امام احمد رضا اور علم حجریات(petrology)

امام احمد رضا﷥ اور علم حجریات(petrology)  

از: پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری

امام احمد رضا خان  قادری بریلوی﷥کو علم حجریات (petrology)پر بھی دیگر علوم کی طرح بھر پور دسترس حاصل تھی اس سلسلے میں مسئلہ تیمم ّ بیان کرتے ہوئے آپ نے کئی ضمنی رسائل تحریر کئے  جو علم و تحقیق کا انمول خزانہ ہے۔ امام احمد رضا خان  قادری بریلوی﷥ نے اس سلسلے میں ایک رسالہ  بعنوان المطر السعید علی بنت جنس الصعید(۱۳۳۵ھ) تحریر فرمایا تھا ۔ اس رسالے  سے یہاں صرف اس بات کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ کسی کسی پھتر کے متعلق کس طرح معلوم کیا جائے کہ وہ جنس ارض(earthy) ہے یا نہیں کیو نکہ تیممّ کے  لئے احناف کے نزدیک یہ شرط ہے کہ وہ شیء (پتھر) جنس ارض سے ہو ورنہ اس سے تیممّ نہیں ہوگا اگوچہ وہ پتھر سے ذیادہ سخت کیوں نہ ہو اور دیکھنے میں بھی پتھر معلوم ہو۔ اسی طرح اس مضمون سے یہ بھی آگاہی ہوگی کہ امام احمد رضا خان  قادری بریلوی﷥ماہر علم حجریات کی طرح معدن(metal) کی باقاعدہ (scientific)تعریف کی ہے اور علم حجریات  کی بعض ایسی اصطلاح فراہم کی ہیں جو کسی عربی لغت میں بھی دستیاب نہ تھی۔

          علم حجریات (petrology) علم ارضیات(geology) کی شاخ ہے اور اس کی تعریف کچھ یوں ہے:

The branch of geology that dealing with origin,  occurrence , structure and history of rocks.

(Glossary of geology P-532)                                                              یعنی حجریات وہ علم ہے جس میں پتھروں کی تاریخ، بناوٹ، ہیت اور ان کی ساخت سے متعلق معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔ تفصیل میں جائے بغیر اتنا بتاتا چلو   کہ ماہرین علم حجریات اول چٹانوں کو تین گروپ میں تقسیم کرتے ہیں۔

۱۔ آتشی چٹانیں(Igneous rocks)

یہ لاوا سے بنتی ہیں جب لاوی آتش فشاں پہاڑوں سے باہر مائع،  گیس کی صورت میں آتا ہے اور زمین پر آنے کے بعد ٹھنڈا ہوکر سخت ہو جاتا ہےاسی طرح اس کے گیس کے اجزاء بھی دور جا کر ٹھنڈے ہوکر پتھر  کی طرح  سخت ہو جاتے ہیںان پتھروں میں ذیادہ  تر معدنیات (metallic ores) ہوتی ہیں۔ مثلاً لوہا، میگنیز، سونا، چاندی، پلاٹیم، ایلومونیم اور ساتھ ہی ساتھ ان پتھروں میں جواہرات بھی ہوتے ہیں۔

۲۔رسوبی چٹانیں(Sedimentary rocks)

جن کو (Earthy rocks) بھی کہا جا سکتا ہے اور جنس ارض کا  اطلاق ان ہی اقسام کی (Rocks) پر ہوتا ہے۔ یہ چٹانیں سمندروں میں مٹی کے ذرات  کی تہہ بہ تہہ جمنے کے باعث بنتی ہیں  مثلاً رسوبی پتھر(Sandstone) یا سمندر کے اندر (Precipitation) کے عمل کے ذریعہ بنتی ہیں جیسے چونےکا پتھر (Limestone) یا پھر (Evaporation) کے عمل سے بنتی ہیں مثلاً لاہوری نمک ، (Rock salt)جپسم(Gypsum)وغیرہ۔

۳۔متغیر چٹانیں(Metamorphic Rocks)

