اک اجلی سی حیات جو سب کو درخشاں کر گئی
ایک اُجلی سی حیات جو سب کو درخشاں کر گئی
تحریر: مفتی محمد شمشادحُسین رضوی (ایم اے)
جب ہم سائنٹفک اندازِ فکر سے لفظ و معنیٰ کے اٹوٹ رشتوں اور اس کے مختلف زاویوں پر غور کرتے ہیں تو یہ بات بہت زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجاتی ہے کہ لفظ کیا ہے؟ اور معنیٰ کا اس سے کیا رشتہ ہے؟ اور اس کا بھی شعور ہوجاتا ہے کہ یہ رشتہ کیسا ہے؟ اور اس کی کیا اہمیت و افادیت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ الفاظ فِیْ نَفْسِہٖ کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ کسی افادیت کے حامل ہیں؟ کیوں کہ وہ سیاہ فام پیکر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں کوئی خوبی اور کمال و ہنر نہیں ہوتے، جمود و مفاہیم اور مضامین کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے، تو پھر الفاظ میں افادیت بھی آجاتی ہے اور عظمت و اہمیت بھی دکھائی پڑتی ہے، کیوں کہ معانی و مفاہیم کی حرارت و تمازت جب لفظوں کے پیکر میں سرایت کر جاتی ہے تو ان کا وجود پگھلتا ہوا نظر آتا ہے اور ان کے انگ انگ میں نور و ضیا بھر جایا کرتے ہیں اور پھر ان کے لبادوں سے تابانیاں اور شعاعیں پھوٹتی ہوئی دکھائی پرتی ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے کوئی بھی دانشور یا مفکر جھٹلا نہیں سکتا اور نہ ہی فراموش کر سکتا ہے۔لفظِ اعلیٰ حضرت کو ہی دیکھیے، وہ بھی عام لفظوں کی طرح ایک لفظ ہے اس کی بھی وہی حیثیت ہے جو دوسرے قسم کے لفظوں کی ہوا کرتی ہے۔ اس میں کوئی تابانی نہیں، کوئی خوبصورتی حسن و جمال نہیں وہ تو سادہ لفظ ہے اس کا پیکر بھی سیاہ ہے۔ وہ ذات و شخصیت کو کس طرح بڑھا وا دے سکتا ہے، جب کہ خود ہی اس کا چہرہ اجلا اور حیات افروز نہیں۔ اگر الفاظ و القاب و ہی شخصی توانائی کا سبب تسلیم کر لیا جائے تو میرے خیال میں اس دور میں جس طرح القاب و آداب لکھنے کی توڑ جوڑ چل رہی ہے کوئی بھی شخص رازی و غزالی اور ابو حنیفہ سے کم نہیں ہو سکتا۔ لکھنے والے تو لکھتے ہی رہتے ہیں اور آئندہ بھی لکھتے رہیں گے مگر وہ ذاتِ گرامی جن کے لئے القاب لکھے گئے وہ اپنی جگہ منجمد اور ساکت و صامت ہیں۔ ان میں کوئی تبدیلی نہیں اور نہ ہی انقلابی آثار پائے جاتے ہیں، معلوم ہوا…….. القاب و آداب اور استعمال کیے ہوئے لفظوں سے شخصیت میں توانائی نہیں آتی ہے، تو پھر لفظِ اعلیٰ حضرت کسی کو توانائی عطا کرے ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے۔ ہر ایرے غیرے، زید و عمرو کو اعلیٰ حضرت، اعلیٰ حضرت لکھیے اور خوب لکھیے، اس سے شخصیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہی لفظِ اعلیٰ حضرت نوابوں، شاہوں کے لئے استعمال ہوا۔ کیا اس سے ان کی شخصیت میں اضافہ ہوا؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو اس دور میں بھی لوگ اس لفظ کو اپنانے کی کوشش کرتے اور شب و روز اسی تگ و دو میں لگے رہتے ، تاریخ میں ایسی کوئی مثالی نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ اُس دور میں بھی کسی نے اِس لفظ کو اپنانے کی کوشش کی ہو۔
