بیسویں صدی پر کنزالایمان کے فکری اثرات

بیسویں صدی پر کنزالایمان کے فکری اثرات

الیاس اعظمی

انیسویں صدی کے دوسرے عشرے سے شروع ہونے والا دور برصغیر کے اندر مسلم معاشرے میں مذہبی و اعتقادی تفرق کی شروعات کازمانہ ہے، آگے جاکر جس کی کوکھ سے بڑے بڑے فتنوں نے جنم لیا ہے۔ یہی وہ دورہے جس میں بدعقیدگی اور غلط فکری کی کالی گھٹائیں نجد کی طرف سے برصغیر کا رخ کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں یوں مسلم معاشرہ اس کی تاریکیوں میں ڈوب جاتا ہے۔

دوسری طرف برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی خفیہ و اعلانیہ چالوں اور درون خانہ نااہل مغل شہزادوں کی باہمی رسّہ کشی اور اقتدار کی جنگ کے باعث جب دہلی کے لال قلعے پر گرفت کمزور پڑتی ہے تو مطلع سیاست بھی ابرآلود ہوجاتا ہے اور سرحد پار سے آنے والے قزاقوں، برطانوی لٹیروں کے ہندوستان پر غاصبانہ اقتدار کی کالی گھنگور گھٹائیں پورے طبقے پر چھاجاتی ہیں۔

یوں ظلمت کی ان تاریک اور گہری راتوں میں مسلم امّہ پر جو سب سے بڑااورشدید حملہ ہوتا ہے وہ امت کے اجتماعی عقیدہ و ایمان پر ہوتاہے۔ وہ مسلمانوں کے مرکزعقیدت ومحبت، مکین گنبد خضریٰ کی ذات بابرکات پر کیا جاتاہے۔ محبوب کل ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کو متنازعہ بنانے کے لیے نت نئے عقیدے وضع کیے گئے کبھی عظمت نبوت پر حملے کیے گئے، کبھی مقام ولایت پر حرف گیری کی گئی تو کبھی ایسابھی ہوا کہ شانِ الوہیت میں بھی تنقیص کی پیوندکاری کی گئی مختصر یہ کہ برصغیر میں دینی فتنوں کی یلغار اور افتراق بین المسلمین کے یہی بڑے اسباب تھے جن کی وجہ سے جسد ملت لخت لخت ہوگیا۔اور اس کا شیرازہ بکھر گیا۔

فطرت کا اصول یہ ہے کہ جب زمین کا سینہ دھوپ کی تمازت سے خوب تپ جاتا ہے۔ تیز آندھیاں آتی ہیں اور کالے سیاہ بادلوں کی گھٹائیں چھا جاتی ہیں تو پھر رحمتِ الٰہی کے بادل بھی جھوم کر آتے ہیں اور ابرکرم باراں کی صورت میں خوب برستا ہےتوزمین کا سینہ نہ صرف ٹھنڈا ہوتا ہے بلکہ اس کے فیض وکرم سے زمین کا سینہ چاک کر کے اس سے سبزہ اگاتے ہیں یوں رحمت حق کی سرسبزو شاداب کھیتیاں ہر طرف لہلہاتی نظرآتی ہیں۔ بلا تشبیہ و بلا مثال ملتِ اسلامیہ ہند کے زوال و انحطاط کے اس دور میں بریلی کے مردم خیز خطّے پر بہار میں گلشنِ نقی علی میں محلۂ سوداگراں کی سرزمین میں احمدرضا کی صورت میں ایک پھول کھلتا ہے اور عشق رسولﷺ سے بھرپور اپنی مہک سے خطۂ ہند ہی نہیں بلکہ چاردانگ عالم کو معطر کردیتا ہے۔ تو پھر عالم عرب و عجم اسے اعلیٰ حضرت، عظیم البرکت، سراج الامتہ، مجدددین و ملت ایسے عظیم القابات سے یاد کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام القابات کی ردا فقط انہی کو زیبادیتی ہے مگر اس کے باوجود حقیقت بین نگاہوں کو ممدوح عالم کا سروقامت اس ردائے فخر سے کہیں بلند نظرآتاہے۔

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی عمرعزیزکی ابھی چودھویں بہار دیکھ رہے تھے کہ مسند افتاء و ارشاد پر فائز کردیے گئے۔ تو پھر آپ کی تحقیقات انیقہ سے کشتِ ایمان میں وہ بہار آئی کہ جس سے اسلام اور اسلامیانِ عالم کو حیاتِ نو مل گئی۔ انہیں اثر خامۂ رضامیں سے ایک نادر شاہکار آپ کا وہ ترجمۂ قرآن ہے جس کو آپ نےکنزالایمان فی ترجمتہ القرآن کے نام سے موسوم کیا۔

ہندوستان کی سرزمین ترجمۂ قرآن کی دولت سے محروم نہیں تھی بلکہ اس سے پہلے بہت سے فارسی اور اردو تراجم بساط علم پرموجود تھے جن میں

لفظی اور بامحاورہ ترجمے، مختصر حواشی یا جامع تفاسیر سبھی شامل تھے۔ایسے میں ذہن میں یہ سوال باربارانگڑائیاں لیتا ہے کہ پہلے تراجم کی موجودگی میں ایک نئے ترجمے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور یہ کہ اس نے مسلم معاشرے میں کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟

جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے کہ پہلے سے موجود تراجم قرآنی کی موجودگی میں ایک نئے ترجمے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر محمد طاہر القادری رقمطراز ہیں:

‘‘اعلیٰ حضرت کے ترجمےکنزالایمان میں ادب رسالت کا پہلو تو جداگانہ اور امتیازی شان کے ساتھ جلوہ گر ہے اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آپ کی ساری زندگی عشق وادب مصطفویﷺ کی تعلیم اور پاس ادب سے نابلد لوگوں کے ساتھ معرکہ آرائی میں بسرہوئی۔ رب العزت نے ایک مقام پر اپنے محبوبﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے:

وَوَجَدَ کَ ضَالًّا فَہَدٰ ی

اس مقام کاترجمہ اہل علم کے لیے ایک آزمائش سے کم درجہ نہیں رکھتا۔ اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:

‘‘اللہ نے آپ کو بھٹکاہوا، راۃ حق سے بے خبر، اور گم کردہ پایاتو ہدایت کی راہ دکھائی’’۔

یہ تراجم بلاشک و شبہ شانِ رسالت اور ادب بارگاہ مصطفویﷺ کے منافی تھے۔ مترجمین کے ہاتھ سے بوجوہ ادب رسالت کا دامن چھوٹ گیا تھا۔ اور وہ اس حقیقت سے صرف نظر کر بیٹھے کہ اللہ کاکلام جو اترا ہے‘‘وَرَفَعنَا لَکَ’’کا مصداق بن کر ہے اور جو حضورﷺ کی نسبت ‘‘وَاِنَّکَ لَتَھدِیٰ اِلٰی صِرَاطٍ مُّستَقِیم’’ (اے محبوب بے شک تو سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے)کادعویٰ کرتاہے توایسے معظم و اعلیٰ مرتبت رسول کی نسبت یہ کہنا کہ وہ معاذاللہ راہ حق سے بھٹکاہوا، بے خبر یا گم کردہ راہ تھا کتنابڑاظلم ہے جس کا اپنا یہ عالم ہو کہ وہ راہ صواب سے بھٹکا ہواہو کس طرح دوسروں کو ہدایت کی دولت سے بہرہ ور کرسکتا ہے؟ (کنزالایمان کی فنّی حیثیت، ص:۳۰)

حاصل کلام یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ نے کنزالایمان کے نام سے جو قرآن مجید کانادر و شاہکار ترجمہ کیا ہے وہ محض شوق ترجمہ کے جذبات کی تسکین کے لیے نہیں تھا۔ بلکہ عقیدہ وعمل اسلامی فکروفلسفہ، اسلامی تہذیب و ثقافت کی روحانی اقدار کا یہ تقاضا بھی تھا کہ بدعقیدگی کے بسائے جانے والے اس شبستان میں نورِ ایمان کے چراغ روشن کرنے کے لیے اس کتابِ نور قرآن مجید کا ترجمہ اور ترجمانی اس اسلوب بیان میں کی جائے کہ صاحبان ایمان اور اہل عقیدت ومحبت کادامن ایمان کے خزانوں سے اس طرح بھرپور ہو جائے کہ پھر کسی اور ترجمے اور ترجمانِ قرآن کی انہیں حاجت تک نہ رہے۔ اسی لئے حدی خوان قافلۂ عشق رسولﷺ نے اپنے اس ترجمۂ قرآن کا نام ہی کنزالایمان فی ترجمتہ القرآن رکھا ہے۔

کنزالایمان فی ترجمتہ القرآن کا ایک صدی پر محیط یہ سفر خود اس امر کی شہادت فراہم کر رہا ہے کہ اس نے بیسویں صدی پر جو دوررس اثرات مرتب کیے ہیں ان کا اندازہ اس کی پاک و ہند اور دنیا کے دیگر ممالک میں اور مختلف زبانوں میں کثرتِ اشاعت سے لگایاجاسکتاہے۔

یہ حقیقت امرِ واقعی ہے کہ قرآن کی تاثیرواثر اس کی ذاتی صفت ہے البتہ اس امر کا انکار بھی ممکن نہیں ہے کہ مطالب قرآنی کے فہم اور اس سے فکری و نظریاتی راہنمائی لینے میں اس کا ترجمہ و تفسیر اہم کرداراداکرتاہے اور یوں ایک مترجم یامفسّر بھی طالب ہدایت کی فکری تعمیر اور ذہن سازی میں کرداراداکرتاہے۔

بیسویں صدی بالخصوص فکری و نظریاتی اور اعتقادی و مسلکی اعتبار سے اپنے اندر ایک ایسی تاریخ سمائے ہوئے ہے کہ جس کے مختصر جائزے کے لیے بھی ایک دفتر درکار ہے ان زلازل و فتن میں قصرِ عقیدہ و اعتقاد ہچکولے لے رہا تھا۔ اہل حق کسی مسیحا کی راہ تک رہے تھے کہ امام احمدرضا خاں علیہ الرحمتہ کشتی ملت کے پاسبان بن کر میدانِ عمل میں اترتے ہیں اور قلم و قرطاس کے ذریعےہچکولے کھاتے ہوئے قصر ایمان کا اس جرأت و استقامت کے ساتھ دفاع کرتے ہیں کہ فتنۂ اعتزال کے زخم خوردہ اور تہذیب مغرب کے اسیر بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے۔ سرزمین بریلی سے اُٹھنےوالی عشق رسولﷺ کی اس آواز میں کچھ ایسی علمی گھن گرج تھی کہ ماہرین فلسفۂ قدیم اور حاملین علوم جدید اس پر توجہ دیے بغیررہ نہ سکے۔

