یونیورسٹی طالبہ کی خود کشی

یونیورسٹی طالبہ کی خود کشی


لاش پھنکے سے لٹکی جھول رہی تھی انوسٹگیشن آفیسر سمیت تمام کئی لوگ اس کمرے میں موجود تھے مجھے کمرے کے در و دیوار چھت سمیت لرزتے نظر آرہے تھے ایسا لگتا تھا کہ بس یہ سب ابھی میرے سر پر آگرے گا اور میں اس میں دب کا مر جاؤں گا۔
اس نے خود کشی کیوں کی ؟میں نے جھولتی لاش کو دیکھ کر کہا۔
یکایک ایسا لگا کہ کمرہ خالی ہو گیا اور مجھے تخیل کی پرواز نے لاش کے روبرو کر دیا۔
کیوں کی تم نے خود کشی ؟ میں نے چیختے ہوئے کہا۔
چیخو مت ! لاش نے مجھ سے مخاطب ہوئے کہا۔
تمہیں پھنکے پر لٹکی صرف ایک لاش نظر آئی تو تم چیخ پڑے ۔۔۔۔تمہیں وہ چلتی پھرتی لاشیں کبھی نظر نہیں آئیں جو روز جیتی اور روز مرتی ہیں لیکن ان میں ایک دفعہ مرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔
میری چیخ تو دور کی بات آواز تک گلے میں گھٹ کر رہ گئی۔
میں بھی ان سینکڑوں لڑکیوں میں سے ایک تھی جو اپنا مستقبل بنانے آئی تھی اس درسگاہ میں، مگر اپنی زندگی گنوا کرجا رہی ہو ں ۔۔۔۔میں نے بھی دیگر ہمجولیوں کی طرح سہانے خواب دیکھ رکھے تھے، عالم تصور میں میرے ہاتھوں پر بکھرے حنا کے رنگ جب رقص کرتے تو میں خود سے بھی شرما جاتی تھی ۔۔۔۔ چوڑیوں کی کھنک میری بھی سماعتوں کومدہوش کرتی تھی ۔۔۔۔ تصور میں سرخ گھونگھٹ کی سر گوشیاں مجھے بھی چھیڑتی تھیں۔۔۔۔
پھر تم نے خود کشی کیوں کی؟
کہیں یہ خواب مجھ سے روٹھ نہ جائیں میں ان خوابوں کو قید کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔
بس خوابوں کو قیدی بنانے کی خواہش میں موت کو گلے لگا بیٹھی۔
میں کچھ سمجھا نہیں ان خوابوں اور تمہاری خود کشی کے درمیان تعلق کیا ہے؟
جب زندگی میں ایک اچھی لڑکی کسی کو چن لیتی ہے ۔۔۔۔ لڑکے کی چکنی چپڑی باتیں اسے بہت اچھی لگتی ہیں ۔۔۔۔۔اس کے لبوں سےنکلتی جھوٹی تعریف اسے ایسے کوہ ہمالیہ پر لے جا کر کھڑا کر دیتی ہے جہاں غلطی وہ یہ کرتی ہے کہ خود کو کسی بندھن کی بنا سونپ بھی دیتی ہے ۔۔۔۔وہ اپنے محبوب کو عالی جاہ کا لقب دے دیتی ہے اور وہ ’’ عالی جاہ‘‘ اسے اس وقت وہاں سے اس کھائی میں دھکیل دیتا ہے جہاں خواب بکھر جاتے ہیں اور چہرے سیاہ ہوجاتے ہیں۔
میرے ساتھ بھی ایساہی ہو ا فیس بک کی دنیا ، کال پیکجز، ہوٹل میں ڈیٹنگ اور پارک کی ملاقاتوں نے مجھے بھی ایسے ہی کوہ ہمالیہ پر لے جا کر کھڑا کر دیا جہاں خود کشی کے سوا کوئی راستہ نہیں آج کے روزنامہ جنگ اخبار کو پڑھ لینا خبر بتا دے گی میرے ’’عالی جاہ‘‘ نے اپنے موبائل میں مجھ جیسی ۳۰ نادان لڑکیوں کے خوابوں کا اصطبل بنایا ہوا تھا ۔۔۔۔۔اس نے ہمارے خوابوں کو بھنبوڑ ڈالا بھیڑیا تھا وہ۔۔۔۔
یہ مرد ہوتے ہی بھیڑئیے کی خصلت کے حامل ہیں یہ معاشرہ ہی مردوں کا معاشرہ ہے ۔۔۔۔میں نےجذباتی ہوتےہوئے کہا۔
نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے اس نے دوٹوک میری بات کی نفی کی۔
پھر !!!میں ہکا بکا رہ گیا۔
یہ تو تم نے ان آنٹیوں کے الفاظ دہرا دئیے جن کے سبب میں یہاں تک پہنچی ہوں میرے قاتلوں میں ان کا نام بھی شامل کریں۔
وہ کیسے؟
لبرل ازم کی بیماری کے سبب ۔۔۔۔۔مرد و عورت کے آزادانہ اختلاط کے باعث۔۔۔۔
عورت بھی با صلاحیت ہے ۔۔۔۔۔اپنا آپ منواؤ کے پر فریب نعروں کے سبب۔۔۔۔۔
مرد توباپ بھی ہے ،بھائی بھی ہے ، بیٹا بھی اور شوہر بھی۔۔۔۔۔
یہ براہ راست تو اللہ کی مخالفت کا درس دے بھی نہیں سکتیں ،یہ مرد کے خلاف کر کے دراصل مجھ جیسی نادان لڑکیوں کو رب کے مقابل کھڑا کرتی ہیں ۔۔۔۔۔اللہ و رسول ﷺ کی اطاعت و اتباع سے دور کرتی ہیں ۔۔۔۔ اپنی چکنی چپڑی باتوں کے سبب حجاب جیسے شیلٹر سے دورکرتی ہیں ۔۔۔۔آزادی کے نام پر لونڈیوں سے بد تر حال پر پہنچا دیتی ہیں۔۔۔۔
میں کبھی بھی خود کشی نہیں کرتی اگر میں نے اللہ و رسول ﷺ کی اطاعت اتباع کی ہوتی ۔۔۔۔۔کاش میں اللہ و رسول ﷺکو نہ چھوڑتی۔
میری یہ گفتگو عام و خاص ہر لڑکی تک پہنچا دو شاید میری یہ داستان سن کر کسی کی بہن اور بیٹی محفو ظ ہو جائے۔


متعلقہ

تجویزوآراء