حضرت امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث سجستانی رحمۃ اللہ علیہ
ولادت۲۰۲ھ وفات: ۲۷۵ھ
اسم گرامی سلیمان، کنیت ابو داؤد۔ سلسلۂ نسب یہ ہے سلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد بن عمر ازدی سجستانی آپ کی ولادت سجستان کے اندر ۲۰۲ھ میں ہوئی۔ ارباب سیرو تاریخ نے سجستان کے محل و وقوع میں اختلاف کیا ہے۔ بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ سجستان بصرہ کے قریب ایک قریہ ہے جہاں ابو داؤد پیدا ہوئے لیکن صحیح قول یہ ہے کہ سجستان ایک شہر کا نام ہے۔ قندھار کے قریب سندھ و ہرات کے درمیان واقع ہے۔ شاہ عبدالعزیزصاحب لکھتے ہیں:
ابن خلکان نے جو یہ لکھا ہے کہ ‘‘نسبۃ الٰی سجستان اوسجستانۃ قریۃ من قری البصرۃ’’ (ان کی نسبت سجستان یا سجستانہ کی طرف ہے جو بصرہ کا ایک قریہ ہے) اس نسبت کی تحقیق میں ان سے غلطی سرزد ہوئی ہے حالانکہ ان کو تاریخ دانی اور تصحیح انساب و نسب میں کمال حاصل ہے چناں چہ شیخ تاج الدین سبکی ان کی یہ عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ ‘‘وھذا وھم والصواب انہ یسنۃ الی الاقلیم المعروف المتاقم لبلاد الھند’’ یہ ان کا وہم ہے صحیح یہ ہے کہ یہ نسبت اس اقلیم کی طرف ہے جو ہند کے پہلو میں واقع ہے یعنی یہ سیستان کی طرف نسبت ہے جو سندھ و ہرات کے مابین مشہور ملک ہے اور قندھار کے متصل واقع ہے اور چشت جو بزرگان چشتیہ کا وطن ہے وہ بھی اس ملک میں واقع ہے۔ پہلے زمانہ میں بست اس ملک کا پایۂ تخت تھا عرب لوگ اس ملک کی نسبت میں کبھی سنجری بھی کہہ دہتے ہیں۔ (بستان المحدثین، ۸۱، ۱۸)
تحصیل علم:
امام ابو داؤد نے خوش قسمتی سے تاریخ اسلام کا وہ عہد زریں پایا تھا جو حدیث کی ترقی و عروج کا زمانہ تھا ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے دوردراز بلاد اسلامی کا سفر کیا اور اسلامی ممالک کے مشہور شیوخ حدیث سے علم حاصل کیا اور اس ضمن میں بغداد، مصر، شام، حجاز، عراق میں کافی دنوں تک قیام پذیر رہے۔
ابن خلکان تحریر کرتے ہیں: ‘‘طوف البلاد وکتب عن العراقین والخراسیین والشامیین والمصریین والجزریین’’ انہوں نے شہروں کا گشت لگایا عراقی، خراسانی، شامی، مصری اور جزری محدثین سے حدیثیں قلم بند کیں۔ (وفیات الاعیان، ج۱، ص۳۸۲)
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں:
مصر، شام، حجاز عراق، خراسان اور جزیرہ وغیرہا میں خصوصیت کے ساتھ کثرت سے گشت کرکے علم حدیث حاصل کیا۔ حفظ حدیث، اتقان روایت، عبادت و تقویٰ اور صلاح و احتیاط میں بلند درجہ رکھتے تھے۔ (بستان المحدثین، ص۱۸۱)
امام صاحب نے اپنے عہد کےبے شمار محدثین سے سماع کیاان کے شیوخ کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں ‘‘شیوخہ فی السنن وغیرہا نحو من ثلاث مأۃ نفس’’ سنن وغیرہ میں ان کے شیوخ کی تعداد ۳۰۰ کے قریب ہے۔ (تہذیب التہذیب، ج۴، ص۱۵۱)