ایک وضاحت

آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کی وضاحت کرناضروری سمجھتاہوں کہ زیرقلم موضوع ‘‘بیسویں صدی پر کنزالایمان کے فکری اثرات’’ پرراقم کی اس تحریری کاوش میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے صرف ترجمۂ کنزالایمان کے اثرات ہی مراد نہیں ہیں بلکہ میں نے موضوع میں توسیع اک پہلواختیار کیا ہے۔ کنزالایمان کے اثرات سے میر امطمع نظر فکر رضا کے اثرات ہیں، اس لیے میری اس کاوش کو اسی زاویۂ نگاہ سے دیکھا جائے۔

آمد برسر مطلب

سطور سابقہ کا حاصل یہ ہے کہ انسانی زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جس پر کنزالایمان نے اپنے اثرات نہ چھوڑے ہوں۔ اور کوئی ایساطبقہ نہیں جو اس سے متاثرنہ ہواہو۔

مذہبی اثرات

جمہورامتِ مسلمہ ہند اوربعض نوخیزاقلیتی فرق کے درمیان پائے جانے والےاختلافات میں سے اہم ترین اور سب سے بڑااختلاف یہ ہے کہ قرآن مجید کے کچھ مترجمین سے ترجمۂ قرآن کرتے ہوئے بعض مقامات پر شان ومقام رسالت کے حوالے سے زبردست لغزشیں واقع ہوئی ہیں۔ یوں ادب احترام رسالت کا دامن اُن کے ہاتھوں سے چھوٹ گیا۔طرفہ یہ کہ اس طرف توجہ دلانے کے باوجود بھی اصلاح کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی۔ مراسلت کی گئی مگر عقائد حقّہ سے عدول کی راہ سے مراجعت نہ کی گئی۔ اس سلسلے میں صرف ایک حوالہ نذرِ قارئین کیا جاتا ہے اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے اللہ رب العزت اور نبی رحمت ﷺ کی شانِ اقدس میں توہین و گستاخی کے کلمات پر متوجہ کرتے ہوئے اور اپنے مخترعہ عقائد سے رجوع کرنے کی طرف باربار دعوت دی مگرنہ مکتوبات رضا کا جواب دیا گیااور اپنے مذعومہ عقائد سے رجوع کیا گیا۔ مکتوبات رضا میں سے صر ف ایک مکتوب کا مختصر اقتباس ملاحظہ ہو۔ مولانااشرف علی تھانوی کے نام ایک خط میں رقمطراز ہیں:

‘‘آپ جانتے ہیں اور زمانے پر روشن ہے کہ بفضلہٖ تعالیٰ سالہاسال سے کس قدر رسائل کثیرہ غریزہ آپ اور آپ کے اکابرجناب مولوی گنگوہی صاحب وغیرہ کے رد میں ادھر سے شائع ہوئے اور بحمدہ تعالیٰ ہمیشہ لاجواب رہے۔

سوالات گئے، جواب نہ ملے، رسائل بھیجے، داخل ہوئے، رجسٹریاں پہنچیں، منکر ہو کر واپس فرمادیں‘‘۔ (کلیات مکاتیب رضا۔جلداوّل،ڈاکٹر شمس المصباحی)۔

کلیات مکاتیب رضامیں تھانوی صاحب کے نام اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کے پانچ مکاتیب موجود ہیں ان تمام مکتوبات کا ایک ایک لفظ اس امر کی گواہی دے رہا ہے کہ مکتوب نگارکے دل میں دینِ حق اور افراد امت کے لیے کس قدر درد ہے اور وہ کس دل سوزی کے ساتھ جادۂ حق سے بھٹک جانے والوں کو دلائل وبراہین کے ساتھ رجوع الی الحق کی دعوت دے رہے ہیں۔ خوداعلیٰ حضرت کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:

‘‘الحمدللہ اس فقیر بارگاہ غالب قدیر عزوجلالہ کے دل میں کسی شخص سے نہ ذاتی مخالفت نہ دنیوی خصومت، میرے سرکارابدقرارحضورپُرنور سیدالابرارﷺ نے محض اپنے کرم سے اس خدمت پر مامور فرمایا ہے کہ مسلمان بھائیوں کو ایسے حال سے خبردار رکھوں جو مسلمان کہلا کر اللہ واحد قہار جل جلالہ اور محمدرسول اللہﷺ ماذون مختار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان اقدس پر حملہ کریں تاکہ میرے عوام بھی مصطفیٰﷺ کی بھولی بھیڑیں ان ذیاب فی ثیاب کے جبّوں، عماموں، مولویت، مشیخیت کے مقدس ناموں قال اللہ، قال الرسول کے روغنی کلاموں سے دھوکے میں آکر شکارگرگان خونخوار ہوکر معاذاللہ سقر میں نہ گریں’’۔(مکتوبات امام احمدرضا۔مرتبہ مولاناپیر محموداحمد قادری، مکتبۂ نبویہ لاہور، ص:۱۱۵)

ناموس رسالت کے تحفظ کی اس تحریک میں اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ پر جس طرف سے بھی اور جو بھی ذاتی سوقیانہ حملے ہوتے رہےان کے جواب میں لکھتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:

‘‘ایسے وقائع بکثرت ہیں اور اب جو صاحب چاہیں امتحان فرمائیں ان شاءاللہ ذاتی حملوں پر کبھی التفات نہ ہوگا۔ سرکار سے مجھے یہ خدمت سپردہوئی ہے کہ عزت سرکار کی حمایت کروں نہ کہ اپنی، میں تو خوش ہوں کہ جتنی دیرمجھےگالیاں دیتے، افترا کرتے، بُرا کہتے ہیں، اتنی دیر محمد رسول اللہﷺ کی بد گوئی، مُنقِصَت جوئی سے غافل رہتے ہیں میں چھاپ چکا اور پھر لکھتا ہوں، میری آنکھ کی ٹھنڈک اس میں ہے کہ میری اور میرے آبائے کرام کی آبرو

میں عزت محمد رسول اللہﷺ کے لیے سپرد ہیں اللّٰھم آمین۔(ایضاً،ص:۱۱۷)

مذکورہ بالااقتباسات کالفظ لفظ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ آپ کو کسی سے کوئی ذاتی رنج نہ تھااور نہ کوئی ذاتی مفاد تھا۔ مفاد تھا تو صرف اللہ عزوجل اور رسول اللہﷺ کی عزت و حرمت اور ناموس کے تحفظ کا تھا۔ اللہ عزوجل اور رسول معظم و محتشمﷺ کی محبت سے مضطرب دل سے نکلنے والی اور دردوسوز میں ڈوبی ہوئی ان آہوں کا ہی نتیجہ تھا کہ اکابر مجرمین کے پیروکاروں میں سے ہی بہت سے لوگوں کو حضور ایزدی سے یہ توفیق نصیب ہوگئی کہ انہوں نے اگرچہ اپنی تحریروں اور تراجم قرآنی میں اس کشتہ عشق رسولﷺ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کانام تو ذکر نہیں کیا مگر اُن کی دعوتِ فکرادب و احترام رسول ﷺاور آپﷺ کے عشق و محبت پر مبنی فکررضاکو صحیح اور درست تسلیم کرتے ہوئے اپنے اساتذہ اور اکابر کی بارگاہ رسالت کی بے ادبی کی راہ کو مسترد کردیا ہے۔ ہم اپنی اس بات کی تصدیق میں چند مثالیں حق پسنداورحق طلب قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:

قرآن مجید کی سورۂ والضحیٰ کی آیت کریمہ ہے:

وَ وَ جَدَ کَ ضَآلًّا فَھَدٰ ی(پ۳۰،الضحیٰ)

اس آیتِ کریمہ کا مختلف مترجمین کی طرف سے کیاگیاترجمہ ملاحظہ ہو:

(۱)پایاتجھ کو راہ بھٹکتا پھر راہ سمجھائی۔ (محمودالحسن)

(۲)پایا تجھ کو بھٹکتاپھر راہ دی۔ (شاہ عبدالقادر)

(۳)اور اللہ نے آپ کو بے خبرپایاسو رستہ بتلایا۔ (اشرفعلی تھانوی)

(۴)تمہیں ناواقف راہ پایااورپھر ہدایت بخشی۔ (مودودی)

(۵)اور رستے سے ناواقف پایا تو سیدھارستہ دکھایا۔ (مولوی فتح محمد)

(۶)اس نے تجھ کو بھولابھٹکا پایاپھرراہ لگایا۔ (وحیدالزمان)

(۷)آپ کو بےخبرپایاسو رستہ بتادیا۔ (عبدالماجددریاآبادی)

(۸)پس پایاتجھ کو راہ بھولاہواپس راہ دکھائی۔ (شاہ رفیع الدین)

(۹)اور تم کو دیکھا کہ (راہ حق کی تلاش میں بھٹکے)بھٹکے(پھررہے)ہو تو (تم کو دین اسلام کا) سیدھا رستہ دکھادیا۔ (ڈپٹی نذیر احمد)

(۱۰)اور تجھے راہ بھوالاپا کر ہدایت دی۔ (مولانامحمد جونا گڑھی)

(۱۱)تو بے راہ تھایعنی تجھے پڑھانے والاکوئی نہ تھا، اللہ نے تجھ کو شریعت یعنی قرآن سکھایا۔(حسین علی واں بھچڑاں)

آپ نے ملاحظہ کیا کہ محولہ بالاتمام تراجم میں بھٹکا، بےخبر، بھولاہوا، بے راہ، کے الفاظ و کلمات مشترک دکھائی دیتے ہیں۔راقم الحروف کا نقطۂ نظریہ ہے کہ ترجمہ کرتے ہوئے سوئے ادبی پر مشتمل ان کلمات پر اتفاق و اجماع محض اتفاقی نہیں بلکہ یہ بد عقیدگی اور غلط فکری کا اشتراک ہے۔ یہ سب بادیۂ گمراہی میں بھٹکی ہوئی سوچ بے خبروراہ بھولی ہوئی فکر کا نتیجۂ بد ہے۔ ورنہ ہر وہ شخص جس کو فہم صحیح اور عقل سلیم کا ایک ذرا ساحصّہ بھی بارگاہ ایزدی سے حاصل ہوا ہے، وہ پہلی ہی نظرمیں جان کر پکاراٹھتاہے کہ ان تراجم کو دولتِ ایمان اور دین اسلام سےدور کا بھی واسط نہیں ہے اور مقام واحترام رسالت سے خالی ہیں۔ اور اس عظیم بارگاہ سے کچھ بھی مناسبت نہیں رکھتے۔ ان تراجم اور ان کے مترجمین کو اپنے دور کی اعتزالی سوچ قرار دیاجائے تویہ غلط نہ ہوگا۔

