امام احمد رضا اور تحقیق مرجان(coral)

امام احمد رضا  اور تحقیق مرجان(coral)

از: پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری

امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی (م۱۳۴۰ء/۱۹۲۱ء) ابن مولانا مفتی محمد نقی  علی خان قادری برکاتی بریلوی (م،۱۲۹۷/۱۸۸۰) بیسوی صدی عیسوی کے عالم اسلام کی عبقری اور ماہر جملہ علوم و فنون  عظیم ہستی تھی اور اگر تمام  اہل ِ علم و فن بنظر انصاف غیر جانبدارانہ  فیصلہ  کریں  تو پوری صدی میں  انہیں صرف امام احمد رضا   کی شخصیت  نظر آئے گی جو تنے تنہا رہنے اپنے زمانے کے تمام مروجہ علوم و فنون کی ماہر قرار پاتی ہے لہذا اگر آپ کو  بیسویں صدی  عیسویں کی ماہر جملہ علوم و فنون  شخصیت قرار دیا جائے تو بیجانہ ہوگا شاعر نے سچ کہا ہے:

اگلوں نے تو لکھا ہے بہت علم دین پر

جو کچھ ہے اس صدی میں وہ تنہا رضا کا ہے

امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی کو  بیسویں صدیں عیسویں کی عظیم ترین ہستی ہونا چاہئے  کیو نکہ اس  فرد کامل نے  آج سے ۸۰ سال  قبل جو سائنسی ، دینی ،ادبی، معاشرتی، معیشتی معلومات فراہم کی تھیں۔ وہ ان کی علمی و سعتوں  اور جہتوں کا آئینہ دار ہیں۔ حقیقتاً اصل کمال یہ ہے کہ امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی سائنسی  علوم و فنون  کے ہر ہر شعبہ کے متعلق سرسرسی نہیں  بلکہ اس کے جزئیات و کلیات کے تمام اصول و ضوابط سے آگاہ  ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر علم و فن پر تحقیقتاً انداز میں  صفحات کے صفحات تحریر فرماتے جاتے ہیں ۔

          امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی صرف مختلف  علوم و فنون کے سمندروں میں غوطہ لگا کر ہی  موتیوں کی لڑیاں پیش نہیں  کرتے   بلکہ وہ حقیقی سمندروں  میں بھی غوطہ زن ہو کر وہاں کے پوشیدہ خزانوں کی  معلومات فراہم کرتے ہیں اور موتی اور مونگا کےبننے  کے عمل کو اپنے قارئین تک پہنچاتے  ہیں۔ وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سمندر کی تہ میں کیا کیا  عمل ہو رہے  ہیں ، کہا سے زمین کھسک رہی ہے کہا پر سمندر میں پتھر اور پہاڑ بن رہے ہیں ،کون کون سے جانور سمندر کی تہ میں پائے جاتے ہیں ، مچھلی اور جھینگے میں کیا فرق ہے اور سمندر میں موتی اور مونگا (مرجان) کس طرح بنتے ہیں۔

      امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی پر  اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم نظر آتا ہے کہ آپ ہر علم سے صرف  آگاہ ہی نہیں بلکہ اس علم کے تمام اصول و ضوابط کے بھی عارف ہیں یہی وجہ ہے کہ جب آپ اپنے اسلاف کی تحقیق کو پیش کرتے ہیں تو ان کے سہو کو اصول و ضوابط کی روشنی میں اشارہ کرتے ہیں مگر ان کے اپنے سائنسی مقالات میں کوئی بات یا دلیل اصول کے خلاف نہیں ملتی۔ سب سے ذیادہ اہم امر یہ ہے کہ  ان کا کوئی بھی سائنسی نظریہ قرآن و حدیث کی کسی بھی عبارت یا آیت کے مخالف نہیں  ہوتا بلکہ وہ ہر اصول کو ان دونوں ماخذ کے آئینہ میں پرکھتے ہیں اگر اس کے مطابق ہو تو قبل کرتے ہیں جب کے دنیاوی علوم کے اصول کو اگو ان دو ماخذ کے خلاف پاتے ہیں تو بہت ہی شدمد کے ساتھ  رد کرتے ہیں اور اپنا اسلامی موقوف پیش کرتے ہیں یہ بات دیگر ہے کہ سائنسی دنیا ان کے موقوف کو تسلیم نہ کرے۔

