رضا میڈیکل ضابطہ اخلاق

رضا میڈیکل ضابطہ اخلاق

تحریر  :  پروفیسر دلاور خان

ڈاکٹروں کی اکثریت شریف، فرض شناس، دیانتدار،اور پیشہ ورانہ قابلیت رکھنے والے ما ہرین پر مشتمل ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی کسی طرح صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ جو طبی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھیرنے پر فخر محسوس کرتے ہوئے جھوٹے سر ٹیفکٹ ، نشہ آور انجکشن کا فروغ، ادویات اور طبّی مصنوعات پر ذیادہ سے ذیادہ کمیشن حاصل کرنے کی تڑپ ، سرکاری ہسپتال میں ملازم ہونے کے باوجود ذیادہ فیس کی لالچ میں نجی کلینک پر مریض کو علاج کروانے پر مجبور کرنا ، ہسپتالوں میں جاں بلب ہے اور طبیب خوش گپیوں  میں مصروف،  رات کو ڈیوٹی پر حاضر ڈاکٹر نیند کے مزے اڑا رہے ہیں جبکہ پیڑا میڈیکل کا عمل حق تک ادا کرنے کے لئے پریشان مریض کی پریشانی میں اضافہ کرنے کے لئے ہر جہت سے طبع آزمائی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ڈاکٹر صاحب   و صاحبہ کی نیند میں کہیں ذرا سا خلل نہ پڑ جائے۔

                   مریض ان کی  عدم توجہی سے اس جہان ِفانی سےکوچ کر جائے کوئی فکر نہیں۔ کیونکہ ان کی نگاہ میں پیشہ عبادت نہیں تجارت ہے۔فکر ہے تو فیس کی، چاہے مریض اپنی جان کے تحفظ کے حق سے محروم ہوجائے ۔ رٹے رٹائے چند ادویات کے نام وہ بھی مریض سے معلومات حاصل کر کے جلد بازی میں آنکھ بند کر کے لکھ دئے جاتے ہیں۔ مریضوں سے ناشائستہ گفتگو، یہ معدودے چند ڈاکٹر حضرات کے  وہ بیمار رویے ہیں جن کی بنیاد پر وہ مریضوں کو معاشی، ذہنی، اخلاق، نفسیاتی اور انسانی صحت سے کھیلنے جیسے  جرم کے مرتکب  ہوکر مذہب لبادہ میں سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ سوچ اور فلسفہ کی گھناؤنی فکر کے تحت حق صحت اور حق جان سے محروم کر دیتے ہیں۔

                           ڈاکٹرز کی ان بیماررویوں کی وجہ سے  مریضوں اور تیمارداریوں کے درمیان ایک نفسیاتی کشمکش جنم لیتی ہے۔ جس کے تحت آئے دن اخبارات میں ڈاکٹروں کو زود کوب کرنے، ان کے ساتھ اشتعال انگیز سلوک، کلینک کی آتش زدگی اور بعض اوقات اس سے بھی بڑھ کے ڈاکٹروں کی قتل کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔

                 ایسی ہی کشمکش اور نقصانات سے بچنے کے لئے الشیخ احمد رضا خاں محدث حنفی مولانا حکیم عبد العزیز بریلوی کو چار جمادی الآخر  ۱۳۰۶ھ کو ایک میڈیکل  ضابطہ اخلاق تحریر فرمایا کہ ایک طبیب کو کیا کیا کرنا چاہیے ۔ ملاحظہ ہو  وہ طبی ضابطہ اخلاق جس میں آپ نے طبیب کو اپنی ذمہ داریوں اور مریض کے حقوق سے یوں روشناس کرایا۔

’’برادر عزیز مولانا عبد العزیز سلمہ العزیز عن کل رجیز۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

 آپ کا خط آیا خوش کیا ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو دست شفا  بخشے اور جفا و شقا سے محفوظ رکھے۔ برادم! تم طبیب ہو، میں اس فن سے محفوظ۔ مگر وہ دلی محبت، جو مجھے تمہارےساتھ ہے،مجبور کرتی ہے کہ چند حرف تمہارے گوش زد کروں۔