یہ چٹانیں آتشی یار سوبی میں تبدیلی کے باعث بنتی ہیں کہ جب ان دونوں میں سے کوئی سی چٹانیں ایک زمانے تک ذیادہ(Pressure) اور ذیادہ(Temperature) کے زیرِ اثر ہوتی ہیں تو ان میں تبدیلی آجاتی ہیں مثلاً چونے کا پتھر تبدیل ہو کر ماربل(Marble) میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

           ماہرین حجریات نے ہر قسم کی چٹان میں موجود معدن(Minerals) کو دو بنیادی اقسام میں تقسیم کیا ہے۔        

  • دھاتی معدن(Metallic Minerals)
  • غیر دھاتی معدن(Non Metallic Minerals) یا پھر ماہرین نے معدن کی کیمیائی ترکیب(Chemical Composition) کی بنیادپر آٹھ گروپ میں تقسیم کیا ہے مگر لفظ دھات کی تعریف کسی بھی ماہر نے نہیں کی مگر امام احمد رضا نے نہ صرفMetal کی تعریف (Definition)بتائی بلکہ جنس عرض معلوم کرنے کے لئے ایک کلیہ ( Heat test or flame test) استعمال کیا ہے۔کہ آگ کا ان پر کیا اثر ہوتا ہے۔ ان اثرات کی بنیاد پر ان پتھر وں کی اقسام بتائی جاتی ہیں خیال رہیں کہ یہاں پتھر سے مراد وہ خاص چیز ہے جو پتھر ہے یا پتھر نما مگر اس کا تعین کہ وہ جنس ارض (Earthy) ہے یا نہیں اس وقت ہوگا جب اس کو آگ(Heat) فراہم کریں اور پھر اس میں تبدیلی آئے چنانچہ آپ نے جنس ارض کے لئے (کتاب حلیہ کے حوالے سے) ایک قانون (Law) یہ فراہم کیا  کہ:

جنس ارض وہ ہے جو آگ سے جل کر راکھ (Ash) نہ ہو جائےاور جو نرم(Soft) نہ ہو اور  منطبع(Malleable) نہ ہو۔

(جدید فتویٰ رضویہ جلد سوم ص ۵۸۲ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

امام احمد رضا جنس ارض  کے حوالے سے رقم طراز ہیں

’’علماء کرام نے بیان جنس ارض میں ان آثار سے کہ اجسام نار سے پیدا ہوتے ہیں پانچ لفظ(five character) ذکر فرمائے ہیں ‘‘احترق، ترمد،  لین، ذوبان، اور انطباع(ص ۵۷۹)

امام احمد رضا ہر ایک سے متعلق تفصیلاً رقم طراز ہیں:

۱۔ احتراق(Burning)

شئے اثر نار سے کل ً(completely) یا بعضاًٍ(partially) فاسد (spoil) و خارج  عن المقاصد (not remain as original) ہو جائے۔ جیسے زمین سوختہ (Baked earth) کے اثر نار سے بشدت گرم ہوکر سیاہ ہو گئی  .......اس سے تیمم جائز ہے۔(ص ۵۸۰)

                 اس عمل میں امام احمد رضا نے یہ بتایا ہے کہ آگ کی تپش سے زمین کی رنگت تو بدل سکتی ہے مگر وہ زمین کے اجزا ہی رہیں گے اس لئے اس کا اطلاق جنس ارض سے ہوگا اور اس سے تیمم جائز ہے چنانچہ طحطاوی اور شامی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:

’’جب زمین کی مٹی کسی اور ملنے الی چیز کے بغیر اس حد تک جلا دی گئی ہوکہ سیاہ بن گئی ہو تو اس سے تیمم ہو سکتا ہے اس لئے کہ اس سے محض مٹی کے رنگ میں تغیر آیا ہے حقیقت اور ذات میں تبدیلی نہیں آئی (ص ۵۸۰)

۲۔ترمدُّ (Ash) راکھ ہو جانا:

امام احمد رضا اس  عمل کے لئے چار صورتیں بیان کرتے ہیں جس میں شئے جل کر راکھ ہو جاتی ہے۔

(۱)انتفا (Sublimation) جب شنی جل کر بلکل فنا ہو جائے  جیسے گندھک (Sulfur)  یا نوشادر  AICL2(جو آگ کے اثر سے  بلکل غائب ہو جاتے اور بخارات بن کر اڑ جاتے ہیں) ۔

(ب) انطفا (Resituate)  بعد عمل نار اس کے سب اجزاء برقرار رہیں مگر پانی کی کوئی نمی تھی وہ خشک  (Dry) ہو گئی ۔

(اس عمل میں اس شی میں موجود پانی خشک ہو جاتا ہے اور وہ بعد میں راکھ کی شکل اختیار کر لیتی ہے)

(ج) انتقاص ۔ اس کی بھی دو صورتیں  ہیں:

(۱)تکلیس احجار (Anhydrates) ۔ نار  جب کسی شئی کے اجزاء رطبہ و یابسہ (Dry and wet particles) میں تفریق (Separation) کردے۔ نہ حجم میں فرق آیانہ بہت ضعیف (Weak rock) ہوا۔

(۲)ترمد ۔ ASH اس میں اگر رطوبات کثیرہ سب فنا (Dry)  ہو نے سے پہلے آگ بجھ گئی اور دوبارہ جلنے کی صلاحیت باقی رہی تو یہ انکشت، کولا (Coal) ہے ورنہ راکھ (Ash) جس کے اجزاء ہاتھ لگنے سے بکھر جاتے ہیں ۔

  • لین (Calcination)

اس میں ہر شی پک کہ (Through Burring or Banking) اپنی اصلی حالت سے نرم ہو جاتی ہے جیسے چونا۔

امام احمد رضا اس عمل میں اپنا ایک مشاہدہ اقوال کے تحت نقل کرتے ہیں۔

’’اس میں ( لین کے عمل میں) کلا ’’یا بعض‘‘ بقائے  جسم (    Remaining part) شرط ہے۔ نیز یہ لازم کہ اگر چہ گرہ (Bounding) قدر سے سست (Loose) ضرور  ہوئی کہ پہلی سی باہم گرفت (Cohesiveness) و صلابت  (Stiffen / Hardened) نہ رہی مگر جسم کہ منجمد تھا اپنے انجماد پر رہے۔(ص۵۸۱)

  • ذوبان پگھل جانا (Melting)

اس عمل کے  متعلق  امام احمد رضا  اقوال کے ذریعہ اپنی فکر دے رہے ہیں:

’’یہ وہ صورت ہےکہ اجزاء موجودہ کی گرہ (Bonding) قریب الحال (یعنی بہت Loose Bonding حالت) ہے نہ تو پوری طرح کھل گئی ( کہ اجزاء جدا ہو جائیں ) کہ اثر نار سے ان میں کے رطبہ یابسہ کو چھوڑ کر اڑ جائیں (یعنی پگھلے ہوئے دھات کی سی صورت ہوتی ہے کہ وہ پانی کی طرح  بہنے لگتی ہے) نہ وہ گرفت رہی (melt کی صورت میں )  کہ بندھی رہے۔ لہذا یہ اجزاء رطبہ (Wet particles) فراق چاہ  کر اڑنا چایتے ہیں ) کہ آگ کی گرمی اس کی متقضی (کہ High Temperature میں پانی کی اجزاء   اپنی جگہ نہیں ٹھرتے  اور اڑ جاتے ہیں)وہ گرہ بہت سست ہو گئی لیکن  اجزاء یابسہ ۔Dry Particles انہیں یعنی (Wet particles)  کو نہیں چھورتے  کہ ہنوز تماسک (Cohesiveness or power to hold together)  باقی ہے اس کشمکش میں روانی تو ہوئی مگر  مع بقائے اتصال (Contact of dry and wet particles)  زمین ہی پر رہی اس نے صورت سیلان (flow) پیدا کی‘‘۔ (ص ۵۸۱)