           مرجان ( مونگا/ CORAL) کے متعلق فقہاء  کرام کے مختلف موقف ہیں بعض  حضرات  اس کو  نبات(vegetation) میں شامل کرتے ہیں اس لئے اس سے تیمم نہیں کیا جا سکتا جبکہ بعض حضرات اس کو پتھر (حجر) میں شامل سمجھتے ہوئے  اس سے تیمم کو جائز بتاتے ہیں اور بعض حضرات درمیانی صورت کے قائل ہیں  جبکہ حیوانات اور ارضیات کے ماہرین بھی مختلف آراء  رکھتے ہیں بعض  کے نزدیک یہ نباتات (plant) سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض کے نزدیک حیوانات (invertebrate animals) سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ایک حقیقت پر سب  متفق ہے کہ آخر میں مونگا پتھر ہی کی شکل میں ملتا ہے۔ اس سے قبل کے امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی کی مرجان پر تحقیقی پیش کرو ں پہلے مرجان (coral) سے متعلق جدید معلومات ملاحظہ فرمائیں:

“Coral – the hard limy (calcium carbonate) substance produced by colonies of small marine invertebrate animals (which has no eyes, no anus or any circulatory system) of the phylum CEOLENTRATE. The base of the coral polyp sets in a stony cup which it secretes. As the all individual die (animals die)

These CaCo3 cups remain and serve as a base for new individuals. The stony deposits (inform of colonies or some time individual animal) take varied forms, shapes, sizes and colors, depending on the kind of coral organism.

                 Corals are found almost exclusively warm semitropical and tropical seas. The most interesting corals are the many reefs – building species, which forms a wide, lengthy and vertical colony”.

(The Webster family encyclopedia v.5, p234)

  مرجان سمندروں کی مختلف گم گہرائیوں میں پایا جانے والا ایک قسم کا جانور ہے جو بہت چھوٹا ہوتا ہے اور عجیب قسم کا  جانور ہے کہ نہ منہ ہے ، نہ آنکھیں نہ کوئی اور سسٹم ۔ یہ جانور سمندر سے CaCo3 کو غذا کے طور پر حاصل کرتا ہے اور اپنے پیچھے کیلشم کا نالی نما ں خول چھوڑ جاتا ہے اور افقی سمت بڑھتا ہے۔ اس قسم کے  جانور بعض دفعہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ایک ہی جگہ سے بڑھنا  اور پھیلنا شروع ہو جاتے ہیں اس لئے ایک (Colonial rock) جانوروں کی کالونی نماں چٹان بنتی چلی جاتی ہے جس کی لمبائی بعض وقت کئی کلو میٹر اور اونچائی کئی سو میٹر پہنچ جاتی ہے جب یہ کورل کالونی زندہ جانوروں کی شکل میں سمندروں کی تہ میں  ہوتی ہے  تو ایسا لگتا ہے کہ کوئی گھاس نما درخت اگا ہوا ہے اور سمندروں کی لہروں کے ساتھ یہ چاروں طرف جھکتا بھی رہتا ہے لیکن آہستہ آہستہ نیچے کا حصہ چٹان بنتا چلا جاتا ہےاور جب اوپر قیام کئے ہوئے تمام جانور بھی ہلاک  ہو جاتے ہیں تو پھر ایک چٹان کی شکل اختیار کر لیتا ہیں بعض وقت یہ دوسری مٹی کے تہہ میں ڈوب جاتا ہے اور اس میں اور دیگر چٹانوں میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے مگر یہ اپنے مونگے  کے باعث جلد ہی پہچان میں آجاتی ہے۔