ہاں جب بھی یہی لفظِ اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا بریلوی کے لئے استعمال ہوا، تو برفیلی چٹانوں میں بھی حرارت پیدا ہو گئی اور شل بازوؤں میں حیات کی روح دوڑ گئی آخر ایسا کیوں؟ بات صرف یہیں تک محدود نہ رہی بلکہ بہت اچھے لوگ اس لفظ کو خود اپنے لئے اور اپنے بڑوں کے لئے استعمال کرنے لگے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس لفظِ اعلیٰ حضرت میں کچھ تو ہے!!! خوبی و کمال، حسن و جمال، رونق و بہار، دل کشی و جاذبیت اور درخشانی ضرور پائی جاتی ہے،جس کی وجہ سے افرادِ انسان کی دزدیدہ نگاہیں اُٹھ رہی ہیں اور اسے استعمال کر کے اپنی گرتی ہوئی دیواروں کو سہارا دینے میں جٹے ہوئے ہیں۔ اس مقام پر ذرا ٹھہر کر سوچیے اور غور کیجیے کہ یہیں سے تاریخی روایت ایک اہم موڑ لیتی ہے اور خوشگوار کروٹ لے کر اپنے ارتقا میں اضافہ کرتی ہے کہ امام احمد رضا کی ذات و شخصیت سے پہلے اس لفظ کی مقبولیت اتنی نہیں تھی، جو اس دور میں پائی جاتی ہے کیوں کہ امام احمد رضا فاضل بریلوی نے یقینی طور پر اس لفظِ اعلیٰ حضرت کو اعلیٰ حضرت بنا دیا کہ ان کی شخصیت کی تاب و توانائی، علم و بصیرت، فن و ادراک، تبحر علمی اور فکری تعمق نے اس لفظ کے پیکر میں نور و ضیا کے چشمے لہرا دیے اور اسے پورے طور پربقعۂ نور بنا دیا کہ اب اعلیٰ حضرت سے ایک ایسی ذات وشخصیت مراد لی جاتی ہے جو ۵۵؍علوم و فنون پر مہارتِ تامّہ رکھتی ہے اور جن کے تجدیدی کارناموں کو دنیا سلام کرتی ہے۔ اسی ذاتِ اقدس کو امامِ مجدد، عاشقِ رسول، حامیِ سنّت، ماحیِ بدعت کہا جاتا ہے۔ ان کے سر چشمۂ علم و حیات سے کس کس کو سیرابی نہیں ملی اور کون ایسا ہے جس کو آسودگی نصیب نہیں ہوئی۔ اپنوں نے بھی ان سے جھولی بھر کر لیا اور غیروں نے بھی، خانقاہوں کو بھی زینت ملی، ادارے، جامعات نے بھی ان سے نور و ضیا کی خیرات حاصل کی۔ انہوں نے دینے میں کسی کے ساتھ بخالت سے کام نہیں لیا، سب کو دیا اور سب کچھ دیا۔ یہی تو ان کی دوامی مقبولیت اور شہرت کا راز ہے۔زمانے نے مخالفت کی، زبان چلائی، قلم نے تیور دکھایا، غضب ناک آنکھوں سے گھورا اور ان کی ذات سے ابلتے چشموں کو بند کرنے کی کوشش کی۔ ساری کوششیں ناکام ہو گئیں۔ تمام مساعی خاک میں مل گئے مگر ان کی اجلی اور حیات افروز شخصیت پر ذرا سی آنچ بھی نہیں آئی کیوں کہ انہیں بڑھانے والا کوئی اور ہے ۔گھٹانے والوں سے وہ بہت بڑا ہے۔ جب وہ کسی کو اونچا کر رہا ہے، تو کوئی ان کو کس طرح گھٹا سکتا ہے اور کس میں اتنی ہمت کہ وہ ان سے آنکھیں چار کر کے بات کرے، وہ تو ایک عجیب شے ہے جو حیرت انگیز کرشمے رکھتا ہے۔ دُوب کی طرح ا بھرنا ان کی فطرت ہے اور بدلیوں سے درخشاں ہونا، ان کی عادت ہے۔ غمِ حیات ان کے لئے سوبانِ روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ خاکِ طیبہ کے حسین ذرّوں نے انہیں کانٹوں کے بیچ مسکرانے کے آداب سکھادیے، وہ کب کسی سے گھبراتا ہے؟ خوف و ہراس، حزن و ملال سے انہیں کوئی رشتہ نہیں۔ وہ اپنے رنگ میں مست رہتا ہے اور تاحیات اسی مستی کے عالم میں جھومتا رہا۔ غیروں نے کیا کہاں، اپنوں نے کیسے تیر چلائے، ان سب سے انہیں کوئی تعلّق نہیں، کوئی واسطہ نہیں۔ اللہ اکبر! وہ کیسا سر مست ہے جو ہر وقت یادِ جاناں میں کھویا رہتا ہے اور عشق و وفا کی دہلیز پر صرف سر سے ہی نہیں بلکہ قلب روح سے بھی سجدہ ریز رہتا ہے۔ اس اجلی، صاف ستھری حیات کا نام اعلیٰ حضرت ہے جو خود بھی روشن و تاباں ہوا اور سارے زمانے کو روشن کر گیا۔ علم و فن کی برہمی زلفوں کو انہوں نے سنوارا۔ عقیدۂ ایمان کی صیانت فرمائی، تہذیب و تمدّن کو روشنی بخشی، مذہبِ اہلِ سنّت و جماعت میں نئی روح پھونک دی اور اس کے پیکر میں حیاتِ نو کی لہریں پیدا کر دیں۔ اس طرح امام احمد رضا نے چو طرفہ فروغ و ارتقا کو انجام دیا۔ اسی ارتقائی عمل سے جو وسیع دائرہ وجود میں آیا اس نے امام احمد رضا فاضل بریلوی کو مرکزی حیثیت عطا کی۔ اس نے خود بھی اسے تسلیم کیا اور اہلِ زمانہ سے بھی تسلیم کرایا۔
