2016-04-08
علمائے اسلام
متفرق
7219
| سال | مہینہ | تاریخ |
یوم پیدائش | 945 | | |
یوم وصال | 1040 | رجب المرجب | 03 |
حضرت اخون پنجو بابا افغان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
سید عبدالوہاب المعروف آخوند پنجوبابا
نام و نسب:آپ کا نام سید عبدالوہاب ہے۔اور والد کا نام سید غازی باباہے۔ جن کے ہاں آپ 945ھ میں موضع الکائے علاقہ یوسفزئی پیدا ہوئے آپ آخوند پنجو باباکے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کو کتب تاریخ و سیر میں شیخ پنجو سنبھلی لکھتے ہیں۔ نیز آپ بھی اپنی نسبت سنبھل سے کرتے، آپ کے آباؤاجدادوہاں سے ہی آئے تھے ، اسی لئے آئین اکبری میں شیخ ابو الفضل نے (جو کہ جلال الدین اکبر کا وزیر تھا) آپ کو شیخ پنجو سنبھلی لکھا ہے۔
تحصیلِ علم:آپ علم لدنی رکھتے تھے ۔ مگر پھر بھی ظاہر ی طور پر آپ نے علوم ظاہری سے فراغت حاصل کی۔ موضع چوہا گجر میں ان دنوں ایک بڑے عالم دین قاضی تھے ۔ ان کی خدمت میں پہنچ کر علوم متداولہ کو پڑھا ۔اس کے بعد ہندوستان تشریف لے گئے اور کافی عرصہ تک علماء سے پڑھتے رہے۔ ان ایام میں آپ زیادہ عرصہ روہیل کھنڈ میں مقیم رہے۔ تحصیل علم کے بعد واپس صوبہ سرحد لوٹے۔990ھ میں بعمر 45 سال اپنے چھوٹے بھائی کے ہمراہ موضع اکبر پورہ میں مستقل قیام اختیار کیا اور مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوئے علامہ شمس العلما ء قاضی میر احمد شاہ رضوانی تحفۃ الاولیاء میں فرماتے ہیں کہ تقریباً علما و مشاہیر وقت نے آپ سے علوم ظاہری میں دستار فضلیت یعنی سند حاصل کی ۔ آپ نے کافی عرصہ تفسیر ، حدیث، فقہ ،اصول ، منطق اور اخلاق کا درس دیا اور انتہائی جان فشانی کے ساتھ تبلیغ و اشاعت شریعت مطہرہ میں منہمک رہے.
بیعت وخلافت: جناب میر ابوالفتح صاحب اقنپاچی (جو کہ شیخ المشائخ جلال الدین تھانیسری کے خلیفہ تھے) پشاور شہر سے ہوتے ہوئے اکبر پورہ تشریف لائے اور آپ نے طریقہ چشتیہ میں ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اورخلافت سے نوازا۔
سیرت وخصائص: آپ کے رخ انور سے ہر وقت انوار الٰہی کی بارش رہتی اس لئے کوئی بھی جی بھر کر آپ کے چہرۂ ا نور کو نہ دیکھ سکتا ، اور جو بھی آپ کے رخ اقدس کو ’’ توجہ‘‘ اور ہمت سے دیکھ لیتا، تو عارف کامل ہوجاتا۔ اگر کسی بھی مشرک کی نظر آپ کے نورانی چہر ہ پر پڑجاتی تو فوراً کلمہ توحید پڑھ لیتا۔ یہی وجہ تھی کہ ہندو آپ کا نام سنتے ہی چھپ جاتے۔ ایک بار ہشتنگر سے ہندوؤں کی ایک برات اکبر پورہ آئی ۔ اس برات سے تقریباً دس نوجوان آپ کی مسجد میں آکر آپ سے ملاقی ہوئے۔ آپ کا چہرہ دیکھ کر بیہوش ہوگئے اور تڑپنے لگے ، جب ان کو ہوش آیا تو مسلمان ہوگئے۔ اور آج تک اس شیخ کا گھر اکبر پورہ میں آباد ہے۔ گویا کہ آپ کی ذات والا صفات میں اتنی ثاثیر اور اتنا جذبہ تھا کہ جو بھی اس وقت آپ کے سامنے آتا وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ جب آپ کے علم ظاہری و فیوضات باطنی کا شہر ہ چاروں طرف پھیل گیا۔ تو معاصر علماء اور مشائخ نے آپ کی مخالفت کی اور آپ سے بحث و مناظرہ کی ٹھانی اور اکٹھے ہو کر فیصلہ کیا کہ آپ کی مسجد میں جا کر آپ سے مناظرہ کریں اور کسی قسم کی آپ کی تعظیم و تکریم نہ کریں۔ جب وہ آپ کی مسجد میں پہنچے تو اس وقت آپ گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ آپ کے فرزند ارجمند سید عثمان صاحب نے آپ کو ان کے آنے کی خبر دی۔ آپ تشریف لائے ۔ ان علماء نے آپ کا رخ انور دیکھتے ہی فوراً قدمبوسی کی ۔ اور یک بارگی لاالہٰ کا نعرہ لگا کر بے ہوش ہوگئے، حتی کہ نماز ظہر کا وقت آگیا ، جب ظہر کے نوافل سے فارغ ہوئے تو میاں علی صاحب نے عرض کیا کہ حضور اگر ان کی یہی حالت رہی تو شریعت اور علم کی بہت بے قدری ہوگی اور بے حرمتی ۔ آپ نے ان پر توجہ کر کے ’’ الا اللہ‘‘ کا نعرہ لگایا تو وہ سب ہوش میں آگئے اور تائب ہو کر مرید ہوئے۔
استغناء کا عالم:آپ میں اتنی سخاوت تھی کہ جو بھی آپ کے پاس حاجتمند آیا خالی نہیں لوٹا۔آپ کے لنگر سے امیر و غریب سب کوبرابر کھانا ملتا ، مفلوک الحال اور غربا کی امداد کرنا آپ کا خاص وصف تھا۔ استغناء کا یہ عالم تھا کہ امیر وحکام سے تحفے قبول نہ فرماتے ۔ بادشاہ مغلیہ کی طرف سے کئی بار لنگر کے مصارف کے لئے پیش کش کی گئی ۔ مگر آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
وصال :آپ کی وفات شاہ جہاں بادشاہ کے عہد میں بعمر 95 سال 1040ھ میں ہوئی ۔اکبر پورہ سے تقریباً ایک میل سڑک شاہی کی طرف سپرد خاک کیا گیا۔