امام احمد رضا اور نظریہ صوت و صدا

 امام احمد رضا اور نظریہ صوت و صدا

 ڈاکٹر عبد النعیم عزیزی

  آج اہل ِ مغرب کو جس سائنسی  اور ریاضیاتی علوم پر ناز ہے وہ مسلمانوں ہی کی دین ہیں ۔لیکن جب رفتہ رفتہ مسلمان اپنے دین اور علم دین  سے دور ہوتے گئے تو  دنیوی علم بھی     ان کے ہاتھو ں سے نکلتے چلے گئے  مگر ہر دور میں ایسے مسلم علماء و حکماء جنم لیتے رہے  جنہوں نے عقلی علام و فنون میں اپنے کمال کا اظہار کر کے  اہلِ مغرب کو یہ احساس دلایا  ہے کہ یہ علوم تمہارے دماغوں کے اپج نہیں بلکہ ہمارے اسلاف کی رہین منت ہیں۔

۱۹ ویں صدیں عیسویں میں بریلی کی دھرتی  پر امام احمد رضا نام کے ایک  ایسے ہی عظیم المرتبت  عالم  دین  اور عبقری میں جنم لیا  جا نے اپنی ۲۵ سالہ زندگی میں ۲۵ سے زائد علوم پر مہارت   ظاہر کر کے  زمزنہ کو حیرت ذدہ کردیا  وہ سائنسی علوم میں کیمیا ، ارضیات، جغرافیہ ، حیاتیات، اور نباتات وغیرہ  کے علاوہ علم طبیعات (physics) پر بھی حاوی تھے ۔ انھوں نے مغربی سائنسدانوں گیلی  لیو، کپلر، ہرشل نیوٹن اور آئن سٹائن کے مختلف نظریوں اور تھیوریوں کا ردو  ابطال بھی کیا ہے اور ان سائنسدانوں  کا تعاقب کیا ہے۔

  امام احمد رضا  نے سائنس کو بھی اسلامی  رنگ میں رنگ کر ،  دینی علوم میں ان کا استعمال فرما کر انہیں علوم دینیہ بالخصوص علم فقہ کا خادم  علم  طبیعات  کو ماہرین طبیعات نے سائنسی علوم میں سب سے زیادہ  اہم اور مشکل علم تسلیم کیا ہے ۔ انھوں نے  اسے مندرجہ ذیل  برانچوں میں تقسیم کیا ہے۔

۱۔  میکانکس اور مادے کی عام خصوصیات ( mechanics & general properties of matter)

۲۔ حرارت (heat)

۳۔ روشنی یا نور (light)

۴۔ صوت و صدا (sound)

۵۔ مقناطیسیت (magnetism)

۶۔ برق یا بجلی (electricity)

ماہرین طبیعات نے بجلی (electricity) ہی کے تحت  الیکٹرنکس  (electronics) اور ایٹمی تھیاری (atomic theory) کو بھی رکھا ہے۔

امام احمد رضا نے علم طبیعات کے مندرجہ بالا  برانچوں میں اپنے  نظریات پیش کئے ہیں۔ ثبوت کے لئے آپ کی حسب ذیل تصانیف دیکھی جاسکتی ہیں :

۱۔ فوز ِ مبین در رد  حرکت زمین

۲۔ نزولِ آیت فرقان بسکون زمین و آسمان

۳۔ معین مبین بہر دور شمس سکون زمین  

۴۔ فتاویٰ رضویہ جلد اوک ، جلد دہم وغیرہ

طبیعات کی برانچ ’’ صوت و صدا ‘‘ (sound) پر بھی ا مام احمد رضا نے اپنے نظریات پیش کئے ہیں ۔ آواز (sound) کے سلسلے میں امام احمد رضا نے بالتفصیل سائنسی انداز میں بحث کی ہے :

۱۔  آواز کیا ہے؟

۲۔آواز لیو نکر پیدا ہوتی ہے؟

۳۔  آواز کیونکر سنن میں آتی ہے؟

۴۔ آواز اپنے ذریعہ حدوث کے بعد بھی باقی رہتی ہے یا اس کے ختم ہوتے ہی فنا ہو جاتی ہے ؟

۵۔ ( آواز ) کان کے باہر بھی موجود ہے یا پھر کا ن میں پیدا ہوتی ہے ؟

۶۔ آواز کنندہ کی طرف اس کی اضافت کیسی ہے ، وہ اس کی صفت ہے یا کسی چیز کی ؟

۷۔ ( آواز) اس کی موت کے بعد بھی باقی رہ سکتی ہے یا نہیں ؟

 امام احمد رضا نے ان اصولوں کی ایسی صراحت فرمائی ہے  جو جدید طبیعات (modern physics) سے بلکل مطابقت رکھتی ہے ۔  )فتاویٰ رضویہ ، جلد دہم ، نصف آخر ص : ۱۲ تا ۱۶ ۔ مطبوعہ بریلی شریف)