اس عمل میں امام احمد رضا  کی Metal سے متعلق تعریف سامنے آتی ہے  جو اس طرح ہے:

’’ Metal (دھات) وہ شی ہے کہ جب اس کو اثر نار کے تحت رکھا جائے تو وہ مائع کی طرح بہے گی اس میں موجود رطبہ و یابسہ اجزاء علیحدہ  نہ ہو سکیں گے اگر چہ عمل نار سےان کے Bonds کمزور ضرور ہو جاتے ہیں یعنی wet & dry particles کے Bonds ٹوٹتے نہیں  اور ان میں باہم Contact رہتا ہے اگر  یہ bond نوٹ جائے تو پھر پانی کے اجزاء   اڑ  جائیں گے اور اس کی پگھلی حالت فوراً ختم ہو جائے گی  اور سخت  چیزکی طرح جسم باقی رہ جائے گا ۔ یہ اگرچہ Melting Process کا بیان  ہے مگر  Metal کی تعریف یہ نکل کر سامنے آئی  کہ:

’’شیء جب عمل ناز سے گزرے تو مائع کی  طرح بہے اور اس کے دونوں اجزاء جدانہ ہوں‘‘۔

  • انطباع(Malleability)

یہ لفظ اگر چہ عربی ہے مگر زبان عرب پر نہیں  نہ ان سے کبھی منقول و لہذا  اقاموس ، محیط  حتی  کہ تاج العروس کے مستدرکات تک اس کا پتہ  نہیں  ہاں فقہاء کرام  نے اس کو استعمال کیا ہے ۔ جس کا پہلا سراغ امام شمس الا ئمہ سرخسی تک چلتا ہے شیخ الاسلام خزی نے اس کے معنی (پارہ پارہ نرم ہونا) فرمائے ہیں (ص ۵۸۱)

اس کے بعد اقوال کر کے فرماتے ہیں :

’’اس سے تو یہ ظاہر کہ لین انطباع میں داخل اور اس کا جز ہے لیکن علامہ خسرو نے انطباع کو خوس لین سے تفسیر  کیا ہے جس سے روشن کہ دونون ایک چیز ہیں ‘‘

مزید اپنی تحقیق کہ انطباع کیا ہے لکھتے ہیں:

’’انطباع  طبع سے  ماخوذ ہے طبع بمعنی عمل صنعت ہے تو انطباع بمعنی قبول صنعت ہے یعنی شی کا قابل ہو جاناکہوہ جس طرح گھڑنا چاہے گھڑ سکے جس سانچے میں ڈھالنا چا ہیں  ڈھل سکے اور یہ نہ ہو گا  مگر بعد لین و نرمی تو لین (Softness) نہ اس کا عین نہ جز بلکہ اس کی علت اور گھڑنے کی صورت میں اسے لازم ہے جیسے سونا چاندی ، لوہے کا آگ سے نرم ہو کر ہر قسم کی گھڑائی  کے قابل ہو جانا اور ڈھانے کی صورت میں ذوبان (Melting) اس کی علت ہے۔(۵۸۳)

                    امام احمد ر ضا نے واضح طور سے اس بات کی نشاندہی  فرمائی ہے کہ کچھ قسم کے پتھر  یا معدن ایسےہو تے  ہیں کہ آگ پر وہ اتنے نرم ہوجاتے ہیں کہ ان کو میںجس سانچے میں ڈھالنا  چاہیں  ڈھل جاتے ہیں اوریہ عمل مختلف قسم کی دھات بنانے میں یا Alloy بنانے میں کام آتا ہے  جس سے اور مختلف چیزیں بنالی جاتی ہیں اس پر  مزید تحقیق کی جائے تو امام احمد رضا کا نظریہ Metallurgy بھی سامنے آسکتا ہے۔ قدرت نے امام احمد رضا کو حقیقتاً تمام  علوم و فنون کی بھر  پور سمجھ اور صلاحیت عطا کی تھی۔     

 

 

 

                                                            


متعلقہ

تجویزوآراء