امام الواصلین قدوۃ السالکین ،غوث زماں ،قلندر وقت
حضرت خواجہ پیرغلام یاسین شاہجمالی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:
حضرت علامہ خواجہ پیر غلام یٰسین شاہ جمالی بن حضرت فیض محمد شاہ جمالی بن خواجہ نور الدین شاہ جمالی رحمۃ اللہ علیہم
ولادت:
آپ کی ولادت باسعادت 4 صفر المظفر 1336ھ بمطابق 18 نومبر 1917ء بروز اتوار شاہجمال میں ہوئی۔
تعلیم:
ایک سال کی عمر تھی کہ والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا مکمل تربیت والد گرامی حضرت خواجہ فیض محمد شاہ جمالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی اورمکمل دینی تعلیم بمع دورۂ حدیث اپنے والد ماجد حضرت خواجہ فیض محمد شاہ جمالی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی ۔
بیعت و خلافت:
اپنے والد ماجد حضرت خواجہ فیض محمد شاہ جمالی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئے ۔ نیز خلافت بھی آپ نے عطا فرمائی۔
سیرت وخصائص:
والد گرامی حضرت خواجہ فیض محمد شاہ جمالی علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد آپ سجا دہ نشین مقرر ہو ئے آپ انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے آپ پر اکثر و بیشتر جذب کی کیفیت طاری رہتی اپنے والد ماجد کی طرح خطاب فرماتے اور عشق حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جام پلاتے ۔آپ کو اپنے نانا حضرت خواجہ نصیر بخش چشتی رحمۃ اللہ علیہ (جو کہ حضرت خواجہ خدابخش چشتی رحمۃ اللہ علیہ کےشاگردو مرید وخلیفہ اور حضرت خواجہ غلام فرید علیہ الرحمہ کے استاذ تھے)اور دادا جان حضرت خواجہ نورالدین شاہجمالی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی فیض ملا ۔
آپ کی زبان لوح محفوظ کی سیاہی تھی جیسا آپ فرماتے ویسا ہو تا ۔آپ کی کرامات شمار سے باہر ہیں جس نے بھی آپ کی زیارت کی وہ ہمیشہ آپ کا دیوانہ ہو گیا ۔آپ کے بارے میں مشہور ہے اور ان چشم دید گو اہوں میں سے بعض اہل علم و عرفان آج بھی زندہ ہیں کہ جنہوں نے حضرت کو بید اری کی حالت میں مدینہ منورہ میں حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں سلام پیش کرتے اور مکہ مکرمہ میں طواف ِ بیت اللہ شریف کرتے دیکھا ہے،جبکہ بظاہر اپنے آستانے پر بھی موجود ہوتے تھے۔
احقر کے جد امجدشیخ الحدیث والتفسیر بیہقی وقت امام المناظرین علامہ مفتی منظور احمد فیضی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :خواجہ غلام یٰسین قلندر کی نگاہ میں دنیا کی کوئی قدروقیمت نہ تھی واللہ باللہ ثم تاللہ ایسا تارک الدنیا ہم نے نہ دیکھا ،جائز طریقے سے دنیا آتی تھی تو بھی ٹھوکر مارتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سادگی کایہ عالم تھا کہ ذرہ برابر بھی تصنع اور بناوٹ ونمود نہیں بڑی سادہ اور پیاری طبیعت تھی ۔
(مرج البحرین فی ذکر غوثین ص37،38)
علم وفضل:
شیخ الحدیث والتفسیر بیہقی وقت امام المناظرین علامہ مفتی محمد منظور احمد فیضی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضرت خواجہ غلام یٰسین صاحب رحمہ اللہ تعالی چونکہ پیدائشی طور پر مستوار تھے ،بحر مشاہدہ میں غرق رہتے تھے اور علوم وفنون واسرار کے جامع تھے ظاہر طور پر نہ مطالعہ کتب نہ سبق کو دہراتے اگر چہ ظاہری طور پر آپ کے والد خواجہ فیض محمد شاہجمالی نے آپ کو تمام علوم ظاہرہ واسرار باطنہ پڑھائے تھے اور فارغ التحصیل علامہ بنادیا بس والد حضور کے آگے کتاب کھول کر پڑھتے رہتے نہ پہلے مطالعہ نہ پھر کتاب بینی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دن تمام علماء وفضلاء تلمیذان شاہجمالی نے طے کیا کہ استاذ شاہجمالی محقق عالم ہیں آسمان علوم کے نیر اعظم ہیں اور ان کے بیٹے غلام یٰسین کا یہ حال ہے نہ مطالعہ نہ سبق دہرانا ، آج ان سے مناظرہ کریں منقول والے منقول میں خواجہ غلام یٰسین کو پکڑیں اور معقول والے علم معقول میں مواخذے اور سوالات کی بوچھاڑ کردیں چنانچہ علماء وفضلاء ایک طرف سے اور خواجہ غلام یٰسین اکیلے ایک طرف تھے آپ نے سب کو لاجواب کردیا پھر پتہ چلا یہ سب کچھ پڑھے ہوئے اور تمام علوم کے حافظ ہیں ۔
ایک دن فقیر فیضی سے خواجہ غلام یٰسین نے فرمایا میں نے ملاں دوست محمد قریشی دیوبندی سے مناظرہ کیا اور اس کو لاجواب کردیا ۔
(مرج البحرین فی ذکر غوثین ص 22،23)
اولاد :
اللہ تعالی نے آپ کو تین صاحبزادے اور آٹھ صاحبزادیوں سے نوازا
فرزند اکبر:
پیر طریقت رہبر شریعت خواجہ خواجگان عمدۃ الواصلین حضرت علامہ صاحبزادہ خواجہ پیر محمد عبدالحی شاہجمالی رحمۃ اللہ علیہ سجادہ نشین دربار شاہجمالیہ سندیلہ شریف ڈیرہ غازی خان آپ کا وصال 17 شعبان المعظم 1433ھ میں ہوا اپنے جد امجد کے پہلو میں آخری آرامگاہ بنی ۔
فرزند اوسط :
پیر طریقت جگر گوشہ قلندر وقت مستوار حافظ خواجہ پیر محمد فیض رسول شاہجمالی دامت برکاتہم موجودہ سجادہ نشین دربار شاہجمالیہ سندیلہ شریف
فرزند اصغر:
قلندر ابن قلندر پیر طریقت نوردیدہ شاہجمالی کریم تارک الدنیا حضرت خواجہ پیر تاج رسول شاہجمالی دامت برکاتہم
وصال:
آپ کا وصال پرملال 2 رجب المرجب 1412ھ سندیلہ شریف ضلع ڈیر ہ غازیخان میں ہوا اپنے والد گرامی کے پہلو میں آرام فرمارہے ہیں ۔