حضرت خواجہ عبید اللہ ملتانی رحمۃ اللہ علیہ
نام و نسب: اسمِ گرامی: خواجہ عبیداللہ۔لقب:مظہرکلماتِ حق۔ سلسلہ ٔنسب اسطرح ہے:مولانا عبیداللہ بن مولانا محمد قدرۃ اللہ بن مولانا محمد صالح بن مولانا محمد داؤد بن مولانا یار محمد بن مولانا گل محمد بن مولانا محمد عبدالقدوس بن مولانا محمد عبدالحق بن مولانا خدا بخش بن مولانا محمد عبدالغفور (رحمہم اللہ تعالٰی ) (سردلبراں:47)
قبلہ مفتی محمد عبدالشکور ملتانی نقل فرماتے ہیں کہ: حضرت خواجہ عبیداللہ فرمایا کرتے تھے:میری قوم "فقیر"اور اس کے ساتھ "قادری" کا اضافہ صرف اور صرف حضرت محبوبِ سجانی، شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ سے محبت اور ان سے نسبت قائم کرنے کی وجہ سے کرتا ہوں"۔(ایضاً)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1219ھ،مطابق 1804ءکو"مدینۃ الاولیاء ملتان" میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: بچپن ہی میں آپ حفظِ کلام اللہ شریف سے مشرف ہوئے، پھر ابتدائی علوم اپنے پدرِ بزرگوار سے حاصل فرمائے۔پدرِ بزرگوار کے انتقال کے بعد آپ ملتان شریف ہی میں "درس والی مسجد " واقع دولت گیٹ میں فنافی الرسول حضرت مولانا خواجہ خدا بخش صاحب ملتانی ثم الخیر پوری کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوکرتحصیل علم کرنے لگے، پھرجب ملتان شریف پرسکھوں کا غلبہ ہوا تو آپ کے استادِ محترم خیر پور شریف ہجرت فرما گئے اور آپ کو ابھی علمِ حدیث و دیگر چند علوم میں کمال حاصل کرنا باقی تھا، چنانچہ آپ احمدپور میں حضرت خواجہ گل محمداحمد پوری علیہ الرحمۃ کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے اور کچھ عرصہ تک ان سے علمِ حدیث پڑھتے رہے۔یہاں آپ نے کچھ دن حضرت مولانا علی مردان اویسی رحمہ اللہ سے بھی استفادہ فرمایا ۔
بیعت وخلافت: سلسلہ عالیہ چشتیہ میں محبوب اللہ حضرت خواجہ خدا بخش ملتانی ثم الخیر پوری کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو ئے اور خلافت سے مشرف ہو ئے۔آپ کوسلاسلِ اربعہ میں خلافت واجازت حاصل تھی۔لیکن زیادہ انس سلسلہ عالیہ چشتیہ سے تھااور اسی میں بیعت کرتے تھے۔
سیرت وخصائص: فانی فی اللہ،باقی باللہ،عمدۃ الاصفیاء،زبدۃ الاتقیاء،سلطان الاولیاء،مجمع البحرین،مرجع الفریقین،جامع کمالاتِ علمیہ وعملیہ،غیظ المنافقین،مہلک الوہابیین،قطب الواصلین،سندالکاملین،رئیس المتوکلین حضرت خواجہ عبیداللہ ملتانی چشتی قادری رحمۃ اللہ علیہ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کے آباد ؤ اجداد سب علماء، صلحاء اور مقتدائے زمانہ گزرے ہیں،۔آپ کے آباء و اجداد کےفضل و کمال کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ بڑے بڑےعلماء وصلحاء اپنی مجالس میں ان کے فضائل بیان فرمایا کرتے تھے۔