توہینِ رسالت کی سزا

توہین رسالت کی سزا

تحریر : سیدشاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ

محترم صحافی حضرات،                        السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سب سے پہلے تو میں آپ تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتاہوں کہ آپ نے اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے وقت نکالا اور یہاں تشریف فرماہوئے۔

جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ کچھ عرصہ ہوا کہ یورپی یونین کا ایک وفد پاکستان آیا اوراس نے پاکستان کے قانون تحفظ ناموس رسالت یعنی 295/C کو ختم کرنے کی بات کی۔ یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی۔ یورپی یونین کے اس مطالبے سے مسلمانانِ پاکستان کے جذبات سخت مجروع ہوئے اور ہم اسے پاکستان کے اندورنی معاملات میں مداخلت تصور کرتے ہوئے یہ عزم کرتے ہیں کہ ہم اس قانون تحفظ ناموس رسالت کا ہر صورت دفاع کریں گے۔ اس حوالہ سے ایک عظیم الشان لبیک یارسول اللہ ﷺ کانفرس ان شاء اللہ اتوار 10 جنوری 2016ء کو شام 4 بجے نشتر پارک کراچی میں منعقد ہوگی۔

محترم صحافی حضرات!

الحمد للہ ہم اور آپ مسلمان ہیں، اور بحیثیت مسلمان احکام اسلام پر عمل کرنا ہم پر لازم قرار دیا گیا۔ اور اسلام کی اساسی تعلیمات میں حضورنبی کریم ﷺ کی محبت واطاعت کوازحد لازم جب کہ آپ کی شان میں ادنی ٰ سی بے ادبی کو بد ترین جرم قرار دیا گیا ہے اور حقیقی مسلمان کبھی بھی یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی دریدہ دہن حضور ﷺکی شان میں ادنی ٰ سی گستاخی کا مرتکب ہو۔

تاریخ کی ایسی ایک مثالوں سے بھری پڑی ہے چاہے وہ صحابہ کرام  کا دور ہو یا امت کے زوال کا دور، ناموسِ رسالت کے باب میں امت حد درجہ حساس رہی ہے اور والہانہ عقیدت  سر شار رہی ہے۔ اس لئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ نظریاتی سرحدوں کی بھی اسی طرح حفاظت کی جائے جس طرح جغرافیائی حد بندیوں کی جاتی ہے اور معاشرے کا استحکام بھی تبھی ممکن ہے کہ شرپسند عناصر جو توہین رسالت کے مرتکب ہوں ان کے لئے سخت ترین قانون موجود ہو، کیونکہ دنیا کے ہر ملک میں ہتک عزت کا قانون موجود ہے۔

برطانیہ میں 1860ء میں قانون توہین مسیح بطور کامن لاء common law  موجود تھا اوت آج بھی ہے اور وہ برطانیہ کے مجموعہ قوانین میں بلاسفیمی ایکٹ Blasphemy Act کے نام سے ہے۔

اس تناظر میں اگر آپ برصغیر کو دیکھیں تو مغلیہ سلظنت کے دور میں ایک عرصہ تک فیصلے قرآن و سنت اور اسلامی فقہ کی روشنی میں کئے جاتے تھے۔ فتاویٰ عالمگیری کی تدوین اس کی ایک مثال ہے۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد 1860ء میں انڈین پینل کوڈ یعنی تعزیرات، ہند کو نافذ کیا گیا۔

1898ء میں وفد A-124 تعزیراتِ ہند میں شامل کی گئی جس کے تحت حکومت برطانیہ کے خلاف منافرت پھیلانے یا توہین حکومت کے جرم کی سزا عمر قید مقرر کی گئی۔ اسی سال 1898ء میں ایک دفعہ A-153 کا بھی اضافہ کیا گیا جس کا متن حسب ذیل ہے۔

’’جو  کوئی الفاظ سے بذریعہ تقریر، تحریر، اشارات یا کسی دوسرے طریقے سے ہندوستان میں ہر مجسٹی کی رعایا کی مختلف جماعتوں میں دشمنی یا منافرت کے جذبات ابھارنے یا انہیں بھڑکانے کی کوشش کرے۔ اسے دوسال قید تک سزا یا ھرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں‘‘۔

حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے شاتمان کے خلاف مقدمات بھی اسی دفعہ A-153 کے تحت قائم ہوئے۔ جس میں سب مشہور مقدمہ ’’رنگیلا رسول‘‘ کے ناشر راج پال کے خلاف اسی جرم کے ارتکاب پر رجسٹرڈ ہوا۔ سیشن کورٹ سے اسے سزا بھی ہوئی مگر ہائی کورٹ نے اسے سزا نہیں دی۔ جس کے خلاف مسلمانان ہند میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور ہر پلیٹ فارم سے سخت احتجاج کیا گیا یہاں تک کہ غازی علم دین شہید نے راج پال کو موت کے گھاٹ اتار کر اسے توہین رسالت کی سزادے دی اور خود زندہ جاوید ہوگیا۔

اس وقت کسی عالم، مولوی اور کسی عام وکیل نے نہیں بلکہ بانی پاکستان محمد علی جن اح نے غازی علم الدین  شہید کا مقدمہ لڑا اور انہیں بچانے کی بھرپور کوشش کی، جبکہ شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال نے بڑی حسرت سے کہا کہ ہم تو سوچتے ہی رہ گئے اور ترکھان( بڑھئی) کا لرکا بازی لے گیا۔ وہ انگریز/ کافر کا دور تھا اور کافر کیوں کر اسلامی قانون پر عمل کرتے لہذا انہوں نے غازی علم الدین شہید کو پھانسی دے دی۔

جب برٹش گورنمنٹ نے دیکھا کہ اس دفعہ 153A- سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہو رہے ہیں تو ان کی اشک شوئی کے لئے A-295 کو قانون فو جداری کے تر میمی ایکٹ 1927ء میں تعزیراتِ ہند Indian P.C میں شامل کیا گیا۔ وہ دفعہ یہ ہے:-

’’جو کوئی عملاً اور بدنیتی سے تحریری، تقریری یا اعلانیہ طور پر ہر میجسٹی کی رعایا کی کسی جماعت کے مذہب یا مذہبی عقائد کی تو ہین یا توہین کی کوشش کرے، کہ جس سے اس کے مذہبی جذبات مشتعل ہوں ےتو اسے دوسال تک قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں‘‘۔

قیامِ پاکستان کے بعد  23مارث 1956ء کو’’ہر  میجسٹی کی رعایا‘‘ کے الفاظ کو ’’پاکستان کے شہریوں ‘‘ کے الفاظ میں تبدیل کعدیا گیا۔

1961ء میں ایک ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے A-298 کا اضافہ کیا گیا جو حسب ذیل ہے۔

’’جو کوئی تحریری، تقریری، اعلانیہ، اشارتاً بالواسطہ یا بلاواسطہ امہات المومنین یا کسی اہل بیت یا خلفاء راشدین میں سے کسی خلیفہ راشد یا اصحابِ رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بے حرمتی کرے، ان پر طعنہ زنی یا بہتان تراشی کرے، اسے تین سال تک کی سزا یا سزائے تا زیانہ دی جائے گی یا دونوں سزائیں دی جائیں گی‘‘۔

اس دفعہ میں امہات المومنین اور اصحابِ رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں گستاخی کو تو قابل تعزیر گردانا گیا مگر خود رسول اللہﷺ جن سے نسبت کی وجہ سے ان حضرات کو یہ مرتبہ حاصل ہوا، ان کی گستاخی کی کوئی سزا نہ تھی، جس پر 1985ِ کی قومی اسمبلی میں، جس میں میں ، جس میں  میں ممبر تھا، اور میرے ساتھ علامہ عبدالمصطفی الازہری، حاجی حنیف طیب، محمد عثمان خان نوری، صاحب زادہ محمد احمد نقشبندی اور محترمہ قمرالنساء قمر بھی تھیں، سب کی مشترکہ کوششوں سے قومی اسمبلی میں توہین رسالت کے مجرم کے لئے سزائے موت کا بل پیش کیاگیا، جسے فوجداری  قانون ترمیمی ایکٹ نمبر 3سال 1986ء کی صورت میں منظور کرکے تعزیرات ِ پاکستان میں 295۔Cکی صورت میں نافذ کیاگیا۔ جس کا متن یہ ہے!