  • جان برادر۔ مشکل ترین امور ہنگام استخراج احکام جزئیہ میں، جیسے فقہ و طب ، جس طرح فقہ میں صدہا حوادث ایسے پیش آتے ہیں جو کتب میں نہیں اور ان میں حکم لگانا ایک سخت اور دشوار گذار پہاڑ عبور کرنا ہے ۔ جس مین بڑے بڑے ٹھوکریں کھاتے ہیں ، بعینہ یہی حال علم طب کا ہے۔ بلکہ اس سے بھی نازک تر ، بلکہ بے دیکھی چیز پر  حکم کرنا ہے ۔ پھر اگر آدمی قابلیت تامہ نہیں رکھتا اور برائے خود کچھ کر بیٹھا،  اگرچہ اتفاق سے ٹھیک اتری ، گنہ گار ہوگا۔ جس طرح تفسیر قرآن کے بارے میں ارشاد ہوا ۔ ’’من قال فی قاآن برائہ فاصاب فقد اخطا  ‘‘ ( جو قرآن میں اپنی رائے سے کہے اور ٹھیک ہی کہہ جب بھی خطا کی)۔

یوں ہی حدیث شریف میں فرمایا ۔ ’’ من تطیب ولم یعلم منہ طب فھو ضامن‘‘(جو طب کرنے بیٹھا اور اس کی طب کے بارے میں معلومات ہی نہیں پس اس پر تاوان ہے۔یعنی اس کے علاج سے کوئی بگر جائے گا تو اس کا خون بہا اس کی گردن پر ہوگا) گرچہ کسی شفیق نے تمہیں مجاز و ماذون کر دیا۔ مگر میری رائے میں تم  مطب دیکھتے اور اصلاحیں لیتے رہو، میں نہیں کہتا کہ جداگانہ معالجہ کے لئے نہ بیٹھو، مگر اپنی رائے کو ہرگز رائے نہ سمجھو اور ذرا  ذرا میں اساتذہ سے استعانت لو۔

(2)          رائے لینے میں کسی چھوٹے بڑے سے عار نہ کرو۔ کوئی علم (میں) کامل نہیں ہوتا، جب تک                                                                                                                         آدمی بعد فراغ درس جس دن اپنے آپ کو عالم مستقل جانا ، اسی دن اس سے بڑھ کر کوئی جاھل نہیں۔

(3)کبھی محض تجربہ پر تشخیص حادثہ خاص اعتماد نہ کرو۔ اختلاف فصل، اختلاف بلد، اختلاف عمر، اختلاف مزاج،  وغیرہا بہت باتوں سے علاج مختلف ہو جاتا ہے۔ ایک نسخہ ایک مریض کے لئے ایک  فصل میں صد بار بار مجرب ہو چکا، کچھ ضرور  نہیں کہ دوسری فصل میں بھی کام دے۔ بلکہ ممکن کہ ضرور پہنچائے  وعلی ھذا اختلاف البلادوالاعمار وامزجہ وغیرھا۔

(4) مرض کبھی مرکب ہوتا ہے۔ ممکن  کہ ایک نسخہ ایک مرض کے لئے تم نے فصولِ مختلفہ، بلاد متعددہ، و اعمار متفاوتہ، و امزجہ  متبائنہ میں تجربہ کیا اور ہمیشہ ٹھیک اترا۔ مگر وہ مرض ساذج تھایا کسی ایسے مریض کے  ساتھ، جسے یہ مضر نہ تھا، اب جس شخص کو دے رہے ہو، اس میں ایسے مرض سے مرکب ہو، جس کے خلاف تو ضرر دے گا اور وہ تجربہ صد سالہ لغو ہو جائے گا۔

(5)ابھی ابتدائے امر ہے۔کبھی بعض دلالات پر مدار تشخیص  نہ کہو۔مثلاًٍ صرف نبض  یا مجرد تفسرہ یا محض استماع حال پر قناعت نہ کیا۔تو کیا ممکن نہیں کہ نبض دیکھ کر ایک بات تمھاری سمجھ میں آئے اور جب قارورہ  دیکھو۔ رائے بدل جائے ۔ تو بالضرور حتی الا مکان بطرف تشخیص کو عمل میں لائو اور ہر وقت اپنی علم  و فہم و حول و قوت سے   بری ہو کر اللہ تعالیٰ کی جانب میں التجا کرو کہ القائے حق فرمائے۔ یہی مجرب شفاہوتے ہیں۔

 (6) کبھی کیسے ہی ہلکے سے ہلکے مرض کو آسان نہ سمجھو اور اس کی تشخیص و معالجہ  میں سہل انگاری نہ کرو۔

