امام احمد رضا اور پانی کی رنگت

امام احمد رضا  اور پانی کی رنگت

( پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری)

 امام احمد رضا خان بریلوی ﷥ مفسر،  محدث،،فقہیہ، مفتی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم سائنسدان بھی ہیں ۔ آپ کو سائنس کے تمام علوم و فنون میں کمال مہارت حاصل ہے ۔ آپ ہر علم و فن پر اس طرح بحث کرتے ہیں کہ جیسے برسوں سے اس علم کی تحقیق میں مصروف ہیں ۔ بحث کے وقت تحقیق کی تمام ضروریات کو پورا کرتے ہیں ۔ آپ  ما قبل زمانہ  کی تمام تحقیق کو پہلے یکجا  کرتے ہیں ۔  اس پر بحث کرتے ہیں اگر اقوال میں تضاد ہوتو  دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔  اور اگر کوئی سہو نظر آئے اس کی تصحیح کرتے ہیں، مزید دلائل کے ساتھ  اس کو مزین کرتے ہیں  پھر اپنی تجاویز ، مشاہدات اور نظریات بہر پور دلائل کے ساتھ پیش کرتے ہیں یہاں  ہم امام احمد رضا خان بریلوی ﷥ کی تحقیق کا ایک نمونہ پیش کرتے ہیں ۔

مسئلہ یہ تھا کہ :’’ آب مطلق کہ وضو و غسل کے لئے درکار ہے اسکی کیا تعریف ہے  اور آب مفید کسے کہتے ہیں ‘‘

       ( فتاویٰ رضویہ جلد اول ص ۴۰۷ مکتبہ رضویہ کراچی )

اور آپ نے ایک عظیم رسالہ بعنوان’’ النور و النورق لاسفار الماء المطلق ‘‘ ۱۳۲۴ھ ( آب   مطلق   کا حکم روشن کرنے کے لئے نور اور نورق) لکھا جو فتاویٰ رضویہ کے ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ آپ نے اس رسالے کو پانچ ابواب پر تقسیم کیا:۔

۱۔ اول جزئیات منصوصہ

۲۔ تعریف مطلق و مقید

۳۔ ضوابط جزئیہ متون

۴۔ ضوابط کلیہ  متاخرین

۵۔ جزئیات جدیدہ کے احکام

 فصل خاص جزئیات جدیدہ میں امام احمد رضا خان بریلوی ﷥ کی کتب سابقہ سے ۳۰۷ جزئیات آب مطلق اور  آب مقید کا ذکر کرنے کے   بعد اپنی معلومات اور مشاہدات کی روشنی میں ۴۳ جزئیات کا اضافہ فرماتے ہیں۔ اسی فصل کے اندر فوائد کے تحت آپ کے بہت سے اقوال موجود  ہے    جو آب مطلق و مقید ہونے کے  سلسلے میں ہیں ۔ وضو  غسل کے سلسلے میں پانی کی تین شرائط  ضروری ہیں :  اول رنگ ، دوم بو ، سوم ذائقہ ، ، تینوں میں سے ایک یا تینوں چیزیں پانی   میں پائی گئیں تو غسل و  وضو اس پانی سے نہیں ہوتا  اور تین اوصاف سے صرف پانی رنگ  سے متعلق امام احمد رضا خان بریلوی ﷥ کے نظریہ اور تحقیق کو یہاں   اختصار کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے بحث بہت طویل اور  بہت ممکن ہے کہ اختصار کی صورت میں بعض قارئین کو دشواری محسوس ہوتی ہوتو اس سلسلے میں فتاویٰ رضویہ  جلد اول کے مذکورہ صفحات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

 یہاں اختصار کے ساتھ پانی کی رنگت کا نظریہ پیش کیا جارہا ہے ۔

پانی کی رنگت

  پانی ایک لطیف ( سیال) چیز ہے جو تیزی  سے متاثر ہوتا ہے  لہٰذا جو چیز پانی کے اوصاف کے خلاف ہوگی  وہ مقدار میں پانی کے مساوی ہونے سے قبل  ہی پانی پر اثر انداز ہو جاتی ہے اور پانی کے اوصاف ( رنگ ، بو، ذائقہ) کیہ تبدیلی کے لئے پانی کی مقدار ( اسی شئے) کے برابر ہونا ضروری نہیں ، نیز تبدیلی کا عمل سب سے پہلے پانی کے کمزور وصف  (character) میں ہوگا لہذا جوچیز رنگ ذائقہ میں پانی کے مخالف ہوگی  وہ پہلے پانی کے رنگ کو اور اس کے بعد ذائقہ کو تبدیل کرے گی۔   لہذا  اگر پانی میں ملنے والی چیز  صرف رنگ میں مخالف ہے  تو پانی پر اس کا غلبہ صرف  رنگ کے تبدیل ہونے سے ظاہر ہو ئیگا  اور اگر وہ چیز  غلبہ کی صورت میں پانی کا رنگ تبدیل نہ کر سکے  تو ذائقہ کو  ہرگز تبدیل نہ کر سکے گی ۔۔۔۔۔۔ لہذا جب پانی کا رنگ تبدیل نہ ہوا تو معلوم ہوا کہ ابھی تک پانی میں تبدیلی کا کوئی سبب نہیں پایا گیا  ۔۔۔۔  اور جب تبدیلی کا  کوئی  عمل ظاہر   نہ ہوا تو معلوم ہوا کہ   ابھی تک  وہ چیز مغلوب ہے اور مانی غالب ہے  اس لئے تبدیلی کے ظہور کے لئے  صرف رنگ کو معیار قرار دیا گیا  ہے  ۔۔ ۔ ہاں اگر کوئی چیز رنگ میں پانی کے  مخالف نہ ہو تو اجزاء میں غلبہ کے وجود اس کے ملنے پر پانی کا  رنگ نہیں بدلے گا  تو اس صورت میں ذائقہ کا اعتبار ہو گا۔