کچھ اہم شیوخ حسب ذیل ہیں:
ابو سلمہ تبوذکی، ابو الولید طیالسی، محمد بن کثیر عبدی، مسلم بن ابراہیم، ابو عمر حوضی، ابو توبہ حلبی، سلیمان بن عبدالرحمٰن دمشقی، سعید بن سلیمان واسطی، صفوان بن صالح دمشقی، ابو جعفر نفیلی، احمد، علی، یحییٰ، اسحاق، قطن بن نسیر، عبداللہ بن رجاء، احمد بن یونس، ضریر۔ (تہذیب، ج۴، ص۱۴۹، تذکرہ، ج۲، ص۱۵۲)
ابو داوؤد کے شوق علم کا یہ حال تھا کہ وہ ایک آستین کشادہ اور دوسری تنگ رکھتے تھے پوچھا گیا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ جواب دیا کشادہ آستین کتابیں رکھنے کے لیے ہے اور دوسری آستین استعمال میں نہیں آتی اس لیے تنگ ہے۔ (تذکرہ، ج۲، ص۱۵۳)
فضل و کمال:
امام ابو ادؤد اپنے زمانہ میں علم حدیث کے عظیم ستون تھے کثرت حدیث اور علوم حدیث کی معرفت میں ان کا پایہ بہت بلند تھا۔ انہیں اپنے اقران و معاصرین پر برتری حاصل تھی چناں چہ آپ کے معاصرین اور بعد میں آنے والے علماء و محدثین نے علم حدیث میں آپ کے کمال کا اعتراف کیا ہے نیز آپ کے زہدو تقویٰ، عبادت و ریاضت عفت و پاکدامنی کی ستائش و تحسین کی ہے۔ ذیل میں ائمہ حدیث اور بعض ارباب تذکرہ کے اقوال درج کیے جاتے ہیں۔
ابن خلکان: ‘‘احد حفاظ الحدیث وعلمہ وعللہ وکان فی الدرجۃ العالیہ من النسک والصلاح’’ وہ حافظ حدیث تھے اور حدیث و علل کے جاننے والے اور عبادت و تقویٰ میں بلند درجہ پر فائز تھے۔ (وفیات الاعیان، ج۱، ص۳۸۲)
ابوبکر خلال: ‘‘ابو داؤد الا مام المقدم فی زمانہ رجل لم یسبقہ الٰی معرفتہ بتخریج العلوم ونصرہ بمواضعہ احد فی زمانہ رجل ورع مقدم’’ ابو داؤد امام اور اپنے زمانہ میں مقدم تھے کوئی ان سے علوم کی تخریج کی معرفت اور اس کے مقام پر اس کی مدد میں سبقت نہ لے گیا۔ وہ اپنے زمانہ میں یکتا اور ورع و تقویٰ میں سب سے آگے تھے۔ (تہذیب التہذیب، ج۴، ص۱۵۱)
احمد بن محمد یاسین ہروی: ‘‘کان احد حفاظ الاسلام للحدیث وعلمہ و عللہ وسندہ فی اعلیٰ درجۃ من النسک والعفاف والصلاح والورع’’ وہ حافظ حدیث تھے اور سند حدیث اور اس کی علل میں ماہر تھے اور عبادت و پاکدامنی، صلاح اور تقویٰ میں اعلیٰ درجہ پر فائز تھے۔ (ایضاً)
محمد بن اسحاق صغانی و ابراہیم حربی: ‘‘الین لابی داؤد الحدیث کما الین لداؤد علیہ السلام الحدید’’ ابوداؤد کے لیے علم حدیث کو اس طرح سہل کردیا گیا تھا جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے لوہا ملائم کردیا گیا تھا۔ (ایضاً)
موسیٰ بن بارون: ‘‘خلق ابو داؤد فی الدنیا للحدیث وفی الآخرۃ للجنۃ’’ اللہ تعالیٰ نے ابو داؤد کو دنیا میں خدمت حدیث کے لیے اور آخرت میں جنت کے لیے پیدا کیا تھا۔ (ایضاً)
