⁠⁠⁠مجرم کون ؟

میرا بھتیجا جیسے ہی گھر میں داخل ہوا میں نے ’’مولوی‘‘کے طنز کے ساتھ آؤ !بھئی مولوی صاحب! کہاں سے تشریف لارہے ہیں میرے بھتیجے نے مجھے داخل ہوتے ہی سلام کیا السلام علیکم !چچا جان نماز پڑھ کر آرہا ہوں
وعلیکم السلام ! میں نے سلام کا جواب دیا اور کہا! اچھا بھئی یہ قوم اب صرف نماز قرآن تک ہی محدود رہے گئی ہےاسی لیے ترقی نہیں کر سکی بھائی! اللہ کے بندے بنو، کچھ سائنس سیکھو، ٹیکنالوجی سیکھو ان مولویوں نے ہمارے سارے ٹیلنٹ کو برباد کر کے رکھ دیا جب تک یہ مولوی زندہ رہے گا یہ قوم ترقی نہیں کر سکے گی ۔۔۔۔۔دنیا چاند پر پہنچ گئی مگر یہ ابھی تک مسجد سے نہیں نکل سکا برباد کردیا انہوں نے اس قوم کو۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میری مولویوں کے خلاف دل کی بھڑاس نکلنا شروع ہو گئی ۔
میرے جی میں جو آیا میں بولتا رہا ،میرا بھتیجا نہایت خاموشی کے ساتھ سنتا رہا
جب میں دل کی بھڑاس نکال چکا تو میرے بھتیجے نے نہایت ادب کے ساتھ کہا :چچا جان! ابھی کچھ اور کہنا باقی ہے ؟اس کی دلنشیں مسکراہٹ نے مجھے بھی مسکرانے پر مجبور کر دیا
چچا جان ! دادا جان اکثر ایک واقعہ سُنایا کرتے تھے میں آپ کو وہ واقعہ سُناتا ہوں
ایک اسکول میں ایک بچہ پڑھا کرتا تھا اس کا اصل نام تو اشرف تھا لیکن اس کی بھاری بھرکم جسامت کی وجہ سے لڑکے اس کا مذاق اڑاتے اور اس کی کچھ شراتوں کی وجہ سے سب اسے اچھو پہلوان ہی کہا کرتے تھے
اچھو پہلوان کا مسئلہ یہ تھا کہ اسکول کا نلکا ٹوٹ جائے تو استاد صاحب انکوئری بعد میں کرتے اور پوچھتے اچھو پہلوان کہاں ہے ؟اور جیسے ہی اچھو سامنےآتا ڈنڈے سے شاندارچھترول شروع کر دیتے بعد میں معلوم ہوتا کہ وہ نلکا تو پلمبر سے ٹوٹا تھا ۔۔۔۔۔استاد صاحب کا پین نہیں ملتا تو اچھو کی شامت آجاتی اوراسے مرغا بننے کا حکم دے دیا جاتا بعد میں معلوم ہوتا کہ یہ پین تو خود استاد صاحب نے میز کی دراز میں رکھا تھا اور کلاس کے لڑکے بھی اتنے ہی ہو شیار تھے اگر کسی سےکوئی غلطی ہو بھی جاتی تو الزام اچھو کے سر ہی لگا دیتا یوں اچھو پورے اسکول میں مشہور ہوگیا ہر شرارت خواہ وہ کوئی بھی کرے الزام اچھو ہی کے سر آتا تھا ایک دفعہ ایک بچے نے آ کر استاد صا حب کو بتا یاکہ سر! باہر دو بسوں میں تصادم ہو گیا ہے کافی لوگ ز خمی ہو گئی ہیں اچھو نے جب یہ سنا تو خاموشی سے اٹھا اور جا کر مرغا بن گیا ۔
استاد صاحب نےدو لگائے اور کہا : باہر بندے مررہے ہیں اور تجھے مسخریاں سوجھ رہی ہیں
اچھو نے بھول پن کے ساتھ کہا :استاد جی آخر میں قصور تواچھو ہی کا نکلے گا نا !
تو بس مولوی بھی اس معاشرے کا اچھو بن چکا ہے ہر کوتاہی اسی کے کھاتے میں ترقی نہ کر سکے مجرم کون ؟ مولوی
ملک کرپشن کے سبب پیچھے جا رہا ہے مجرم کون ہے ؟ مولوی
بے حیائی وعریانیت کے سبب ریپ کے واقعات میں ہولناک اضافہ مجرم کو ن ہے ؟مولوی