اس مرجان کو چٹان یا پتھر کہا جائے  اور اس کو  جنس زمین سمجھا جائے یا نہیں اور اس سے تیمم جائز ہے یا نہیں ان تمام سوالوں کے تفصیلی  اور تحقیقی  جواب  امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی نے اپنے ایک ضمنی رسالہ (sub article) میں لکھے ہیں  جس کا عنوان ہے   ’’ المطر السعید علی بنت جنس الصعید ۱۳۳۵ھ‘‘  جنس صعید (مٹی یا زمین) کی نبات پر باران مسعود

امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی نے اس رسالے میں  امام اعظم ابو حنیفہ ﷦ کے فقہی قواعد کو ملحوظ رکھتے ہوئے تیمم کے سلسلے میں ایک ضابطہ قائم فرمایا کہ:

’’ ہر اس چیز سے کہ جنس (kind of rocks) سے ہو تیمم روا ہے جبکہ غیر جنس (other than rock) سے مغلوب نہ ہو اور اس کی غیر سے ہمارے جملہ آئمہ کے نزدیک روا نہیں لہذا جنس ارض کی تحریریں (limitations) اور تعدید (explanations) درکار ہیں‘‘ ۔

( فتاوی رضویہ جلد اول  ص ۶۶۱ مکتبہ رضویہ کراچی)

سب سے  پہلے جنس ارض کے متعلق امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی کی  تعریف ملاحظہ کریں :

’’  ہمارے مشائخ نے فرمایا جنس ارض وہ ہے جو آگ سے جل کر راکھ نہ ہو جائے اور جو نرم نہ ہو اور منطبع (پارہ پارہ) نہ ہو۔ یا قوت بھی انہیں چیزوں میں داخل ہے جو نہ نرم ہوتا ہے اور نہ منطبع اور نہ جلتا ہے۔اور جو آگ سے جل جائے  یا اس سے نرم ہو جائے  (تمام دھاتیں) وہ جنس ارض سے نہیں ‘‘۔

( فتاوی رضویہ جدید، جلد سوم ص ۵۸۲ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

 امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی منطبع کی وضاحت  کرتے ہیں کہی پڑھنے والا غلطی کا شکار نہ ہو کہ ریت بھی تو پارہ پارہ یا ریزہ ریزہ شکل میں ملےی ہے  اس کا مطلب ہوا کہ یہ جنس ارض سے نہیں مگر امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی ہر متعلقہ اشکال کا خیال رکھتے ہیں اس لئے فوراً منطبع کی وضاحت فرمائی :

’’ ہماری تقریر سے واضح ہوا کہ مٹی بھی منطبع (ریزہ ریزہ) ہوتی ہے ابھی قاموس سے گزر اطبع الجرہ من الطین (مٹی سے گھڑا بنایا) مگر یہا ں مراد وہ ہے جس کی صلاحیت آگ سے نرم ہو کر پیدا ہو ۔۔۔۔ عام علماء نے یہا ں منطبع مطلق چھوڑا ہے اس سے یہی منطبع بالنار مراد ہے ۔۔۔ ورنہ پانی میں مٹی بھی گلتی اور پگلتی ہے۔‘‘

       (ایضاً ۔۳ ۔ ۵۸۴ ۔ لاہور )

امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی  نے اپنے رسالے (article) میں کہ کون سی شے زمین کا حصہ ہے اور کون سی شے زمین کے حصہ سے تعلق نہیں رکھتی اس کی طویل بحث  کرتے ہوئے ۱۴ مختلف زاویوں (parameters) سے ثابت کیا ہے کہ کب اور کن حالات میں کون سی شے زمین کا حصہ ہے یا نہیں مگر یہاں اس تفصیل میں جائے مگر امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی کا نظریہ مختصراً پیش کر رہا ہوں تفصیل کے لئے اصل رسالے کا مطالعہ کیا جائے۔

