امام احمد رضا ۔۔۔۔ علم و تحقیق کے در شہسوار
امام احمد رضا۔۔ علم و تحقیق کے درِّ شاہ وار
تحریر: مولانا غلام مقتدر خان جالوی
آج میں ایک ایسی توانا اور قدآور شخصیت کے حضور عقیدت و محبّت کا خراج پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں جو زبدۂ اصفیا، عمدۂ اولیا اور اہلِ شریعت کا مقتدا ہے، جو رمز آشنائے حقیقت، واقفِ اسرارِ شریعت اور اعلم ِ علمائے زماں ہے۔
ایک ایسی ذاتِ والا صفات جس کی کشتی نے تلاطم کا کلیجہ چیر دیا، جس نے ایمان و عقیدہ پر شب خون مارنے کی ہر خفیہ سازش کو بے نقاب کر دیا، جس نے ملّت فروشی کی مجرمانہ ذہانتوں اور صلاحیتوں کو ناکام بنا ڈالا، جس نے عقیدگی کے ہر محاذ اور اسٹیشن کی مورچہ بندی پوری فراستِ مومنانہ سے فرمائی، جو طوفان و تلاطم میں سفینۂ عشق و محبّت کھیتا رہا، آندھیوں کی زد پہ چراغِ محبّت جلائے رکھا، جس نے قلم کی آوارگی، زبان کی بے لگامی، باطل عقائد و نظریات، گندے اور بیہودہ خیالات، مردہ احساسات سب کی دھجیاں اڑا کر لوگوں کے دلوں میں عشقِ مصطفوی کی شمع فروزاں کر دی۔ الغرض جس کے نعرۂ انقلاب سے دیوبندی، وہابیوں، نیچریوں اور چکرالویوں کے قلعہ میں ایک شور ایک ہنگامہ، ایک وحشت، ایک دہشت اور ایوانِ باطل میں ایک قیامت خیز اور ہمت شکن زلزلہ پیدا ہو گیا؛ جسے دنیائے عشق و محبت اعلیٰ حضرت عظیم البرکت، مجددِ دین و ملّت رفیع الدرجت، کنز الکرامت، جبل الاستقامت، شیخ الاسلام والمسلمین، حجۃ اللہ فی الارضین، مولانا شاہ امام احمد رضا خاں قادری بریلوی علیہ الرحمۃو الرضوان کے نامِ نامی اسمِ گرامی سے جانتی پہچانتی ہے اور مانتی ہے۔
اعلیٰ حضرت ذات نہیں، جماعت کا نام ہے، اعلیٰ حضرت عالم نہیں، علم کا نام ہے، اعلیٰ حضرت کتاب نہیں، لائبریری کا نام ہے،اعلیٰ حضرت متقی نہیں تقویٰ کا نام ہے، اعلیٰ حضرت عشقِ رسول میں ڈوب کر دھڑکنے والے دل کا نام ہے، اعلیٰ حضرت کے نام کو خدا وندِ قدّوس نے سورج کی شعاؤں کے ساتھ آسمان کی وسیع بسط چھاتی پر ثبت فرما دیا ہے، اس لئے اب نہ تو حوادثاتِ زمانہ کا جھونکا ان کا نام مٹا سکتا ہے اور نہ ہی سنگِ وحشت کی ٹھوکر ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہے، کیوں کہ
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہَوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
اعلیٰ حضرت کی حیاتِ مبارکہ چاہے جس زاویے سے دیکھی جائے، آپ کی پوری زندگی اخلاص وللہیت اور تصلّب فی الدین کا سر چشمہ نظر آتی ہے۔ آپ کے علم و فضل، زہد و ورع اور سیادت و برتری کا اعتراف نہ صرف اپنے بلکہ بے گانوں نے بھی کیا ہے۔ خاص کر آپ کے علمی کارنامے اور تصانیف نے تو ذہن و فکر میں ایک حیرت انگیز اور ولولہ خیز انقلاب بپا کر دیا ہے۔ پچپن علوم و فنون میں آپ کو مہارت تامہ اور دست گاہ حاصل تھی اور کم و بیش بارہ سو کتابیں تصنیف فرما کر آپ نے ایک زبردست اور مثالی ریکارڈ قائم فرما دیا ہے۔
چناں چہ آئیے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کو بحیثیت ایک مترجم و مفسر دیکھیں۔ صدر الشریعہ مولانا امجد اعظمی علیہ الرحمۃ نے عرض کیا کہ حضور تراجمِ قرآن کی کوئی کمی نہیں ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ قوم کو قرآنِ کریم کا صحیح ترجمہ عطا فرما دیجیے۔ آپ نے وعدہ تو فرما لیا مگر کثرتِ کار کی وجہ سے اسے پورا نہ کر سکے پھر صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ کے اصرارِ پیہم پر ایک دن آپ نے فرمایا کہ خاص ترجمہ کے لیے میرے پاس وقت نہیں ہے! ہاں اگر سوتے وقت کاغذ قلم لے کر آجایا کرو تا کہ میں تھوڑا تھوڑا بولتا جاؤں اور تم لکھتے جاؤ تو بفضلہٖ تعالٰی یہ کام بھی پورا ہو جائے گا۔ ایک دن صدر الشریعہ کاغذ قلم لے کر پہنچ گئے اور یہ مبارک کام بھی شروع ہو گیا اور وہ بھی اس طرح کہ پہلے سے تفسیر و لغت کی کتابوں کے مطالعہ اور اسٹڈی کے بغیر بالکل برجستہ اور بدیہی طور پر فاضلِ بریلوی قرآنِ کریم کا ترجمہ بولتے جا رہے ہیں اور صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ لکھتے جا رہے ہیں یہاں تک کہ جب بسم اللہ کی ب سے لے کر والنّاس کی س تک ترجمہ پورا ہو گیا، تو اس کا نام "کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن" رکھا گیا، پھر جب صدر الشریعہ اور دیگر اکابر علما نے دیکھا تو حیرت زدہ ہو گئے کہ جو صاحبِ تفسیر ِکبیر نے کہا ترجمے میں وہی امام احمد رضا نے کہا ہے؛ جو صاحب ِبیضاوی نے کہا ترجمے میں وہی امام احمد رضا نے کہا ؛ جو صاحب ِتفسیرِ خازن نے کہا وہی ترجمے میں امام احمد رضا نے کہا؛ جو صاحبِ تفسیرِ مدارک نے کہا وہی ترجمے میں امام احمد رضا نے کہا؛ جو صاحبِ تفسیر ِمعالم التنزیل نے کہا، ترجمے میں وہی امام احمد رضا نے کہا۔ یاد رہے کہ جب بھی کسی چیز کا دوسری زبان میں ترجمہ اور ٹرانسلیشن کیا جائے گا تو ترجمہ لغوی ہو گا تو اصطلاحی نہیں اور اصطلاحی ہوگا تو لغوی نہیں مگر اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی کے ترجمے کا طرّۂ امتیاز یہ ہے کہ پورا ترجمہ زبان و لغت سے بھی مل رہا ہے اور اصطلاح و محاورہ سے بھی۔ جو لفظ جہاں لائے ہیں وہاں اس سے اچھا لفظ آ ہی نہیں سکتا تھا۔ پورا ترجمہ عشقِ رسالت میں ڈوبا ہوا یوں معلوم ہوتا کہ قرآن شریف عربی میں قرآن ہے اور آپ کا ترجمۂ قرآن اردو کے سانچے میں ڈھل کر روحِ قرآن ہے، جبھی تو صاحبِ ضیائے مصطفیٰ نے کہا ہے کہ
کنزِ ایماں کی طرح کوئی نہیں ہے ترجمہ
کیا کہوں اس کے سوا یا سیّدی احمد رضا
علمِ حدیث میں اعلیٰ حضرت کا حال یہ ہے کہ حضور محدثِ اعظمِ ہند فرماتے ہیں کہ جتنی حدیثیں فقہِ حنفی کی ماخذ ہیں ہر وقت پیشِ نظر اور جن حدیثوں سے بظاہر فقہِ حنفی پر زد پڑتی ہے ان کی روایت و درایت کی خامیاں ہر وقت ازبر۔ علمِ حدیث میں سب سے نازک شعبہ علمِ اسمائے رجال کا ہے، اعلیٰ حضرت کے سامنےکوئی سند پڑھی جاتی اور راویوں کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو ہر راوی کی جرح و تعدیل کے جو الفاظ فرما دیتے، اٹھا کر دیکھا جاتا تو تہذیب و تذہیب میں وہی الفاظ مل جاتے۔ یحییٰ نام کے سیکڑوں راویانِ حدیث ہیں، لیکن جس یحییٰ کے طبقہ استاذ و شاگرد کا نام بتا دیا، کتاب کھول کر دیکھا جاتا تو بعینہٖ وہی ہوتا۔ بے شک اعلیٰ حضرت اس فن کے خود موجِد تھے، طبقہ و اسما سے بتا دیتے تھے کہ راوی ثقہ ہے یا مجروح۔ اس کو کہتے ہیں علمِ راسخ اور علمِ شغفِ کامل اور علمی مطالعہ کی وسعت اور خداد علمی کرامت۔ سچ ہے کہ
مُلکِ سخن کی شاہی تم کو رضؔا مسلّم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیے ہیں
علمِ فقہ میں آپ کو ایسی دسترس اور دست گاہِ تام حاصل تھی کہ جو چیز فقہا کی نظروں سے اوجھل رہ گئیں۔ آپ نے انھیں بھی برملا بتا دیا، مثلاً اسراف فی الوضو میں فقہائے کرام کے چار اقوال ہیں:
- کسی فقیہ نے کہا کہ اسراف فی الوضو حرام ہے۔
- کسی فقیہ نے کہا کہ مکروہِ تحریمی ہے۔
- کسی نے کہا مکروہِ تنزیہی ہے۔
- اور کسی فقیہ نے خلافِ اولیٰ بتایا۔