’’جو گوئی عملاً، زبانی یا تحریری طور پر یا بطور ِ طعنہ زنی یا بہتان تراشی بالواسطہ یا بلاواسطہ اشارتاً یاکنایتاً محمد ﷺ کی توہین یا تنقیص یا بے حرمتی کرے وہ سزائے موت یا سزائے عمر قید کا مستوجب ہوگا اور اسے سزائے جرمانہ بھی سی جاسکتی ہے‘‘۔

توہین رسالت کے متذکرہ بالابل میں اہانت رسول ﷺ کی سزا بطور سزائے موت کامطالبہ کیا گیا تھالیکن اس میں عمر قید بھی رکھی گئی، جو قرآن وسنت کے منافی ہے۔ چنانچہ سپریم کورٹ کے ایڈو کیٹ جناب اسماعیل قریشی کی جانب سے فیڈرل شریعت کورٹ میں پٹیشن (Petition) دائر کی گئی۔ جس کے نتیجے میں فیڈرل شریعت کورٹ نے 30اکتوبر 1990 لو 295۔ C میں ترمیم کرکے عمر قید کے الفاظ حذف کردیئے۔

جو قانون توہین رسالت، اس وقت پاکستان میں رائج ہے، وہ درحقیت فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے مورخہ 30اکتوبر 1990ء کو روشنی میں اوراس میں اعلیٰ عدالت کی ہدایت کے مطابق ترمیم کرکے نافذ کیاگیاہے۔

آپ نے ملاحظہ فرمایاہتک عزت کا قانون برطانوی قوانین میں اور تعزیراتِ ہند میں بھی موجود ہے۔ پھر پاکستان میں اس قانون کو ختم کرنے کےلئے دباؤ کیوں ڈالا جارہا ہے۔ دراصل یہ یہود و نصاریٰ کی اسلام کی اسلام کے لاف سازش ہے آپ دیکھیں سوشل میڈیا پر کس طرح اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ہر زہ سرائی کی جارہی ہے ایسی غلیظ زبان استعمال کی گئی ہے کہ ہم اسے بیان نہیں کرسکتے ۔ اب وہ یہ چاہتے ہیں کہ جو ایک قانون پاکستان میں ناموس رسالت  کے حوالے سے ہے اسے بھی ختم کردیا جائے، خوب یاد رکھیں کہ توہین رسالت کے مجرموں کو سزادینے کے لئے کوئی قانونی راستہ نہیں ہوگا اور عدالتوں کے دروازے اس حوالے سے بند ہوجائینگے تو پھر کوئی بھی غیرت مند مسلمان قانون ہات میں لے کراس شاتم رسول سے انتقام لے لے گا، جسے روکا نہیں جاسکےگا۔

کہا یہ جارہا ہے کہ قانون توہین رسالت کا غلط استعمال ہورہا ہے، آپ تو صحافی ہیں آپ خوب جانتے ہیں کہ غلط استعمال تو یہاں تمام قوانین کا ہورہا ہے تو کیاسارے قوانین ختم کردیئے جائیں یہ تو بالکل ایسی ہی بات ہوگی کہ ایم۔ اے جناح روڈ پر چونکہ حادثات زیادہ ہوتے ہیں لہٰذا ایم۔ اے جناح روڈ ہی کو بند کردیا جائے،یہ تو مسئلے کا حل نہیں۔

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جس کے آئین میں واضح طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی حاکمیت کی بات  کی گئی ہے اور اس ملک کو اس لئے بنایا گیا کہ یہاں اسلامی نظام نافذ ہوگا چنانچہ آئین کی دفعہ 2الف (قرار دادِ مقاصد) میں واضح طورپر یہ لکھا ہوا ہے کہ  ’’مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کواسلامی تعلیمات ومقتضیات کے مطابق جس طرح کہ قرآن پاک وسنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے ترتیب دے سکیں۔

نیز جس کا آئین یہ کہتا ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی قانون، قرآن وسنت سے متصادم نہیں بنایا جائے گا۔ ملاحظہ ہو آئین کی دفعہ 227 الف

’’تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا۔

ایسا کوئی قانون وضح نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو‘‘

نیز : اس ملک کے صدر اور وزیر اعظم کے حلف میں یہ عہد شامل ہے کہ ’’وہ اسلامی  نظریہ کو برقرار رکھنے  کے لئے کوشاں رہیں گے جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے۔‘‘

