نےفرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا، سوا ابلیس کے، منکر ہوااور غرورکیااور کافر ہوگیا۔

رب تبارک و تعالیٰ نے، سجدہ نہ کرنے کی وجہ دریافت فرمائی تو اس نے جواب دیا، جس کا تذکرہ قرآن میں اس طرح ملتاہے۔

‘‘قال یا ابلیس مالک الا تکون مع السجدین قال لم اکن لاسجد لبشر’’۳۲؎

ترجمہ:فرمایا اے ابلیس تجھے کیاہوا کہ سجدہ کرنے والوں سے الگ رہا، بولامجھے زیبانہیں دیتا کہ بشر کو سجدہ کروں’’۔

معلوم ہوا کہ ابلیس لعین کی ذات ہی پہلی وہ ذات تھی جس نے ایک مقدس نبی کو بشر کہا پھر اس کی اطاعت میں، اس کے متبعین نے انبیاء کرام کو ‘‘اپنے جیسابشر’’ کہاچنانچہ قرآن پاک میں حضرت نوح علیہ السلام۳۳؎حضرت ہود علیہ السلام۳۴؎حضرت شعیب علیہ السلام۳۵؎ کی قوموں اور قوم عاد و ثمود۳۶؎کا تذکرہ ملتاہےکہ انہوں نے انبیائے کرام کو، یوں ہی حضرت موسیٰ وحضرت ہارون علیہم السلام کو فرعونیوں نے۳۷؎ اپنی طرح بشر کہا، ان آیات مقدسہ کی تلاوت کریں اور سوچیں کہ کفار کی بولی اختیار کرنا، کسی مسلمان اور اللہ ورسول کے تابع فرمان کو زیب دیتا ہے؟ ایمان کا تقاضہ تویہ ہے کہ مسلمان کفار کا طرززندگی اختیارنہ کرے بلکہ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے۔

ان دلائل کو دیکھتےہوئےاگر‘‘انما انا بشر مثلکم’’پر غورکریں تویہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رب تبارک و تعالیٰ نے اس فرمان کے ذریعہ چند باتوں کو واضح فرمایاہے۔

(۱)کافروں نے حضور اکرمﷺ کی ظاہری شکل وشباہت کو دیکھا، ان کی زندگی کے شب و روزکودیکھا، ان کے کھانے، پینے اور شادی بیاہ کودیکھا تو کہنے لگے، یہ تو ہماری ہی طرح انسان ہیں، تواللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جواب عطافرمایا قل انما انا بشر مثلکماےمحبوب آپ فرمائیں، میں ظاہری شکل و شباہت میں تو تمہاری طرح انسان ہوں، لیکن ایک بہت بڑا اور واضح فرق یہ ہے‘‘یوحیٰ الی انما الٰھکم الٰہ واحد’’مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے کہ تمہارا معبود ایک معبود ہے۔اور یہ وحی، نبی کو عام انسانوں سے ممتازفرمادیتی ہے۔اس طرح اس آیت کریمہ کے ذریعہ انہیں بتایاگیا کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی طرح یا معمولی انسان نہ سمجھنا۔

(۲)رسول اکرمﷺ نے بے شمار معجزات کا اظہار فرمایاانگلی کے اشارہ سے چاند کے دو ٹکڑے فرمادئیے۳۸؎مقام صہبا میں ڈوباہوا سورج پلٹایا۳۹؎انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کئے۴۰؎درخت آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۴۱؎جانوروں نے سجدے کئے۴۲؎پتھروں نے آپ کی بارگاہ میں سلام پیش کیا۴۳؎جنہیں دیکھ کر ممکن تھا کہ لوگ آپ کی بشریت کا انکار کردیتے، کیونکہ اس سے پہلے حضرت عزیر اور حضرت عیسیٰ کو خداکا بیٹا کہاجاچکاتھا، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے۔

وقالت الیھود عزیر ن ابن اللہ وقالت النصاریٰ المسیح ابن اللہ ۴۴؎

ترجمہ:‘‘یہودی بولے،عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی بولے مسیح اللہ کا بیٹا ہے’’