۱،۲،۳ آواز کیا ہے  ؟ آواز کیو نکہ پیدا ہوتی ہے ؟ آواز کیونکر سننے میں آتی ہے ؟

 امام احمد رضا فرماتے ہیں :   

’’   ایک جسم کا دوسرے سے بقوت ملنا جسے قرع کہتے ہیں  یا بہ سختی جدا ہونا   کہ قلع کہتے ہے  جس ملائے لطیف مثل ہوا یا آب میں ہو اس کے اجزائے مجاورہ  میں ایک خاص تشکیل و تکییف لاتا ہے اسی شکل و کیفیت   مخصوصہ  کا نام آواز ہے ۔ یہ ہوائے اول یعنی جس پر ابتداء وہ قرع و قلع واقع ہوا  جیسے صورت کلام میں  ہوائے دہن  متکلم   اگر بعینہ ہوائے گوش  سامع ہوتی تو یہیں  وہ آواز سننے میں آجاتی  مگر ایسا نہیں لہذا حکیم عزت  حکمتہ   نے اس کی آواز کو گوش سامع  تک پہچانے یعنی ان  ان مشکلات کو اس کے ہوا ئے  گوش میں بنانے کے لئے  سلسلہ تموج قائم  فرمایا ۔ظاہر ہے کہ  ایسے  نرم و تر اجسام میں تحریک سے موج بنتی ہے جیسے تالاب میں کوئی پتھر ڈالوں یہ اپنے مجاور اجزائے آب کو  حرکت دے گا   وہ اپنے متصل وہ اپنے مقام کو جہاں  تک کہ اس تحریک کی قوت  اور اس پانی کی لطافت  اقتضا کرے یہی حالت بلکہ  اس سے  بہت زائد ہوا میں ہے کہ وہ لینت و رطوبت میں  پانی سے کہیں  زیادہ ہے   لہذا قرع اول سے کہ ہوائے اول متحرک و متشکل ہوئی تھی اس کی جنبش نے  برابر والی ہوا کو قرع کیا  اس سے وہی اشکال ہوائے  دوم میں بنیں ، اس کی حرکت نے متصل کی ہوا کو دھکا دیا  اب اس سوم میں مرشم ہوئیں  یونہی ہوا کہ حصے بروجہ  تموج ایک دوسرے کو  قرع کرنے اور بوجہ قرع وہی اشکال سب میں بنتے چلے گئے یہاں تک کہ سوراخ  گوش  میں ایک پٹھا بچھا اور  پردہ کھنچا ہے یہ موجی سلسلہ اس  تک پہنچا  اور وہاں کی  ہوائے متصل   نے متشکل ہو کر اس پر پٹھے کو بجایا یہاں بھی بوجہ  جوف ہوا بھری ہے اس قرع نے بھی وہی اشکال و کیفیت  جس  کا نام  آواز  تھا قائم کی ............ اگرچہ جتنا فصل بڑھتا اور وسائط زیادہ ہوتے جاتے  ہیں  تموج و قرع میں ضعف آتا جاتا ہے  قرع پٹھا ہلکا  پڑتا ہے  ولہذا دور کی آواز  کم سنائی دیتی ہے  اور حروف صاف سمجھ میں نہیں آتے    ٍ  یہاں تک کہ ایک حد  پر تموج موجب  قرع آئندہ تھا ختم ہوجاتا ہے  اور عدم قرع سے اس تشکل کی کاپی برابر والی ہوا میں نہیں اترتی ، آواز یہیں تک ختم ہو جاتی ہے ۔ یہ تموج ایک مخروطی شکل پر پیدا ہوتا  جس کا قاعدہ ایک متحرک و محرک اول کی طرف ہے اور اس کے تمام اطراف مقابلے میں  جہاں ےک کوئی مانع نہ ہو جس طرح زمین سے مخروط ظلی اور آنکھ سے مخروط شعا عی  نہیں بلکہ جس طرح آفتاب سے مخروط نوری نکلتا ہے  کہ ہر جانب ایک مخروط ہوتا ہے‘‘ ( فتاویٰ رضویہ جلد دہم ، نصف آکر ص ۱۲، ۱۳ ، مطبوعہ بریلی  شریف)

 توضیح و تبصرہ:

 حرارت ۔ روشنی م اور بجلی کی طرح آواز بھی  توانائی (energy) ہے قرع ( ایک جسم کا دوسرے سے ٹکرانا) یا قطع دو اجسام کا ایک دو سرے سے جدا ہونا   جس ملائے فاضل (medium) میں واقع ہوتا ہے   تو اس کے اجزائےمجاورہ میں ایک خاص تشکیل  و تکییف لاتا ہے ۔ اسی خاص شکل و کیفیت کا نام آواز ہے ۔ گویا امام احمد رضا نے  جدید طبیعیات (modern physics) ہی کی تھیوری کی طرح  اپنا  نظریہ بھی پیش فرمایا ہے  کہ لہریں یا تموج (wave)کے بننے کا نام ہی آواز ہے اور تموج توانائی کا ایک روپ ہے   اور یہ مقام  یا نقطہ سے دوسرے مقام یا نقطہ   تک توانائی بھیجتے ہیں ۔

  جدید طبیعیات کا اصول ہے کہ :’’ sound is produced by a vibrating body‘‘  یعنی آواز مرتعش جسم سے پیدا ہوتی ہے ۔ اور ارتعاش پیدا کرنے کے لئے قرع  ( ایک جسم کا دوسرے سے ٹکرانا ) اور قلع ( دو اجسام کا قوت سے ایک دو سرے سے جدا ہونا ) ضروری ہیں ۔

 اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ امام احمد ر ضا نے بلکہ وہی نظریہ پیش کیا ہے جو جدید طبیعیات کی تھیوری ہے   ۔ امام احمد رضا لکھتے ہیں کہ ہوائیں گوش سامع نہیں ہے  بلکہ ان تشکلات کو اس کی ہوائے  گوش میں نہانے کے لئے سلسلہ تموج قائم فرمایا ۔ یہ لہریں یا تموج چلتی ہوئی سوراخ  گوش کے پٹھے تک  پہنچی (موجی سلسلہ) اور اسے بجایا اور چونکہ یہاں بھی جوف کیوجہ سے ہوا بھری ہے لہذا قرع کا عمل ہوا  اور آواز کان تک پہنچی اور انسان نے آواز  سنی یعنی جو بھی آواز یا الفاظ بولنے والے کے دہن سے خارج ہوئے انہیں سنا۔ فاصلہ بڑھنے کے سبب سلسلہ تموج کم ہو جاتا ہے ( لہروں کا بننا(demand harmonic motion) کا  عمل ہونا ۔  لہذا آواز دوری کے بڑھنے سے ہلکی سنائی دیتی ہے یا بالکل نہیں سنائی دیتی۔  امام احمد نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ یہ تموج  ایک  مخروطی شکل (conical form) پر پیدا ہوتا ہے‘‘۔

(آواز کی لہروں کے بننے اور سفر طے کرنا کا نوشہ)

   شکل (۱)  میں ج ح طول موج (wave length) ہے اور ایک ارتعاش پوری کرنے  کی مدت کو (time period) کہتے ہیں ۔  اس نقشہ میں اب اجزاء کی طے کی ہوئی ذیادہ سے ذیادہ دوری ہے جسے فراخی یعنی (amplitude) کہتے ہیں ۔

خلاصہ:امام احمد رضا کے نظریہ کے مطابق:

(۱)ملاء فاضل(medium) اور

(۲)تموج (wave-motion) لازمی ہیں ۔

(۳)اگر میڈیم یعنی آب یا ہوا وغیرہ نہ  ہو تو آواز نہیں پہنچے گی۔ یہی اصول جدید طبیعیات کا بھی ہے۔

ایک مقام پر امام احمد رضا تحریر کرتے ہیں ۔

۰۰ آواز پہنچنے کے لئے ملاء فاضل میں  تموج  چاہیے( الملفوظ حصہ اول ، مرتبہ مفتی اعظم ہند  مولانا محمد مصطفی  رضا خان علیہ الرحمہ ، ص ۱۰۴ ، مطبوعہ میرٹھ)

۰۰ آواز پہنچنے کے لئے مسام (pore) کی حاجت نہیں البتہ  جہاں تموج نہ ہو بذریہ مسام پہنچے گی ( ایضاً)

              جدید طبیعیات میں بھی اس طرح کی مثال دی گئی ہے کہ ایک جار (jar) یعنی شیشے کا  برتن لے کر اس کے اندر ایک  گھنٹی لگا دو اور  اسے باہر سے ایک بیٹری (battery)  سے جوڑدو ، باہر آواز سنائی پڑے گی لیکن اگر  پمپ کے ذریعہ اس جار کی اندر کی ہوا نکال دی جائے اور ایک دم خلاء (Vacuum)  کی صورت پیدا کر دی جائے ۔ اب  کرنٹ (current) دوڑانے سے آواز نہیں سنائی پڑے گی گو گھنٹی کے بجنے کا احساس ہوگا۔

امام احمد رضا   پختہ  اور خام عمارت کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ پختہ اور خام عمارت میں تموج نہیں البتہ منافذ مسام ہیں لہذا ان کے ذریعہ آواز  پہنچے گی‘‘۔(ایضاً)