ابو حاتم بن حبان: ‘‘کان احد الائمۃ الدنیا فقھا وعلما وحفظا ونسکا وورعا و اتقاناً جمع وصنف وذب عن السنن’’ ابو داؤد علم حدیث، علم فقہ، علم و حفظ عبادت و تقویٰ پاکدامنی و خوف خدا میں دنیا والوں کے امام تھے۔ حدیثیں جمع کیں، کتابیں لکھیں اور اس کو آمیزش سے پاک کیا۔ (ایضاً)
حاکم: ‘‘ابو داؤد امام اھل الحدیث فی عصرہ بلا مدافعۃ’’ ابو داؤد اپنے زمانہ میں تمام محدثین کے بلا اختلاف امام تھے۔ (ایضاً)
موسیٰ بن ہارون: ‘‘مارایت اافضل منہ’’ میں نے ان سے افضل شخص نہیں دیکھا۔ (ایضاٍ، ص۱۵۲)
مسلمہ بن قاسم:‘‘کان ثقۃ زاھداً عارفا بالحدیث امام عصرہ فی ذلک’’ ابو داؤد، ثقہ ، زاہد، حدیث کے جاننے والے اور علم حدیث میں اپنے زمانے کے امام تھے۔ (ایضاً)
حافظ ذہبی: الامام الثبت سید الحفاظ آپ پختہ کار امام اور حفاظ حدیث کے سردار ہیں۔ (تذکرہ، ج۲، ص۱۵۲)
حلقۂ درس:
امام ابو داؤد نے جس طرح علم حدیث کی تحصیل میں کاوش و محنت کی اسی طرح احادیث کی اشاعت میں پورے اخلاص کے ساتھ کو شش کرتے رہے اس کام کے لیے انہوں نے حلقۂ درس قائم کیا جس میں طالبان علم نبوت بڑے ذوق شوق کے ساتھ شرکت کرتے اور اپنے دامن کو مالامال کرلیتے امام صاحب کا حلقۂ درس کافی وسیع تھا تلامذہ کی تعداد بے شمار ہے۔ چند اہم تلامذہ یہ ہیں:
ابو علی محمد بن احمد عمرلؤوی، ابو طیب احمد بن ابراہیم بن عبدالرحمٰن اشنانی، ابو عمر و احمد بن علی بن حسن بصری، ابو سعید احمد بن محمد بن زیاد اعرابی، ابو بکر محمد بن عبدالرزاق بن داسہ، ابو الحسن علی بن حسن بن عبدانصاری، ابو عیسیٰ، اسحاق بن موسیٰ بن سعید رملی، راقہ، ابو اسماہ محمد بن عبدالملک بن یزید رواس، ابو عبداللہ محمد بن احمد بن یعقوب بصری، ابوبکر احمد بن سلیمان نجار، ابو عبیدہ محمد بن علی بن عثمان آجری، اسماعییل بن محمد مطفار، ابو عبدالرحمٰن نسائی، ابو عیسیٰ ترمذی، حرب بن اسماعیل کرمانی، زکریا ساجی، ابوبکر احمد بن محمد بن ہارون الخلال حنبلی، عبداللہ بن احمد بن موسیٰ عبدان رہوازی، ابو بشر محمد بن احمد دولابی، ابو عوانہ یعقوب بن اسحاق اسفرائنی، ابوبکر بن ابی داؤد، ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی دینار، ابراہیم حمید بن ابراہیم بن یونس عاقولی، ابو حامد احمد بن جعفر اصفہانی، احمد بن معلیٰ بن یزید، دمشقی، احمد بن محمد بن یاسین ہروی، حسن بن صاحب الشاشی، حسین بن ادریس انصاری، عبداللہ بن محمد بن عبدالکریم رازی، علی بن عبدالصمد، محمد بن مخلددوری، محمد بن جعفر بن متفاض الفریابی، ابوبکر محمد بن یحییٰ صولی۔ (تہذیب، ج۴، ص۱۵)
تصانیف اور سنن ابی داؤد:
ابو داؤد صرف حدیث کے ہی مام نہ تھے بلکہ فقہ و اجتہاد اور تفسیر و کلام میں بھی کامل مہارت رکھتے تھے مختلف علوم و فنون پر متعدد تصانیف ان کی تبحر علمی اور جامعیت وکمال کابین ثبوت ہیں ان مصنفات میں کتاب السنن، کتاب المراسل، کتاب المسائل، کتاب الردعلی القدریہ، الناسخ والمنسوخ، کتاب التفرد، کتاب فضائل الانصار، مسند مالک بن انس،کتاب الزہد، دلائل النبوت، کتاب الدعاء، کتاب بدءالوحی، اخبار الخوارج، کتاب شریعۃ التفسیر، فضائل الاعمال، کتاب التفسیر، کتاب نظمالقرآن، کتاب فضائل القرآن، کتاب البعث والنشور، کتاب شریعۃ المقارئ ان تمام تصانیف میں جوکتاب شہرت و قبولیت دوام حاصل کرسکی وہ سنن ابی داؤد ہے اس کتاب کی وجہ تایف کے بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں:
‘‘کان ھھتم جمع الاحادیث اللتی استدل بھا الفقھاء دارت فیھم وبنی علیھا الاحکام علماء الامصار فصنف سننہ وجمع فیھا الصحاح والحسن واللین والصالح للعمل قال ابوداؤد ماذکرت فی کتابی حدیثاً اجمع علی ترکہ وما کان منھا ضعیفا صرح بضعفہ وما کان فیہ علۃ بینھما بوجہ یعرفہ الخائض فی ھذا الشان وترجم علی کل حدیث بما قداستنبط منہ عالم وذھب الیہ ذاھب والذلک صرح الغزالی وغیرہ بان کتابہ کاف للمجتھد’’ ان کی غرض یہ تھی کہ ان احادیث کو جمع کیا جائے ہ اجن سے فقہاء نے استدلال کیا ہے اور ان میں مروج ہوئی ہیں علماء امصارنے ان پر احکام کو مبنی کیا ہے چناں چہ انہوں نے اپنی سنن تصنف کی اور اس میں صحاح، حسن، لین اور قابل عمل احادیث کو جمع کردیا۔ ابو داؤد فرماتے ہیں میں نے اپنی کتاب میں کوئی حدیث ایسی نہیں لکھی جس کے ترک پر سب کا اتفاق ہے اور جو ضعیف تھی اس کے ضعف پر صراحت کردی اور جس میں کسی طرح کی کوئی علت تھی اسے اسی طرح بیان کردیا کہ جس کو علم حدیث میں غور کرنے والا خوب سمجھتا ہے اور ہر وہ حدیث جس سے کسی عالم نے کوئی مسئلہ استنباط کیا اور کسی اہل مذہب نے اس کو اختیار کیا اس پر عنوان لگا دیا یہی وجہ ہے کہ غزالی وغیرہ کی صراحت سے کہ ابو داؤد کی کتاب مجتہد کے لیے کافی ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ، ج۱، ص۳۶۵)
امام ابو داؤد نے اس کتاب میں پانچ لاکھ احادیث سےچار ہزار آٹھ سو احادیث کا انتخاب کیا ہے خود فرماتے ہیں ‘‘کتبت عن رسول اللہ ﷺ خمس ماۃ الف و جمعت فی کتابہ اربعۃ اٰلاف حدیث انتخبت منھا ماضمنتہ ھذا الکتاب، یعنی السنن جمعت فی کتابہ اربعۃ آلاف وثمان مائۃ حدیث ذکرت الصحیح وما یشبھہ ویقاربہ’’
خود فرماتے ہیں میں نے حضورﷺ کی پانچ لاکھ حدیثوں کو لکھا ان میں سے منتخب کرکے اپنی کتاب سنن میں چار ہزار آٹھ سو حدیثوں کو جمع کیا جو صحیح اور اس کے مشابہ و مقارن ہیں۔ (وفیات الاعیان، ج۱، ص۳۸۳)
اس کتاب کی ترتیب و تدوین کے بعد ابو داؤد نے اسے امام احمد بن حنبل کی خدمت میں پیش کیا تو انہوں نے اس سنن کو بہت پسند فرمایا۔ (بستان المحدثین، ص۱۸۱)
سنن ابی داؤد سے قبل کتب احادیث میں مسانید اور جوامع کارواج عام تھا، جس میں سنن اور احکام قصص اور مواعظ اور آداب ہر طرح کی حدیثیں شامل ہوتی تھیں۔ امام ابو داؤد نے سب سے پہلے صرف سنن میں یہ کتاب تالیف کی امت مسلمہ کے اکابر نے اسے ہر زمانے میں عقیدت کی نظر سے دیکھا اور اعتبار کیا۔