اسی مرکزی حیثیت کو آج ہم اعلیٰ حضرت سے تعبیر کرتے ہیں، اسی لئے میں کہتا ہوں وہ مرکزی حیثیت اس اجلی حیات کا نام ہے جو حیات بخش بھی ہے اور حیات افروز بھی، خود بھی روشن ہے اور دوسروں کو بھی روشن و تاب ناک کرتی ہے۔ جو اس روشن حقیقت کو نہ سمجھ پائے انہیں کیا کہا جائے اور کیا سمجھا جائے، وہ تو فہم و شعور سے بالا تر نظر آتا ہے۔ خود تو قصورِ فہم سے دو چار ہیں اور پھر یہ عندیہ کہ ہم فکر و شعور والے ہیں؟ شاید انہیں نہیں معلوم کہ یہ جہلِ مرکب ہے جس کا بھوت ان کے قلب و دماغ پر سوار ہے اور وہ ان سے وہ کہلوا رہا ہے جو اسے کہلوانا ہے۔
نکتہ چیں بڑے شاطر دماغ ہیں:
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے تعلّق سے نکتہ چینی والے بڑے ہی شاطر دماغ ہیں کہ وہ نت نئے طریقوں سے تنقید کرتے ہیں اور نکتہ چینی بھی۔ ہر روپ میں یہ نکتہ چیں افراد آئے اور انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی، مگر ان کے وفادار سپاہی بھی، کچھ ایسے جیالے ثابت ہوئے کہ انہوں نے ان کے ہر ایک داؤ کو ناکام کر دیا اور ہر ایک پینترےکی قلعی کھول کر رکھ دی۔ زمانے کے بدلتے ہوئے حالات و کوائف کو دیکھ کر نکتہ چینوں نے بھی کچھ نئے راگ الاپے اور عوام و خواص میں اسے رائج کرنے کی کوشش کی۔ صرف اس مقصد سے کہ اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی کے خلاف راہ ہموار کی جائے اور ان کے تئیں عوام کے دلوں میں نا خوش گوار جذبات بیدار کیےجائیں۔ پروان چڑھائے جائیں۔ ذیل میں ہم انہیں کچھ پہلوؤں کا ذکر کر رہے ہیں تاکہ آپ آئینے کو رو برو رکھ کر فیصلہ لے سکیں۔ ملاحظہ فرمائیے………….
اوّلاً: مخالفین و معاندین نے سب سے پہلے امام احمد رضا کے لئے لفظِ اعلیٰ حضرت کے استعمال پر اعتراض کیا اور یہ کہہ کر تنقید کی کہ یہ حضرات رسولِ کریمﷺ کے لئے تو صرف حضرت یا آں حضرت کا استعمال کرتے ہیں، جب کہ امام احمد رضا کے لئے اعلیٰ حضرت کا استعمال کرتے ہیں؛ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ لوگ امام احمد رضا کو رسولِ کریمﷺ سے بھی بڑا تصوّر کرتے ہیں۔ مجھے اس اعتراض اور تنقید پر ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے! اس سے تو ان کے دل کا چڑھتا ہوا بخار دکھائی پڑتا ہے اور قلبی کدورت سے نگاہ کا زاویہ بھی بگڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اگر واقعتاً یہ اعتراض و تنقید ہے تو اسے اس وقت بھی اٹھا نا چاہیے تھا جب کہ لفظِ اعلیٰ حضرت کا استعمال شاہانِ زمانہ اور نوابینِ ہند کے لئے ہوتا تھا اور اس وقت بھی جب کچھ خانقاہی افراد اپنے بزرگوں کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ اس وقت نکتہ چینی کرنے والے کہاں تھے؟ کیا چوہوں کی مانند اپنے اپنے بلوں میں سو رہے تھے، مگر جب یہی لفظ امام احمد رضا کے لئے استعمال ہوا، تو برساتی مینڈکوں کی طرح یہ لوگ ٹر ٹر کیوں کرنے لگے اور آج کیوں اس اعتراض کو لے کر دندناتے ہوئے نظر آ رہے ہیں؟ وہاں خاموشی کیوں؟ اور یہاں واویلا، شور و غوغا کیوں؟ کیا اس کا کوئی جواب ان نکتہ چیں افراد کے پاس ہے؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ یہ اعتراض سرے سےقصورِ فہم اور کوتاہ بیں نظر پر مبنی ہے کیوں کہ نقّاد حضرات ابھی تک حضرت اور اعلیٰ حضرت کے مفہوم سے صحیح معنیٰ میں واقف نہیں۔ کاش اس کا علم ہو جاتا تو تنقید کرنے کی جرأت نہ کرتے۔