مولانا کوثرنیازی کا تبصرہ

مذکورہ بالاتراجم پر ہم اپنی طرف سے کوئی تبصرہ کرنےکی بجائے سابق وفاقی وزیر مذہبی امور و حج و اوقاف مولاناکوثرنیازی جو مسلکی اعتبارسے دیوبندی نظریات کے حامل تھے جب مودودی سے سیاسی تربیت پاکر میدان سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دستِ راست کی حیثیت سے پیپلزپارٹی کے اسٹیج سے پروان چڑھے اور وفاقی وزارت کے منصب تک پہنچے تھے۔ غرض یہ بتانا مقصود ہے کہ مولاناکوثرنیازی نہ توامام احمد رضا بریلوی رحمتہ اللہ علیہ سے تلمذ یا بیعت کی نسبت رکھتے تھے اور نہ آپ کے عقیدت مندوں میں شامل تھے نہ صرف یہ بلکہ امام احمدرضاخاں رحمتہ اللہ علیہ سے فکری ہم آہنگی رکھنےوالےکسی بزرگ سے بھی اُن کو کوئی ایسی نسبت حاصل نہ تھی۔ وہ خالص دیوبندی فکر کے پروردہ تھے۔ خوداُن کا اپنا بیان ہے:

‘‘میں نے صحیح بخاری کا درس مشہور دیوبندی عالم شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدادریس کاندھلوی مرحوم و مغفور سے لیا ہے’’۔

(امام احمدرضاخاں بریلوی ایک ہمہ جہت شخصیت، ص:۷، مطبوعہ، ادارۂ معارف نعمانیہ ، نومبر۱۹۹۰ء)

مولانا کوثرنیازی کا تبصرہ

مولاناکوثرنیازی مذکورہ تراجم اور ان کے مترجمین پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘‘وَوَجَدَ کَ ضَآلًّافَھَدٰ ی’’کے ترجمے کودیکھ لو، قرآن پاک شہادت دیتا ہے‘‘مَاضَلَّ صَاحِبُکُم وَمَاغَوٰی’’رسول گرامی نہ گمراہ ہوئے نہ بھٹکے۔‘‘ ضَلَّ’’ماضی کا صیغہ ہے، مطلب یہ ہے کہ ماضی میں آپ کبھی گم گشتہ راہ نہیں ہوئے۔ عربی زبان ایک سمندر ہے اس کا ایک ایک لفظ کئی کئی مفہوم رکھتاہے، ترجمہ کرنےوالے اپنے عقائد و افکار کے رنگ میں ان کا کوئی سامطلب اخذکرلیتے ہیں۔‘‘ وَوَجَدَ کَ ضَآلًّا’’کا ترجمہ‘‘مَاضَلَّ’’کی شہادت قرآن کو سامنے رکھتے ہوئےعظمت رسول کے عین مطابق کرنے کی صورت تھی مگر ترجمہ نگاروں سےپوچھوانہوں نے آیت قرآنی سے کیاانصاف کیا ہے؟

مترجمین کا محاکمہ

(تراجم پر تبصرہ کرنے کے بعد مترجمین کا محاکمہ یوں کرتے ہیں)۔

شیخ الہندمولانامحمودالحسن ترجمہ کرتے ہیں:

‘‘اورپایاتجھ کو راہ بھٹکتا،پھرراہ سمجھائی’’۔

کہاجاسکتاہے مولانامحمودالحسن ادیب نہ تھے ان سے چوک ہوگئی آئیے ادیب، شاعر، مصنف اورصحافی مولاناعبدالماجد دریاآبادی کی طرف رجوع کرتےہیں ان کا ترجمہ ہے:

‘‘اور آپ کوبےخبرپایاسو رستہ بتایا’’۔

مولانادریاآبادی پرانی وضع کے اہل زبان تھے، ان کے قلم سے صرف نظر کرلیجیے اس دور میں اردوئے معلیٰ میں لکھنےوالے اہل قلم حضرت مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودی کے دروازے پر دستک دیتے ہیں، ان کا ترجمہ یوں ہے:

‘‘اور تمہیں ناواقف راہ پایااور پھرہدایت بخشی’’۔

پیغمبر کی گم راہی اور پھر ہدایت یابی میں جووسوسےاور خدشے چھپے ہوئے ہیں انہیں نظر میں رکھیےاور پھر‘‘کنزالایمان’’ میں امام احمد رضا خاں رحمتہ اللہ علیہ کے ترجمے دیکھیے:

بیاورید گراینجا بود سخن دانے

غریب شہر سخن ہائے گفتنی دارد

امام نے کیا عشق افروز اور ادب آموز ترجمہ کیاہےفرماتے ہیں:

‘‘اورتمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایاتواپنی طرف راہ دی’’۔(کنزالایمان)

کیاستم ہے فرقہ پرور لوگ‘‘رشدی’’ کی ہفوات پر تو زبان کھولنے اور عالم اسلام کے قدم بہ قدم کوئی کارروائی کرنے میں اس لیے تامل کریں کہ کہیں آقایانِ ولیِ نعمت ناراض نہ ہوجائیں مگر امام احمدرضاکے اس ایمان پرورترجمے پرپابندی لگادیں جو عشق رسول کا خزینہ اور معارف اسلامی کا گنجینہ ہے ؎

جنوں کانام خرد رکھ دیاخرد کا جنوں

جوچاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

(ایضاً،ص:۹،۸)

کنزالایمان میزان نقد میں

اب ذراکنزالایمان پر مولانانیازی کا تبصرہ ملاحظہ ہو:

‘‘ادب واحتیاط کی یہ روش امام احمد رضا کی تحریروتقریر کے ایک ایک لفظ سے عیاں ہے۔ یہی ان کا سوزنہاں ہے جوان کا حرزجاں ہے۔ ان کا طغرائے ایمان ہے، ان کی آہوں کا دھواں ہے ؎

حاصل کون ومکاں ہے، برترازایں وآں ہے، باعث رشک

قدسیاں ہے، راحتِ قلب عاشقاں ہے، سرمۂ چشم سالکاں

(ایضاً،ص:۸)

مولاناکوثرنیازی کے‘‘کنزالایمان’’اور دیگر تراجم قرآنی پر اس جامع اور غیر جانب دارانہ تبصرے کے بعد مزید کسی تبصرہ و تجزیہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

کنزالایمان کے علمی و فکری اثرات

راقم کا وجدان یہ کہتاہے اور میری پختہ رائے بھی ہے کہ اعلیٰ حضرت امام شاہ احمدرضاخاں قدس سرہ المنان کی دیگر حسنات کا اگر ذکر نہ بھی نہ کیا جائے اور فقط اس ایک خوبی و خصوصیت کوہی لے لیاجائے جو آپ نے حب رسولﷺ اور حرمت و تقدیس رسالت کے لیے سرانجام دی ہے اورعشق ومحبت رسولﷺ اصل ایمان ہےکے اپنے فکر و فلسفے کو جس طرح سے ہر مسلمان کے دل میں اتار کر اُن کے عقیدہ ایمان کی حفاظت کی ہے۔ آپ کے بقائے دوام، بخشش و مغفرت اور بلندی درجات کے لیے یہی کافی تھا۔ آپ نے اپنے ترجمۂ قرآن کنزالایمان اور دیگرتصانیف بالخصوص اپنے فتاویٰ رضویہ کے ذریعے سے تقدیسِ الوہیت، حرمتِ ناموسِ رسالت اور عظمت اولیا کے تحفظ کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔ اس کی مثال اسلام کی صدیوں پر محیط تاریخ میں عنقا ہے۔ اور مستقبل میں بھی اس کی مثال کی پیش گوئی مشکل ہے۔

برصغیر میں بدعقیدگی کی تحریک کا آغاز مولوی اسماعیل دہلوی (م۱۸۳۱ء) کی بدنام زمانہ کتاب نام نہاد تقویتہ الایمان کے منظر عام پر آنے سے ہوااور پھر ملتِ اسلامیہ میں چھپے ہوئے مارآستینوں اور کچھ غیروں کےدست غیب کی کرشمہ سازیوں سے اس اعتزالی تحریک کا سلسلہ دراز سے دراز تک ہوتاگیا۔ اہانتِ رسول کی اس تحریک میں نئے نئے فتنے جنم لیتے رہے۔ چھوٹے چھوٹے فرقے وجودمیں آتے رہے اور ملتِ اسلامیہ کے جسد ناز پر نوتراشیدہ، بدعی اور باطل عقائد کے نشتر چلاتے رہے ہیں۔ اس طوفان بلاخیزمیں جوذات ہمیں ملت کے مجموعی ایمان کا دفاع کر کے اس کے بکھرجانےوالےاجزاکوملاکرایک مالا میں پرونے میں کوشاں و ساعی نظرآتی ہے اور افرادِ ملت کو اسلاف کی راہ پر گامزن رہنے کا درس دیتی نظرآتی ہے وہ صرف اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کی ذاتِ مقدسہ ہے۔ یہ بات ہم محض عقیدے کے طورپرہی نہیں کہہ رہے بلکہ خودامام احمدرضا خاں رحمتہ اللہ علیہ کے مخالفین بھی برملا اس حقیقت کااعتراف کرتے ہیں کہ فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ اور اُن کے پیروکارقدیم طریقوں پر قائم رہے۔مولاناسلیمان ندوی جو اپنے طبعی میلان کے اعتبار سے اہل حدیث (غیرمقلدانہ)خیالات رکھنےوالے تھے وہ لکھتےہیں:

‘‘تیسرافریق وہ تھاجو شدت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل سنت کہتارہا۔ اس گروہ کے پیشوازیادہ تربریلی اور بدایوں کے علماتھے’’۔

(حیات شبلیِ،ص:۴۶،بحوالہ تقریب تذکرۂ اکابر اہل سنت، ص۲۲ازمولاناعبدالحکیم شرف قادری)

اہلِ حدیث مکتب فکر کے شیخ الاسلام ثناءاللہ امرتسری کی گواہی بھی ملاحظہ ہو۔

‘‘امرتسرمیں مسلم آبادی، غیرمسلم آبادی(ہندووسکھ وغیرہ) کے مساوی ہے۔ اسّی(۸۰) سال قبل سب مسلمان اسی خیال کے تھےجن کو بریلوی حنفی خیال کیا جاتاہے’’۔

(شمع توحید[مطبوعہ سرگودھا] ص۴۰، بحوالہ امام احمدرضا محدث بریلوی پر دنیا بھر میں نئی نئی تحقیقات، از علامہ عبدالحکیم شرف قادری،ص:۵)

مذکورہ بالا دومذہبی گواہوں کے علاوہ ایک مؤرّخ اور جدیدتعلیم یافتہ غیر جانب دار شخصیت کی گواہی بھی ملاحظہ ہو:

‘‘انہوں(مولوی احمدرضاعلیہ الرحمتہ) نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طرقوں کی حمایت کی’’۔(موج کوثر،ص:۷۰،ازشیخ محمداکرم)

