2015-11-24
علمائے اسلام
متفرق
2633
| سال | مہینہ | تاریخ |
یوم پیدائش | 0215 | | |
یوم وصال | 0303 | صفر المظفر | 13 |
حافظ الحدیث امام نسائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام ونسب: نام: احمد بن شعیب بن یحیٰ بن سنان بن دینار نسائی خراسانی ہے۔ کنیت : ابو عبدالرحمن ، لقب: حافظ الحدیث ہے۔
تاریخ ومقامِ ولادت: آپ رحمۃ اللہ علیہ 215 ھ میں خراسان کے ایک مشہور شہرنَسا میں پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم: امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دیار کے شیوخ سے اخذِ علم کے بعد، قتیبہ بن سعید کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے دوسال استفادہ کیا، اس کے علاوہ خراسان، عراق، حجاز، جزیرہ، شام اور مصر وغیرہ مختلف مقامات کا حصولِ علم کے لئے سفر کیا۔
سیرت وخصائص: امام نَسائی رحمۃ اللہ علیہ بے حد عبادت گزار اور شب بیدار تھے۔ ایک دن روزہ اور ایک دن افطارصومِ داؤدی کے طریقہ کو اپنایا ہواتھا۔طبیعت اور مزاج میں حد درجہ استغناء تھا، اس لئے حکام کی مجلس سے ہمیشہ احتراز کرتے تھے۔امام نسائی عقائد میں بھی راسخ ومتصلب تھے۔ جس زمانہ میں معتزلہ کے عقیدہ خلقِ قرآن کا چرچا تھاان دنوں محمد بن اعین نے ایک مرتبہ عبد اللہ بن مبارک سے کہا کہ فلاں شخص کہتاہے کہ جو شخص آیہ کریمہ إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي(طہ، آیت 14) ترجمہ کنز الایمان:” بیشک میں ہی ہوں اللّٰہ کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری بندگی“ کو مخلوق مانے وہ کافر ہے۔ عبد اللہ بن مبارک نے فرمایا: یہ حق ہے۔امام نسائی نے جب یہ روایت سنی تو کہا میرامذہب بھی یہی ہے۔عبادت میں امام نسائی کی کثرت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ آپ دن کے وقت میں امیرِ مصر کے ساتھ جہاد کرتےاور رات ساری عبادت میں گذادیتے تھے۔ طبعاً فیاض تھےاور مسلمان قیدیوں کا فدیہ دے کرچھڑایا کرتے تھے۔انہوں نے اپنی ساری زندگی اسوہ رسولﷺ کو اپنانے اور اخلاقِ صالحین کے تخلق میں گذاری یہاں تک کہ دمشق میں خوارج کے پاتھوں جامِ شہادت نوش کیا۔
امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ پر شیعہ ہونے کا الزام:کچھ لوگوں نے لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے امام نسائی پر شیعہ ہونے کا الزام لگایاحالانکہ اس الزام سے آپ کودور کابھی علاقہ نہیں تھا۔بعض لوگوں نے اس باب میں ابن ِ خلکان کی اس عبارت سے دھوکا کھایاہے: وکان یتشیع(وہ تشیع کرتے تھے)(وفیات الاعیان، جلد 1، صفحہ 35) علامہ ابنِ خلاکان نے امام نسائی کے لئے تشیع کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور تشیع اور رفض میں بہت فرق ہے۔ جو شخص حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو شیخین سے افضل جانےوہ رافضی اور جو ان کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل جانے وہ شیعی ہے ، لیکن امام نسائی کی تصانیف سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتاکہ وہ حضرت علی کوشیخین یا حضرت عثمان پرفضیلت دیتے ہوں۔انہوں نے اپنی کتاب السنن میں بیعت حضرت ابو بکر رضی اللی تعالیٰ عنہ کے وقت حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کایہ فرمان روایت کیا کہ” حضرت عمر نے سقیفہ بنوساعدہ میں مہاجرین اور انصار کے اجتماع سے خطاب کرکے فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر کو امامت کرانے کا حکم دیاپھر تم میں سے کون ابوبکرپر مقدم ہوناچاہتا ہے؟ ان سب نے یک زبان ہوکر کہا : ہم ابوبکر پر مقدم ہونے سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں“۔امام نسائی کی اس روایت کے ہوتے ہوئےان کی طرف تشیع کی نسبت کیسے صحیح ہوسکتی ہےخصوصاً جبکہ انہوں نے باقی صحابہ کے فضائل خصوصاً خلفاء راشدین کے فضائل بھی تصنیف کئے ہیں۔اگر امام نسائی میں شیعیت اور رافضیت کا ٹھورا سا بھی عنصر ہوتا تو آپ صرف حضرت علی کے فضائل تصنیف فرماتے ، اس بر عکس آپ نے کئی صحابہ کے فضائل تصنیف کرکے اپنے اوپر وارد ہونے والے شیعہ اور رافضی ہونے کے الزام کو قلع قمع کیا۔چنانچہ ان کے شاگرد محمد بن موسیٰ مامونی فرماتے ہیں : ”مجھے معلوم ہے کہ بعض لوگ حضرت علی کے فضائل لکھنے اور فضائل شیخین پر کچھ نہ لکھنے کی وجہ سے امام ابو عبد الرحمن نسائی کاانکار کرتے ہیں تو میں نے اس مسئلہ پر امام نسائی سے گفتگو کی انہوں نے فرمایا: جب میں دمشق گیاتو وہاں اکثر لوگوں کو حضرت علی سے منحرف پایاپس میں نے خصائصِ علی اس توقع سے تصنیف کیے کہ وہ لوگ راہ راست پر آجائیں۔مامونی کہتے ہیں : اس کے بعد انہوں نے باقی صحابہ کے فضائل بھی تصنیف کیے“۔ اس اقتباس سے ثابت ہوا کہ امام نسائی حسبِ مراتب تمام صحابہ کے فضائل کے معتقد تھے۔
وصالِ پر ملال:امام نسائی نے جب دمشق کی مسجد میں خصائصِ علی کا اقتباس سنایااور لوگوں نے آپ کو زدوکوب کیاتو خدام اٹھا کر آپ کو گھر لے آیا۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے فوراً مکہ معظمہ پہنچایا جائےتاکہ مکہ یا اس کے راستے میں میرا انتقال ہوجائےچنانچہ مکہ معظمہ پہنچنے پر 13 صفر المظفر 303ھ/بمطابق اگست 915 ء کو آپ کا انتقال ہوا۔
ماخذ ومراجع: تذکرۃ المحدثین