ذیل میں کچھ باتیں عرض کی جارہی ہیں تاکہ معاندین ذرا سوجھ بوجھ سے کام لیں اور نفرت آمیز تنقیدوں سے توبہ کر لیں، تو بہتر ہے۔ انصاف و دیانت سے ذیل کی تحریروں کا مطالعہ فرمائیں۔ شاید کچھ مثبت اور خوش گوار نتائج سامنے آجائیں:
(الف) حضورِ اکرمﷺ کے لئے حضرت یا آں حضرت کا استعمال کیا جاتا ہے اس سے عظمت عَلٰی وَجْہِ الْکَمَال مراد لی جاتی ہے اور مفکرین جانتے ہیں کہ بطورِ کمال مستعمل ہونے وا لے اوصاف و آداب بڑے یا چھوٹے اعلیٰ یا ادنیٰ کے دائرے میں نہیں آتے کہ اس دائرے میں صرف وہی اوصاف و آداب آتے ہیں جو بطورِ کمال مستعمل نہیں ہوتے؛ لہٰذا، جب حضرت یا آں حضرت اپنی معنویت اور وصفِ کمال کے سبب دائرے میں آتے ہی نہیں تو پھر اس لفظ کے سہارے اعلیٰ حضرت کے استعمال پر اعتراض و تنقید بھی نہیں کر سکتے کہ کہاں وہ وصف اور کہاں یہ وصف؟
؏: چہ نسبت خاک رابا عالمِ پاک!
اس بات کو نہ سمجھنے کے سبب معترض نے اعتراض تو کر دیا اور تنقید کر کے اپنی پیاس بجھالی، مگر یہ نہ سمجھ پائے کہ اس تنقید سے ان کی شخصیت اور مبلغِ علم کا بھرم بھی جاتا رہا اور بنی ہوئی ساکھ بھی گرتی رہی اور انہیں اس کا احساس تک نہ ہوا۔ یہ نکبت، ذلّت و رسوائی بھی انہیں اٹھانی تھی جو انہوں نے اُٹھا لی۔ تنقید سب کے فکر و مزاج سے میل نہیں کھاتی۔ اس کے لئے قلم اٹھانے سے پہلے خوب سوچ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ دشتِ امکاں ہے جہاں چٹانوں کے جگر میں بھی شگاف پڑ جاتا ہے۔ وہ اور ہی ہوتے ہیں جو کہساروں میں جوئے شیر جاری کر دیتے ہیں۔ ابھی نقادوں کے بازؤوں میں وہ قوت اور تاب و توانائی نہیں، جس سے کہساروں کے دل دہل جائیں اور جوئے شیر جاری ہو جائے۔
(ب) امام احمد رضا فاضلِ بریلوی کے لئے لفظِ اعلیٰ حضرت کا استعمال یہ کوئی آج کی نئی ایجاد نہیں، بلکہ برسوں سے اس کا استعمال ہو رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں سو سال کا عرصہ تو ضرور گزر ہی گیا ہو گا۔ اس طرح یہ استعمال روز مرّہ کی بولی میں داخل ہو گیا۔ ہر اَدب میں روز مرّہ کے استعمال کو سراہا جاتا ہے اور ایسے لفظوں سے بزمِ ادب سجائی جاتی ہے اور فکر و دانش کی محفلیں بھی آراستہ کی جاتی ہیں۔ اب تک روز مرّہ کے استعمال پر تنقید کی کوئی روایت سامنے نہیں آئی، تو پھر لفظ ِ اعلیٰ حضرت کے استعمال میں یہ تنقیدی روایت کیوں؟ یہ جدّت پسندی کی نئی ترپ نہیں تو پھر کیا ہے؟ دوسری طرف اس پہلو پر غور کرنا چاہیےکہ جن افراد نے امام احمد رضا کے لئے لفظِ اعلیٰ حضرت کا استعمال کیا، وہ ایسے تو ہیں نہیں کہ وہ درخوء اعتنا کر دیے جائیں بلکہ یہ وہ شخصیتیں ہیں جو وضع کرنے کی قوت اور استعداد رکھتی ہیں۔ ان کے استعمال کو سند اور دلیل کی حیثیت حاصل ہے۔ کسی بھی لفظ کے استعمال کو درست ٹھہرانے کے لئے غالؔب و اقباؔل اور داغؔ و امیؔر کے کلام کو ڈھونڈا جاتا ہے، ان کے دواوین کھنگالے جاتے ہیں؛ مگر لفظِ اعلیٰ حضرت کے استعمال کے لئے ہمارے اکابر کی کتابیں کیوں نہیں کھنگالی جاتیں؟ اس طرف دھیان کیوں نہیں دیا جاتا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ علمائے اہلِ سنّت کو کسی لائق تصوّر نہیں کرتے، تو پھر بتائیے خود آپ جیسے جدید دانشوروں کو کس خانے میں رکھا جائے، یہ فیصلہ خود آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ یا تو آپ خود اپنی حیثیت منوالیں یا پھر کسی گڑھے میں جا کر ڈوب مریں؟