مذکورہ بالا ان تمام حوالہ جات کے پیش کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ امام احمد رضا خاں نے نہ تو کوئی نیافرقہ قائم کیااور نہ کوئی نیا مسلک ومذہب ایجاد کیا، بلکہ آپ پوری تندہی، پورے اخلاص اور کمال استقامت کے ساتھ اسلاف امت کے عقائد کی تبلیغ و اشاعت کی۔ انہی کا دفاع کیا اور مخترعہ عقائد کے حاملین کو اسلاف امت کے ہی مذہبی عقائد کی طرف دعوت دی۔ یہ آپ کے اخلاص ہی کا نتیجہ اورآپ کی فکرکے مبنی برصداقت ہونے کی دلیل ہے کہ ان بدعتی گروہوں کے بانیاں کے بعد آنے والی اُن کی معنوی اولاد جب میدان میں اترتی ہے تو وہ امام احمدرضا خاں کے فکری و اعتقادی نشتروں کامقابلہ کرنے سے کتراتی ہے، اپنے بڑوں کی راہ پر چلنے سے بظاہر گریز کرتی ہے، وہ اپنے تراجم اور تحریروں میں بظاہر ایسے الفاظ لاکر یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اپنے اکابرین کے تراجم سے متفق نہیں ہیں۔

عظمت احمد رضا تیری کیا بات ہے

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ نے سورۂ والضحیٰ کی آیت نمبر ۷‘‘وَوَجَدَ کَ ضَآلًّا فَھَدٰ ی’’کا ترجمہ یوں کیا ہے:

‘‘اورتمہیں اپنی محبت میں خودرفتہ پایاتواپنی طرف راہ دی’’۔

مخالفین حق نے جب اپنی مزعومہ توحیدی عینک لگاکر عشق محبت میں ڈوبے ہوئے ترجمے کنزالایمان کو دیکھااور پڑھاتوبغضِ رسالت میں جلتے ہوئے یہ فتویٰ صادر کیا کہ ‘‘مولوی احمد رضا خاں نے یہ ترجمہ درست نہیں کیا اوراُن کا ترجمہ غلط ہے’’اس کو اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کی کرامت ہی قرار دیا جائے گا کہ یہ ہی ‘‘مفتیان’’جب قلم اُٹھائے قرآن مجید کا ترجمہ کرنے بیٹھتے ہیں تو اگرچہ وہ‘‘اپنی محبت میں خود رفتہ پایا’’کی ترکیب تو اختیار نہیں کرتے مگر اشارۃً اس ترجمۂ رضا کی تائید ضرورکرتے ہیں۔

آئیے ہم اپنے اس موقف کی تائید میں چند مثالیں پیش کرتے ہیں تاکہ حقیقت پوری طرح مبرہن ہوکر سامنے آجائے۔

مولاناابوالکلام آزاد جو کانگریس کے ‘‘شوبوائے’’ کے نام سے پورے ہندوستان میں شہرت پانے والے مذہبی راہنماتھے،آزادؔ سیاسی طور پر کانگریسی اور مسلکی اعتبار سے پکے ‘‘دیوبندی’’ تھےاگرچہ اپنی‘‘ابوالکلامی’’کااظہارکرتے ہوئے تقلید آئمہ اور اپنے اسلاف جیسے والابزرگ مولاناخیرالدین، مولانا منورالدین وغیرہ جو پکّے اور متصلّباہل سنت تھےاور اسماعیل دہلوی و تقویتہ الایمانی تصورتوحید کے سخت مخالف تھے، ان سے بیزاری کا اکثراظہار کرتے رہتے تھے (اُن کی اپنی کتاب‘‘تذکرہ’’کے مندرجات اس پر بطورسندودلیل کافی ہے)مولانا آزادؔ نے بھی ترجمۂ قرآن اور ‘‘ترجمان القرآن’’کے نام سے قرآن مجید کی تفسیر لکھی، مولاناآزادؔ کاترجمۂ قرآن ۱۳۵۰ھ/۱۹۳۱ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔آزادؔ نے اپنے اس ترجمے میں ‘‘سورۂ الضحیٰ’’ کا ترجمہ کرتے ہوئےزیربحث آیت کریمہ کا ترجمہ بایں الفاظ کیا!

‘‘اے پیغمبر!ہم نے دیکھا کہ ہماری تلاش میں ہو۔ ہم نے خود ہی تمہیں اپنی راہ دکھلادی’’۔(ترجمان القرآن جلدسوم،ص:۱۸۴)

آزادؔ کا یہ ترجمہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خاں کے ترجمۂ کنزالایمان کی بڑی حد تک تائیدکرتا ہے۔ الفاظ کے فرق کے باوجود مفہوم قریب قریب ایک ہی ہے۔

تفسیر عثمانی

دیوبندکے شیخ الہندمولوی محمودالحسن نے‘‘موضح الفرقان’’ کے نام سے قرآن مجید کا ترجمہ کیا جو۱۳۳۶ھ/۱۹۱۸ء میں مکمل ہوا۔مترجم نے تکمیل ترجمہ کے بعد اس کے حواشی بھی لکھنا شروع کیے مگر وہ صرف ‘‘سورۂ آل عمران’’ تک حواشی لکھ سکے بعد میں ان حواشی کو ان کے شاگرد مولوی شبیر احمد عثمانی نے مکمل کیا۔ جو تفسیر عثمای کے نام سے مشہور ہوئے۔ مولوی محمودالحسن نے ترجمہ تو خالص دیوبندی فکرکے مطابق ہی کیا ہے لیکن شبیر احمد عثمانی نے اس پر جو حاشیہ لکھا ہے وہ قابل توجہ ہے ملاحظہ ہو:

‘‘جب حضرت جوان ہوئے قوم کے مشرکانہ اطواراور بیہودہ رسم و راہ سے سخت بیزار تھے۔ اورقلب میں خدائےواحد کی عبادت کاجذبہ پورے زورکے ساتھ موجزن تھا۔ عشق الٰہی کی آگ سینۂ مبارک میں بڑی تیزی سے بھڑک رہی تھی۔ وصول الی اللہ اور ہدایت خلق کی اس اکمل ترین استعداد کا چشمہ جو تمام عالم سے بڑھ کر نفس قدسی میں ودیعت کیاگیا تھااندر ہی اندر جوش مارتاتھا۔ لیکن کوئی صاف کھلاہواراستہ اور مفصل دستورالعمل بظاہر دکھائی نہیں دیتاتھا۔ جس سے اس عرش و کرسی سے زیادہ وسیع قلب کو تسکین ہوتی۔ اسی جوش طلب اور فرط محبت میں آپ بے قراراورسرگرداں پھرتےاورغاروں اور پہاڑوں میں جاکر مالک کو یاد کرتے اور محبوب حقیقی کو پکارتے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ‘‘غارحرا’’ میں فرشتے کو وحی دے کر بھیجا اور وصول الی اللہ اور اصلاح خلق کی تفصیلی راہیں آپ پر کھول دیں یعنی دین حق نازل فرمایا‘‘مَاکُنتَ تَد رِی مَاالکِتٰبُ وَلَاالاِیمَانُ وَلٰکِن جَعَلنٰہُ نُوراً نَّھدِ ی بِہٖ مَن نَشَاءُ مِن عِبَادِ نَا’’(شوریٰ رکوع۵)(تنبیہ)یہاں ‘‘ضَآلًّا’’کے معنی کرتے وقت ِِسورۂ یوسف’’ کی آیت ‘‘قَالُوا تَاللہِ اِنَّکَ لَفِی ضَلٰلِکَ القَدِ یمِ O’’کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔

(تفسیر عثمانی،بذیل حواشی سورۃ الضحیٰ، ص:۷۷۹،۷۷۸،مطبوعہ دارالتصنیف کراچی)

اب ذراعثمانی صاحب کا سورۂ یوسف کی مذکورہ آیت پر لکھاگیاحاشیہ بھی ملاحظہ ہو، لکھتےہیں:

‘‘یعنی یوسف کی محبت، اس کے زندہ ہونے اور دوبارہ ملنے کا یقین تیرے دل میں جاگزیں ہے، وہی پرانے خیالات ہیں جو یوسف کی خوشبوبن کردماغ میں آتےہیں’’۔ایضاًبذیل حواشی سورۂ یوسف آیت نمبر۹۵،ص:۳۱۹،حاشیہ:۱

عثمانی صاحب کے اوّل الذکرحاشیہ سے اشارۃ النص سے اور ثانی الذکر حاشیے سے بطور ‘‘عبارۃ النص’’ ثابت ہواکہ ‘‘ضآل’’کامعنی صرف گمراہ ہونا اور بھٹکنا ہی نہیں ہیں۔ بلکہ کسی کی محبت کا محبت کا غالب آجانااور کسی کی محبت میں وارفتہ ہوجانے کا معنی بھی پایاجاتاہے۔ اگرایسانہ ہوتاتومولاناعثمانی کبھی‘‘لَفِی ضَلٰلِکَ القَدِ یمِ’’کامعنی ‘‘یوسف کی محبت’’نہ کرتے عثمانی صاحب اپنے حواشی میں صرف امام اہل سنت مولاناشاہ احمدرضاخاں کے بیان فرمودہ ترجمے ‘‘آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ پایا’’کی تائیدوتصدیق کررہے ہیں۔ لیکن حیرت ہے کہ موصوف کے استاد اور مترجم مولوی محمودالحسن صاحب کی نظر اس معنی کی طرف کیوں نہ گئی؟ مقام رسالت سے اس قدر بے خبری کو غلط فکری اور بدعقیدگی کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیاجاسکتا۔

ایک اور شہادت

پروفیسرمولوی فیروزالدین روحی دیوبند نے سورۂ والضحیٰ کی زیر بحث آیتِ مبارکہ کا ترجمہ یوں کیا ہے:

‘‘اورآپ کو طالب پایاتوہدایت دی’’

اس ترجمہ پر اپنے تفسیری حاشیہ میں لکھتے ہیں:

‘‘پھرآپ کس طرح قلبی اضطراب میں مبتلاتھے کہ کسی طرح دنیا کی ضلالت اور کفروشرک کا ازالہ ہوجائے تواللہ تعالیٰ نے اس دلی تڑپ اور شوق کو اس طرح پوراکردیاکہ اس نے آپ کو منصب نبوت و رسالت پرتفویض فرماکرہدایت کی وہ راہ بتادی جس پر گامزن ہوکر کفرو شرک کی گند میں مبتلا لوگ نورہدایت سے اپنے قلوب کے گندکاازالہ کرلیں’’َ۔

(قرآن کریم اردوترجمہ مع مختصر تفسیر،پارہ ۳۰،ص:۶۷مطبوعہ ادارۂ تبلیغ القرآن نمبر۱۱۸، گولیمار کراچی)

پروفیسرروحی اپنے زیرنظر آیت کریمہ کے ترجمے اور اس کے حاشیے میں ضلات و گمراہی کی

نسبت حضورپُرنورﷺ کی طرف نہیں بلکہ‘‘قلبی اضطراب’’ یعنی محبت الٰہی میں خود رفتگی کی نسبت کرتے ہوئےعام لوگوں کی ضلالت وگمراہی اور کفروشرک میں مبتلا ہونے کو بیان کرکےآیت کے مفہوم کو واضح کررہے ہیں کہ العیاذباللہ گمراہ اور راہ حق سے بھٹکے ہوئے حضورﷺ نہیں تھے بلکہ وہ لوگ تھے جن کی طرف آپ نبی بن کر مبعوث ہوئے تھے۔

