سائنسی ایجادات اور عقائد اہلسنت کی حقانیت
*پہلی قسط*
سائنسی ایجادات اور عقائد اہلسنت کی حقانیت
ملک غلام مصطفی:
رسال اللہ ﷺ کے متعلق صحابہ کرام سے لیکر آج تک مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہو کہ:
۱۔ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور اللہ تعالیٰ نے کائنات میں سب سے بڑھ کر علوم و معارف اپنے رسول معظمﷺ کو عطا فرمائے ہیں علم چاہے سائنسی ہو جغرافیائی، معاشی ہو یا معاشرتی، مذہبی ہو یا سیاسی حتی کہ علم زمینی ہو یا آسمانی ان میں آپﷺ سے بڑھ کر کائنات میں کوئی مخلوق نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء نے صراحتاً لکھا ہے کہ:
’’ جو آدمی کسی شخص یا مخلوق کا علم حضور سے ﷺ ذیادہ سمجھے یا ثابت کرے وہ مطلقاً کافر ہے‘‘
۲۔ اسی طرح کائنات کا مختار حقیقی و ابدی اللہ تبارک وتعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بعد بعطائے الہیٰ کائنات میں سب سے بڑھ کر جو ذات اختیار رکھی ہے وہ ذات مصطفی علیہ التحیتہ و الثناء ہے۔
۳۔ اسی طرح کسی بھی کمال و صلاحیت میں کوئی بھی مخلوق صلاحیت و کمالات مصطفیﷺ کا مقابلہ نہیں کر سکتی چہ جائیکہ بڑھ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی جس قوم کی طرف مبعوث ہوتا ہے اس قوم کے تمام تر کمالات، کمالات نبوت کے سامنے ہیچ ہوتے ہیں ۔ کیونکہ اپنی پوری امت کے جملہ کمالات سے اعلیٰ و ارفع کمالات ہی دلیل نبوت اور نبی کی ذات کے برتر ہونے کا ثبوت ہوتے ہیں۔
بقولِ قرآن مجید چونکہ ہمارے نبی ﷺ قیامت تک کے تمام لوگوں کی طرف رسول بن کر آئے ہیں تو عقل بھی چاہتی ہے کہ نبیﷺ کے کمالات و عجائبات قیامت تک ہر ہر فردسے ذیادہ اور اعلیٰ ہوں ۔ لہذا قیامت تک کا کوئی انسان کسی بھی کمال میں آپﷺ سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا۔
یہ تھے چند مسلم عقائد نظریات:
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان عقائد و نظریات پر حقیقی ایمان و ایقان کس کا ہے اور کون ان چیزوں کو زبانی مانتے ہوئے دلی طور پر ان سے منکر ہے۔ چند سائنسی ایجادات کے حوالے سے ان عقائد کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
علم نبوت اور انٹرنیٹ:
دور حاضر میں انٹرنیٹ ایک ایسی ایجاد ہے جس نے ساری دنیا کو گلوبل و لیج بنا کر رکھ دیا ہے ۔ یہ ایک سائنسدان کی ایجادہے جس نے اس آلہ کے ذریعے پوری دنیا کی معلومات کو اپنے کنٹرول میں کر لیا ہے۔ یعنی وہ گھر بیٹھے اس مشین کے ذریعے بتا سکتا ہے کہ برطانیہ کے کتنے جہاز اس وقت محو پرواز ہیں اور کتنے لینڈ کر چکے ہیں وہ گھر بیٹھے امریکہ کی اسٹاک مارکیٹ میں کسی بھی کمپنی کا ریٹ دریافت کر سکتاہے۔ وہ گھر بیٹھے فرانس میں ہونے والے کسی بھی جرم کی رفتار اور تناسب معلوم کر سکتا ہے۔ اگر وہ گھر بیٹھے دنیا بھر میں ہونے والی قرآن مجید پر ریسرچ کو حاصل کرنا چاہے تو یہ اسے بتفصیل مل سکتی ہے اور دنیا بھر میں سے کسی بھی اہم شخصیت کی زندگی کے بارے میں اہم معلومات اسے گھر بیٹھے مہیا ہو سکتی ہیں۔ الغرض دنیا بھر کی معلومات کو اپنے کنٹرول میں کر لینا یہ ایک غیر نبی سائنسدان کا کمال ہے۔نہ صرف یہ کہ اس نے خود اس سے استفادہ کیا بلکہ اس کمال میں اس نے پوری دنیا کے لوگوں کو بھی حصہ دار بنا لیا ہے۔ جو چاہے جس وقت چاہے آلہ سے کام لے کر دنیا بھر میں معلومات کا خزانہ اکٹھا کر لے۔