لہذا قرآن کے ذریعہ آپ کی زبانی یہ اعلان کروایاگیاکہ میں انسان ہی ہوں، یعنی جیسے تم خدا کی مخلوق ہو، خدا نہیں، میں بھی اس کا بندہ ہوں، خدا یا اس کا بیٹا نہیں ہوں لہٰذا ایمان کا تقاضایہ ہے کہ ہم انہیں خداکابرگزیدہ بندہ ورسول مانیں اور اپنامالک و مولیٰ جانیں۔ بڑی پیاری بات کہی ایک عاشق رسول نے:

لایمکن الثناء کما کان حقہ

بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

امام احمد رضا بریلوی کی تفسیرکو دیکھیں تو،بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ آپ کی تفسیر ائمہ مفسرین اور تقاضائے ایمانی کے عین مطابق ہے۔ امام احمد رضا بریلوی سے سوال کیا گیا، عمرو کاقول ہے کہ حضورﷺ کی بشریت ہمارے مثل نہ تھی، اور زید نے کہا کہ آپ ہمارے مثل بشر تھے، ان میں کس کا قول صحیح ہے۔ آپ نے جواب میں فرمایا۔

‘‘عمروکاقول مسلمانوں کا قول ہے اور زیدنے وہی کہا، جو کافر کہا کرتے تھے۔ قالواماانتم الا بشر مثلنا۴۵؎کافر بولےتم تو نہیں ، مگر ہم جیسےآدمی، بلکہ زید مدعی اسلام کا قول ان کافروں کے قول سے بعید ترہے، وہ جو انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو اپنا سابشر مانتے تھے، اس لئے ان کی رسالت سے منکر تھےجیسا کہ قرآن میں ہے

ماانتم الا بشر مثلنا وما انزل الرحمٰن من شئی ان انتم الا تکذ بون

‘‘تم تو نہیں مگر ہماری مثل بشر اور رحمٰن نے کچھ نہیں اتارا تم نرا جھوٹ کہتے ہو’’ ۴۶؎۔

واقعی جب ان خبثاء کے نزدیک وحی نبوت باطل تھی توانہیں اپنی سی بشریت کے سوا کیا نظر آتا، لیکن ان سے زیادہ اندھے وہ کہ وحی نبوت کا اقرار کریں اور پھر اپنا ہی سا بشرجانیں، زید کو‘‘قل انما انا بشر مثلکم’’سوجھااور‘‘یوحیٰ الی’’نہ سوجھا، وغیرمتناہی فرق ظاہر کرتا ہے، زید نےاتنا ہی پکڑلیا جو کافر لیتے تھے۔

انبیاء علیہم الصلوٰ ‎ۃ والسلام کی بشریت، جبریل علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی ملکیت سے اعلیٰ ہے، وہ ظاہر صورت میں ظاہر بینوں کی آنکھوں میں بشریت رکھتے ہیں، جس سے مقصود خلق خدا کا ان سے انس حاصل کرنااور ان سے فیض پانا،ولہذاارشادفرماتاہے

ولو جعلنٰہ ملکا لجعلنہ رجلا وللبسنا علیھم مایلبسون

۴۷؎اور اگر ہم نبی کو فرشتہ کر کے بھیجتے، جب بھی اسے مرد بناتے اور ان پر وہی شبہ رکھتےجس میں اب پڑے ہیں’’۔

ظاہر ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کی ظاہری صورت دیکھ کر انہیں اوروں کی مثل سمجھنا، ان کی بشریت کو اپناسا جاننا، ظاہر بینوں، کورباطنوں کا دھوکاہے۔ یہ شیطان کے دھوکے میں پڑے ہیں ؎

ہمسری با اولیاء برداشتند

انبیاء را ہمچو خود پنداشتند

ان کا کھانا،پینا،سونا،یہ افعال بشری اس لئے نہیں کہ وہ ان کے محتاج ہیں،‘‘ حاشا لست کاحد کم انی ابیت عند ربی یطعمنی ویسقینی’’۴۸؎‘‘میں تمہاری طرح نہیں ہوں، میں اپنے رب کے ہاں رات بسر کرتاہوں، وہ مجھےکھلاتابھی ہےاور پلاتابھی ہے’’ان کے یہ افعال بھی اقامت سنت و تعلیم امت کے لئے تھے کہ ہر بات میں طریقۂ محمودہ، لوگوں کو عملی طور سے دکھائیں ،جیسےان کاسہو و نسیان، حدیث میں ہے انی لا انسی ولکن انسی لیستن۴۹؎میں بھولتانہیں بھلایاجاتاہوں تاکہ حالت سہومیں امت کو طریقۂ سنت معلوم ہو۔

