کڑوی روٹی
کڑوی روٹی
زندوں کی عبادت ( بدنی و مالی) کا ثواب دوسرے مسلمان کو بخشنا جائز ہے، جس کا ثبوت قرآن و حدیث اور اقوالِ فقہا سے ثابت ہے۔ اُن لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا قرآن و حدیث پر ایمان و عمل ہے اور پھر معتزلہ کی طرح ایصالِ ثواب کا انکار کرتے ہیں؛ انہیں اپنی سوچ پر نظرِ ثانی اور ان دلائل پر غور کرنا چاہیے۔ میں نے بڑی محنت ِشاقہ سے کتاب میں حوالہ جات نقل کر دیے ہیں؛ انہیں پڑھنا، ان پر غور کرنا اور پھر انصاف کرنا آپ کا کام ہے ۔ بقولِ انوار عزمی ؎
کوئی منصف ہو تو انصاف کا چہرہ دمکے
کوئی عادل ہو تو زنجیر ہلائی جائے
اگر آپ تعصب ، بغض ، حسد اور میں نہ مانوں کی عینک اتار کر آنے والے صفحات پڑھیں گے تو انشاء اللہ ضرور فائدہ ہوگا۔( راقم الحروف)
وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوٰنِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمٰنِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّکَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ﴿ سورۃ الحشر: ۱۰﴾
ترجمہ: اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ ، اے رب ہمارے بے شک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے۔ (کنز الایمان)
دنیا سے پردہ کرنے والوں کے حق میں زندوں کی دعا کا یہ کتنا واضح ثبوت ہے اور بھی کئی آیات ہیں مگر اختصار کے پیشِ نظر اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔
حدیثِ پاک میں آتا ہے:
اَلدَّعَآءُ مُخُّ الْعَبَادَۃِ۔
’’دعا عبادت کا مغز ہے۔“
ایک اور جگہ ہے:
اَلدَّعَآءُ ھُوَ الْعَبَادَۃِ۔
’’دعا عبادت ہے۔‘‘
ثابت ہوا زندوں کی عبادت دنیا سے جانے والوں کے لئے فائدہ مند ہے۔
حضرت امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:
وقد نقل غیر واحدالاجماع علی ان الدعاء ینفع المیت و دلیلہ من القرآن قولہ تعالٰی والذین جاءوا ( الی الآخر)
’’اور اس امر پر بہت سے علما نے اجماع نقل کیا ہے کہ بے شک دعا میّت کو نفع دیتی ہے۔‘‘
اور اس کی دلیل قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے ( مذکورہ آیتِ کریمہ والذین جاءوا)۔ ( شرح الصدور ، ص 127)
شرحِ عقائدِ نسفی میں ہے:
وفیدعاء الاحیاء للاموات او صدقتھم عنھم نفع لھم خلافا للمعتزلۃ۔
’’زندوں کی دعا اور صدقے سے مردوں کو نفع پہنچتا ہے۔ معتزلہ اس کے خلاف ہیں۔“
امّ المومنین حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من مات و علیہ صیام صام عنہ ولیہ۔ ( مسلم شریف)
‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر مرنے والے کے ذمّے روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے۔“
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں :
ایک عورت نے حضور سروَرِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی کہ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی مگر اس کا انتقال ہو گیا کیا میں اس کی طرف سے حج کرکے اس کی نذر پوری کر سکتی ہوں؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قَالَ حُجِّیْ عَنْہَا۔ ( بخاری)
’’تم اس کی طرف سے حج کرو ۔“
‘‘فتاوٰی عزیزی‘‘ میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:
آرے زیارت و تبرک بقبور صالحین و امداد ایشاں بایصال ثواب و تلاوت قرآن ودعائے خیر و تقسیم طعام و شرینی امر مستحسن و خوب است۔
‘‘ ہاں صالحین کی قبروں کی زیارت کرنا اور ان کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا اور ایصال ِثواب، تلاوتِ قرآن، دعائے خیر، تقسیمِ طعام و شیرینی سے ان کی مدد کرنا بہت ہی خوب اور بہتر ہے۔
اور اس پر علمائے امّت کا اجماع ہے’’
اور دیکھیے:
ما من رجل مسلم یموت فیقوم علی جنازتہ اربعون رجلالا تشرکون باللہ شیئا الا شفعھم اللہ فیہ۔( ابو داؤد)