یہ ایک مُسَلِّمَہ حقیقت ہے کہ قلب مصطفیٰﷺ میں جہاں محبت الٰہی کا بحرناپیداکنار موجزن تھا وہاں قلب اطہر اس حوالے سے بھی مضطرب رہتاتھا کہ بادیۂ ضلالت میں گم کردہ راہ لوگ میری دعوت حق پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔آپﷺ کو تسلی بھی دی گئی ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا:

لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفسَکَ اَلَّا یَکُونُوامُؤمِنِینَ O(الشعراء۳:۲۶)

‘‘(اے حبیب مکرم!)کہیں تم اپنی جان پر کھیل جاؤگے اُن کے غم میں کہ وہ ایمان نہیں لائے’’۔

بلاشبہ یہ امام احمدرضاخاں اور آپ کے ترجمے‘‘کنزالایمان’’کے فکری اثرات ہیں کہ ایسے چراغ روشن کیے ہیں جن کے ذریعے اعتقادی بے راہ روی کے اندھیرے خودبخود چھٹ جاتے ہیں۔اور ہر صحیح العقل سلیم الفطرت شخص جادۂ مستقیم کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔ جو یقیناًفکر رضا کےصحیح و صواب ہونے کی بین دلیل ہے۔

جدیدمترجمین قرآن پر اثرات

جس طرح یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید ایک ابدی اور دائمی شان رکھنے والی آخری الہامی کتاب ہے تو یہ بات بھی بغیر کسی شک و شبہ کے کہی جاسکتی ہے کہ قرآن مجید کے تراجم میں سے کنزالایمان بھی اپنے اندریہ شان رکھتاہے، جس طرح قرآن کی تاثیر ہر دور میں ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اسی طرح کنزالایمان بھی اپنے تاثرات مرتب کرتادکھائی دیتا ہے۔ اس نے صرف علوم قدیمہ کے ماہرین کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ عصری علوم کے ماہرین و ارباب علم و دانش کے قلوب واذھان کو بھی مسخر کیا ہے۔

[۱]قیام پاکستان کے بعد ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے قرآن و سنت کے پیغام کی اشاعت کے حوالے سے جن اہل علم نے شہرت پائی ہے اُن میں سے ایک نام حضرت سید محمد وجیہ السیماعرفانی علیہ الرحمتہ کا بھی ہے۔ موصوف جدیدذہن رکھنےوالے روشن خیال عالم اور سلسلۂ عالیہ چشتیہ کے نامور شیخ بھی تھے۔آپ سورۂ والضحیٰ کی اس آیت کریمہ کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:

‘‘اور آپ کو مقصود کی چاہت میں گم گشتہ دیکھاتو مقصود تک پہنچادیا’’۔(عرفان القرآن، سورۂ والضحیٰ،۷:۹۳)

یاد رہے کہ موصوف نے ‘‘عرفان القرآن’’ کے نام سے قرآن مجید کا عمدہ اور شستہ و رواں ترجمہ کیا ہے۔‘‘ ضَآلًّا فَھَدٰ ی’’کا ترجمہ مقصود کی چاہت اور مقصود تک پہنچادینا، ایک عمدہ تعبیر ہے۔ اور مقام رسالت کے آداب کے تقاضوں کے بھی قریب تر ہے۔ اس لیے کہ حضور نبی رحمتﷺ کا مقصود و مطلوب ذاتِ حق کے سوااور کچھ نہ تھا، مترجم نے اپنے ترجمہ میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔اسی طرح موصوف ‘‘سورۂ یوسف’’ میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کی بات جس کو قرآن نے ذکرکرتے ہوئے یوں بیان فرمایا ہے!

‘‘قَالُوا تَا للہِ لَفِی ضَلٰلِکَ القَدِ یم’’

‘‘کہنے لگے خداکی قسم آپ تو محبت کے اسی پرانے غلبے میں گرفتارہیں’’۔

بیٹوں نے ‘‘ضلال’’ کی نسبت حضرت سیدنا یعقوب علیہ السلام جو اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی تھے کی طرف کی تھی حضرت مترجم نے اسی نسبت کو ملحوظ رکھتےہوئے اس کا ترجمہ ‘‘غلبۂ محبت’’ انتہائی مؤدب الفاظ میں کیا ہے، مقام نبوت کا یہی تقاضا تھا۔ جو ترجمے میں نمایاں طور پر نظرآتا ہے۔

[۲]جامعہ اسلامیہ (اسلامی یونیورسٹی)بہاولپورکے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر سید حامدحسن بلگرامی کا نام اسلامی دنیا بالخصوص پاکستان کے علمی حلقوں میں کسی قسم کے تعارف کا محتاج نہیں۔ موصوف نے‘‘فیوض القرآن’’ کے نام سے قرآن مجید کا بڑاہی وجد آفریں ایمان افروز ترجمہ کیا ہے جس کوپڑھتے ہوئے قلب و روح اپنے اندر تازگی محسوس کرتےہیں علاوہ ازیں اس ترجمے کو یہ اعزازبھی حاصل ہے کہ تمام مکاتب فکر کے اکابرعلمانے اس کی تائید و توثیق کی ہے۔ اکابرین اہل سنت میں سے حضرت غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت ضیاءالامت پیرمحمدکرم شاہ الازہری رحمتہ اللہ علیہ اور زینت مسند فقہ حضرت علامہ مفتی محمد حسین نعیمی رحمتہ اللہ علیہ کے اسمائے گرامی اس کے مؤیدین میں شامل ہیں:اکابرزعمائے ملت کے مؤید اس ترجمے میں سورۃ والضحیٰ کی زیر بحث آیت مبارکہ کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

‘‘اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو(سرکشتۂ شوق، وادی عشق الٰہی میں) سرگرداں پایاتو(اس نے) آپ کو منزل مقصود پر پہنچایا(غارحراسےاُٹھاکرتبلیغ کے فرائض سونپے کہ دنیااپنے ہادی کو دیکھے، ہدایت پائے)’’۔(فیوض القرآن،سورۂ والضحیٰ۷:۹۳)

[۳]ڈاکٹرمحمد طاہر القادری نے بھی ‘‘عرفان القرآن’’ کے نام سے تقدیس الوہیت اور ادب و احترام رسالت سے لبریزایساایمان افروز اور روح پرورترجمہ کیا ہے کہ جس کو پڑھتے ہوئے قاری اپنی کشتِ ایمان میں بہار کو جو بن پر دیکھتا ہے۔عشق ومحبت رسولﷺ میں ڈوب کر لکھے گئے اس وجدانی ترجمۂ قرآن میں سورۂ الضحیٰ کی زیرنظرآیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

‘‘اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خودرفتہ وگم پایاتواس نے مقصود تک پہنچادیا’’۔(سورۃ والضحیٰ،۷:۹۳)

صاحب عرفان القرآن ڈاکٹرمحمدطاہر القادری، صاحب کنزالایمان اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضاخاں سے کس قدر متاثر ہیں؟ اس کا اندازہ ذیل کے اقتباس سے لگایاجاسکتا ہےآپ سورۂ والضحیٰ کی اسی زیرتبصرہ آیت کریمہ کے غلط تراجم پر جرح کرتے ہوئےرقمطراز ہیں۔ ایک طویل اقتباس ملاحظہ ہو:

‘‘بےشک ضلال میں بے خبری کا معنی پایاجاتاہے اور بےخبرہونا ضلال کا تقاضابھی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جس چیز کی بے خبری؟ کسی نے اس بےخبری کو راہ شریعت سے بے خبری پر محمول کیا، کسی نے راہ ہدایت سے بے خبری پر اور کسی نے راہ حق سے عدم آگہی پر لیکن اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے اسے وفورِ محبت میں خود سے بے خبری پر محمول کیا۔ یعنی حضورﷺ وفور محبت الٰہی میں اس قدر مستغرق تھےکہ آپ کو اپنی ذات تک کی خبر نہ رہی۔تاریخی تناظرمیں بھی یہی حق وصواب ہے کہ حضورﷺ بعثت سے پہلے چالیس چالیس روز غارحرا کی تنہائیوں میں یادالٰہی میں مصروف رہتے تھے۔ چنانچہ ختمی مرتبتﷺ کی عشقِ الٰہی میں استغراق و محویت کی اسی کیفیت کو ترجمے کے قالب میں ڈھالتے ہوئے اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے یہ ترجمہ فرمایا:‘‘اور تمہیں اپنی محبت میں خودرفتہ پایاتواپنی طرف راہ دی’’

یعنی اے محبوبﷺ جب تیری محبت و محویت اس کمال تک پہنچ گئی کہ تجھے نہ اپنی خبر رہی نہ دنیاومافیھا کی یعنی جب تیرا استغراق و انہماک اپنے نقطۂ عروج کو چھونےلگا تو‘‘فَھَدٰ ی’’ ہم نے تمام حجابات مرتفع کردیے۔ تمام پردے اٹھادیے۔ تمام دوریاں مٹادیں۔ تمام فاصلے سمیٹ دیے اور اپنی بارگاہ صمدیت میں مقالم محبوبیت پر فائزکردیا۔اعلیٰ حضرت نے محبّ ومحبوب کے مابین چاہت و محبت کی کیفیات اور کمال درجہ احوال و دلربائی کالحاظ کرتے ہوئے اس انداز سے ترجمہ کیا کہ لغت و ادب کے تقاضے بھی پورے ہوگئے اور بارگاہ رسالت مآبﷺ کے ادب کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ پایا’’۔‘‘ایں سعادت بزوربازونیست’’(کنزالایمان کی فنّی حیثیت، ص:۳۲،۳۱)

کنزالایمان کے تہذیبی و ثقافتی اثرات

اس وقت موجودتمام تراجم قرآنی میں سے جس قدر گہرے تہذیبی و ثقافتی اثرات اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے ترجمۂ کنزالایمان نےمعاشرے پر کیے ہیں کسی اور ترجمے نے نہیں کیے۔آج معاشرے میں اسلامی وروحانی ثقافت کے جو مظاہر ہمیں نظر آتے ہیں اور معمول بہ دین کی بہاریں چمنستانِ حیات میں تازگی ایمان کا ساماں لیے نظرآتی ہیں یہ سب فیض ہے کنزالایمان کا۔

سائنس کی نوبہ نو ایجادات نے اگرچہ بظاہرتہذیب انسانی کو ترقی و عروج کی انتہائی حدوں تک پہنچادیاہے مگر اس مادی ترقی کے چکاچوند عہد میں بھی انسان مادیت پرستی کا شکار ہو کر خالق سے تو دورہواہی تھا مگراس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے آپ سے بھی دورہوچکا ہے بلکہ خود سے نفرت کرنے لگا ہے۔ مادی مال و دولت اور مادہ پرستی کی اندھی محبت نے تمام اقدارحیات کو پامال کر کے رکھ دیا ہے۔ تمام رشتوں کا تقدس ہوائے نفس کی نذرہوچکا ہے۔ غرض یہ کہ یہ ساراشاخسانہ ہے مادی تہذیب کا۔ بقول اقبال ؎