لیکن!!! کیا ہم نبی کریم ﷺ کے لئے ایسا علم اور اس علم کے حصول پر ایسا کنٹرول تسلیم کرتے ہیں کہ آپ ﷺ بھی جب چاہے کسی بھی معلومات کو تسلیم کر لیں۔؟؟؟
ہاں بحمد اللہ تعالیٰ!!! اہلسنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ آپﷺ انٹرنیٹ کے فراہم کردہ ، اس کے موجد کے حاصل کردہ تمام معلومات سے کہیں بڑھ کر معلومات و حقائق و معارف کے جاننے والے ہیں ، آپ جس طرف توجہ فرما دیں ادراک و معلومات کے دفتر کھل جاتے ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ انٹرینٹ صرف محدود زمینی معلومات فراہم کرتا ہے جبکہ ہمارے پیارے نبیﷺ تو زمین پر بیٹھ کر زمین و آسمان ، جنت و دوزخ، اور قبر و حشر کے تمام حالات نہ صرف جانتے ہین بلکہ صحابہ کرام کے سامنے ان میں سے بہت سے بتفصیل بیان کرتے ہیں، اور ان معلومات کی رسائی نہ انٹرنیٹ کی ہے ، نہ اس کے موجد کی اور نہ کسی اور مخلوق کی۔
لیکن کیا کیا جائے ان لوگو ں کا جو حضورﷺ کیلئے دیوار کے پیچھے کا علم بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ۔ اب فیصلہ کرنا ہوگا ان لوگوں کو کہ علم نبیﷺ کا ذیادہ ہے یا انٹرنیٹ کے موجد و خریدار کا۔
انٹرنیٹ کے موجد و خریدار کواگر کسی قسم کی معلومات درکار ہوں وہ تو چار انگلیا ں مارے اور فوراً بتفصیل علم حاصل کرلے اور پیارے بنیﷺ کو اگر کچھ معلومات درکار ہو ں آپ پریشان و مضطرب رہیں اور بے بسی کی تصویر بنے رہیں ( نعوز باللہ) ۔ کیا اللہ تعالیٰ کے بعد کائنات کا سب سے اعلم و برتر ہستی کا یہی مقام ہے۔؟؟؟
’’فَا عْتَبِرُوْایَآ اُوْلِی الْاَبْصَارِ‘‘
تو جناب ایک کافر کو اپنے نبی ﷺ سے علم ، قدرت اور کمال میں بڑھانے سے بہتر ہے کہ عقائد اہلسنت اپنا لیں اور حضور ﷺ کو بعطائے الہیٰ کائنات کے ذرے ذرے کا جاننے والا مان جائیں
*دوسری قسط*
سائنسی ایجادات اور عقائد اہلسنت کی حقانیت
ملک غلام مصطفی:
موبائل اور اختیارات مصطفیٰﷺ:
دوسری سائنسی ایجادات کے ساتھ ساتھ موبائل فون نے بھی انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔ یہ ماچس کی ڈبیہ جتنا چھوٹا سا آلہ ہے جس میں پوری دنیا کے ٹیلی فونک رابطہ کا نظام ڈال دیا گیا ہے۔ اس میں نہ تو کوئی تار ہے اور نہ بظاہر کوئی بہت بڑی مشینری فٹ ہے لیکن یہ ایک سائنسداں کا علم ہے اس نے اپنے علم و ذہنی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسا آلہ ایجاد کیا ہے کہ وہ گھر بیٹھے دنیا کے کسی بھی شخص سے رابطہ کر کے تبادلہ خیالات و معلومات کر سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے اپنے علمی کمال میں سب کو شامل کر لیا ہے جو چاہے جب چاہے اس سے فائدہ اٹھائے اور دنیا بھر میں جس سے چاہے گفتگو کر لے۔