دشمن نہ تواں حقیر و بے چارہ شمرد

ہوسکتا ہے کہ تم نے بادی لنظر میں سہل سمجھ کر جہد تام نہ کیا اور وہ باعث غلطی ِ تتشخیص ہوا۔ جس نے سہل کو دشوار کر دیا۔ یا فی الواقع اسی وقت ایک مرض عسیر تھا اور تم قلت تحقیق آسان سمجھ لئے۔کیا تم نے نہیں  پڑھا کہ دق سا دشوار مرض والعیاذ باللہ تعالیٰ  اول اتنا سہل معلوم ہوتا ہے۔

(7) مریض یا اس کے تیمار دار جس قدر حال بیان کرے۔ کبھی ااس پر قناعت نہ کرو ۔ ان کے بیان میں بہت باتیں رہ جاتی ہے ۔ جنہیں وہ نقصان نہیں سمجھتے یا ان کےخیال اس کی طرف نہیں  جاتے ۔ممکن  کہ وہ سب بیان میں آئے ۔   صورت واقعہ دگر گوں معلوم ہوں، میں نے مسائل میں صدہا آزمایا ہے کہ سائل نے تقریراًاور تحریراً جو کچھ بیان کیا۔ اس کا حکم کچھ اور تھا۔ جب تفتیش کرکے تمام مالہ دما علیہ اس سے پو چھے گئے، اب حکم بدل گیا ۔ بہت مواقع پر ہم لوگوں کو رخصت ہے کہ مجرد بیان مسائل پر فتویٰ دے دے۔ مگر طبیب کو ہرگز اجازت نہیں کہ بے تشخیص کامل زبان کھولے۔

(8) تمام اطباء کو معلوم ہے ۔ الامن شاء اللہ کہ نسخہ لکھا اور حوالہ کیا ، ترکیب استعمال زبان سے ارشاد  نہیں ہوتی ۔ بہت مریض جہلاء زمانہ ہوتے ہیں کہ آپ کا لکھا ہوا نہ پڑھ سکیں گے ۔ طبیب صاحب کو اعتماد یہ ہے کہ عطار بتا دے گا۔ عطار کی وہ حالت ہے کہ مزاج نہیں ملتے اور ہجوم مرض سے اس بچارے کے خود حواس گم ہے ۔ اس جلدی میں انہوں نے آدھی چہارم بات کہی اور دام  سیدھے کئے اور رخصت۔ بار ہا دیکھا گیا ہے کہ غلط استعمال سے مریض کو مضرتیں پہنچ گئیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ تمام ترکیب ِ دواں و طریقہ اصلاح و استعمال خوب سمجھا کر اور سمجھ کر ہر مریض سے بیان کرےخصوصاً جہاں احتمال ہو کہ فرق آنے سے نقصان پہنچ جائے گا۔

(9)اکثر اطباء نے کج خلقی و بد زبانی و خر دماغی و  بے اعتنائی اپنا  شعار کرلی، گویا طب کسی مرض مزمن کا نام ہے،  جس نے یوں بد مزاج کر لیا۔ یہ بات طبیب کے لئے دین ودنیا میں زہر ہے۔دین میں تو ظاہر ہے۔ کہ تکبر و رعونت و تشدد و خشونت کس درجہ مذموم ہے خصوصاًٍحاجت مندکے ساتھ اور  دنیا میں یوں کہ رجوع خلق ان کی طرف کم ہوگی۔ وہی آئیں گے جو  سخت مجبور ہو جائیں  گے ۔  لہذا  طبیب پر اہم واجبات سے ہے کہ نیک خلق ، شیریں زبان ، متواضع، حلیم ، مہربان ہو۔ جس کی میٹھی باتیں شربت حیات کا کام کریں ۔ طبیب کی مہربانی و شیریں زبانی  مریض کا آدھا مرض کھو دیتی ہے اور خواہی نخواہی  ہر دل عزیز اس کی طرف جھکتے ہیں۔ اور نیک نیت سے ہوتا ہے ۔ تو خدا بھی راضی ہوتا ہے۔ جو خاص جالب دست شفاء ہے۔

(10) بہت جاہل اطباء کا اندازہ  ہے کہ نبض دیکھتے ہی مرض کا عسیر العلاج بیان کرنے لگتے ہیں۔ اگرشہ واقع میں سہل التدارک ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اچھا ہو جائے گا تو ہمارا شکر ذیادہ ادا کرے گا۔ اور شہرہ بھی ہوگا کہ ایسے بگڑے کو تندرست کر دیا۔حالانکہ یہ محض جہالت ہے ۔ بلکہ اگر واقع میں اگر مرض  دشوار بھی ہو، تاہم ہرگز اس کی بوں نہ آنے پائے کہ یہ سن کر درد مند دل ٹوٹ جاتا ہے اور صدمہ پاکر ضعف   طبیب باعث غلبہ مرض ہوتا ہے ۔ بلکہ بکشادہ پیشانی تسکین و تسلّی دی جائے  کہ بات نہیں ان شاء اللہ اب آپ اچھے ہوئے۔

