عبدالقدوس
گنگوہی، قطب العالم شیخ
اسمِ
گرامی:
عبدالقدوس۔
لقب: قطب
العالم، شیخ۔
نسب:
قطب العالم
حضرت شیخ عبدالقدوس ردولوی ثم گنگوہی کا کاسلسلۂ نسب چندواسطوں سےحضرت سیّدنا
امامِ اعظم ابوحنیفہ پرمنتہی ہوتاہے۔ آپ کےدادا شیخ صفی الدین تک آپ کا سلسلۂنسب
یہ ہے:
شیخ عبدالقدوس بن شیخ اسماعیل بن شیخ صفی الدین۔
آپ
کےداداشیخ صفی الدین حضرت میرسیّداشرف جہانگیرسمنانی کے مریدتھے۔
ولادت:
آپ۸۶۱ھ مطابق ۱۴۵۶ء میں ردولی میں پیداہوئے۔ آپ کی ولادت کی بشارت شیخ احمد عبدالحق
ردولوی نے آپ کے والدِگرامی کو اِن الفاظِ
مبارک میں دی تھی:
’’تمہاری پشت سے ایک ایسا فرزند پیدا ہوگاجو نورہی نورہوگا اور
ہماری نعمت اس کو ملے گی۔‘‘
تحصیلِ علم:
آپ
نے ابتدائی تعلیم اپنے والدِ ماجد سے حاصل کی، اسی طرح خوش نویسی بھی والدِ گرامی ہی
سے سیکھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے مکاتیب ومخطوطات اپنی خوش نویسی کی وجہ سے بہت
دل آویز ہیں۔آپ کے فرزندِ ارجمندشیخ رکن الدین فرماتے ہیں:
’’چوں حضرت شیخ بہ تعلیم ِکتا بَہا مشغول شدند درتمام روز می
خواندوتمام شب بشغل ذکرو عبادت حق مشغول بودند۔‘‘
یعنی
حضرت شیخ سارا دن کتب کے مطالعے اور تعلیم میں مشغول رہتے، اور ساری رات اللہ
تعالیٰ کی عبادت و ذکر میں مشغول رہتے تھے۔ آپ کی علم دوستی کااندازہ اس بات لگایا جاسکتا ہے کہ
آپ نے کئی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔
بیعت
وخلافت:
آپ
حضرت شیخ محمد بن حضرت شیخ عارف کےدستِ حق پرست پربیعت ہوئے اوران سے خرقۂ خلافت
بھی پایا۔ آپ کو سلاسلِ اربعہ میں خلافت حاصل ہے، لیکن اصل
میں آپ حضرت شیخ احمدعبدالحق ردولوی کی روحانیت سےمستفیدومستفیض تھے۔
سیرت
وخصائص:
آپ
مادرزاد ولی تھے۔بچپن میں ہی جو بات زبان سے نکل جاتی وہ پوری ہوکے رہتی۔ ریاضات
ومجاہدات میں آپ بایزیدِ د ہر اور فریدِ عصر تھے۔ سرورِ عالم ﷺ کی سیرتِ طیبہ
پرسختی سےعمل پیرا تھے۔ ہروقت مخلوقِ خدا کی تعلیم وتربیت میں مشغول رہتے،اور آپ کی
تربیت و صحبت میں ایسا اثر تھا کہ تھوڑی سی توجہ سے اس کے باطن کو صاف کرکے واصل
باللہ کردیتے تھے۔آپ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن شیخ احمد عبدالحق رودلوی کے مزارِ
پُر اَنوار پر حاضر ہو ا، اورمیرے ہاتھ
میں علم النحو کی مشہور کتاب’’کافیہ‘‘ تھی ۔میں مزار شریف کی صفائی کر رہا تھا کہ
اچانک مزار سے ’’حَق
حَق‘‘ کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ اس سے
میں بے خود ہوکر گر پڑا، اور اس بے خودی کی حالت میں نعمتِ ازلی و ابدی نصیب ہوئی۔
پھر فرماتے ہیں کہ میں جب کسی دنیاوی کام میں مشغول ہونا چاہتا تھا تو وہی ’’حَق حَق‘‘ کی صدا کانوں میں آتی تھی تو میں دنیاوی مشاغل ترک
کرکے حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتا تھا۔ حضرت شیخ احمد عبدالحق کی روحانیت میری
طرف اس حد تک متوجہ تھی کہ ہمیشہ آخر شب مجھے بیدار کر کے نمازِ تہجد کا حکم دیا
جاتا تھا۔آپ میں عاجزی وانکساری اس حد تک تھی کہ نماز اداکرنے کے بعد نمازیوں کی
جوتیاں سیدھی کرکے رکھتے تھے۔ (سبحان
اللہ! یہ تھے قطب العالم)
وصال:
آپ کا وصال ۲۳؍ جمادی الثانی۹۴۴ھ مطابق۱۵۳۷ء کوہوا۔ مزارشریف گنگوہ ضلع انبالہ (انڈیا)میں مرجعِ خاص وعام ہے۔