امام اجل محمد عبدری ابن الحاج مکی قدس سرہ ‘‘مدخل’’میں فرماتے ہیں،یعنی‘‘رسول اللہ ﷺ،احوال بشری، کھانا، پینا، سونا، جماع، اپنے نفس کریم کے لئے نہ فرماتے تھے بلکہ بشر کو انس دلانے کےلئے ان کے افعال میں حضور کی اقتداکریں، کیا نہیں دیکھتاہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں عورتوں سے نکاح کرتاہوں اور مجھے ان کی کچھ حاجت نہیں۔ اور رسول اللہﷺ نےفرمایامجھے تمہاری دنیا سے خوشبو، عورتوں سے محبت اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔ یہ نہ فرمایاکہ میں نے انہیں دوست رکھا۔اور فرمایاتمہاری دنیا سے، تواسے اوروں کی طرف اضافت فرمایانہ کہ اپنے نفس کریم کی طرفﷺ۔معلوم ہوا کہ حضور اقدس ﷺ کی محبت اپنے مولیٰ عزوجل کے ساتھ خاص ہے، جس پر یہ ارشاد کریم دلالت کرتا ہے کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی۔ تو حضور اقدس ﷺ کی ظاہر صورت بشری اور باطن ملکی ہے، تو حضور اقدس ﷺ کے یہ افعال بشری، محض اپنی امت کو انس دلانے اور ان کے لئے شریعت قائم فرمانے کے واسطے کرتے تھے، نہ یہ کہ حضور کو ان میں سے کسی شے کی کچھ حاجت ہو، جیساکہ اوپربیان ہوچکا۔انہیں اوصاف جلیلہ و فضائل حمیدہ سے جہل کے باعث بے چارے جاہل یعنی کافر نے کہا‘‘اس رسول کو کیا ہوا،کھاناکھاتاہے اور بازاروں میں چلتاہے’’۔

عمرو نےسچ کہا کہ یہ قول حضور اقدس ﷺ نے اپنی طرف سے نہ فرمایا، بلکہ اس کے فرمانے پر مامورہوئے۔جس کی حکمت تعلیم تواضع و تانیس امت وسدغلو نصرانیت ہے۔ اول ودوم اور سوم کے مسیح علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کو ان کی امت نے ان کے فضائل پر خدااورخداکا بیٹاکہا۔پھر فضائل محمدیہ علیٰ صاحبہا افضل والصلوٰۃ والتحیتہ کی عظمت شان کا اندازہ کون کرسکتا ہے۔ یہاں اس غلو کے سد باب کے لئے تعلیم فرمائی گئی کہ کہوکہ میں تم جیسا بشر ہوں، خدا یا خداکا بیٹانہیں، ہاں‘‘یوحیٰ الی’’رسول ہوں۔ دفع افراط نصرانیت کے لئے پہلا کلمہ (میں تم جیسا بشرہوں)تھا اور دفع تفریط ابلیسیت کے لئے دوسرا‘‘یوحیٰ الی’’رسول ہوں، کلمہ ایسی نظیر ہے، جو دوسری جگہ ارشاد ہوا،۵۰؎ قل سبحن ربی ھل کنت الا بشرا رسولا۵۱؎

حواشی :

(۱)القرآن الحکیم، سورۂ کہف، آیت۱۱۰۔

(۲)مولانااشرفعلی تھانوی، تفسیر بیان القرآن، جلد۶،ص۱۳۸، تاج پبلشرز،دہلی۱۹۷۴؁ء۔

(۳)مولانااشرفعلی تھانوی،تفسیربیان القرآن جلددہم،ص۵۱،تاج پبلشرز،دہلی۱۹۷۴؁ء۔

(۴)مولاناشبیر احمد عثمانی، تفسیر عثمانی، ص۴۰۶، مطبوعہ مدینہ منورہ،۱۹۹۳؁ء۔

(۵)مولاناشبیراحمدعثمانی،تفسیر عثمانی،ص۶۳۴،مطبوعہ مدینہ منورہ،۱۹۹۳؁ء۔

(۶)مولاناثناء اللہ امرتسری، تفسیرثنائی،ص۳۶۴،ثناءاللہ امرتسری اکیڈمی، دہلی ،سنہ طبع ندارد۔