                                                      (فتاویٰ رضویہ  جلد سوم (جدید) ص ۲۲۹۔۲۳۰ لاہور)

پانی کے رنگ کے متعلق  علماء کا مؤقف

بعض علماء کا خیال ہے کہ پانی بے لون (رنگ) ہے اور خود کوئی رنگ نہیں رکھتا ۔

 احمد بن ترکی مالکی  نے ’’ شرح جواہر ذکیہ‘‘ میں  رنگ سے متعلق یہ تعریف کی ہے:

’’  پانی ایسا لطیف بہنے والا جوہر ہے   جس کا اپنا کوئی رنگ نہیں  بلکہ برتن  کے رنگ سے رنگدار  دکھائی دیتا ہے۔‘‘ ( ص ۲۳۵)

  امام احمد رضا خان بریلوی ﷥ فرماتے ہیں :۔

’’  میں کہتا ہو کہ ان پر لازم تھا کہ وہ یو ں تعرلف کرتے کہ اس میں ملنے والی چیز سے  رنگ دار ہوتا ہے‘‘

  اس رسالے کے محشی کے حوالے سے فرماتے ہیں ’’ پانی کے شفاف ہونے کی وجہ سے   برتن کا رنگ اس میں ظاہر ہوتا ہے  جب سبز برتن میں ڈالیں  تو سبزیں پانی کو نہیں لگتی ( یعنی سبز رنگ اختیار نہیں کرتا ) بلکہ وہ وقت ( صفت) کی بناء پر برتن کے رنگ  کے لئے  حاجب (آڑ) نہیں بنتا‘‘ 

                                                     ( فتاویٰ رضویہ ص ۲۳۶ )

امام احمد رضا خان بریلوی ﷥   پانی کے بے رنگ مؤقف کے سلسلے میں  ’’ شرح مواقف‘‘  سے بھی ایک حوالہ نقل  کرتے ہیں

’’ برف شفاف اجزاء سے مرکب ہے  اس کا کوئی  رنگ نہیں  بلکہ وہ پانی کے باریک اجزاء ہیں ‘‘

امام احمد رضا خان بریلوی ﷥    اس مؤقف کی وضاحت بیان  کرتے ہوئے اپنا خیال پیش کرتے ہیں کہ شاید  کوئی خیال  کرے  کہ اجزاء باریک ہونے کے باعث کوئی   رنگ نہ رکھتے ہوں  تو ایسا نہیں ہے ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں :

’’ ایسا ہرگز نہیں کیو نکہ آپ دیکھتے ہیں کہ  بادل کے بخارات میں رنگ ظاہر ہوتا ہے  اور یہ رنگ پانی کے اجزاء کا ہی رنگ ہے حالانکہ یہ اجزاء برف کے  اجزاء سےزیادہ  باریک  ہیں یہی وجہ ہے کہ برف اوپر سے گرتی ہے ( اجزاء بخارات سے بھاری ہیں ) اور بخارات اوپر کو اوٹھتے ہیں ۔ باریک اجزاء اگر علحیدہ ہوتو نظر نہیں آتے تو اس کا رنگ کیسے نظر آئے گا  اور چھوٹے اجزاء جب جمع ہوتو نظر آتے ہیں توان کا رنگ بھی  نظر آئے گا جیسا کہ بخارات اور دھویں  میں ‘‘ ( ص ۲۳۶)

امام احمد رضا خان بریلوی ﷥  پانی کے رنگ کے قائل ہیں اور امام فخر الدین رازی سمیت کئی فقہاء کے اس  مؤقف کی حمایت کرتے ہیں  کیونکہ پانی کا رنگ دار  ہونا ، احادیث میں بھی آیا ہے یہا ں صرف ایک حدیث نقل کی جاتی ہے۔

بیشک پانی پاک ہے اسے کوئی چیز نجس نہیں بناتی مگر وہ چیز جو پانی کی رنگ ، بو، ذائقہ پر غالب ہو جائے (ابن ِماجہ )