سلسلۂ اویسیہ کے باکرامت بزرگ جناب صاحب السیر حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی ملتان تشریف لائے تو آپ کے والدِ بزرگوار نے ان کی دعوت کا اہتمام کیا اور اپنے نو مولود فرزند دِلبند کو اٹھا کر بغرض دُعا حضرت صاحب السّیر کی خدمت میں لے جا کر ان کے دامن مبارک میں ان کی نظر فیض اثر کے سامنے رکھ دیا۔
اس پر حضرت صاحب السّیر علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا:"مولانا قدرۃ اللہ مبارک ہو ! یہ بچہ بہت سعاد ت مند ہے۔اس کی مبارک پیشانی سےعلم و فضل کا جو نور درخشاں دیکھتا ہوں۔ اس کا اثر انشاء اللہ العزیز سات پشتوں تک رہے گا"۔ (آپ کی یہ بات حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی چنانچہ آج آپ کی ساتویں پشت ہماری نگاہوں کے سامنے ہے، اور حسبِ سابق علم کا فیضان جاری وساری ہے جس سے تشنگانِ علوم سیراب ہو رہے ہیں اور امید ہے یہ سلسلہ آگے بھی جاری و ساری رہے گا،اورمیں نےاس خانوادےسےبڑھ کر کوئی متقی وپرہیزگارنہیں دیکھا۔تونسوی غفرلہ)
آپ رحمۃ اللہ علیہ حضرت خواجہ خدابخش خیرپوری رحمۃ اللہ علیہ کےمحبوب اورخلیفۂ اعظم تھے۔آپ کاشماراس وقت کےجید علماءکرام میں ہوتاتھا۔ہندوستان میں فتنۂ وہابیت کے آنےکےبعد،اعلیٰ حضرت امام اہلسنت علیہ الرحمہ سے پہلے برصغیرمیں جس نےعقائدِاہلسنت کےتحفظ ودفاع اور وہابیوں کے خلاف سب سےزیادہ کتب تصنیف فرمائی ہیں ،وہ آپ کی ذات گرامی ہے۔
معمولاتِ مبارکہ: آپ کےمعمولات میں سے تھا کہ آپ اپنےاوقات کی بڑی حفاظت فرماتے تھے۔فضول کاموں، فارغ رہنے، اور فارغ رہنے والوں کو بالکل پسند نہ فرماتے۔آپ نے اپنے اوقات کوتقسیم کیا ہوا تھا،مثلاً درس و تدریس کا وقت،وردووظائف،تلاوتِ کلام اللہ شریف،تلقین و ارشاد اورتصنیف و تالیف کا وقت،ایک کام کے وقت میں دوسرا کام نہ فرماتے۔سونے سے پہلے آپ کےمعمولاتِ شریفہ میں سورۃ الم سجدہ،سورۃ الدخان،اور سورۃالملک کی تلاوت بھی منقول ہے۔
یہ بھی آپ کی مستقل عادت تھی کہ نذر انہ دینے والے سے اس کا ذریعۂ معاش دریافت فرماتے، اگر اس کی آمد نی حلال سے ہوتی، بد مذہب اور سود خورنہ ہوتا تو پھر قرض کی بابت سوال فرماتے ،اگر وہ مقروض ہوتا تو اس کی بھی نذر قبول نہ فرماتے بلکہ بعض دفعہ خود اس کی امداد فرماتے اور دعائے خیر فرما کر اسے ادئیگی قرض کی سخت تنبیہ فرماتے کہ مجھے دینے سے بہتر ہے کہ قرض کا بوجھ اپنے سر سے اتارو۔ اسی طرح جس مال میں یتیم کا حق ہوتا وہ بھی قبول نہ فرماتے۔اسی طرح ہمسایوں اور رشتہ داروں کے حقوق کے بارے میں بھی سوال فرماتے اگر ان میں کوئی مستحقِ امداد و حاجت مند ہوتا تو پہلے اس کی امداد کا حکم فرما کر ارشاد فرماتے