(۷)مولانا ثناءاللہ امرتسری، تفسیر ثنائی،ص۵۷۰،ثناءاللہ امرتسری اکیڈمی،دہلی،سنہ طبع ندارد۔

(۸)حافظ صلاح الدین یوسف،تفسیر احسن البیان اردو،ص۷۲۸،دارالسلام لاہور،۱۹۹۸؁ء۔

(۹)حافظ صلاح الدین یوسف،تفسیراحسن البیان اردو، ص۱۱۱۹،دارالسلام لاہور،۱۹۹۸؁ء۔

(۱۰)مولاناابوالاعلیٰ مودودی،تفہیم القرآن، جلد سوم، ص۵۰،مرکز اسلامی،دہلی۱۹۸۹؁ء۔

(۱۱)مولاناابوالاعلیٰ مودودی،تفہیم القرآن، جلد چہارم،ص۴۴۱،روبی پرنٹنگ پریس، دہلی ۱۹۸۶؁ء۔

(۱۲)علامہ قاضی عیاض مالکی، متوفی ۵۴۴؁ ھ، الشفاء جلد اول، ص ۳۶۸، مرکزاہلسنت برکات رضاپوربندر،گجرات، سنہ طبع ندارد۔

(۱۳)علامہ قاضی عیاض مالکی، متوفی۵۴۴؁ ھ، الشفاء جلداول،ص۳۶۸،مرکزاہلسنت برکات رضاپوربندر،گجرات، سنہ طبع ندارد۔

(۱۴)امام ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری صحیح مسلم جلد ثانی،ص۲۵۷،سیماآفسیٹ، دہلی۔ ۱۳۹۸؁ ھ۔

(۱۵)[الف]امام محمدبن اسمٰعیل بخاری،صحیح بخاری، جلد اول، ص۱۵۴، فاروقیہ بکڈپو، دہلی سنہ طبع ندارد۔

[ب]امام ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی،جامع ترمذی جلد دوم، ص۵۹،کتب خانہ رشیدیہ، دہلی، سنہ طبع ندارد۔

(۱۶)امام محمد بن اسمٰعیل بخاری،صحیح بخاری ،جلداول،ص۱۰۲،۵۹،فاروقیہ بکڈپو، دہلی، سنہ طبع ندارد۔

(۱۷)امام ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی، جامع ترمذی جلد دوم،ص۵۵،کلاسیکل پرنٹرس، دہلی، سنہ طبع ندارد۔

(۱۸)شاہ عبدالحق محدث دہلوی،اشعتہ اللمعات شرح مشکوٰۃ (مترجم)،جلددوم، ص۴۷۲، اعتقادپبلشنگ ہاؤس،دہلی۱۹۸۸؁ ء۔

(۱۹)[الف]علامہ سیدابن عابدین شامی، ردالمختار علی الدرالمختارجلد سوم،ص۱۷۰،مکتبہ زکریا دیوبند۱۹۹۶؁ء۔

[ب]امام جلال الدین سیوطی، الخصائص الکبریٰ، جلد ثانی، ص۲۴۱،مرکزاہلسنت، برکات رضا پوربندر،گجرات، سنہ طبع ندارد۔

(۲۰)القرآن الحکیم،سورۂ نساء آیت ۳۔

(۲۱)امام ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری ،صحیح مسلم،جلداول،ص۲۶۰،سیماآفسیٹ پریس، دہلی،۱۳۹۶؁ ھ۔

(۲۲)القرآن الحکیم، سورۂ احزاب آیت ۵۳۔

(۲۳)القرآن الحکیم، سورۂ احزاب آیت ۶۔

(۲۴)امام ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری ،صحیح مسلم،جلد اول،ص۳۵۱،سیماآفسیٹ پریس، دہلی،۱۳۹۶؁ ھ۔

(۲۵)امام ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی، جامع ترمذی جلداول،ص۹۷،کلاسیکل پرنٹرس، دہلی،سنہ طبع ندارد۔

(۲۶)القرآن الحکیم، سورۂ احزاب آیت ۳۲۔

(۲۷)امام فخرالدین رازی،تفسیرکبیر،جلد پنجم ۵۱۶۔

(۲۸)شاہ عبدالحق محدث دہلوی،مدارج النبوۃ، جلد اول،ص۸۳،مرکزاہلسنت، برکات رضا، پوربندر،گجرات،سنہ طبع ندارد۔