تو پھراس ملک میں قرآن و سنت کے قانون کے خلاف سزائیں کیوں دی جارہی ہیں کیوں ہماری عدالتیں  ایسی سزائیں دینے پر مصر ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شاتم رسول کو مارنے والے ملک ممتاز حسین قادری کے ساتھ ہماری عدالتوں نے انصاف نہیں کیا، اسلامی قانون کی رو سے عدالتوں کاکام یہ تھا کہ وہ دو باتوں کی تحقیق کرتیں، ایک یہ  کہ کیا مقتول شاتم رسول تھا؟ اور دوسری یہ کہ ممتاز حسین قادری نے مقتول کو کیوں مارا؟۔ اگر قتل کا محرک صرف مقتول کاشاتم ہونا تھا تو اسلامی قانون اور اسوہِ رسول کی پیروی میں ممتاز حسین قادری کو رہا کردیا جانا چاہیے تھا، لیکن افسوس کہ ہماری عدالتوں نے یہ دونوں کام کما حقہ نہیں کیے، اور یہ دہشت گردی کا مقدمہ نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اسے دہشت گردی کی عدالت میں چلا یا گیا، عدالت ِ عالیہ اور عدالت عظمیٰ دونوں کے جج صاحبان نے مغرب زدہ سیکولر اورلبرل لوگوں کے اعتراضات کو دہرایا اور اسلامی قانون پسِ پشت ڈالتے ہوئے ممتاز حسین قادری کو سزائے موت سنادی جو کہ غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے۔

ہماری عدالتیں چونکہ انگریزی قوانین وروایات کی پیروی کی عادی ہیں اور کامن لاء Common Law  کے اصول پر سابقہ نظیروں کے مطابق فیصلے کرتی ہیں تو یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور مملکت خداداد ہے، قرار داد مقاصد اس کے آئین کا حصہ ہے جس کی رو سے قرآن وسنت کو بالادستی حاصل ہے اور اسلام  کا سرکاری مذہب ہے تو برطانوی اور بھارتی عدالتوں کی نظیروں کی پیروی کرنے کے بجائے رسول اللہ ﷺ کے فیصلوں کی نظیروں کی پیروی کیوں نہ کی جائے؟ خلفائے راشدین اور امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ اجماع اور تعامل اور مسلمان ججوں اور قاضیوں کے فیصلوں کی نظیروں کی پیروی کیوں نہ جائے؟ جو سب کے سب یہ کہتے ہیں کہ شاتم رسول کے قاتل کو سزا نہیں دی جاسکتی ۔

عدالت عظمیٰ میں اس کیس کی سماعت کے دوران فاضل جج صاحبان نے ریماکس دیے کہ وہ جج ہیں دین کے عالم نہیں ہیں۔ جب وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ وہ دین کے عالم نہیں ہیں توانہیں یہ مسئلہ علماء دین سے پوچھنا چاہیے اور ان کی رائے پرعمل کرنا چاہیے  تھا۔ اس کے لیے وہ اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی رجوع کرسکتے ہیں اوروفاقی شرعی عدالت سے بھی اورسارے  مکاتب فکر کے علماء کرام کے متفقہ فتاویٰ بھی موجود ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب وہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ دین کے عالم نہیں ہیں تواتنے نازک دینی اور شرعی مسئلے میں جو کروڑوں مسلمانوں کے لئے ایک جذباتی مسئلہ ہے اور انہیں مشتعل کرسکتا ہے، انہوں نے ایسا فیصلہ کیوں کیا؟ اور اگر فیصلہ کرنا ہی تھا تووہ موقف کیوں اختیار کیا، جسے سارے علماء کرام اوراسلام پسند وکلاء اور عوام غیر شرعی سمجھتے ہیں؟ اور وہ موقف کیوں اختیار نہیں اختیار نہیں کیا جو سارے علماء کرام اور عوام کے نزدیک صحیح ہے؟

ہم نے دیکھا کہ اس انتہائی اہم مسئلہ میں پرنٹ اور الیکٹر انک میڈیا دونوں بالکل خاموش ہیں، ہم آپ سے گذارش کرتے ہیں کہ خدارا اپنی ذمہ داری کا احساس کرتےہوئے مسلمانان عالم اور خصوصاً مسلمانان ِ پاکستان کے جذبات کو دنیا تک پہنچانے میں اپنے بھر پور کردار ادا کریں ۔

 


متعلقہ

تجویزوآراء