’’ وباللہ التوفیق، غیر جنس ہونے کا مناط(criteria) سات (۷) قول و صف پر مشتمل ہیں ان سات اور صاف میں سے ایک بھی ہو تو وہ شے جنس ارض نہیں اور اس سے تیمم ناجائز اور اصلاً ایسا کوئی وصف (character) نہ ہو تو جنس ارض سے ہے اور تیمم جائز۔‘‘ ( ایضاً ۔ ۳ ۔۵۹۴ ۔ لاہور)

   امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی نے جنس ارض کی ایک طویل بحث کے بعد ۱۸۱ ۔ اقسام  کی مٹی یا پتھر کی تعداد گنوائیں  جن سے احناف کے نزدیک تیمم جائز ہے اور حیرت کا مقام ہے کہ ۱۸۱ میں ۱۰۷ اقسام صرف امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی کا اضافہ (contribution) ہے اس سلسلے میں ّپ خود رقم طراز ہیں۔

’’ایک سو اکیاسی(۱۸۱)چیزوں کا بیان جن سے تیمم جائز ہے ‘‘ آگے چل کر لکھتے ہیں

’’ان بعض اشیاء کا شمار جن  سے  ہمارے امام اعظم ﷦ کے مذہب  میں تیمم جائز ہے  انہیں دو قسم  کریں ۔

  مصنوعات (تحقیق شدہ) جن کی تشریح  کتابوں میں اس وقت پیش نظر ہے۔ مزید ات (اضافہ)  کہ فقیر (احمد رضا)  نے اضافہ کیں‘‘

                                       (ایضاً ۔ ۳ ۔ ۶۲۸ ۔ لاہور)

امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی کی ذہانت  پر حیرت  ہے  اور یہ یقیناً فضل   ربی ہے  کہ ۱۲ سو سال  میں ہزاروں فقہاء نے ۷۴ ۔ اقسام  کی اشیاء سے تیمم کو جائز بتایا اور فرد واحد امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوینے اپنی پچاس سالہ علمی کاوش میں ۱۰۷  مزید اقسام کی مٹی کا اضافہ فرمایا  جن سے تیمم کیا جا سکتا ہے  اسی  طرح عدم جواز کے سلسلے  ہی میں ۱۲۰۰ سو سال میں ۵۸ اقسام کی اشیاءجو زمین کی جنس سے تعلق نہیں رکھتی فقہاء  نے تیمم سے منع فرمایا  مگر محقق اعظم نے ۷۲ کا اپنی جانب سے اضافہ کر کے عدم جوازکی تعداد ۱۳۰ تک پہنچا دی خود نقل فرماتے ہیں :

’’( یہ تین سو اگیارہ۳۱۱ ) چیزوں کا بیان اہے ۱۸۱ سے تیمم جائز جن  میں ۷۴ مصنوعات اور ۱۰۷ ۔ زیادات فقیر اور ۱۳۰ سے نا جائز جن میں  ۵۸ منصوص اور ۷۲ زیادات  فقیر ایسا جامع بیان اس تحریر کے غیر  میں نہ ملے گا  بلکہ زیادات در کنا اتنے مصنوعات کا استخراج بھی سہل نہ ہو سکے گا۔‘‘

                                                            ( ایضاً۔ ۳۔ ۶۵۸۔ لاہور)

امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی اس فضل خدا وندی پر  ان الفاظ میں شکریہ ادا فرما رہے ہیں:

’’و للھ الحمد اولا و آخر وبھ  التو فیق باطناً و ظاھراً و صلی اللھ تعالیٰ و سلم علی حبیبھ واٰلھ و صحبھ متوافراً متکاثراً   ‘‘

                      (ایضا ً ۔۳۔ ۶۵۸۔ لاہور)

امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی نے  رسالے کے آ خر میں گیارہ ان  اقسام کا ذکر بھی کیا ہے  کہ جن سے تیمم میں فقہا کا اختلاف ہے بعض کے نزدیک وہ اشیاء جنس ارض سے تعلق رکھتی ہیں اور بعض کے نزدیک تعلق نہیں رکھتی ۔ امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی ہر ایک پر تفصیلی بحث کے بعد اپنا مؤقف پیش کیا ہے یہ ہی صورتحال (مرجان) کے ساتھ ہے فقہا کرام کی اس میں دورائے پائی  جاتی ہیں  کچھ فقہائے کرام  اس مرجان کو نباتات میں شمار کرتے  ہو ئے اس سے تیمم  ناجائز قرار دیتے ہیں مگر امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی  نے اس بات کی تحقیق کے بعد مرجان ایک  قسم  کی چٹان ہی ہوتی ہے اس لئے  اس سے تیمم  کو جائز قرار دیا۔اس تحقیقی کا خلاصہ  ملاحظہ کیجیے۔

 قرآن مجید میں  دو جگہ  مرجان کا ذکر آیا ہے اور امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی نے دونوں جگہ  مراد  مونگا لیا ہے چھوٹا موتی نہیں

یَخْرُجُ  مِنْھُمَا الُّؤ لؤُ وَالْمَرْ جَانُ ْ

ان میں  سے موتی (pearl) اور بمونگا(coral)  نکلتا ہے۔ (کنز الایمان)

کَأ نَھُنَّ الْیاَ قُوْتُ وَ الْمَرْجَانُ  

گویا  وہ لعل(ruby) اور مونگا (coral) ہیں  ( کنز الایمان)

   امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی  سے تیمم کے سلسلے میں اس کے جواز اور عدم جواز  پر فقہا کرام کی کتب کا حوالہ دیتے ہوئے   رقم طراز ہیں:

’’ تبین الحقائق، معراج الدرایہ، غایتہ البیان، توشیخ، عنایتہ، محیط، خزانتہ الفتاوی، بحر، نہر اور ہندیہ وغیرہ  عامہ کتب میں  اس سے جواز کی تصریح ہے مگر فتح‘‘ میں ممانعت واقع ہوئی اور ’’ در مختار‘‘ و ’’ خادمی‘‘ نے ان کا اتباع کیا ۔ شیخ الاسلام غزی نے بھی اسی طرف میل فرمایا اور ان کے شیخ نے ’’ بحر‘‘ میں فرمایا وہ سہو ہے ۔’’ نہر‘‘ نے فرمایا سبق قلم ہے  اور حق جواز ہے جیسا کہ ’’ازہری‘‘ اور ’’شامی‘‘ میں ہے

(ایضاً۔ ۳۔ ۶۸۴۔ لاہور)

آگے چل کر لکھتے ہیں :

’’ اور علامہ عبد الحلیم رومی نے عجب بات کہی ۔ انہوں نے ’’ مخ الغفار‘‘ سے اخذ کر کے کہا.....میں کہتا ہو کہ یہ سہو نہیں بلکہ ظاہر یہ ہے  کہ ان کے نزدیک یہی ہڑا  کہ وہ( مونگا) پانی سے بنتا ہے  جیسے موتی اس لئے یہ جنس ارض نہیں لہذا اس سے تیمم جائز نہیں ‘‘

                                        (ایضاًٍ۔ ۳۔ ۶۸۵۔ لاہور)

   امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی   اپنے مشاہدات اور مؤقف بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’ اقول مخ الغفار کی عبارت جیسا کہ شامی میں ہے اس طرح ہے ۔ میں کہتا ہوں ظاہر یہ ہے کہ سہو نہیں اس لئے کہ  انہوں نے جواز تیمم اس لئے منع کیا کہ ان کے نزدیک یہی ہڑا کہ وہ (مونگا) پانی سے بنتا ہے جیسے موتی ( pearl) تو اگر حقیقت اسر یہ ہی ہے تو منع جواز میں کوئی اختلاف نہیں  ۔ اور قائل جواز نے جائز اس لئے کہا کہ اس کے نزدیک یہی ہڑا  کہ وہ اجزائے زمین سے ہے تو اگر وہ ایسا ہی ہے تو جواز  میں کوئی اختلاف نہیں ۔