سوال ۔  (۴) :آواز ذریعہ حدوث کے بعد بھی  رہتی ہے  یا اس کے ختم ہوتے ہی  فنا ہو جاتی  ہے؟ کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں : ’’ذریعہ حدوث قلع و قرع ہیں اور وہ آنی ہیں ۔ حادث  ہوتے ہی ختم ہو جا تی ہیں اور وہ شکل و کیفیت  جس  کا نام آواز ہیں باقی رہتی ہے تو وہ معدات ہیں  جن کا محلول کے ساتھ رہنا ضروری نہیں ۔ کیا نیہ دیکھا کہ کاتب مر جاتا ہے اور اس کا برسوں رہتا ہے ہوں ہی کہ زبان  بھی ایک قلم ہے ‘‘۔

 ( فتاویٰ رضویہ جلد دہم ، نصف آخر ، ص ۱۵ )      

 امام احمد رضا کا یہ نظریہ  بھی جدید طبیطیات کے مطابق ہے۔ مزید فرماتے ہیں :

’’ انقطاع تموج انعدام سماج کا باعث  ہوسکتا ہے کہ کان تک اس کا پہنچنا  بذریعہ تموج ہی ہوتا ہے نہ انعدام  صحت  کا بلکہ جب تک وہ شکل باقی ہے صوت باقی ہے۔  

یہیں سے ظاہر ہوا کہ دوبارہ اور تموج  حادث ہو تو اس سے تجدید سماع ہوگی نہ کہ آواز دوسری پیدا ہوئی جبکہ شکل وہی باقی  ہے‘‘۔

                     (ایضاً،ص:۱۶)

آواز کو ٹیپ ریکارڈ یا فوٹو گراف وغیرہ میں بھر لینے سے تموج (wave form) برقرار رہتا ہے گو آواز کا انعدام ہو جاتا ہے اور  چونکہ تموج ہی سنوانے کا باعث  ہوتا ہے  لہذا آواز اپنے حدوث کے بعد بھی باقی رہتی ہے۔

 ٹیپ ریکارڈ یا فوٹو  گراف چلانے پر اسی  تموج کا حدوث (production) ہوتا ہے اور اسی سے تجدید سماع ہوتی ہے نہ کہ دوسری آواز پیدا ہوتی ہے۔

سوال (۵): کیا آواز کام سے باہر بھی موجود ہے یا  کان میں پیدا ہوتی ہے؟  جواب میں امام احمد رضا فرماتے ہیں:

’’ ضرور کان سے باہر بھی موجود ہے بلکہ  باہر  ہی سے منتقل  ہوتی ہوئی کان  تک پہنچتی ہے‘‘ ( فتاوی رضویہ ، جلد دہم ، نصف آخر ،ص ۱۵ )

سوال (۶) : (آواز) کی آواز کنندہ کی طرف ا ضافت کیسی ہے وہ  اس کی صفت ہے یا کسی چیز کی؟

جواب میں لکھتے ہیں :

’’ وہ آواز کنندہ کی صفت  نہیں بلکہ ملائے متکیف کی صفت ہے۔ ہوا ہو یا پانی وغیرہ مواقف سے گزرا الصوت کیفیتہ قائمہ با لھوا آواز  کنندہ کی حرکت قرعی و قلعی سے پیدا ہوتی ہے  لہذا اس کی طرف اضافت کی جاتی ہے ‘‘( ایضاً،ص ۱۶)

سوال (۷): کیا آواز انسان کی موت کے بعد بھی باقی رہتی ہے؟ کے جواب میں لکھتے ہیں :

’’جب کہ وہ آواز کنندہ کی صفت  نہیں بلکہ ملائے متکیف سے قائم ہے تو اس کی موت کے بعد بھی باقی رہ سکتی ہے ، کمالا یخفی ‘‘ ( ایضاً ،ص ۱۶)

خلاصہ کلام:  امام احمد رضا کے نظریات سے واضح ہے کہ:

۱........آواز توانائی(energy) ہے

۲.......آواز پہنچنے کے لئے ملاء فاضل(medium) ضروری ہے۔

۳......اور ا س کے لئے تموج (wave form) چاہیے۔

۴.......بغیر میڈیم کے تموج  نہیں لہذا آواز نہ پیدا ہوگی جیسا کہ آئینہ میں یا خلاء (vacuum) میں جہاں ہوا نہیں !

۵.....ہوا اور پانی دونوں آواز کے میڈیم ہیں ۔

کتابیات:

۱.....فتاوی رضویہ  دہم نصف آخر ا ز امام احمد رضا

۲.... الملفوظ ( ملفوظات امام احمد رضا ) مرتبہ مفتی اعظم ہند

۳........Modern physics by s.k Agarwal


متعلقہ

تجویزوآراء