ہوس نے کردیاہے ٹکڑےٹکڑے نوع انساں کو

اخوت کا بیاں ہوجامحبت کی زباں ہوجا

اس ماحول میں بھی ہر طرف محافل قرأت ونعت، محافل میلاد، عرس بزرگان دین، محافل گیارہویں شریف نہ صرف پاک و ہند میں بلکہ پوری دنیا میں بلا امتیاز رنگ و نسل اپنی خوشبو پھیلارہی ہیں۔ اسلامی تہذیب و ثقافت اور تمدن کا شکوہ پوری آن بان کے ساتھ جھلکتا دکھائی دیتاہے۔بلاشبہ مسلم روحانی ثقافت کا احیا اور دفاع کرنا اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کا ایک ایسا تاریخی اور انقلابی کارنامہ ہے کہ ہند کی پوری تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔

امام احمدرضا نے اس دور میں اقداردین کو ثابت رکھنےمیں کردار ادا کیا جب جدید مغربی تہذیب کی فسوں کاریوں اور فرقِ مبتدعہ کی مخترعات سے قصر دین کی بنیادوں کو کمزور کر رہا تھا۔ امتِ مسلمہ کا رشتہ اس کے کعبۂ ایمان حضور پُرنورسیدالانس والجان سے اور اسلافِ امت سے توڑنے کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی تھیں علامہ علاؤالدین صدیقی سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کے بقول:

‘‘جب دین کی قدروں کونیچے گرایاجارہاتھا۔ اس وقت مولاناشاہ احمدرضا خاں قادری آگے بڑھےاور انہوں نے دین کی قدروں کو صحیح مقام پر ثبات بخشا’’۔(انواررضا،ص:۶۵۵بحوالہ مقالاتِ یوم رضا،ص:۷۰مطبوعہ دائرۃ المصنفین لاہور)

امام احمد رضا نے قلم و قرطاس کے ذریعےاسلامی ثقافت کا دفاع ہی نہیں کیا بلکہ اس کے فروغ میں تمام تر جوش ایمان، غیرت دینی اور ملی حمیت کے سرفروشانہ جذبوں کے ساتھ اہم کردار ادا کیا۔ آپ کی بلند پایہ علمی تصانیف بالخصوص عظیم فقہی شاہکارفتاویٰ رضویہ نے نہ صرف مسلم فکرو فلسفہ اور عقائد اسلامیہ کے دفاع میں اہم کرداراداکیاہے بلکہ اصلاح احوال، تعمیر سیرت اور پختگی عمل میں بھی راہنمائی کا فریضہ ادا کیا ہے۔ دلوں میں خوفِ خدا اور عشقِ رسولﷺ کی روشنی آپ کی تصانیف کی اہم خصوصیت ہے۔ آپ کے علم و فکر کا یہ ایک ایسا پہلو اور وصف ہے، جس کو اپنے اور پرائے سب تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ مودودی کے معتمدخاص، سابق جسٹس ملک غلامی مسلکی و اعتقادی، فکری و نظریاتی ہر اعتبار سے اختلاف رکھنے کے باوجود فکرِ رضا کے اس خصوصی وصف کااعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں:

‘‘حقیقت یہ ہے کہ مولانااحمدرضا خاں صاحب کے بارے میں اب تک ہم لوگ سخت غلط فہمی میں مبتلارہے ہیں ان کی بعض تصانیف اور فتاویٰ کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جو علمی گہرائی میں نے ان کے یہاں پائی وہ بہت کم علماء میں پائی جاتی ہے۔ اور عشق خدا اور رسولﷺ توان کی سطر سطر سے پھوٹا پڑتا ہے’’۔(انواررضا، ص:۶۵۶، بحوالہ ارمغانِ حرم، ص:۱۴،مطبوعہ لکھنؤ)

علامہ عبدالحمید شیخ الجامعہ، الجامعتہ انتظامیہ، حیدرآباد دکن، بھارت، اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے اس وصف حیات کا تذکرہ کرتےہوئےیوں گویا ہوتے ہیں:

‘‘مولانااحمد رضاخاں صاحب سیف الاسلام اور مجاہداعظم گزرے ہیں۔ اہل السنتہ و الجماعتہ کے مسلک و عقائد کی حفاظت کا ایک مضبوط قلعہ تھے۔ آپ کا مسلمانوں پر احسان عظیم ہے کہ ان کے دلوں میں عظمت و احترام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیائے امت کے ساتھ وابستگی برقرارہے۔ خودمخالفین پربھی اس کا اچھا اثرپڑااورا ن کا گستاخانہ لب ولہجہ ایک حد تک درست ہوا’’۔

(امام احمد رضا ارباب علم ودانش کی نظر میں، مطبوعہ الٰہ آباد،۱۹۷۷؁ء ص:۱۴۵)

پروفیسر عبدالشکور شاہ، کابل یونیورسٹی، کابل، افغانستان، کا بیان بھی ملاحظہ ہو:

‘‘علامہ موصوف کی تحقیقی کاوشیں اس قابل ہیں کہ ہندوستان و پاکستان کی تاریخ ثقافت اسلامی میں بالتفصیل ثبت ہوں اور تاریخ علم و ہنگِ افاغنہ و آریانہ دائرۃ المعارف کو لازم ہے کہ ان کے اسم گرامی کو ساری مؤلفات کے ساتھ اپنے اداروں میں محفوظ کریں’’۔

(ماتِ یوم رضا، ص:۳۳،بحوالہ حیات مولانااحمدرضاخاں، از پروفیسرڈاکٹرمسعوداحمد، ص:۱۷)

مولاناکوثرنیازی کی ایک روایت بھی نظروں میں رہنی چاہیے۔ وہ اپنے استاد مولانا ادریس کاندھلوی کا قول یوں بیان کرتے ہیں:

‘‘میں نے صحیح بخاری کا درس مشہور دیوبندی عالم شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدادریس کاندھلوی سےلیاہے۔ کبھی کبھی اعلیٰ حضرت کاذکر آجات تو مولاناکاندھلوی فرمایاکرتے تھے۔‘‘مولوی صاحب!(یہ مولوی صاحب اُن کا تکیہ کلام تھا)مولانااحمدرضاخاں کی بخشش تو انہی فتووں کے باعث ہوجائےگی’’اللہ تعالیٰ فرمائے گا احمدرضاخاں تمہیں ہمارے رسول سے اتنی محبت تھی کہ اتنے بڑےبڑے عالموں کو بھی تم نے معاف نہیں کیا۔ تم نے سمجھا کہ انہوں نے توہین رسول کی ہے۔ تو ان پر بھی کفر کا فتویٰ لگادیا۔ جاؤ اسی ایک عمل پہ ہم نے تمہاری بخشش کردی’’۔(امام احمدرضاخاں ایک ہمہ جہت شخصیت، ص:۷)

غرض یہ کہ وہ تمام اسلامی معاشرتی رسومات جواسلامی ثقافت کی شناخت اور اس کی علمبردار ہیں۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تعلیمات میں نصوص شرعیہ سے جہاں اُن کا جوازثابت کیا وہاں اُن تمام دینی و اسلامی رسومات میں پیداہوجائےوالی خرابیوں کی اصلاح بھی کی، اور یوں مسلم ثقافت کا چہرہ نمایاں کیا۔ شیخ محمداکرام جو عقائد کے اعتبار سے وہابی اورنظریاتی طور پر اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ سے سخت مخالفت رکھتے تھے اپنی کتاب میں یوں رقمطراز ہیں:

‘‘مولوی احمدرضا خاں نام:(انہوں) نے کوئی پچاس کے قریب کتابیں مختلف نزاعی اور علمی مباحث پر لکھیں اور نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی۔ وہ تمام رسوم فاتحہ خوانی، چہلم، برسی، عرس، تصور شیخ، قیام میلاد، استمدادازاہل اللہ(مثلاً شیخ عبدالقادرجیلانی شیئاًللہ سے)اور گیارھویں کی نیاز وغیرہ کے قائل ہیں۔ (موج کوثر، ص:۷۰۔ادارۂ ثقافت اسلامیہ لاہور۔مکب روڈ)

سماجی و معاشرتی اثرات

کنزالایمان شریف نے صرف مذہبی و اعتقادی زندگی کو ہی متاثرنہیں کیا۔ بلکہ اس نے عامتہ الناس کی سماجی و معاشرتی زندگی پر بھی اپنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں مثلاً یہ کہ:

[۱]شادی بیاہ کے موقع پر دلہن کو جہاں جہیز میں عمدہ اور قیمتی سامان دیاجاتا ہے، وہاں ہمارے

معاشرے میں بچی کو قرآن مجید کا تحفہ دے کر گھرسے روانہ کرنے کا قابل قدر اور مستحسن طریقہ بھی پایاجاتا ہے۔ راقم کا یہ مشاہدہ بھی ہے اور تجربہ بھی کہ اس موقع پر بالعموم جو مصحف شریف دلہن کو اس کے گھر والوں کی طرف سے دیاجاتا ہے وہ ترجمۂ کنزالایمان شریف ہی ہوتاہے۔

[۲]کنزالایمان فی ترجمتہ القرآن کا یہ خصوصی فیض ہے کہ جوں جوں لوگوں میں قرآنی تعلیمات کا شوق بڑھ رہا ہے توں توں اُن کے اندر عشق و محبت رسولﷺ کے جذبات بھی فروغ پارہے ہیں۔ اور ان کا اظہاریوں ہوتاہے کہ پہلے بالخصوص شادی کی تقریبات پر ناچ گانے اور رنگ و سرور کی محفلیں سجائی جاتی تھیں۔ اور حد سے بڑھ جانے والے شراب میں مست ہو کر داد عیش دیتے تھے مگر اب الحمدللہ رنگ ثقافت بھی بدل رہا ہے اورطرز معاشرت بھی تبدیل ہورہاہے اور روز بروز خوشی و مسرت کے ان لمحات میں محافلِ قرأت و نعت، محافل میلاد کی صورت میں ذکر الٰہی اور عشق و محبت رسولﷺ کے روح پر نغمے الاپے جاتے ہیں۔ دلوں کو ذکر خدااور رسول سے تسکین پہنچانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس لیے اگر یہ کہاجائےکہ اس سماجی و معاشرتی انقلاب اور ذہنی سوچ میں تبدیلی کا سہرا سراسر صاحب کنزالایمان اور کنزالایمان فی ترجمتہ القرآن کے سر ہے تو یہ خلاف حقیقت نہ ہوگا۔