(11) بعض  احمق نا کردہ کار یہ ظلم کرتے ہیں کہ دوا کو ذریعہ تشخیص مرض بتاتے ہیں۔ یعنی جو مرض اچھی طرح خیال میں نہ آیا انھوں نے رجماً بالغیب ایک نسخہ لکھ دیا کہ  اگو نفع کیا تو فبہا۔ ورنہ کچھ حال تو کھلے گا ۔ یہ حرام قطعی ہے ۔ علاج بعد تشخیص ہونا چاہئے  نہ کہ  تشخیص بعد علاج۔

                         اس قسم کی صدہا باتیں ہیں  مگر اس قلیل کو کثیر پر حمل کرو اور میں انشاءاللہ تعالیٰ وقتاًفوقتاً تمہیں مطالعہ کرتا رہو گا ۔ بہت باتیں ایسی ہیں۔ جن کا اس وقت بیان ضروری  نہیں۔ جب  خدا نے کیا کہ تمہارا مطلب چل نکلا اور رجوع  خلائق ہوئی۔ اس وقت انشاءاللہ العظیم بیان کروں گا۔ اگر تمہیں  یہ میری تحریر  مقبول ہو، تو اسے بطور دستور العمل اپنے پاس رکھو اور اس کے خلاف کبھی نہ چلو ان شاءاللہ تعالیٰ بہت نفع پاؤ گےاور اگر یہ سمجھ کر یہ طب سے جاہل ہے۔ اس فن میں اس کی بات پر کیا اعتماد، تو بے شک یہ خیال تمہارا بہت صحیح ہے  اس تقریر پر  مناسب ہے کہ اپنے اساتذہ کو اکھالو اوت وہ پسند کریں۔ معمول یہ کرو۔

والسلام خیر ختام

(فقیر احمد رضا قادری عفی عنہ)

۴ جمادی الاخر ، روز جمعہ ۱۳۰۶ھ

[ماخوذ از ماہنامہ ’’الرضا‘‘ بریلی شمارہ ربیع الثانی ۱۳۴۶ھ ص ۱۹ تا ۲۰ بہ حوالہ کلیاتِ مکاتیبِ رضا ،مرتبہ: ڈاکٹر غلام شمس مصباحی، جلد دوم، صفحات: ۱۴۷ تا ۱۵۱]

رضا میڈیکل ضابطہ اخلاق کے اصول:

 اس  خط میں امام احمد رضا محدث حنفی علیہ الرحمہ طبیب کے خصوصیات معالج و مریض کا  تعلق طبیب کے فرائض  اور ذمہ داریاں انسان کی زندگی اور صحت کی اہمیت کے بارے میں طبی نقطہ نظرسے  جو رہنمائی فرمائی ہے اس سے درج ذیل میڈیکل  ضابطہ اخلاق کےاصولوں کی اس طرح وضاحت ہوتی ہے ۔

۱۔ طبیب جفا اور شقا سے محفوظ ہو۔

۲۔ طبیب بطور تجربہ کسی مریض کا علاج نہ کرے ۔

۳۔ گاہے بگاہے ماہرین اطباء سے پیشہ ورانہ مشاورت و استعانت جاری رکھی جائے۔

۴۔ محض تجربے کی بنیاد پر بغیر تشخیص مرض علاج نہ کیا جائے۔

۵۔ عام و معمولی مرض کو آسان نہ سمجھا جائے۔

۶۔ تشخیص و معالجے میں سہل انگاری و عدم توجیہی سے کام نہ لیا جائے۔

۷۔ صرف و صرف  مریض ویا  تیمارداروںکی بہم کردہ معلومات پر علاج و ادویات تجویز مت کی جائیں۔