’’اگر کسی مسلمان کی نمازِ جنازہ پر 40 آدمی ایسے کھڑے ہو جائیں جنہوں نے کبھی کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھرایا ہو تو ان کی شفاعت میّت کے حق میں اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔یعنی بخش دیتا ہے۔“
بخاری، مسلم اور مشکوٰۃ میں ہے:
’’دو قبر والوں پر عذاب ہو رہا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کی ایک تر شاخ منگوا کر آدھی ایک قبر پر اور آدھی دوسری قبر پر رکھ دی اور فرمایا جب تک یہ شاخیں ہری رہیں گی قبر والوں کے عذاب میں تخفیف رہے گی۔‘‘
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت سعد ابنِ معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد آپ نے تکبیر و تسبیح پڑھنی شروع کردی ۔
صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین نے تکبیر و تسبیح پڑھنے کی بابت پوچھا تو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قال لقد تضایق علٰی ھذا العبد الصالح قبرہ حتٰی فرجہ اللہ عنہ(مشکوۃ)
‘‘اس نیک آدمی پر قبر تنگ ہو گئی تھی یہاں تک کہ اب اللہ تعالیٰ نے اس کی قبر کو فراغ کر دیا ہے۔’’
فائدہ: معلوم ہوا کہ زندوں کی عبادت سے اہلِ قبور کو فائدہ پہنچتاہے اور دفن کے بعد قبر کے پاس تسبیح وغیرہ (کلامِ پاک) پڑھنا جائز ہے ۔ میت پر تین دن خاص کر سوگ کیا جاتا ہے ۔ بزرگوں نے فرمایا تین دن سوگ کیا ہے ۔ اب اٹھنے سے پہلے گھر کے چند افراد مل کر کچھ پڑھو کچھ صدقہ کرو اور اس کا ثواب میت کی روح کو پہنچا کراٹھو ۔ اس کا نام سوئم یا تیجہ ہو گیا ۔
ثبوت ملاحظہ فرمائیں:
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ‘‘ملفوظاتِ عزیزی’’، ص 55 میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے تیجے کے متعلق فرماتے ہیں:
’’روز سوئم کثرت ہجوم مردم آں قدر بود کہ بیرون از حساب است بہشتاد ویک کلام بشمار آمدہو زیادہ بہم شدہ باشدوکلمہ سا حضر نیست۔’’
ترجمہ: ‘‘تیسرے دن لوگوں کا ہجوم ا س قدر تھا کہ شمار سے باہر ہے، اکیاسی کلام اللہ ختم ہوئے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوئے ہوں گے اور کلمۂ طیّبہ کا تو اندازہ ہی نہیں۔’’
حضرت سعید بن منذر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں اگر استطاعت ہوتو تین دن میں قرآن ختم کرو۔(جامع صغیر)
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عرض پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن ہر مہینے ختم کرو ۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں تو آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین دن میں ختم کرو۔( بخاری، جلدِ اوّل)
حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جب حد زنا لگنے سے سنگسار کر دیا تو بعد از دفن جب دو دن یا تین گزر گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے جہاں صحابہ کرام بیٹھے تھے پس سلام کیا آپ نے اور بیٹھ گئے اور صحابہ کرام کو فرمایا کہ ماز بن مالک کی بخشش کی دعا کرو تو صحابہ کرام نے ماز بن مالک رضی اللہ عنہ کی مغفرت کی دعا مانگی۔(مسلم، جلدِ دوم)
بفضلہٖ تعالٰیاہلِ سنّت و جماعت کا یہی معمول ہے۔
ساتواں:
حضرت طاؤس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:
بے شک مردے سات دن تک اپنی قبروں میں آزمائے جاتے ہیں تو صحابۂ کرام سات روز تک ان کی جانب سے کھانا کھلانا مستحب سمجھتے تھے۔(شرح الصدور ابو نعیم فی الحلیۃ)
چناں چہ شیخ المحدثین حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی نے فرمایا:
‘‘وتصدق کردہ شود از میت بعد رفتن اواز عالم تا ہفت روز۔’’(اشعتہ اللمعات شرحِ مشکوٰۃ)
ترجمہ: ‘‘اور میت کے مرنے کے بعد سات روز تک صدقہ کرنا چاہیے۔’’
دسواں:
فرمایا دس دنوں میں قرآن ختم کرو۔(بخاری شریف، جلدِ اوّل)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ قرآن کتنے دنوں میں پڑھا جائے؟
فرمایا: دس دنوں میں۔ ( ابو داؤد مترجم جلدِ اوّل)
لہٰذا قرآن پڑھ کر میت کو بخشنے میں کوئی حرج نہیں!