[۳]اس وقت مارکیٹ میں متعدد تراجم قرآنی شائع بھی کیے جارہے ہیں اور وہ کثرت سے فروخت بھی ہو رہے ہیں لیکن جس قدر اشاعتی ادارے اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ احمدرضاخاں قادری کاکنزالایمان فی ترجمتہ القرآن چھاپتے ہیں کوئی دوسراترجمہ اتنی کثیر تعداد میں شائع نہیں ہوتا۔ راقم نے حضرت حکیم اہل سنت حکیم محمد موسیٰ امرتسری علیہ الرحمتہ یا علامہ اقبال احمد فاروق دونوں میں سے کسی ایک بزرگ سے سناتھا کہ شروع شروع میں تاج کمپنی والوں نے اپنے مخصوص نظریات کی وجہ سے کنزالایمان شریف کوچھاپنے پر تیار نہ تھے۔ انہیں بہت سے لوگوں نے اس طرف متوجہ کیا لیکن وہ آمادہ نہ ہوئے مگراہل علم کے اصرار پر جب انہوں نے اس مبارک اور سوادِ اعظم کے مقبول ترین ترجمۂ قرآن کو پہلی مرتبہ چھاپا تو اُن کی حیرت کی انتہانہ رہی کہ پہلے ایڈیشن کی نکاسی اتنی سرعت کے ساتھ ہوئی کہ لوگوں کی مانگ پوری کرنا مشکل ہوگئی۔ چنانچہ اس سے حوصلہ پاکر تاج کمپنی کے مطبوعہ دیگر تراجم پر سبقت لے گیا۔ اور آج تک اس کا یہ اعزازبرقرارہے۔

یہ تو تاج کمپنی کا معاملہ تھا یہی نہیں بلکہ قرآن مجید کی طباعت و اشاعت کرنے والی جتنی کمپنیاں ہیں، ان سب کا اگرجائزہ لیاجائے تو سب کی صورت حال یہی ہوگی کہ اشاعت و ترسیل کے اعتبارسے کنزالایمان شریف باقی تمام تراجم سے فائق ہوگا۔ کثرت اشاعت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس کی مانگ بھی سب سے زیادہ ہے جب یہ ایک حقیقت ہے تو اس امر سے بھی انکار نہیں کہ سب سے زیادہ یہی پڑھاجانے والا ترجمہ ہے۔ چنانچہ یہ سب کنزالایمان کے سماجی و معاشرتی اثرات ہیں کہ اس نے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں سے لے کر ایک عام شخص تک کو اپنی فکر سے متاثر کیا ہے اور یوں دینی و روحانی ذہن سازی میں اہم کرداراداکیا ہے۔ اور ان شاء اللہ صبح قیامت تک اس کا یہ فیض جاری رہے گا۔

سیاسی اثرات

کنزالایمان شریف کے سیاسی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت کے موقع پرصاحب کنزالایمان مولانااحمدرضا خان علیہ الرحمتہ نے ان دونوں تحریکوں سے عملی طور پر علیحدہ ہوکر جس قومی و ملی حمیت کا ثبوت دیا وہ آپ کی مومنانہ فراست، بیدارمغزی، دوراندیشی اور تدبرکا بین ثبوت ہے۔ آپ نے اپنی دانش نورانی سے خلافتی لیڈروں کو مشرکین ہند(ہندوؤں) کی سفاکی اور ان کے مظالم سے (اس وقت جب کہ ان دونوں کی مسلمان قیادت نے تاریخی حقائق کو پس پش ڈالتے ہوئے مشرکین ہندسے مودت و محبت اور اتحاد کی پینگیں بڑھانا شروع کیں اور ہر اس راہنما کو ملت دشمن، مخالفین اور انگریزوں کا ایجنٹ قراردیا جس کسی نے بھی تحریک خلافت اور ترک موالات کی مخالفت کی۔ مگر افسوس کہ ہندوؤں سے اتحادو محبت کے جوش میں ہوش و حواس کھو بیٹھنےوالے جذباتی لیڈروں نے اس مرد خداکی ایک نہ سنی حالانکہ آپ نے تاریخی پس منظر کے طور پر درج ذیل حقائق کو انتہائی دلسوزی اور دردمندی کے ساتھ آگاہ کرتے ہوئے فرمایاتھا کہ:

‘‘کیاوہ ہم سے دین پر نہ لڑے؟ کیا قربانی گاؤ پر ان کے سخت ظالمانہ فساد پرانے پڑگئے؟ کیا کٹارپوروآرہ اور کہاں کہاں کے ناپاک و ہولناک مظالم جو ابھی تازہ ہیں دلوں سے محو ہوگئے؟ بے گناہ مسلمان نہایت سختی سے ذبح کیے گئے، مٹی کا تیل ڈال کر جلائے گئے، ناپاکوں نے پاک مسجدیں ڈھائیں، قرآن کریم کے پاک اوراق پھاڑے ،جلائے اور ایسی ہی وہ باتیں جن کا نام لیتے کلیجہ منہ کو آتاہے’’۔

مسٹرگاندھی جس کو خلافتی لیڈراپنا رہبرو پیشوا تسلیم کرچکے تھے، وہ اسلام اور مسلمانوں کا بدترین دشمن تھا۔اس کے عزائم سے خلافتی لیڈروں کو آگاہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

‘‘وہ جو آج تمام ہندوؤں اور نہ صرف ہندوؤں، تم سب ہندوپرستوں کاامام ظاہر و بادشاہ باطن ہے یعنی گاندھی صاف کہہ چکا کہ مسلمان اگر قربانی گاؤ نہ چھوڑیں گے تو ہم تلوار کے زور سے چھڑادیں گے۔ اب بھی کوئی شک رہا کہ تمام مشرکین ہنددین میں ہم سے محارب ہیں’’۔

قرآن مجید نے اہل ایمان کو یہود و نصاری اور کفارومشرکین سے دوستی کرنے اوران کو اپنا ہم

رازبنانے سے منع فرمایاہے جب خلافتی لیڈروں نے اسلام سے کھلم کھلا بغاوت کرتے ہوئے مشرک اعظم گاندھی کو اپنارہبروپیشوابنا لیا، یہاں تک کہ اس کو مسجد میں لاک منبر رسول پر بٹھایاگیا۔ بلکہ یہ تک کہاگیاکہ:

‘‘نبوت ختم نہ ہوتی تو گاندھی نبی ہوتے’’

(اخباراتفاق، دہلی، ۲۷/اکتوبر۱۹۲۰ء بحوالہ المحجتہ المؤتمنتہ حاشیہ ص:۱۸۴،حاشیہ،۵،از مولاناحشمت علی)

امام اہل حق نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘انہیں راز دارودخیل کاربناناحرام قطعی تھا۔ یہ اس سے بھی بدرجہا بڑھ کر ان کے ہاتھ بک گئے۔ انہیں اپنا امام و پیشوبنالیا۔ ان کو اپناراہنما بنالیا ہے۔ جو وہ کہتے ہیں وہی مانتےہیں ان کا حال تو سردست اس شعرکے موافق ہے ؎

عمرے کہ بآیات و احادیث گزشت

رفتی و نثار بت پرستی کردی

اللہ یونہی چھاپ لگادیتا ہے ہرمغرورستمگرکے دل پر’’۔(المحجتہ المؤتمنتہ،ص:۱۸۴)

یہ دو قومی نظریہ کا دینی و قرآنی تصور ہے جس کو امام المحققین، سیدالمفسرین اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ نے قرآن مجید کی صرف ایک آیت کریمہ کی تشریح و تفسیر بیان کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔

فکررضاکااثر

راست فکری پر مشتمل امام احمد رضا خاں کے ان افکار ونظریات کے سائے میں پروان چڑھنے والوں نےکنزالایمان سے مستنیرفکراسلامی سے اپنے دامن علم و عمل کو بھرتے ہوئے اور صاحب کنزالایمان کے فیض صحبت سے حمیتِ ملّی اور غیرت دینی کا جو درس لیا تھا اس کا پرچم تھامے ہوئے وہ آل انڈیاسنی کانفرنس کے نام سے میدان عمل میں اترے اور قائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کا سبزجھنڈا اٹھائےہندو اورانگریز دونوں کی غلامی کا انکار کرتے ہوئے آزاد مسلم ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں توچشم فلک نے دیکھا ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو جس اسلامی ریاست کامطالبہ کیاجاتا ہے صرف ساڑھے چھ سال کے مختصر عرصے میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت ایک آزاد و مختار ریاست کی حیثیت سے عالمی نقشہ پر ابھرکرسامنے آتی ہے، یوں اقبال کا یہ خواب عملی تعبیر کی صورت میں دنیائے انسانی کے سامنے آتا ہے ؎

شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے

یہ چمن معمورہوگا نغمۂ توحید سے

(بانگِ درا۔کلیات اقبال اردو،ص:۲۲۲)

مشہور کالم نگار اور صحافی میاں عبدالرشید مرحوم قیام پاکستان میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ اور آپ کے متبعین کی خدمات اور کردار کاذکر کرتےہوئے لکھتےہیں:

“When Pakistan Resolution was passed in 1940. The efforts of Hazrat Barelvi bore fruit and all his adherents and spiritual leaders rose as and man tl support Pakistan movement. Thus the contribution of Hazrat Barelvi towards Pakistan is not less than that of Allama Iqbal and Quaid-e-Azam”.

[Mian Abdul Rasheed: Islam in Indo Pak sub-continent, Lahore 1977]

ترجمہ مفہومی

‘‘۱۹۴۰؁ء میں جب قرارداد پاکستان پاس ہوئی تو حضرت بریلوی کی ساعی بارآور ہوئی۔ آپ کے متبیعین جن میں علماء صوفیا سب ہی شامل تھے۔ تحریک پاکستان کی حمایت کے لیے فرد واحد کی طرح اٹھ کھڑے ہوئے۔ بلاشبہ پاکستا ن کے لیے حضرت بریلوی کی خدمات قائداعظم اور علامہ اقبال سے کسی طرح کم نہیں’’۔ (برصغیر پاک و ہند میں اسلام، مطبوعہ لاہور، ص:۶۷، میاں عبدالرشید)۔

یہی مصنف اپنی دوسری کتاب میں لکھتےہیں:

‘‘یہ صحیح ہے کہ مغربی تعلیم یافتہ لوگوں نے جن میں کالجوں کے نوجوان طلبہ پیش پیش تھے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ لیکن حضرت امام احمد رضاخاں بریلوی کے ہم مسلک حضرات کے تعاون نے بھی اس تحریک کو بڑی تقویت بخشی اور تحریک کے سفر کامرانی کوآسان بنادیا۔ علمائے دیوبند کی اکثریت، بعض علمائے اہل حدیث اور اسی طرح علمائے ندوہ کی ایک شاخ تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی’’۔

(پاکستان کا پس منظر اور پیش منظراز میاں عبدالرشید،ص:۱۱۷ مطبوعہ لاہور۱۰۸۲ء)