لیکن !!! کیا ہم اپنے پیارےنبیﷺ کے ہاں بھی ایسا اختیار و کمال مانتے ہیں کہ وہ بھی جب چاہیں اور جس سے چاہیں جہاں چاہیں دنیا بڑھ میں رابطہ کر سکتے ہیں اور رابطہ کرنے والے کی آواز وگفتگو سن سکتے ہیں۔
ہاں ہاں اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ نبی کریمﷺ کے پاس اس سے کہیں بڑھ کر علم و اختیار ہے۔ آپﷺ جب چاہیں جس سے چاہیں نہ صرف رابطہ کر سکتے ہیںبلکہ جہاں چاہیں خود تشریف بھی لے جاسکتے ہیں ۔ رہا دور سے آواز سننا اور سنانا یہ کمال تو آپ کے لاکھو غلام کے ہاں بھی پایا جاتا ہے۔ صرف ایک مثال سامنے رکھیں کہ حضرت عمر نے تقریباً ۴۰۰ میل دور دشمن سے بر سر پیکار حضرت ساریہ کو بغیر کسی tv یا آلہ کو دیکھے، کسی موبائل آلہ کے بغیر آواز دی جو کہ حضرت ساریہ نے نہ صرف اپنے کانوں سے سن لی بلکہ اس ھدایت پر عمل کر دشمن کے بہت بڑے حملہ سے بچ گئے۔ ماتحت الا سباب اور ما فوق الا سباب مدد کی بحث کرنے والوں کے لئے یہ واقعہ مقام عبرت ہے کیونکہ کوئی بھی ذی عقل اس مدد کو ما تحت الاسباب نہیں کہہ سکتا۔
اگر بات پیارے نبی کریمﷺ کی کی جائے تو بخاری شریف کی ایک حدیث کے مطابق معراج کی رات جنت میں جاتے ہوئے آپﷺ نے حضرت بلال کے جوتوں کے آواز سن لی۔ دوسری حدیث کے مطابق آپ نے مسجد میں بیٹھ کر دوزخ میں گرنے والے ایک پتھر کی آواز سن لی۔ موبائل فون تو دنیا کی آواز دنیا مین سناتا ہے لیکن حضور ﷺ تو دنیا کی آواز جنت میں اور دوزخ کی آواز دنیا میں یقیناًً سنتے ہیں جو یقیناً موبائل اور دیگر سائنسی ایجادات کی پہنچ سے باہر ہے۔
بعض لوگ یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سننا معجزہاور کرامت ہے یہ انبیاء اولیاء کو مستقل حاصل نہیں ہوتے۔ جب اللہ چاہتا ہے وہ سن لیتا ہیں ورنہ عام حالات میں نہیں سن سکتے ۔
اس کے متعلق گزارش ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ موبائل کے موجد یا خریدار کے پاس تو یہ سہولت و اختیار تو ہر وقت ہو کہ جب اس کا جی چاہے جس سے چاہے دنیا میں رابطہ کرلے لیکن پیارے نبی کریم ﷺ کو یہ کمال و اختیار حاصل نہ ہو ۔ دوسرے لفظوں میں موبائل فون رکھنے والے ایک عام امتی کو دنیا میں کہیں بھی رابطہ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ فوراً رابطہ کرلےلیکن اگر یہی ضرورت نبی کریم ﷺ کو پڑ جائے تو آپ پریشان و بےبس ہے جائیں (معاذاللہ) اور انتظار کریں کہ کب معجزے کا ظھور ہو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک کام میں امتی مختار اوی نبی الانبیاءﷺ بے بس و مجبور۔ آخر ماننا پڑے گا کہ عقیدہ اہلسنت و جماعت کا یہ صحیح ہے کہ سارے کمالات آپﷺ کو مستقل حاصل ہیں۔ بلکہ جسےآپ چاہیں آپ یہ کمالات عطا بھی کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ جب کوئی معجزہ ، کمال اور شان اپنے پیارےمحبوب ﷺ کو دیتا ہے تو واپس نہیں لیتا بلکہ اس میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔
ٹیلی ویژن اور کمالات مصطفیﷺ:
یہاں تک تو تھا معلومات کا حاصل کرنا سننا اور سنا نا۔ اب ہم آتے ہیں دیکھنے کے کمال کی طرف ۔ تو جناب اس زمانے میں ٹیلی ویژن نے بھی دنیا کو انسان سے قریب تر کر دیا ہے۔یہ بھی ایک سائنس دان کا کمال ہے۔ جو نبی یا ولی تو کجا مسلمان بھی نہیں۔ دنیا بھر میں ہونے والا کوئی بھی واقعہ ، اجلاس، اور میچ وغیرہ اس سائنسدان کی نظروں سے اوجھل نہیں ۔ اس نے ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جس کی مدد سے دنیا میں ہونے والے واقعات کو وہ اپنی آنکھو ں سے گھر بیٹھے دیکھ سکتا ہے۔نہ صرف یہ کہ خود بلکہ یہ سہولت اس نے ساری دنیا کے لئے بھی مہیا کر دی ہے۔ اب امریکہ میں ہونے والا سلامتی کونسل کا اجلاس، عراق میں ہونے والی جنگ، برطانیہ کے کسی ہال میں ہونے والی کوئی بھی میٹنگ ہم گھر بیٹھے دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن!!! کیا ہم نبی کریم ﷺ کے مطعلق بھی ایسا عقیدہ رکھتے ہیں۔ کہ آپ بھی دنیا بھرمیں ہونے والے کسی بھی واقعہ، محفل یا جلسہ کو دیکھ سکتے ہیں۔
ہاں ہاں اہلسنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ دنیا بھر بلکہ آسمانوں کے اوپر اور زمین کے نیچے ہونے والے واقعات سے بھی نہ صرف آپﷺ واقف ہیں بلکہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’میں پوری دنیا کو اپنی ہتھیلی کی طرح دیکھ رہا ہوں‘‘ (الحدیث)
آپ ﷺ نے مسجد نبوی میں دیکھ کر جنت میں حوض کوثر اور اس کے کناروں پر رکھے پیالے دیکھ لئے (الحدیث) آپ ﷺ نے مسجد نبوی میں کھڑے کھڑے جنت میں ایک خوشے کو دیکھا اور اسے پکڑ لیا (الحدیث) ۔ ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو یہ کمال و اختیار دیا ہے کہ آپ ﷺ جب بھی جس واقعہ، شخص یا چیز کو دیکھنا چاہیں دیکھ سکتے ہیں۔ اس پر بھی اگر کوئی کہے کہ یہ سب واقعات وقتی معجزے تھے مستقل اختیار نہیں تھا تو وہ سوال اپنی جگہ رہا کہ آخر وجہ کیا ہے کہ ایک امےی کو تو یہ کمال حاصل ہے کہ وہ جب چاہے اپنے آلے کے ذریعے دنیا میں ہونے والا کوئی بھی واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے لیکن اگر یہی کمال نبی کریمﷺ کو مستقل مانیں تو شرک آڑے آجاتا ہے ؟ کیا اس سے ایک غیر نبی کا کمال و اختیار نبیﷺ سے بڑھ نہیں جاتا؟ اور پھر وہ بھی ایسا نبی جن کے متعلق سب لکھتے اور پڑھتے ہیں : ’’ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ لیکن دلی طور پر اس کے خلاف ہیں۔
آئو حقیقی طور پر اس عقیدہ پر ایمان لے آئو کہ علم، قدرت ، اختیار، کمال و ذہنی صلاحیت میں کوئی بھی مخلوق میرے آقاﷺ کے پائے کی نہیں ہے ۔ ورنہ لاکھوں امتیوں کو نبیﷺ سے بڑھ کر ماننا پڑے گا جو کہ یقیناً سب کے نزدیک کفر ہے۔ اللہ تعالیٰ سمجھ عطا کرے۔آمین