سائنس میں مسلمان پیچھے رہ گئے مجرم کون ؟ مولوی
لوگوں کو انصاف میسر نہیں آرہا مجرم کون ؟ مولوی
ہر جرم مولوی کے سر پر رکھ کر جاہلوں کے چوراہے پر جملوں کے تیروں اور پھبتیوں کے نیزے اور طعن و وتشنیع کے نشترسے مذہب اسلام کو چھلنی کرنا چاہو تو کر دو ہم باخلاق بھی رہیں گے اور با کردار بھی رہیں گے ۔
کالجز اور یونیورسٹیز پر جو اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں وہ سائنٹسٹ پیدا کیوں نہیں کر رہےجب کہ مولوی نے تو یہ دعویٰ ہی نہیں کیا کہ وہ سائنٹسٹ بنا رہا ہے ۔۔۔حالانکہ سائنسدان ہو نے کے دعوے دار سائنسی ایجادات کے بجائے میڈیا پر اسلام کے خلاف ٹاک شو کرتے نظر آتے ہیں
ملک میں کرپشن کاذمہ دار مولوی نہیں اس پر کوئی آواز نہیں ۔۔۔۔۔عدل و انصاف کی دھجیاں بکھر کر رہ گئیں ہر طرف خا موشی مگر سب خاموش ۔
کوئی ایک بے وقوف ا حمق شخص محض ڈاڑھی رکھ کر گالیاں بک دے تو سارا دن میڈیا اس جعلی عامل کی پٹائی دکھاتا رہتا ہے لیکن یہ ہی آزاد میڈیا لاکھوں انسان کی ممتاز قادری کے جنازے کی وڈیو نہیں دکھا تا ۔
جہاں آپ کا میڈیا سارا دن ایک کھلاڑی کو ہیرو کے روپ میں پیش کرتا ہو جہاں ایک بچے کے ذہن میں آئیڈیل ایک کھلاڑی ہو وہاں نسل نو اسکالر ، پروفیسر ،ڈاکٹر اور انجنئیر بننے کے بجائے کھیل کو ترجیح دے گی ۔۔۔۔جہاں میچ جیتنے کی خوشی میں کھلاڑی کا شاندار اور فقید المثال استقبال کیا جاتا ہو اور جہاں ایک سائنس دان جو باہر ملک سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر وطن واپس آئےاسے وطن میں نوکری ملی کہ نہیں اس کی کسی کو پرواہ بھی نہیں ہوتی ۔
چچا جان ! یک بات پر غور کیجیے اگر ہم یہ کہیں کہ دیکھو! دنیا چاند پر پہنچ گئی اور یہ درزی آج بھی کپڑے سی رہا ہے توآپ کو حیرت نہیں ہو گی
لیکن مولوی کا تذکرہ آجائےتو فورا مولوی پر تنقید شروع مو لوی نے کب دعویٰ کیا کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی پر کام کررہا ہے
یہ تنقید ان سائنسدانوں پر ہونی چاہیے جو سائنس پر تحقیق کے بجائے میڈیا پر آکر اسلام پر بات کررہے ہوتے ہیں ۔
چچا جان ! ان کے نزدیک مسئلہ مولوی ہے ہی نہیں یہ تو لاکھوں لوگوں کو بھی دو چارسو کہہ کر نہیں دکھاتے اکثریت کی بات تو محض ایک بہلاوا ہے اصل مسئلہ تو اسلام ہے اور اسلام کو برا کہنے کی یہ جرأت نہیں کر سکتے اس لیے مولوی کو گالیاں دیتے ہیں ۔
بھتیجے کی بات سُن کر میں واقعی شرمند ہ ہو ا اور سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ یہ کہہ تو صحیح رہا ہے ہم ذمہ داروں کے بجائے سارا ملبہ اسے بے چارے مولوی پر گرا دیتے ہیں جب تک ہم اخلاقی طور پر اتنے بلند نہیں ہوتے کہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہہ سکیں تب تک ہم کامیاب نہیں ہو سکیں گے ۔


متعلقہ

تجویزوآراء