ابوموسیٰ اشعری ان کا نام عبداللہ بن قیس ہے،ہم ان کا نسب اورکچھ حالات ان کے نام کے ترجمے میں اس سے پہلے بیان کرآئے ہیں،ان کی والدہ بنوعک سے تھیں،اسلام قبول کیا،اورمدینے میں فوت ہوگئیں ایک گروہ نے جن میں واقدی بھی شامل ہیں لکھاہےکہ ابوموسیٰ سعید بن عاص کے حلیف تھے،مکے میں اسلام قبول کیا،اورہجرت کرکے حبشہ چلے گئے،وہاں سے انہوں نے دو کشتیوں میں اس وقت مراجعت کی جب حضورِ اکرم خیبر میں تھے،واقدی نے خالد بن ایا س سے، انہوں نے ابوبکربن عبداللہ بن جہیم سے روایت کی کہ ابوموسیٰ بہت بڑے نساب تھے،نیزوہ کہتے ہیں،ابوموسیٰ نے حبشہ کو ہجرت نہیں کی اور نہ وہ قریش میں کسی کے حلیف تھے،بلکہ وہ قدیم الاسلام ہیں،مکے میں اسلام قبول کیا،اور اپنے اہلِ قبائل میں چلے گئے،اوراشعریوں کا وفد لے کر اس موقعے پردوبارہ درباررسالت میں حاضرہوئے،جب حضرت جعفراپنے ساتھیوں کے ساتھ دو کشتیوں میں سوارہوکرحبشہ سے واپس آئے تھےاورآپ اس موقعہ پر خیبرمیں تھے۔
ابوعمرلکھتے ہیں کہ ابنِ اسحاق نے اس لئے انہیں مہاجرینِ حبشہ میں شامل کردیاہےکہ اتفاق سے ابوموسیٰ اپنے قبیلے کے ساتھ اس وقت دربار رسالت میں حاضرہوئے،جب حضرت جعفراپنے رفقا کے ساتھ حبشہ سے لوٹے تھےاور چونکہ ابوموسیٰ اشعری نے انہیں کشتیوں میں سفرکیاتھا،ابن اسحاق نے اس اشتباہ کی وجہ سے انہیں بھی مہاجرینِ حبشہ میں شمارکرلیا، اگرچہ دونوں فریق علیٰحدہ علیٰحدہ کشتیوں میں سوارتھے،یہ دونوں گروہ بہ مقام خیبر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے تھے اور آپ نے سب کو مالِ غنیمت سے حصہ عطافرمایا،اوراس قول کی تصدیق یحییٰ بن محمود اورابویاسر کی روایت سے ہوتی ہے،جوانہوں نے باسنادہمامسلم بن حجاج سے،انہوں نے براد الاشعری سے اور محمد بن علاء الہمدانی سےاوران دونوں نے ابواسامہ سے،انہوں نے یزیدسے،انہوں نے ابوبردہ سے،انہوں نے ابوموسیٰ سے روایت کی،کہ ہمیں حضورِ اکرم کی ہجرت کا علم ہوا،اورہم یمن میں تھے،چنانچہ میں اورمیرے بھائی ابوبردہ اور ابورہم (ابوموسیٰ دونوں سے چھوٹے تھے)اورہمارے قبیلے کے ترپن یا کم وبیش افراد ہجرت کے ارادے سے روانہ ہوئےاورکشتی میں سوار ہوئے،جس نے انہیں نجاشی کے ملک میں پہنچادیا،وہاں ان کی ملاقات جعفربن ابی طالب اوران کے ساتھیوں سے ہوگئی،اورانہوں نے کہاکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں اقامت کے لئے روانہ کیاتھا،اس لئے ہم یہاں مقیم ہیں،چنانچہ ابوموسیٰ کے ساتھی بھی وہیں ٹھہرگئے اور پھر وہ سب کچھ عرصے کے بعد اکٹھے بارادہء ہجرت مدینہ روانہ ہوئے،اوروہ حضورِاکرم کی خدمت میں اس وقت پہنچے جب خیبرفتح ہوچکاتھا،چنانچہ آپ نے مالِ غنیمت سے سب کو حصہ عطاکیا،اورجولوگ غزوہ میں موجودنہ تھے،سوائے اہلِ سفینہ کے اورکسی کو کچھ نہ دیا،اوریہ حدیث صحیح ہے اور ایک روایت میں ہے،کہ آپ نے ان لوگوں کے مالِ غنیمت سے حصہ نہیں دیاتھا۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے انہیں بصرے کی حکومت مغیرہ کے بعد دی تھی،پھرحضرت عثمان نے انہیں معزول کردیا،اورجب اہلِ کوفہ نے سعید بن عاص کو اپناحاکم قبول کرنے سے انکار کردیا،اور خلیفہ سے ابوموسیٰ کی تقرری کامطالبہ کیا،توخلیفہ نے انہیں مقرر کردیا،اورحضرت علی کے دورخلافت تک وہیں رہے،جب حضرت علی نے طلحہ اورزبیرکے حملے کو بصرے سے روکنے کے لئے ادھر کورُخ کیا،توانہوں نے اہل کوفہ کومدد کے لئے بلایا،لیکن ابوموسیٰ نے اس فتنے سے بچنے کے لئے اہل کوفہ کوروک دیا،چنانچہ امیرالمومنین نے انہیں معزول کردیا۔
حضرت علی اور امیرمعاویہ کے محاکمے میں ابوموسیٰ حضرت علی کی طرف سے حکم تھےچنانچہ انہیں دھوکادیاگیا،اوریہ دھوکاکھاگئے،وہاں سے مکے چلے گئے اوروہاں فوت ہوگئے،ایک روایت کے مطابق ۴۲ ھ میں کوفے میں وفات پائی،ایک روایت میں ۴۴ایک میں ۵۰اور ایک میں ۵۲سالِ ہجری مذکورہے،ابونعیم اورابوموسیٰ نے ان کا ذکرکیاہے،ابوعمرنے تفصیل سے ان کا ذکرکیاہے، نیز ہم پیشترازیں ان کے نام کے ترجمے میں اس سے زیادہ لکھ آئے ہیں۔
//php } ?>