حاصل کلام

نتیجۂ بحث یہ کہ اعلیٰ حضرت مولاناشاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ نے براہ راست قرآن و سنت کے انوار سے فیض پاکر فکرصحیح اور فہم سلیم تک رسائی حاصل کی اور پھر پوری تندہی سے بلاخوف لومتہ لائم اللہ تعالیٰ جل و علا اور حضور ختمی مرتبتﷺ کے منکروں، دین اسلام اور عقائد حقہ کے مخالفوں اور ملتِ اسلامیہ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کیا وہ آپ ہی کا مقدر اور آپ ہی کا نصیب تھا۔آپ نے فدایان رسولﷺ کا لشکر تیار کیا کہ جس کی سوچ فکر اور عقیدہ ہی یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ اور رسول کائناتﷺ کی عزت و حرمت پر جان قربان کردینا ہی روح ایمان اور اصل زندگی ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوبﷺ کا دشمن ہے وہ خواہ کوئی بھی ہو باپ ہو، بیٹاہو، لیڈر ی کا دعویدار ہو، دنیا کا رئیس و سرمایہ دار ہو۔ اس سے ہماراکوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ اللہ و رسولﷺ کو چھوڑ کر کفرکی منزل کا راہی بن گیا ہے جب کہ اہل ایمان کی منزل تو مکتہ المکرّمتہ اور مدینتہ المنورۃ ہے۔ پاکستا نے سابق مرکزی وزیر تعلیم خاں محمدعلی خاں ہوتی نے مندرجہ بالا حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:

‘‘فاضل بریلوی جنہوں نے مسلمانوں کی فکری آبیاری کے لیے ایک ہزار کے لگ بھگ کتب ہر موضوع پر تحریر فرمائی ہیں، مسلمانوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ کفر کی سب قسموں سے الگ رہنا چاہیے، اگرانگریز سے ترک موالات ضروری ہے تو ہندوسے بھی ترک موالات لازمی ہے، نہ ہندو مسلمان کا ساتھی بن سکتاہے اور نہ ہی غمخوار’’۔ (گناہ بے گناہی از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد علیہ الرحمتہ، ص، ۷۴مطبوعہ حیدرآباد، سندھ ۱۹۸۸)۔

یہ مختصر مضمون کنزالایمان فی ترجمتہ القرآن’’ کے گذشتہ اور رواں صدی پر مرتب ہونے والے چند پہلوؤں پر مشتمل اثرات کو بیان کرتا ہے۔ اگر زندگی کے مختلف اور بڑے بڑے پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر اس موضوع پر کام کیا جائے تو اس کے لیے ایک ضخیم دفتر درکار ہے۔ اور ایک ٹیم کامتقاضی ہے جو اس فریضے کو سرانجام دے سکے۔

اہم نکات

کنزالایمان کے فکری اثرات کے موضوع پر لکھے گئے زیرنظر مضمون کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

[1]کنزالایمان فی ترجمتہ القرآن میں امام اہلسنت مولاناشاہ احمد رضاخاں بریلوی رحمتہ اللہ علیہ نے تقدیس الوہیت، آداب بارگاہ نبوت و رسالت اور تعظیم اولیا کا کامل طورپر پاس ادب وفرق مراتب کو ملحوظ رکھا ہے۔

[2]ترجمہ کرتے وقت اسلافِ امت کے فکروفلسفہ اور عقائدو نظریات کو مدنظر رکھا گیا ہے اور ترجمے میں اہل حق سے کہیں بھی اعتزال کی راہ کو نہیں اپنا یا گیا۔

[3]ترجمہ اس انداز میں کیا گیا ہے کہ قرآن کا طالب علم ایک حد تک لمبی لمبی تفاسیر سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔

[4]ترجمۂ کنزالایمان کو پڑھتے ہوئے قاری کے دل میں محبت و اطاعت الٰہی اور عشق ومحبت رسولﷺ کے جذبات والہانہ طور پر پیداہوناشروع ہوجاتے ہیں جو قاری قرآن کو عمل کی طرف، سنت نبوی کی اتباع کی طرف ابھارتے ہیں۔

مآخذ و مراجع

تراجم قرآن

[1]ابوالکلام آزاد، مولوی (۱۳۷۸ھ/۱۹۵۸ء) ترجمان القرآن۔

[2]احمد رضا خاں، مولاناشاہ(۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء)کنزالایمان فی ترجمتہ القرآن۔

[3]اشرف علی تھانوی، مولوی(۱۳۶۲ھ/۱۹۴۳ء)(ترجمہ وتفسیر بیان القرآن)

[4]محمدجوناگڑھی، مولوی(قرآن کریم مع اردو ترجمہ و تفسیر)

[5]حسین علی واں بھچراں، مولوی(۱۳۶۳ھ/۱۹۴۳ء)(بلغتہ الحیران فی ربط آیات القرآن)

[6]حامد حسین بلگرامی، ڈاکٹر سید(فیوض القرآن)

[7]رفیع الدین دہلوی، مولاناشاہ(۱۲۳۳ھ/۱۸۱۷ء)

[8]شبیر احمد عثمانی، مولوی(۱۳۶۹ھ/۱۹۵۰ء)

[9]محمد طاہر القادری، پروفیسرڈاکٹر(حیات عرفان القرآن)

[10]عبدالقادر دہلوی، مولانا شاہ(۱۲۴۲ھ/۱۸۲۸ء)(موضح القرآن مع ترجمۂ قرآن)

[11]عبدالماجد دریا آبادی، مولوی(القرآن الحکیم مع ترجمہ و تفسیر)

[12]فتح محمد جالندھری، مولوی(فتح الحمید)

[13]فیروزالدین روحی، پروفیسر مولوی(تفسیر القران مع ترجمہ)

[14]محمودالحسن دیوبندی، مولوی(۱۳۳۸ھ/۱۹۱۹ء)(قرآن شریف مترجم)

[15]مودودی، سید ابوالاعلیٰ (م۱۳۹۹ھ/۱۹۷۹ء)(تفہیم القرآن)

[16]نذیر احمد دہلوی، ڈپٹی مولوی(م۱۳۳۱ھ/۱۹۱۲ء)(غرائب القرآن)

[17]وجیہ السیما عرفانی، سیّد(عرفان القرآن)

کتب ورسائل

[18]احمدرضا خاں، امام المجحتہ المؤتمنہ فی آیتہ الممتحنتہ، مکتبۂ حامدیہ، گنج بخش روڈ، لاہور، ۱۹۷۶ء۔۱۳۹۶ھ۔

[19]محمداکرام شیخ، موج کوثر، ادارۂ ثقافت اسلامیہ،2کلب روڈ، لاہور، مئی۲۰۰۰ء۔

[20]لال الدین قادری، ابوالکلام آزادؔ کی تاریخی شکست، مکتبۂ رضویہ۲/۲۴سوڈایوال

کالونی، ملتان روڈ، لاہور، رجب ۱۴۰۰ھ مئی ۱۹۸۰ء۔

[21]طاہر القادری، پروفیسرڈاکٹر،کنزالایمان کی فنی حیثیت، منہاج القرآن پبلی کیشنز۳۶۵ ایم بلاک، ماڈل ٹاؤن، لاہور،اپریل۱۹۷۔

[22]عبدالحکیم شرف قادری، علامہ، امام احمد رضا محدث بریلوی پر دنیا بھرمیں نئی نئی تحقیقات، رضااکیڈمی رجسٹرڈ لاہور، ربیع الثانی ۱۴۲۲ھ/۲۰۰۱ء طبع اوّل۔

[23]عبدالحکیم شرف قادری، علامہ ، تذکرۂ اکابراہل سنت، مکتبہ قادریہ۔

[24]صالحہ عبدالحکیم شرف الدین، ڈاکٹر، قرآن حکیم کے اردو تراجم، قدیمی کتب خانہ، مقابل آرام باغ، کراچی۔

[25]عبدالرشید، میاں، پاکستان کا پس منظر اورپیش منظر، ادارۂ تحقیقات پاکستان دانش گاہ پنجاب لاہور، جون ۱۹۸۲ء۔

[26]Pak sub-continent Indo ABDUL RASHID: Islam in Lahore, 1977.

[27]کوثرنیازی، مولانا، امام احمدرضا خاں بریلوی، ایک ہمہ جہت شخصیت، ادارۂ معارف نعمانیہ، لاہور، ربیع الثانی ۱۴۱۱ھ/نومبر۱۹۹۰ء۔

[28]محمد مسعود احمد، پروفیسر ڈاکٹر، حیات مولانااحمد رضاخان بریلوی، اسلامی کتب خانہ ، اقبال روڈ سیالکوٹ۱۴۰۲ھ/۱۹۸۱ء۔

[29]محمدمسعود احمد، پروفیسرڈاکٹر، فاضل بریلوی اور ترک موالات، مرکزی مجلس رضا، لاہور، بار پنجم رمضان المبارک ۱۳۹۷ھ/اگست۱۹۷۷ء۔

[30]محمدمسعود احمد، پروفیسر ڈاکٹر، گناہ بے گناہی، جماعت اہل سنت، ضلع حیدرآباد، سندھ، ۱۹۸۸ء۔

[31]غلام جابر شمس المصباحی، ڈاکٹر، کلیّات مکاتیب رضا، مکتبۂ بحرالعلوم، مکبتۂ نبویہ گنج بخش روڈ، لاہور،۱۴۲۶ھ/۲۰۰۵ء۔

[32]عبداللطیف، الحاج شیخ، انواررضا، شرکتِ حنفیہ لمیٹڈ، گنج بخش روڈ، لاہور،۱۳۹۷ھ۔

[33]محبوب الرسول قادری ملک، انواررضا، انٹرنیشنل غوثیہ فورم، جوہرآباد، ضلع خوشاب، ۲۰۰۳ء(مجموعۂ مقالات)

[34]محموداحمدقادری، مولاناپیر، مکتوبات امام احمدرضاخاں بریلوی رحمتہ اللہ علیہ، مکتبۂ نبویہ گنج بخش روڈ، لاہور، جنوری۱۹۸۶ء۔

[35]محمدیٰسین اخترمصباحی، مولاناامام احمد رضا اہل دانش کی نظر میں، الہ آباد، بھارت، ۱۳۹۷ھ/۱۹۷۷ء۔

[36]محمداقبال علامہ کلیات اقبال اردو، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۵ء۔

[37]مقبول احمد قادری، حاجی، پیغاماتِ یوم رضا، مرکزی مجلس رضا، لاہور، ۱۹۷۶ء۔

[38]عبدالنبی کوکب، قاضی، مقالات یوم رضا، لاہور،۷۱۔۱۹۶۸ء۔

[39]اخترراہی، تذکرۂ علمائے پنجاب، مکتبۂ رحمانیہ اردو بازار،لاہور،۱۴۰۰ھ/۱۹۸۱ء۔

[40]خورشید احمد،پروفیسر، سیّارہ ڈائجسٹ، قرآن نمبرجلد:۲محمداقبال طاہر۱۸۹۔ریواڑ گارڈن، لاہور، تیسراایڈیشن جنوری۱۹۸۸ء۔


متعلقہ

تجویزوآراء