چہلم:
دن مقرر ہونے کی وجہ سے احباب اکٹھے ہو کر میت کے لئے دعا و استغفار کرتے ہیں ۔ ایک حکم یہ بھی ہے کہ عام لوگوں کے لئے تین دن سوگ ہے، مگر عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ چالیس روز تک سوگ کرے ۔ ہر عورت کے رشتے دار اور اولاد وغیرہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں، آخری دن کچھ پڑھ کر فاتحہ دلا کر اٹھتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رض رضی اللہ تعالٰی عنہ سروَرِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
چالیسویں کا قرآن سے ثبوت:
وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰٓی اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ﴿۵۱﴾(سورۃ البقرۃ: ۵۱)
ترجمہ: اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ فرمایا۔ (کنز الایمان)
اِقْرَأِ الْقُرْآنَ فِیْٓ اَرْبَعِیْنَ۔( ترمذی شریف)
ترجمہ: ‘‘قرآنِ مجید چالیس دنوں میں پڑھا کرو’’
بزرگانِ دین فرماتے ہیں کہ میت کی روح کو چالیس دن تک اپنے گھر اور مقامات سےخاص تعلق رہتا ہے۔ جو بعد میں نہیں رہتا۔ چناں چہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مؤمن پر چالیس روز تک زمین کے وہ ٹکڑے جن پر وہ خدا تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کرتا تھا اور آسمان کے وہ دروازے جن سے کہ ان کے عمل چڑھتے تھے اور وہ کہ جن سے ان کی روزی اترتی تھی روتے رہتے ہیں۔(ثواب العبادات از خطیب پاکستان، بحوالہ شرح الصدور ، ص 24)
اسی لئے بزرگان دین نے چالیسویں روز بھی ایصالِ ثواب کیا کہ اب چوں کہ وہ خاص تعلق منقطع ہو جائے گا لہٰذا ہماری طرف سے روح کو کوئی ثواب پہنچ جائے تاکہ وہ خوش ہو جائیں اور ان سب کی اصل یہ ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سیّد الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لئے تیسرے، دسویں، چالسویں دن اور چھٹے مہینے اور سال کے بعد صدقہ دیا۔ ( کذا فی الانوار الساطعہ مغریا الی مجموعۃ الروایات حاشیہ خزانتہ الرویات)
چہلم کا ایک اور حوالہ:
وقیل الٰی اربعین فان المیت یشوق الٰی بیتہ۔
‘‘اور فرمایا صدقہ دینا چالیس دن پس میت شوق رکھتی ہے ان دنوں اپنے گھر کا۔ (شرح برزخ فیض الاسلام 5، ص 34، کتاب الوجیز، ص 64)’’
عرس/ برسی:
حضرت یحییٰ علیہ السلام کے لیے ارشاد باری تعالیٰ:
وَسَلٰمٌ عَلَیۡہِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا (مریم: ۱۵)
ترجمہ: ‘‘اور سلامتی ہے اس پر جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اورجس دن مردہ اٹھایا جائے گا۔“ (کنز الایمان)
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں:
وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوْمَ اَمُوۡتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا ﴿۳۳﴾
ترجمہ: ‘‘اور وہی سلامتی مجھ پر (ف۵۱)جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں۔’’(کنز الایمان)
تفسیر ابنِ جریر ( طبری) میں ہے:
حدیث بیان کی مثنٰی نے سوید سے کہا خبر دی ابنِ مبارک نے ابراہیم بن محمد سے انہوں نے سہیل بن ابی صالح نے انہوں نے محمد ابراہیم سے فرمایا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے جاتے شہدائے احد کی قبروں پر ہر سال، پھر فرماتے:
سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ۔
اور سیّدنا صدّیقِ اکبر اور فاروقِ اعظم اور حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنھم اجمعین بھی اپنے زمانے میں ہر سال قبورِ شہدا پر جایا کرتے تھے۔(تفسیر ابنِ جریر مطبوعۂ مصر، جلد 13)
اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے کہ آپ ہر سال شہدا کی قبور پر تشریف لے جاتے اور فرماتے:
سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ۔
اور اسی طرح چاروں خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین بھی اسی پر عمل پیرا رہے۔ (تفسیرِ کبیر مطبوعہ مصر، جلد 5)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ تشریف لے جاتے ہر شروع سال میں قبورِ شہداء پر، پس فرماتے :
سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ۔ (تفسیر کشاف مطبوعہ بیرون لبنان، جلدِ دوم)
تفسیرِ کشاف کے حوالے کے بعد تو مخالفین کے انکار کی گنجائش نہیں رہنی چاہیے۔
مخالفین کے ایک بڑے کا ایک حوالہ اور:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال شہدائے اُحُد کی قبروں پر تشریف لے جاتے پھر فرماتے:
سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ۔ (البدایۃ و النہایۃ مطبوعۂ مصر، جلدِ سوم)
سروَرِ کائنات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہر سال شہدائے اُحُد کی قبور پر تشریف لے جاتے پھر چاروں خلفا کا اپنے اپنے زمانے میں اس سنّت ِمصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم پر عمل پیرا رہنا عرائسِ بزرگانِ دین کے لیے اتنی زبردست دلیل ہے جس کا رد نا ممکن ہے۔ ( گیارھویں شریف ، صائم چشتی)
فاطمہ خزائیہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا اور آفتاب قبورِ شہدا پر غروب ہو چکا تھا اور میرے ساتھ میری بہن تھی۔ میں نے اس سے کہا آؤ قبرِ حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ پر سلام کریں۔ اس نے کہا ہاں پھر ہم ان کی قبر پر ٹھہرے ۔ ہم نے کہا :
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَمَّ رَسُوْلَ اللہ! ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )
ہم نے ایک کلام سنا کہ ہم پر رد کیا گیا ( یعنی لوٹایا گیا) وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ کہا کہ ہمارے قریب کوئی آدمی نہ تھا۔ ( اخرج البیہقی) (طی الفراسخ الٰی منازل البرازخ مطبوعہ آگرہ 1306 ھ ) (سیّد ذوالفقار احمد وہابی تلمیذِ صدّیق حسن بھو پالی) دیوبندی حضرات اور اہلِ حدیث حضرات مذکورہ حوالہ جات پر ضرور غور فرمائیں اور ہمارے ساتھ مل کر دنیا سے کوچ کر جانے والوں کے لئے ایصال ثواب کرکے ان کی مدد کریں۔
ایصالِ ثواب کے متعلق ضروری وضاحت:
ایصالِ ثواب کے عمل میں دکھاوا اور ریاکاری نہیں کرنی چھاہیے۔ اگر ایصالِ ثواب کا مقصد نمود و نمائش ہے تو اس کا ثواب حاصل نہ ہوگا ۔ اور ایسا دکھاوے کا عمل حرام اور گناہ ہے ۔ عام طور پر بہت سے لوگ قرض لے کر میّت کے لئے ایصا ل ثواب کرتے ہیں۔ اور عام لوگوں کو دعوتیں دیتے ہیں ۔ شریعت میں ایسی دعوتوں کی اجازت نہیں ۔ میت کے ایصالِ ثواب کے لئے جو کھانا ہے وہ حسبِ استطاعت ہو اور اسے مستحق اور غریب لوگوں کو کھلایا جائے۔ ( صاحبان حیثیت حضرات کو اس کھانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔) اسی طرح بعض گھروں میں ایصال ِ ثواب کے موقع پر دس بیبیوں کی کہانی، شہزادے کا سر، داستانِ عجیب اور جنابِ سیّدہ کی کہانی وغیرہ پڑھی جاتی ہیں۔ جن کی کوئی اصل نہیں اسی طرح ایک پمفلٹ: ‘‘وصیّت نامہ’’ جس میں شیخ احمد کا خواب درج ہے۔ اسے بھی علمائے کرام نے خود ساختہ قرار دیا ہے۔ ان چیزوں سے بچیں۔
مزید تفصیل کے لئے اسلامی اسکالر جناب ڈاکٹر نور احمد شاہتاز صاحب کی کتاب ’’کڑوی روٹی‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔
نوٹ: بزرگانِ دین کی فاتحہ وغیرہ کا کھانا اور چیزہے یہ تبرک ہے اور اسے امیر لوگ بھی کھا سکتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:
واگر فاتحہ بنام بزرگے دادہ شود اغنیا را ہم خور دن جائز است۔ (زبدۃ النصائح،ص 132)
’’اور اگر کسی بزرگ کی فاتحہ دی جائے تو مال داروں کو بھی کھانا جائز ہے۔“