مگر امام احمد رضا فاضلِ بریلوی نے چاروں کا محل بتادیا کہ اسراف فی الوضو کب حرام ہے، کب مکروہِ تحریمی ہے، کب مکروہِ تنزیہی ہے اور کب خلافِ اولیٰ ہے۔ اور اس کے علاوہ پانچویں صورت بھی بتائی کہ چار ایسی صورتیں ہیں جہاں اسراف فی الوضو حرام بھی نہیں ہے۔ مکروہِ تحریمی بھی نہیں، مکروہِ تنزیہی بھی نہیں ہے اور خلافِ اولیٰ بھی نہیں ہے، بلکہ بلا کراہت جائز اور بلاشبہ صحیح ہے۔ علامہ سیّد طحطاوی علیہ الرحمۃ نے زکام کو ناقضِ وضو بتا یا مگر اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے دلائل و براہین سے ثابت فرما دیا کہ زکام ناقضِ وضو نہیں ہے۔
رسولِ پاکﷺ نے خود کبھی اذان دی ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں علمائے کرام کا زبردست اختلاف پایا جاتا ہے۔ علامہ شامی علیہ الرحمۃ نے دیگر علما کی طرح اس بات پر جزم کر لیا کہ رسول اللہﷺ نے خود کبھی اذان نہیں دی ہے، مگر اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی کی تحقیق یہ ہے کہ بے شک ایک مرتبہ حالتِ سفر میں حضور ﷺ نے اذان دی ہے
جو فقیہوں کے تسامح کو بتائے بر ملا
کون ہے تیرے سوا یا سیّدی احمد رضا
بارہ ضخیم جلدوں میں بارہ ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی اعلیٰ حضرت کی کتاب فتاوٰی رضویہ دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ استفادہ اردو زبان میں ہے تو آپ نے فتویٰ بھی اردو میں ہی دیا ہے۔ استفادہ اگر فارسی زبان میں ہے تو آپ نے فتویٰ بھی فارسی زبان میں ہی دیا ہے۔ استفتا اگر عربی زبان میں ہے تو آپ نے فتویٰ بھی عربی زبان میں دیا ہے۔ استفتا اگر نثر میں کیا گیا ہے تو آپ نے فتویٰ بھی نثر ہی میں دیا ہے۔ استفتا اگر نظم میں کیا گیا ہے تو آپ نے فتویٰ بھی اسی بحر میں دیا ہے۔ استفتا میں جو قافیہ استعمال کیا گیا آپ نے فتویٰ بھی اسی قافیہ میں دیا ہے۔ استفتا میں جو ردیف رکھی گئی آپ نےفتویٰ بھی اسی ردیف میں دیا ہے اسی لئے تو
دیکھتے ہی کہہ پڑی دنیا فتاوٰی رضویّہ
ہے نبی کی یہ عطا یا سیّدی احمد رضا
مفتیوں کو فقہ کی کتابوں میں نوٹ کے جواز کا جزئیہ نہ مل سکا تو انہوں نے یہ کہہ کے اپنی لا علمی کا عذر پیش کر دیا کہ
اَلْعِلْمُ اَمَانَۃٌ فِیْٓ اَعْنَاقِ الْعُلَمَا
یعنی علم علما کی گردنوں میں امانت ہے۔
مگر ۱۳۲۳ھ میں جب آپ دوسری مرتبہ حجِ بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے تو وہاں کے علمائے کرام نے اس سلسلے میں آپ سے بارہ سوالات کیے۔ آپ نے ان کا نہایت تشفی بخش جواب دیا اور فتح القدیر سے نوٹ کے جواز کا جزئیہ پیش کیا کہ لَوْ بَاعَ کَاغَذَۃٌ بِالْاَلْفِ یَجُوْزُ وَلَا یکْرہْ یعنی اگر کوئی شخص کاغذ کے ٹکڑے کو ہزار روپے میں بیچے تو بلا کراہت جائز اور بلا شبہ صحیح ہے۔ آپ بھی ان کے سوالوں اور جوابوں کو کِفْلُ الْفَقِیْہِ الْفَاھِم نامی کتاب میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ایسی کتاب ہے کہ علمائے حرمین شریفین نے دیکھا تو حیرت زدہ ہو گئے کہ مسئلے کو اس کی اصلی صورت میں پیش کر کے پورے عالم اسلام پر اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی نے احسانِ عظیم فرمایا اور اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا ہے نقیب ِ اہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا علی احمد سیوانی نے کہ
آپ کا احسان ہے کُل عالمِ اسلام پر
محسنِ اہلِ سنن ہے اعلیٰ حضرت کا وجود
اور کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
مفتیوں کو جزئیہ کچھ نوٹ کا نہ مل سکا
تم نے فتویٰ دے دیا یا سیّدی احمد رضا
["پیغامِ رضا"ممبئی (فکر و تدبیر نمبر)، اپریل تا جون ۲۰۰۹ء، ص ۱۳۳ تا۱۳۵]