(ج) یہ ہر زبان و ادب کا مزاج ہے جب کسی کو بڑایا اعلیٰ تصوّر کیا جاتا ہے تو استعمال کرنے والے اُس کا دائرہ بھی متعیّن کر جاتے ہیں کہ وہ کس زمانے کے اعتبار سے بڑے ہیں، عربی زبان و ادب اور فارسی زبان و ادب کا بھی یہی مزاج ہے۔ حتّٰی کہ کلامِ الٰہی میں بھی یہ مزاج نظر آتا ہے جیسا کہ اربابِ فکر و دانش سے پوشیدہ نہیں مگر افسوس ہے کہ آج جو حضرات تنقیدی ادب کا علم لئے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں وہ اس مزاج سے واقف نہیں۔ کاش! اگر وہ اس مزاج و سرشت سے واقف ہوتے تو اعلیٰ حضرت کے استعمال پر انگلی ہر گز نہ اٹھاتے بلکہ خود اس کے دائرے اور سمتوں کا تعیّن فرما کر اس استعمال کو جائز و درست قرار دیتے، لیکن وہ بے چارے بھی کیا کریں، ان کا بھی کیا قصور ہے کہ ان کے ذہن و فکر میں عصبیت کے جراثیم جب کلبلانے لگتے ہیں تو اس وحشت میں الٹی سیدھی باتیں کر کے خود اپنی شخصیت کو لہو لہان کر دیتے ہیں۔ بس ایسے لوگوں کو سلامتی کے لئے صرف دعائیں مانگنی چاہیے۔
ثانیاً: یہ کیسا طرفہ تماشا ہے کہ اس دور میں لفظِ اعلیٰ حضرت کی معنوی حیثیت کم کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ امام احمد رضا فاضلِ بریلوی سے قبل بھی بعض افرادِ علوم وفن اس لقب سے ملقب کیے گئے اور انہیں اعلیٰ حضرت کہا گیا، مگر امام احمد رضا کی ذات و شخصیت کے لئے اس لفظ کے استعمال ہوتے ہی اس لقب میں جو معنویت، جذب و کشش، حسن و بانکپن اور پُر وقار بصیرت، علم و ادراک، فکر و شعور اور مختلف جہتوں کا احاطہ کرنے کی قوت و استعداد پیدا ہو گئی۔اس کا نتیجہ سامنے آیا کہ یہ لفظ صرف امام احمد رضا کے قدِ زیبا پر فِٹ اور بھلا معلوم ہونے لگا۔ جب تک اس میں یہ مذکورہ وسعتیں پیدا نہیں ہوئی تھیں اس وقت اس کے استعمال میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ یارانِ سخن داں نے اس کا برملا استعمال کیا اور دل کھول کر اعلیٰ حضرت، اعلیٰ حضرت کی رٹ لگائی۔ کسی کو اس سے کیا مطلب؟ آپ آسماں سے تارے توڑ کر لائیں اور قلب و جگر کا نذرانہ پیش کریں، اس سے کسی کو کیا غرض، لیکن اس دور میں عام افراد اور اربابِ فکر و دانش کے مبارک ذہنوں میں اعلیٰ حضرت کے استعمال سے جو تصوّر ابھرتا ہے اس کی کشادہ بانہوں میں صرف امام احمد رضا کی ذات و شخصیت ہی سماتی ہوئی نظر آتی ہے، کوئی اور نہیں۔ اس لئے میرا یہ نیک مشورہ ہے کہ اسے صرف امام احمد رضا کے لئے ہی محدود رکھا جائے تاکہ القاب و آداب کی ارزانی نہ ہو اور نہ ہی اس کی معنوی حیثیت میں کسی قسم کی کمی واقع ہو، دیکھیے اس دور میں علامہ سب کو کہا جاتا ہے۔ کوئی بھی ذی علم فرد علامہ سے کم پر راضی نہیں اور لوگ لکھنے میں بھی کشادہ قلبی سے کام لے رہے ہیں، لیکن ایک دور ایسا بھی تھا جب بڑے بڑے کروفر والے ماہرینِ علوم و فنون، شناورانِ بحرِ ِ بلاغت و معانی کے لئے بھی علامہ نہیں لکھے جاتے تھے اور لکھنے کو عیب و نقص تصوّر کرتے تھے۔ مولانا عبد الرحمٰن جامی (۸۱۷ھ تا ۸۹۸ھ) نے اپنی مشہور درسی کتاب شرحِ جامی میں صاحبِ کافیہ ابنِ صاحب (۵۷۰ھ تا ۶۴۶ھ) کے لئے لفظِ علامہ کا استعمال فرمایا تو اس استعمال پر تنقید کرتے ہوئے، ملّا عبد الرحمٰن نے تحریر کیا:
البحث الثالث انہ لا یحوز اطلاق العلامۃ علی ابن الحاجب لانہ لم یکن عالماً بعلوم العلقی ویشترط فی العلامۃ ان یکون عالما بعلوم العقلی النقلی معا۔
ترجمہ:تیسری بحث یہ ہے کہ ابنِ حاجب کے لئے علامہ کا استعمال درست نہیں کیوں کہ ابنِ حاجب علوم ِعقلی کے ماہر نہیں اور علامہ ہونے کے لئے علومِ عقلی اور نقلی دونوں میں مہارت کا پایا جانا ضروری ہے۔
حالاں کہ بعض حضرات نے اس استعمال کے جواز کے لئے چند تجاویز پیش کی ہیں اور وہ قابلِ قبول بھی ہیں مگر یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ القاب و آداب کو اس طرح ارزاں نہ کیا جائے کہ اس کی معنوی حیثیت ہی مجروح ہو کر رہ جائے۔ اس دور میں اس کی افراط نظر آتی ہے۔ اسی مزاج و سرشت کو مد ِنظر رکھتے ہوئے لوگوں نے لفظِ اعلیٰ حضرت کے استعمال کو عام کرنا شروع کر دیا، جو مناسب نہیں۔ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ یہی وقت کا تقاضا ہے۔
ثالثًا: اگر اس دشتِ امکاں میں پابہ رکاب ہونے کا ہی ذوق و شوق ہے، تو خوب برق رفتاری سے کام لیجیے، اس میں رخنہ کوئی کیوں ڈالے اور اس کی کسی کو کیا ضرورت؟ آپ اپنی مرضی کے مولیٰ ہیں، اپنے ذوق و شوق کو پورا کیجیے اور دلوں کی بھڑ اس نکال لیجیے لیکن یہ بھی خیال رہے کہ آپ صرف لفظِ اعلیٰ حضرت کو ہی لے سکتے ہیں۔ اس کی معنوی حیثیت کو، جو اُجلی اور صاف شفاف حیات کی صورت میں جلوہ فگن ہے اور سبھی افراد کو درخشانی عطا کرتی ہے، آپ کس طرح حاصل کر سکتے ہیں کہ لفظِ اعلیٰ حضرت میں یہ اجلی حیات تو صرف امام احمد رضا کی ذات و شخصیت اور ان کی پُر وقار بصیرت اور سوز و گداز کی کیفیت سے پیدا ہوئی ہے۔ ہاں اگر لفظِ اعلیٰ حضرت کے لئے کوئی نیاں جہاں اور تازہ چمن تلاش کرنے اور خوش گوار فضا ہموار کرنے کا حوصلہ ہے تو اسے بھی آزما کر دیکھ لیجیے، ہو سکتاہے آپ کامیاب ہو جائیں۔ میری نیک خواہشات بھی آپ کے ساتھ ہیں کہ آپ کا حوصلہ بلند رہے اور فکر و شعور کو بالیدگی نصیب ہو، لیکن اس راہ میں کچھ دشواریاں لاحق ہو سکتی ہیں، رکاوٹیں آسکتی ہیں۔
ذیل میں ہم اُن رکاوٹوں کا ذکر کیے دیتے ہیں تاکہ آپ اس کا کوئی مداوا کر سکیں اور ان رکا وٹوں کو دور کر سکیں۔
رابعاً: امام احمد رضا کی ذات و شخصیت اور ہمہ جہت بصیرت سے لفظِ اعلیٰ حضرت اور اس کے صوری پیکر میں نور و ضیا، اجلی حیات اور شفافیت نمایاں ہو گئیں۔ لفظِ اعلیٰ حضرت کو ان اشیائے مقدّسہ سے مجرد کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کیا اس کا کوئی امکان ہے؟ اگر ہاں اس کا امکان ہے تو ویسا ضرور کیجیے لیکن یہ بھی سوچ لیجیے کہ امام احمد رضا سے وابستہ لفظِ اعلیٰ حضرت نے ہزاروں افراد کے ذہنوں میں جو مثبت اور خوبصورت اثرات نمایاں کیے ہیں، کیا آپ ان اثرات کو مٹا سکتے ہیں اور تمام اذہان اور افکار و خیالات آپ کی آواز پر کیا لبیک کہہ سکتے ہیں۔ یہ معاملہ تو غیرِ محدود ہے۔ آپ کہاں کہاں تک جائیں گے اور کس کس کو باور کرائیں گے؟ یہ آپ کے بس کی بات نہیں، یہ سعیِ لا حاصل ہو گی اور اس سے ملنے والی ناکامی سے آپ کا بلند حوصلہ زمیں دوز ہو جائے گا۔ یہی سوچ سوچ کر دل ہوا ہوا چاہتا ہے اور خوف سے ہلا جاتا ہے اور پھر زبان سے یہی آواز نکلتی ہے:
آپ ایسا نہ کریں یہ تباہی اور ہلاکت کا راستہ ہے، اس پہ چلنا کوئی دانش مندی نہیں اور اگر اس کا امکان نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام احمد رضا کے سبب لفظِ اعلیٰ حضرت میں جو وسعت، معنویت پیدا ہوئی وہ تو رہے گی، غیروں کے لئے اس لفظ کا استعمال کر کے اس میں مزید وسعت اور معنویت پیدا کرنا چاہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ سامنے آئے گا کہ اب جس کے لئے اعلیٰ حضرت کا استعمال کیا جا رہا ہے وہ امام احمد رضا سے بھی بڑا ہے یا بڑا ہو گا۔ یہ نتیجہ کوئی نتیجہ نہیں بلکہ ضروریات کا انکار ہوگا اور ایک امرِ بدیہی سے روگردانی ہو گی۔ امام احمد رضا جیسا کوئی نہ تو گزشتہ ادوار میں تھا نہ خود امام احمد رضا کے دور میں تو پھر اس دور میں کیسے ہو گا؟ فکری ذہنی دہشت گردی میں اگر کسی کو اُسامہ ہی بننے کا شوق ہے تو وہ اپنا شوق پورا کر لے اور اہلِ سنّت و جماعت کے قصرِ ا بیض پر خوب بمباری کرے اور اسے ڈھا دے، مگر کسی سنجیدہ انسان کا ذہن و فکر آپ کے اس رَوَیّے سے مطمئن نہیں ہو سکتا۔
لفظِ اعلیٰ حضرت کے تعلّق سے کافی تفصیلی گفتگو ہوئی، اِنْ شَآءَ اللہُ تَعَالٰی اس سے آپ کے ذہن و ادراک اور فکر و شعور کو ضرور جِلا ملے گی اور اس ناچیز کو آپ اپنی خلوت گزیں ساعتوں میں ضرور یاد رکھیں گے۔اب میں چند باتیں مرکزیت کے تعلّق سے کرنا چاہتا ہوں ا س امّید کے ساتھ کہ آپ اسے بھی خوش گوار فضاؤں میں مطالعہ کریں گے۔
کچھ مرکز کے تعلّق سے:
اہلِ علم و ادراک سے یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ مرکز کسی ٹھوس حقیقت پر مبنی ہوتا ہے جس میں تبدیلی اور تغیّر نہیں ہوتا کیوں کہ اس کے تغیّر سے مختلف سمتوں میں دائرے کی طرف بڑھنے والے خطوط میں بھی تبدیلی واقع ہو جائے گی۔ اگر دائرے میں تبدیلی کی خواہش آپ کے دل میں ہے تو اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پورے عالمِ اسلام کا مرکزِ عقیدہ و ایمان اور عشق و وفا کا مرکز رسولِ کریمﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔ چوں کہ آپ مدینۂ پاک میں آرام فرما رہیں اس لئے مرکز کی نسبت مدینۂ پاک کی طرف کر دی جاتی ہے، لیکن یہ بھی خیال رہے کہ مرکز کی اوّلاً اور بالذّات شخصیت کی طرف نسبت ہوتی ہے، ثانیاً اور بالعرض کسی شہر کی طرف ہوتی ہے۔ زمانے کے بدلتے ہوئے مزاج کے اعتبار سے مرکز میں تبدیلی واقع نہیں ہوئی بلکہ اس کی علامتیں وضع کر دی گئیں، مثلاً………. مَآ اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری کی اطاعت و پیروی ائمۂ اربعہ میں سے کسی کی تقلید اور دورِ حاضر میں مسلکِ اعلیٰ حضرت سے اتفاق۔ اس علامتِ واضحہ کی مناسبت سے امام احمد رضا کی ذات و شخصیت کو مرکزیت حاصل ہوئی اور بریلی شریف کو اہلِ سنّت و جماعت کا مرکز کہا گیا۔ اس اطلاق میں مرکزیت کی بنا صرف اور صرف امام احمد رضا کی ذاتِ گرامی پر ہے۔ اس لئے یہ مرکز قائم ہے۔ اس کے مرکز ہونے میں کسی کو کوئی کلام نہیں اور نہ یہ مرکزیت منتقل ہو سکتی ہے۔ اس وجہ سے کہ امام احمد رضا کی ذات و شخصیت تو کہیں منتقل نہیں ہو سکتی، تو پھر مرکزیت کیوں کر منتقل ہو سکتی ہے؛ لہٰذا، بریلی جیسی مرکزیت کی منتقلی کا جو لوگ خواب دیکھ رہے ہیں وہ خواب دیکھنا چھوڑ دیں اور اس سے پلو جھاڑ لیں کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ ہم اہلِ سنّت و جماعت جس طرح پہلے بریلی شریف کو مرکز تصوّر کرتے رہے ہیں، آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ جو لوگ اس دور میں بریلی شریف کی مرکزیت کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا مرکز تو مدینہ شریف ہے یا بغدادِ معلیٰ، وہ تو اپنی حماقت پر شاد یانے بجارہے ہیں یا پھر نفسیاتی جذبات میں سرشار ہو کر عوامِ اہلِ سنّت سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ یہ نعرہ اس وقت کام آتا ہے جب بریلی شریف کی مرکزیت کو مدینہ پاک اور بغدادِ معلیٰ کے نورانی چشموں سے سیرابی میسر نہیں ہوتی۔ جب اس مرکزیت کا ایک ایک عضو انہی کے انوار سے منوّر ہے تو پھر یہ باتیں کیوں کر پسند آسکتی ہیں۔ اس لئے میں اس نعرے کو ایک خوبصورت فریب تصوّر کرتا ہوں۔ یہ بریلی شریف اور امام احمد رضا کے خلاف عوامی جذبات کو مشتعل کرنا ہے اور نفرت کی آگ لگانا ہے، یہ کوئی اچھی سرشت نہیں۔ یہ کسی کی عادت ہو، اسے چھوڑ دینا چاہیے۔ اگر علم و ادراک، فکر و شعور اور تصنیف و تالیف کی بنیاد پر کسی کو مرکز قرار دیا جاتا ہے، تو اس بنیا پر مرکز کا قیام مستحکم نہیں ہو سکتا کیوں کہ یہ تمام چیزیں جو محور کی حیثیت رکھتی ہیں منتقل ہو سکتی ہیں اور کہیں بھی پہنچ سکتی ہیں اس لئے ایسے مراکز اگر چہ مراکز ہیں لیکن یہ مرکز بریلی شریف کی مرکزیت کا درجہ نہیں پا سکتا ہے، تو اس کے قیام میں کسی بھی دانشور کو کوئی تردد نہیں ہو سکتا ہے۔ ایک دو نہیں، ہزاروں مراکز قائم کر لیں، ان سے مرکزِ اہلِ سنّت و جماعت بریلی شریف کو کوئی نقصان نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی بال بیکا ہو سکتا ہے؛ مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ان مرکزوں میں جو تابانیاں، انوار و تجلیات پائے جاتے ہیں وہ بھی تو امام احمد رضا فاضل بریلوی کی اجلی حیات اور پاکیزہ سیرت سے مترشح ہوتے ہیں۔ ان تابانیوں پر اس قدر نہ اترائیں، ذرا گہرائی میں جا کر دیکھیں، اس کے سوتے بھی امام احمد رضا کے علم و فن اور فکر و نظر نیز اصول و نظریات سے نکلے ہوئے ہیں۔ چاند کی چاندنی سے اگر چہ ظلمتیں کا فور ہو رہی ہیں اور شبِ دیجور کا پردہ چاک ہو رہا ہے، مگر خورشیدِ تاباں کی تابشوں کے جو احسانات اس پر ہیں، اس سے وہ انکار نہیں کر سکتا۔ تو پھر ان مذکورہ مراکز میں سے کوئی مرکز والا اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے خلاف زبان کھولے یا ان کے اصول و نظریات سے روگردانی کرے، یہ احسان فراموشی ہو گی یا پھر کبر و نخوت؟ یہ دونوں باتیں ہر اعتبار سے غلط اور انسانیت سوز ہیں۔ اگر غیر شعوری طور پر کسی سے صادر ہو چکی ہیں تو انہیں سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور شرم و حیا کا احساس کرنا چاہیے اور اس بات کا عہد کر لینا چاہیے کہ آئندہ ایسی کوئی بات نہ کریں گے جس سے انسانیت بھی شرم و عار محسوس کرے اور شرافت و دیانت کو رونا آئے۔ امام احمد رضا فاضلِ بریلوی کی یہ اجلی حیات، صاف و شفّاف سیرت، علمی بصیرت، فنی لیاقت اور تجدیدی کارنامے بھی کسی کے رہینِ منّت ہیں؛لیکن اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی نے یہ رویّہ نہیں اپنایا جو رویّہ آج ان کے ساتھ اپنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے آقاؤں کا تذکرہ کس حسین و دل کش انداز میں کیا ہے، اس پر غور کیجیے، آپ فرماتے ہیں:
کیسے آقاؤں کا بندہ ہوں رضؔا
بول بالے مِری سرکاروں کے
اے رضؔا! یہ احمدِ نوری کا فیضِ نور ہے
ہو گئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا
[’’پیغامِ رضا‘‘ممبئی(فکر و تدبیر نمبر)، اپریل تا جون ۲۰۰۹ء، ص ۱۶۳تا ۱۶۹]