جوہر شناسوں (gerontologist) کے کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مشاہبتیں  (similarities) پائی جاتی ہے (۱) ایک مشاہبت نباتات (plant) سے (۲) اور ایک مشابہت  معدنیات(nonmetallic ores) سے ہوتی ہے۔

ابن الجوزی نے اسے صاف طور پر بیان کیا وہ لکھتے ہیں  یہ ( مرجان) عالم  نباتات ( vegetation / plant) اور عالم   جماد(stone) کے درمیان متوسط ہے ۔اپنے تحجر اور پتھر کی طرح ٹھوس ہونے میں جماد (چٹان) کے مشابہ ہے اور اس بات میں نبات (پودے) کے مشابے ہے  کہ سمندر کی گہرائی میں اس کی رگوں ( veins) اور پھوٹی ہوئی کھڑی (vertical branching ) ڈالیوں والے اگُنے والے درخت لگتے ہیں

(ایضاً ۔۳۔۶۸۶۔ لاہور )  

آگے چل کر امام احمد رضا  محشی رملی کا جواز کا مؤقف بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

’’مرجان ۔ مونگا (coral rete or coralline limestone )   دوسرے پتھروں کی طرح ایک پتھر ہے جو سمندر میں درختوں کی طرح بڑھتا ہے اس لئے عامہ کتب میں جواز پر جزم  ہے‘‘۔

(ایضاً۔۳۔ ص ۶۸۶ )

   امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی   تمام آراکی تطبیق کرتے ہوئے تجزیہ پیش کرتے ہیں :

’’ اقول ۔ اصحاب احجار ( ماھرہ حجریات) نے اس کے حجر (پتھر) ہونے کی تصریں (confirm) کی اور اسے حجر شجری(tree like stone) کہا نہ کہ شجر حجری (stone like tree)

                                                                      (ایضاً۔۳۔ ص ۶۸۶)

 جامع ابن بیطار کے حوالے سے ارسطو کی عبارت نقل کرتے ہوئے   امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی   لکھتے ہیں :

’’بسذ (branch coral) اور مرجان (coral) ایک ہی مرجان کو کہتے ہیں فرق یہ ہے کہ مرجان اصل ہے اور بسذ فرع ۔

مرجان ( مونگا) میں تخلخل (rings)  اورسوراخ (cavity) ہوتے ہیں اور بسذ  درخت کی ڈالیو ں کی طرح پھیلتا اور بڑھتا ہے اور ڈالیوں کی طرح اس میں شاخیں بھی نکلتی ہیں

                                                            ( ایضاً۔۳۔۷۸۷ ۔لاہور)

آپ مخزن کے حوالے سے لکھتے ہیں:

مرجان ایک حجری جسم (stony body) ہے جو درخت کی ساق و شاق (root & branch) کی طرح مشابہ ہوتا ہے (ص ۷۸۷)

تحفہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :

بسذ مرجان کا ایک نام ہے اور ایک نباتی قوت رکھنے والے پتھر ہے جو دریا( سمندر) کی گہرائی میں ( سمندری تہہ میں اگتا ( بڑھتا ) ہے) (ص ۷۸۷ )

   امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی   ان مشاہبتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مطلق آرا ء پیش کرتے ہیں :

’’اور نبات (plant growth)  سے اس کی مشابہت سے ( مرجان ) کو حجر ( پتھر ہونے) سے خارج اور شجر ( کی اقسام ) داخل نہیں کرتا ‘‘ (ص ۶۸۸ )

   امام احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی   مرجان کو پتھر کی قسم ہی سمجھتے ہیں اور اس کو سمندری چٹان کا حصہ قرار دیتے ہوئے جنس زمین قرار دیتے ہیں  اور تیمم کو جائز سمجھتے ہیں چنانچہ آپ حکم دیتے ہیں :

 ’’ لا جرم  اس سے جواز تیمم میں شک نہیں ‘‘ (ص ۶۸۸) 

 
   

 


متعلقہ

تجویزوآراء