 اس کے بعد فقہاء کے اقوال  پانی کے رنگ سے متعلق نقل کئے ہیں یہ بتاتے ہوئے کہ فقہاء کا پانی کے رنگ کے بارے میں اختلاف ہے۔

ہوسف بن اسمٰعیل مالکی حاشیہ عثماویہ سے نقل کرتے ہیں ۔

’’ پانی کا جو رنگ نظر آتا ہے وہ سفید ہے اس کی شہادت حدیث سے ملتی ہے جس میں پانی کی صفت میں کہا گیا ہے کہ وہ دودھ سے ذیادہ سفید ہے  اور اس حقیقت پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے  کہ جم کر جب برف کی صورت میں  زمین پر گرتا ہے تو اس کا رنگ انتہائی سفید نظر آتا ہے ‘‘

                                               (فتاویٰ رضویہ (جدید) ص ۲۳۸جلد ۲ )

امام احمد رضا خان بریلوی ﷥  پانی کے سفید نہ ہونے پر استدلال پیش کرتے ہیں ۔

۱۔ پانی کا رنگ سفید نہیں ولہذا آبی رنگ اس کو کہتے ہیں کہ   نیلگونی کی طرف مائل ہو۔

۲۔ سفید کپڑے کا کوئی حصہ دھویا جائے جب تک خشک نہ ہو اس کا رنگ ساہی مائل رہے گا یہ پانی کا رنگ  نہیں تو کیا ہے۔

۳۔ دودھ جس میں پانی ذیادہ  ملا ہو سفید نہیں رہتا بلکہ نیلا ہٹ لے آتا ہے۔

۴۔ بعد انجماد کوئی نیا رنگ پیدا ہونا اس پر دلیل نہیں کہ یہ اس کا اصلی  رنگ ہے مثلاً خشک ہونے پر خون سیاہ ہو جاتا ہے ۔

 بعض فقہاء نے پانی کا رنگ سیاہ بھی بتایا ہے اور اس پر ایک حدیث سے سند بھی لائے ہیں کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ  صدیقہ ﷦ نے حغرت عروہ بن زبیر ﷦  سے فرمایا:

’’ اے میرے بھانجے خدا کی قسم ہم ایک ہلال دیکھتے ، پھر دوسرا اور پھر تیسرا ، دو مہینہ میں تین چاند اور کاشانہ ہائے نبوت  میں آگ روشن نہ ہوتی ، عروہ نے عرض کی اے خالہ پھر اہل بیت کرام ان مہینوں میں کیا کھاتے تھے ؟ فرمایا بس دو سیاہ چیزیں چھوہاڑے اور پانی‘‘( صحیحین ) (ص۱۴۳)

امام احمد رضا خان بریلوی ﷥  اسی حدیث کی روشنی میں پانی کے رنگ سیاہ نہ ہونے کی توجیہ بیان کرتے  ہیں  کہ:

’’ حضرت ام المؤمنین ﷦ نے کھجور کو غالب قرار دے کر پانی کو سیاہ فرمایا کیونکہ کھجور خوراک ہے اور پانی مشروب ہے اور خوراک کو مشروب  پر فضیلت ہونے کی وجہ سے  کھجور کو پانی پر غلبہ ہے یا اس لئے اپنی کو سیاہ فرمایا کہ اس وقت ان کے پانی والے برتن گہرے رنگ دار ہونے کی بناء پر  غالب طور پر سیاہ ہوتے ہیں ‘‘ ۔(ص ۲۴۴)

آخر میں پانی کے حقیقی رنگ سے متعلق اپنے مشاہدات ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں  :

’’ حقیقت امر یہ ہے کہ پانی خالص سیاہ نہیں مگر اس کا رنگ سپید بھی نہیں بلکہ میلا مائل گونہ سواد خفیف ہے اور وہ صاف سپید چیزوں کے بمقابل آکر کھل جاتا ہے جیسا کہ ہم نے سفید کپڑے کا ایک حصے دھونے اور دودھ میں پانی ملانے کی حالت  بیان کی وللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ‘‘ ( نص ۲۴۵ )

 الحاصل امام احمد رضا خان بریلوی ﷥   کے نزدیک  نہ خالصتاً  سیاہ ہے اور نہ دودھ کی طرح سفید  بلکہ ہلکا سیاہی مائل ہے  جس کو Greyرنگ  کہا جا سکتا  ہے اور عام طور  پر پانی کو Colorless یعنی بے رنگ سمجھا جاتا ہے مگر یہ صحیح نہیں  کوئی نہ کوئی رنگ ضرور ہے  اور امام احمد رضا خان بریلوی ﷥  کی تحقیق اس کو سیاہ اور سفید  کے درمیان ثابت کرتی ہے لہذا ، پانی کا رنگ ہے اور یہ رنگ ہلکا سرمئی بھی کہا جا سکتا ہے

  ( ماخوذ ، فتاویٰ رضویہ اول ڈ ۴۰۷ مطبوعہ کراچی)

 
   

 


متعلقہ

تجویزوآراء