۸۔ طبیب کو ہرگز اجازت نہیں کہ بغیر تشخیص کامل کے مرض کے بارے میں اظہار رائے کرے۔

۹۔ مریض کو ترکیب دوا، پرہیز اور طریقہ استعمال کو خوب اچھی طرح سمجھایا جائے۔

۱۰۔ مریض کے ساتھ

الف: کج خلقی

 ب: بد زبانی

ج: خر دماغی

د:بے اعتنائی سے گریز کیا جائے ۔

۱۱۔ طبیب کی مہربانی و شیریں زبانی  مریض کا آدھا مرض کھو دیتی ہے۔ اس لئے طبیب پر واجب ہے کہ وہ

الف:  نیک اخلاق

ب:   شیریں زبان

ج:  متواضع

د: حلیم

ر: مہربان ہو۔

۱۲۔ سرسری تشخیص  یا چہرہ یا نبض کو دیکھ کر مریض کے علاج کو مشکل قرار نہ دیا جائے۔

۱۳۔ اگر مرض دشوار بھی ہو تو مریض کو اس اطلاعات سے گریز کیا جائے ۔ کیونکہ صدمہ پاکر ضعف طبیب کے باعث مریض پر غلبہ مرض ہو سکتا ہے۔

۱۴۔ مریض کے ساتھ ہمیشہ ہمددی سے پیش آیا جائے اور تسلی دی جائے کہ انشاءاللہ تعالیٰ وہ جلد صحت یاب ہو جائے گا ۔

۱۵۔ مریض کے علاج سے پہلے کامل تشخیص کی جائے نہ کہ تشخیص بعد علاج  کے۔

۱۶۔ سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے سہل علاج کو دشوار قرار نہ دیا جائے۔

۱۷۔  نیک نیت سے علاج کیا جائے ، تو خدا بھی راضی ہوتا ہے۔ جو خاص جالب دست شفاء ہے۔

۱۸۔بد مزاجی طبیب کے لئے دین و دنیا  میں زہر ہے۔
تجاویز برائے عملی اطلاق:

   رضا میڈیکل ضابطہ اخلاق کے تجاویز درج ذیل ہیں :

۱۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل طبی ضابطہ اخلاق کو میڈیکل تعلیم کا لازمی حصہ قرار دے۔

۲۔ تمام میڈیکل کالجز میں طبی اخلاقیات کی تعلیم تے ماہر اساتذہ مقرر کئے جائے۔

۳۔ الشیخ احمد رضا محدث حنفی کو بطور ماہر طبی اخلاقیات کے طور پر شامل کیا جائے۔

۴۔ الشیخ احمد رضا محدث حنفی کے رضا میڈیکل ضابطہ اخلاق کی روشنی میں طبی اخلاقیات کا نصاب مدون کیا جائے۔

۵۔ رضا میڈیکل ضابطہ اخلاق کی عمل داری کے لئے مانیٹرنگ نظام استوار کیا جائے۔

۶۔ رضا میڈیکل ضابطہ اخلاق پر تحقیقی مقالہ جات  تحریر کئے جائیں۔

۷۔ رضا میڈیکل ضابطہ اخلاق کی میڈیا کے ذریعے تشہیر کی جائے۔

۸۔ رضا میڈیکل ضابطہ اخلاق سے متعلق سیمینار اور کانفرنس کا انعقاد کیا جائے۔

۹۔ رضا میڈیکل ضابطہ اخلاق سے متعلق کتب تحریر کی جائے۔

۱۰۔ رضا میڈیکل ضابطہ اخلاق کی پیروی کرنے والے ڈاکٹر حضرات کو سرکاری سطح پر مراعات دی جائے۔

۱۱۔ رضا میڈیکل ضابطہ اخلاق سے انحراف کرنے والے ڈاکٹر وں کا احتساب کیا جائے۔

نتائج:

الشیخ احمد رضا محدث حنفی کے رضا میڈیکل ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد سے درج ذیل نتائج و فوائد حاصل ہو سکے گے۔

۱۔ ڈاکٹر وں کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا۔

۲۔ ڈاکٹر وں کی نیک نامی سے ذیادہ سے ذیادہ مریض کامیاب علاج کی غرض سے  ان کی طرف رجاع کریں گے۔

۳۔ ڈاکٹر اور مریض میں خوشگوار تعلقات قائم ہوں گے۔

۴۔ طبی ضابطہ اخلاق سے انحراف کرنے والے ڈاکٹروں کی حوصلہ شکنی ہو سکے گی۔

۵۔ مریض ذہنی، معاشی استحصال سے محفوظ رہ سکے گا۔

۶۔ ڈاکٹر حضرات تیمارداروں کے جارحانہ تشدد سے بچ سکیں گے۔

 
   

 


متعلقہ

تجویزوآراء