جہیز کی شرعی حیثیت

جہیز کی شرعی حیثیت

جہیز در حقیقت اپنی اولاد کے ساتھ صلہ رحمی ہے اور فی نفسہ مباح، بلکہ امرِ مستحسن ہے۔لیکن آج کل ہمارے معاشرے میں اس امرِ مستحسن ( جہیز ) کا چہرہ جس طرح مسخ کر دیا گیا ہے کہ یہ محض ایک ہندوانہ رسم بن کر رہ گئی ہے ۔ کئی کئی سال والدین  لڑکیوں کو اسی وجہ سے گھر بیٹھائے رکھتے ہیں کہ والدین کے پاس جہیز کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔ جبکہ اسلام میں اس کی اجازت نہیں ہے کہ جوان لڑکی کو صرف اس لیے گھر بٹھائے رکھیں کہ ابھی  ان کے پاس جہیز کے لیے پیسے نہیں ہیں۔آج کل تو جہیزایک فیشن بن گیا ہے لڑکے والوں کی ہوس کی بھی انتہا ہو گئی ہے، کہ شادی سے پہلے لڑکی والوں سے اسپیشل ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ جہیز میں فلاں فلاں چیزیں دینا ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی رسومات ہیں جن کی وجہ سے آج نکاح سے زنا سستا ہو چکا ہے۔(العیاذ باللہ )

 جوان لڑکے لڑکیاں جہیز کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے گناہوں میں مبتلا ہو رہے ہیں لیکن ان کے والدین صرف دکھاوے اور نمائش کی خاطر ان کی شادیاں نہیں کر رہے ،کہ شادی دھوم دھام سے کریں گے، چاہے ان کی عمریں شادی کے قابل رہیں یا نہ رہیں۔ہم اللہ تعالی کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرنے کے بجائے معاشرتی رسومات میں اس حد تک گم ہو چکے ہیں کہ ایک شادی پر ہی اتنے اتنے پیسے خرچ کر دیتے ہیں جس سے غریبوں کی پچاس پچاس بیٹیوں کی شادیاں ہو سکتی ہیں۔ یہ سب دینی تعلیمات کی دوری کی وجہ سے ہے کہ ہم اصل مقصد حاصل کرنے کے بجائے معاشرتی رسومات کی خاطر ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں اور نوجوان نسل کو گناہوں پر مجبور کر رہے ہیں۔

ہمارے  سامنے خدا کی کتاب قرآنِ مجید موجود  ہے۔ احادیث کے دفتر موجود ہیں۔ ہر مشرب کی کتب فقہ رکھی ہوئی ہیں۔ آپ کو ہر جگہ حق مہر کی تصریح ملے گی۔ قرآن نے اسے "فریضہ"صدقات ،اور اجر کہا ہے۔ احادیث میں اسے صداق اور مہر بھی کہا گیا ہے۔ کتب فقہ میں اس کے مستقل ابواب ہیں اور ہر جگہ اسے ایک واجب الادا فرض بتایا گیا ہے۔ حتی کہ مسند احمد کی روایت ہے کہ جوشخص ایک عورت سے کسی مہر پر نکاح  کرے اور نیت یہ ہو کہ وہ اسے ادا نہیں کرے گا تو اس کا شمار زانیوں میں ہے۔ اور قرآن پاک میں اس کی بار بار تاکید آئی ہے۔ کہ عورتوں کا ان کا مہر خوش دلی کے ساتھ ادا کرو۔ سب کا ذکر یہاں مقصود نہیں۔ عرض یہ کرنا ہے کہ مہر کے سارے احکام قرآن میں ، احادیث میں ،اور فقہ میں وضاحت کے ساتھ موجود ہیں۔ لیکن جو چیز آپ کو کہیں نہیں ملے گی وہ ہے "جہیز " قرآن کی کسی آیت میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ احادیث میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ حتی کہ فقہ کی کسی کتاب  میں کہیں کوئی "باب الجہیز "موجود نہیں ہے۔ اب خود ہی سوچئے کہ یہ جہیز سنت کیسے بن گیا؟۔

اعتراض :رسولِ اکرم ﷺ نے حضرت فاطمہ زہراء کو جہیز  دیا تھا۔ لہذا یہ سنت ہے؟:

اس بات پر غور فرمایئے کہ حضورﷺ کی اور بھی تین صاحبزادیاں تھیں۔ سیدہ زینب،سیدہ رقیہ،سیدہ ام کلثوم ،رضی اﷲعنھن۔ کیا آپ نے کبھی یہ بھی سنا کہ حضورﷺنے سیدہ زینب،سیدہ رقیہ،اورسیدہ ام کلثوم کو جہیز دیا۔ جس میں فلاں فلاں چیزیں تھیں۔ اسے بھی جانے دیجئے۔ حضورﷺ کے شرف زوجیت میں کتنی امہات المومنین آئیں۔ لیکن آپ نے کبھی یہ بھی پڑھا ہے کہ سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہاکے جہیز میں یہ چیزیں تھیں یا دوسری ازواج النبیﷺ فلاں فلاں چیز جہیز میں لائی تھیں۔ چلئے جانے دیجئے۔ دوسرے بے شمار صحابہ رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین نے بھی شادیاں فرمائیں۔ لیکن کتنوں کے متعلق آپ نے کبھی یہ ذکر پڑھا ہے کہ ان کی ازواج سنت رسولﷺ کی طرح جہیز لائیں تھی ۔پھر ذرا عقل پر زور دے کر سوچئے ؟کہ آخر یہ سنت رسولﷺ کی کون سی قسم ہے جو سیدہ  فاطمہ سلام اللہ علیہا کے سوا اور کہیں بھی نظر نہیں آتی؟ :

کہیں ایسا تو نہیں کہ حقیقت کچھ اور ہے اور ہم نے کچھ اور فرض کرلیا ہوہے؟ ہاں یقینا یہی بات ہے۔ آیئے ذرا اس پر غور کریں۔اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حضورﷺ نے وہ چیزیں جن کا اوپر ذکر ہوا۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو دیں۔ لیکن کیا  یہ وہی چیز تھی جسے ہم عرف عام میں "جہیز "کہتے ہیں۔ یقینا اسے  مروجہ جہیز کی اصطلاح سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ پھر یہ کیا تھا؟:

در اصل بات ہے کہ حضورﷺ جناب فاطمہ زہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دونوں کے کفیل اور سرپرست تھے۔کیونکہ بچپن سے ہی حضرت مولا علی حضور ﷺ کی کفالت میں تھے۔ اس لئے دونوں کے ازدواج کا اہتمام بھی حضورﷺ ہی کو کرنا تھا۔ جناب علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھی گھر بسانا تھا۔اس لئے اسی کا انتظام بھی حضورﷺ ہی فرما رہے تھے۔ خانہ داری کے انتظام کے لئے جو کچھ مختصر انتظام حضورﷺ نے مناسب سمجھا کردیا۔ سونے کو چارپائی اور اذخر گھاس سے بھری توشک اور تکیہ، مشکیزے، چکی۔ وغیرہ ۔ رہا چاندی کا ہار تو وہ یوں بھی حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ہی کا تھا۔ جو آپ کو سیدہ خدیجہ سلام اللہ علیہا کے ترکے میں ملا تھا۔ یہ سارا انتظام حضورﷺ کو اس لئے کرنا پڑا کہ آپﷺ کو ایک الگ گھر بسانا تھا۔ اگر حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا پہلے ہی سے کوئی الگ گھر ہوتا تو حضورﷺ شاید اتنا کچھ نہ کرتے۔ حضرت ابو العاص کا گھر پہلے سے موجود تھا۔ اس لئے سیدہ زینب کو بیاہنے کے لئے حضورﷺ نے ایسا کوئی انتظام نہ کیا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا الگ گھر بھی پہلے موجود تھا۔ اس لئے سیدہ رقیہ اور ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو بیاہنے میں حضورﷺ کو ایسے کسی انتظام کی ضرورت نہ پڑی۔ اسی طرح حضورﷺ کی زوجیت میں جو ام المومنین آئیں ان کے والدین کو بھی ایسے کسی انتظام کی حاجت نہ تھی۔

لیکن سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی حیثیت ان سے مختلف تھی اب تک وہ حضورﷺ کے ساتھ ہی رہتے تھے اور جب ازدواج فاطمہ ہوا تو سارا اہتمام ازسر نو کرنا پڑا۔ سیدنا علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس کوئی الگ گھر نہ تھا۔ ایک انصاری حارثہ بن نعمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنا ایک گھر حضورﷺ کی خدمت میں اسی خدمت کے لئے بخوشی پیش کردیا۔ جس میں یہ پاکیزہ نیا جوڑا منتقل ہو۔ اور خانہ داری کے مختصر اسباب وہاں بھیج دیئے گئے۔ یہ جہیز نہ تھا صرف ایک انتظام خانہ داری تھا۔ اس کے جہیز نہ ہونے کی ایک اور دلیل بھی سن لیجئے۔ جناب خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے متروکات سے سوا دوسری چیزیں حضورﷺ نے کہاں سے مہیا فرمائی تھیں۔ یہ بھی یاد رکھنے کے قابل چیز ہے۔ حضورﷺ نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے حق مہر پہلے ہی لے لیا تھا ایک زرہ تھی جو حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ (تقریبا پانچ سو درہم) میں فروخت کی تھی۔ یہی رقم حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضورﷺ کی خدمت میں لے کر آئے اور اسی رقم سے حضورﷺ نے خانہ داری کا سب سامان اور کچھ خوشبو وغیرہ منگوائی تھی۔ ذرا سوچئے! کیا جہیز کی یہی صورت ہوتی ہے۔


متعلقہ

تجویزوآراء