حق گوئی:ایک مرتبہ ملتان کےایک مشہورنواب ایک ھمیانی میں رقم حضور اعلیٰ کی خدمت میں لائے۔ آپ اس وقت چار پائی پر آرام فرما تھے۔انہوں نے وہ ھمیانی آپ کی پائنتی کی طرف رکھ کر نذر قبول کرنے کی درخواست کی۔آپ نے بلا تأمل اس ھمیانی کو پاؤں مبارک سےٹھو کر مارکر نیچےگرا دیا اورفرمایا :"غریبوں پرظلم اورانگریز حکام کی خوشامد سے جو مال تمہیں حاصل ہوا وہ تمہارے لئےبھی حرام اور میرےلئےبھی حرام ہے، خودبھی حرام کھاتے ہواور مجھےبھی حرام کھلاتے ہو، میں اس میں سے ذرہ بھربھی قبول نہیں کروں گا۔"یہ سن کروہ شرمندہ ہوا،اورچلاگیا۔
روحانی کمالات: ایک مرتبہ کسی انگریز افسرکی بکھی چلانے والا ملازم آپ علیہ الرحمہ کا غلام تھا۔ایک دن پریشانی کے عالم میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے پوچھا میاں! آج کیوں پریشان ہو؟عرض کی حضور!میرا افسر کہتا ہے جو مجھے اللہ تبارک و تعالٰی کی زیارت کرائے گا اسی کے ہاتھ پر اسلام قبول کروں گا۔آپ نے فرمایا:اسے لے آؤ، چنانچہ وہ لے آیا تو حاضر ہونے پر آپ نے اس کی طرف انگلی مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا یہی شخص ہے جو اپنے اسلام کو حق تعالٰی جل شانہ کی زیارت سے مشروط کرتا ہے؟ تو آپ کےمحض اشارہ فرمانے پر ہی وہ بے خود ہو کر لوٹ پوٹ ہونے لگا، کافی دیر بعد جب ہوش میں آیا توفوراًٍ آپ کی قدموں میں گرکر مشرف بہ اسلام ہوگیا۔
مذاہبِ باطلہ کے خلاف جہاد: آپ چوں کہ بلحاظِ مسلک صحیح العقیدہ اہلِ سنّت والجماعت حنفی المذہب تھے، اس لئے جہاں اپنے متوسلین کو سود خوروں، نے نمازیوں، مشرکوں، جاہل صوفیوں اور دنیا دوست علما ءکی صحبت سے دور رکھنے کی کوشش فرماتے وہاں فرقہ وہابیہ ضالَّہ، باطلہ، نجدیہ وغیرہ کی صحبت سے بھی بچنے کی سخت تاکید فرماتے۔اس ضمن میں یہ بھی ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ:"اگر میں کسی وہابی کو دیکھ بھی لوں تو چالیس دن تک اس کی نحوست کی وجہ سے درود و ظائف میں ذوق نہیں رہتا"۔(سردلبراں:ص،66)
چنانچہ آپ اپنی ایک طویل نظم(کاٹھ دی کنی) میں بزبانِ سرائیکی ارشادفرماتے ہیں:
حمد خدا دی آکھاں ہر دم،کیتس اسانوں سُنّی۔۔۔۔رافضی خارجی ناں بنڑایا وہابی کاٹھ دی کنُّی
بھیڑے لوک وہابی ہن، اے دل دے اے ہن بد۔۔۔ظاہر شکلاں صاف ڈسیون، اندر انہاندے گند
فخر وڈائی عجب اوہناہا موجب دشمنیِ نیکاں۔۔۔نفس اپنے دے دوست اودائم، رکھن نفس تے ٹیکاں
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 6/جمادی الاول،1305ھ،مطابق 20/جنوری1888ءکوہوا۔مزار پرانوار،نزدسول ہسپتال ملتان میں ہے۔
ماخذومراجع: عبادالرحمن۔ تذکرہ علمائے ہند۔سردلبراں۔