درد کی کسک

میں تمہارے والدین کے ساتھ نہیں رہ سکتی رمیز ! انہیں کسی کئیر ہاؤس میں داخل کرا دو ان کی کھانسی اور کل کل نے میری زندگی اجیرن کر دی ہے نہ رات بھر میں سو پاتی ہوں اور نہ ہی حماد ،میں تمہاری بیوی ہوں تمہارے بوڑھے ماں باپ کی خادمہ نہیں ۔ذکیہ کی زبان قینچی کی طرح چل رہی تھی ۔ اوررمیز! اب وہ دور نہیں رہا اب کئیر ہاؤس میں ان کی کئیر گھر سے بہتر ہو سکتی ہے وہاں یہ اپنی مرضی سے کھا سکتے ہیں پی سکتے ہیں ان کی زندگی وہاں زیادہ بہتر رہے گی ان کی صحت اور دیگر معاملات بھی بہت اچھے ہو جائیں گے ۔ذکیہ نے برین واشنگ کی ۔ گھر کا ماحول کچھ دنوں سے سخت کشیدہ تھا پاپا اور مما دونوں ہی گھر کی اس کشیدہ صورتِ حال پر کڑھ رہے تھے۔ بیٹا ! مما نے مجھ آواز دی جی مما ! میں نے جواب دیا بیٹا ! ہمیں کئیر ہاؤس لے جاؤ تم کب تک اس کشمکش میں رہو گے ،ماں سے بیٹے کی کشمکش دیکھی نہیں جا رہی تھی پاپا سر جھکائے کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے جیسے وہ مما کے فیصلے سے متفق ہوں ۔ اچھا مما! ابھی تو مجھے دفتر سے دیر ہو رہی ہے واپسی پردیکھیں گے ۔ دونوں بوڑھے والدین اپنی بہو کو سمجھ چکے تھے وہ انہیں کسی قیمت پر نہیں رکھے گی اور وہ والدین تھے اپنے بیٹے کو کسی نئی آزمائش سے دو چار نہیں کرنا چاہتے تھے دونوں نے نم آنکھوں سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر اپنے آنسوؤں کو چھپانے کے لیے ایک دوسرے سے منہ پھیر لیا ۔ میں گھر کی اس ٹینشن کو لیے آفس پہنچا کچھ ضروری کاموں کو نمٹایا اور لنچ کے بعد کرسی سے سر ٹکا لیا گھر کی صورتِ حال میری سمجھ سے بالا تر تھی کیا کروں اور کیا نہ کروں ؟ایک طرف بوڑھے والدین دوسری طرف بیوی ،یہ شادی بھی میری ہی پسند سے ہوئی تھی رمیز ! میں دیکھ رہا ہوں کچھ دنوں سے پریشان ہو ،میرے کولیگ ذیشان نے مجھ سے کہا مجھےتو بس ایک ہمدرد کی ضرورت تھی میں نے ساری روداد کہہ سُنائی دیکھو رمیز ! ماں باپ جیسی نعمت ہر ایک کو میسر نہیں آتی تمہارے والدین نے تمہیں پالا پوسا ،جوان کیا ،پڑھایا لکھایا اور اس قابل بنایا اب جب انہیں تمہاری ضرورت ہے تو تم انہیں کئیر ہاوس میں ڈالنے کا سوچ رہے ہو افسوس ہوا یہ جان کر ،یہ کلچر یہ آئیڈیا مغرب کا ہے اور وہ خود اس پر سسکتے ہیں کڑھتے ہیں ، خاندانی نظام وہاں تباہ ہو گیا ۔ دیکھو رمیز ! تمہارے والدین تمہیں دیکھ کر جیتے ہیں ان کی آنکھوں میں جو زندگی کی رمق تمہیں نظر آتی ہے وہ کسی اور سے نہیں تم ہی سے ہے یہ لنڈے کے دانشور ان کی زبانیں گز گز بھر کی ہو گئیں ہیں تو اس کا مقصد یہ نہیں کہ ان کی دانش گردی کا شکار ہو جاؤ۔ دیکھو ! تمہارے بیٹے کو ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اسے زندگی کے نرم گرم سے آگاہ کر سکے اپنے تجربات سے اس کی تربیت کر سکے انہیں اچھا برا سکھا سکے تم کتنا ٹائم دو گے گھر کو ؟تم کتنی دیر دیکھو گے بچوں کو ؟یہ دانش گرد اور عقل پرست یہ ہی چاہتے ہیں، یہ خاندانی نظام ہی طاغوت کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر اسلام نے ماں باپ کو بہت بڑا درجہ دیاہے ان کی نافرمانی اور ان کودکھ دےکر تم اللہ و رسول ﷺ کو بھی ناراض کرو گے اور اپنی جنت کو اپنے ہاتھوں سے برباد کرو گے یہ وہ ماں ہے جس نے نا جانے کتنی تکالیف برداشت کرکے تمہیں جنم دیا تھا تم تو اس ایک لمحے کا قرض بھی ساری زندگی نہیں اتار سکتے کئی راتیں اس ماں نے تمہیں سوکھے بستر پر سلایا اور خودتمہارے پیشاپ کے گیلے بستر پر سوئی ہے ۔ اور آخری بات رمیز ! والدین اولاد کو دیکھ کر جیتے ہیں یہ اگر بیمار ہوں تو اولاد ،پوتا پوتی کو ان کے سامنے لے آؤ یہ بغیر دوائی کے صحت مند ہوجائیں گے اور اگر یہ نعمت ان سے دور ہوجائے تو تمام تر کئیر کے باجود یہ بیمار ہوجائیں گے ۔میرا کام تھا تمہیں سمجھانا میں نے تمہیں سمجھادیا ذیشان نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا ذیشان کی باتوں نے مجھ پر اثر تو کیامگر میری بیوی ۔۔۔۔۔۔ آفس سے گھر پہنچاتو ذکیہ نے ایک ہنگامہ برپا کیا ہوا تھا رمیز ابھی گیرج میں ہی تھا کہ ذکیہ کی آواز نے اس کے قدم روک لیے ۔۔۔۔ آپ دونوں کیا سمجھتے ہیں کہ آپ ان آنسوؤں سے رمیز کو رام کر لیں گے آج ہی فیصلہ ہو جائے گا رمیز نے مجھے رکھنا ہے یا اپنے بوڑھے والدین کو رمیز بجھے دل کے ساتھ گھر میں داخل ہوا ذکیہ کیا ہو گیا ؟میں نے ذکیہ سے پوچھا یہ تو آپ اپنی مما جان سے پوچھیے ذکیہ نے لفظوں کو چبا چبا کر کہا مما! کیا ہو گیامیں نے اپنی مما سے پوچھا ہونا کیا ہے بیٹا! تمہیں صبح کہا تھا خود کو آزمائش میں مت ڈالو اگلے دن گاڑی میں مما ،پاپا کا سامان رکھ رہا تھا دادا ،دادی کہاں جا رہے ہیں بابا جان ! حماد نے مجھ سے پوچھا بیٹا !کئیرہاؤس میں نے بجھے دل کے ساتھ کہا بابا جان جب آپ اور مما بوڑھے ہو جائیں گے تو میں بھی آپ کو بہت اچھے کئیر ہاؤس میں داخل کراؤں گا ساتھ کھڑی ذکیہ نے ایک نظر حماد کو دیکھا اور دوسری نظر اپنے شوہر پر ڈالی ذکیہ کے لیے کھڑا ہونا مشکل ہوگیا اگلے ہی لمحے ذکیہ نے اپنی ساس کے ہاتھوں کو چوم لیا مما ! مجھے معاف کر دیجیے مجھے معاف کر دیجیے ذکیہ بلک بلک کر رو پڑی ذکیہ کی ساس نے ذکیہ کو گلے لگا لیا ۔


متعلقہ

تجویزوآراء