(۲۹)شاہ عبدالحق محدث دہلوی،مدارج النبوۃ،جلد اول،ص۸۲،مرکزاہلسنت، برکات رضا،پوربندر،گجرات،سنہ طبع ندارد۔

(۳۰)القرآن الحکیم، سورۂ انعام، آیت ۳۸۔

(۳۱)القرآن الحکیم،سورہ ٔبقرہ،آیت۳۴۔

(۳۲)القرآن الحکیم، سورۂ حجر،آیت۳۳،۳۲۔

(۳۳)القرآن الحکیم،سورۂ ہود،آیت۲۷۔

(۳۴)القرآن الحکیم،سورۂ مومنون،آیت ۳۴،۳۳۔

(۳۵)القرآن الحکیم، سورۂ شعراء، آیت ۱۸۶۔

(۳۶)القرآن الحکیم،سورۂ ابراہیم،آیت۱۰۔

(۳۷)القرآن الحکیم،سورۂ مومنون،آیت ۴۵تا۴۷۔

(۳۸)[الف]امام محمدبن اسمٰعیل بخاری،صحیح بخاری جلداول،ص۵۱۳،ایضاً،جلددوم ص۷۲۲،فاروقیہ بکڈپو،دہلی، سنہ طبع ندارد۔

[ب]امام ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری صحیح مسلم جلدثانی ص۳۷۳۔

(۳۹)امام جلال الدین سیوطی، خصائص الکبریٰ، جلددوم،ص۸۲،مرکزاہلسنت ،برکات رضا،پوربندر،سنہ طبع ندارد۔

(۴۰)[الف]امام محمد بن اسمٰعیل بخاری، صحیح بخاری، جلد اول، ص۵۴، فاروقیہ بکڈپو، دہلی، سنہ طبع ندارد۔

[ب]امام ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی،سنن ترمذی، جلد دوم،ص۲۰۴،کتب خانہ رشیدیہ،دہلی،سنہ طبع ندارد۔

[ج]امام ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیب تبریزی، مشکوٰۃ المصابیح، جلددوم،

ص۵۳۸،۵۳۷،۵۳۲،مطبوعہ،مطبع مجتبائی،دہلی،۱۳۰۷؁ ھ۔

(۴۱)[الف]امام ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیب تبریزی،مشکوٰۃ المصابیح،جلد دوم، ص۵۴۱۔

[ب]امام ابوعیسیٰ محمدبن عیسیٰ ترمذی،سنن ترمذی،جلد دوم،ص۲۰۳،کتب خانہ رشیدیہ ،دہلی،سنہ طبع ندارد۔

(۴۲)امام ولی الدین محمدبن عبداللہ الخطیب تبریزی،مشکوٰۃ المصابیح،جلداول،ص۲۸۳، مطبوعہ ،مطبع مجتبائی،دہلی،۱۳۰۷؁ ھ۔

(۴۳)[الف]امام ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی،سنن ترمذی،جلددوم،ص۲۰۳،کتب خانہ رشیدیہ،دہلی،سنہ طبع ندارد۔

[ب]امام ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیب تبریزی،مشکوٰۃ المصابیح، جلد دوم، ص ۵۴۰، مطبوعہ، مطبع مجتبائی،دہلی،۱۳۰۷؁ ھ۔

(۴۴)القرآن الحکیم، سورۂ توبہ،آیت۳۰۔

(۴۵)،(۴۶)القرآن الحکیم، سورۂ یٰسٔ ،آیت ۱۵۔

(۴۷)القرآن الحکیم،سورۂ انعام،آیت نمبر۹۔

(۴۸)امام ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری ،صحیح مسلم جلد اول،ص۳۵۲،۳۵۱،سیما آفسیٹ پریس،دہلی،۱۳۹۶؁ ھ۔

(۴۹)امام مالک بن انس،مؤطاامام مالک ص۸۴،کتب خانہ اعزازیہ، دیو بند ،سنہ طبع ندارد۔

(۵۰)القرآن الحکیم،سورۂ بنی اسرائیل،آیت ۹۳۔

(۵۱)امام احمدرضا بریلوی،فتاویٰ رضویہ(جدید)،جلد۱۴،ص۶۶۲تا۶۶۵، مرکز اہلسنت

برکات رضا،پوربندر،گجرات،۲۰۰۶؁ء۔


متعلقہ

تجویزوآراء