یحییٰ بن یحییٰ زکریا ساجی: ‘‘ کتاب اللہ اصل الاسلام وسنن ابی داؤد عھد الاسلام’’ اسلام کی بنیاد قرآن کریم اور اس ستون سنن ابی داؤد ہے۔ (تذکرہ، ج۲، ص۱۵۴)
ابن القیم: ‘‘امام موصوف (ابو داؤد) نے ایسی کتاب لکھی ہے جو مسلمانوں کے درمیان ثابت ہوئی اور اخلاقی مسائل میں فیصلہ کن بن گئی’’۔ (محدثین عظام، ص۹۶۹)
ابو سلمان خطابی: ‘‘قدجمع ابو داؤد فی کتابہ ھذا من الحدیث فی اصول العلم وامھات السنن واحکام الفقہ مالا نعلم متقدما ماسبقہ الیہ ولا متاخرا لحقہ فیہ وقد رزق القبول من کافۃ الناس’’۔
امام ابو داؤد نے اپنی اس سنن میں اصول امہات سنن اور احکام فقہ سے متعلق ایسی حدیثیں جمع کی ہیں کہ ہمارے علم میں نہ توکسی نے اس سے پہلے ایسا مرتب ذخیرہ جمع کیا اور نہ آج تک کوئی ان کے نقش قدم پر چل سکا۔ (معالم السنن، ج۱، ص۸)
محمد بن مخلد: ‘‘ابو داؤد نے سنن مرتب کرنے کے بعد جب لوگوں کے سامنے اس کو بیان کیا تو محدثین نے اس کو مصحف کی طرح قابل اتباع سمجھا’’۔
ابو العلاء محن کا بیان ہے کہ انہوں نے خواب میں نبئ اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ‘‘من اراد یتمسک بالسنن فلیقرأ’’ سنن ابی داؤد، سنن کی ابتاع کی آرزو رکھنے والوں کو سنن ابی داؤد کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ (تذکرۃ المحدثین، ج۱، ص۲۹۴)
ابن العربی: ‘‘دین کے مقدمات کا علم حاصل کرنے کے لیے کتاب اللہ اور سنن ابی داؤد کافی ہیں’’۔ (تذکرۃ الحفاظ، ج۱، ص۱۸۶)
خصوصیات:
ذیل میں سنن ابی داؤد کی کچھ اہم خصوصیات ذکر کی جاتی ہیں۔
۱۔ اس کتابکی امتیازی حیثیت یہ ہے کہ اس کے اندر صرف احکام و مسائل سے متعلق روایات و اخبار جمع کیے گئے ہیں۔ امام ابو داؤد سے پہلے اس قسم کی حدیث کی کتابیں لکھنے کا رواج نہ تھا۔ امام نووی کا بیان ہے کہ اپنی اسی خصوصیت کی بناپر وہ ائمہ حدیث اور علماء آثار کی توجہات کا مرکز بن گئی اور گواس تخصیص کی بنا پر وہ احادیث کے بہت سے ابواب سے خالی ہے لیکن فقہی احادیث کا جتنا بڑا ذخیرہ اس کتاب میں موجود ہے وہ صحاح ستہ کی کسی اور کتاب میں نہیں۔ حافظ ابو جعفر بن زبیر غرناطی متوفیٰ ۷۰۸ھ نے صحاح ستہ کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ‘‘ولا بی داؤد فی حصر احآدیث الاحکام و استیعابھا مالیس لغیرہ’’ اور فقہی حدیثوں کے حصرو استیعاب کے سلسلہ میں ابو داؤد کو جو خصوصیت حاصل ہے وہ دوسرے مصنفین کو نہیں۔
۲۔ اس کتاب میں امام ابو داؤد نے اپنے علم کے مطابق زیادہ تر صحیح ترین روایات ذکر کی ہیں۔
۳۔ اگر کوئی حدیث دو صحیح طریقوں سے مروی ہو اور ان میں سے ایک طریقہ کاراوی اسناد میں مقدم ہو (یعنی اس کی سند عالی ہو) اور دوسرے طریقہ کا راوی حفظ میں بڑھا ہوا ہو تو امام ابو داؤد ایسی صورت میں پہلے طریقہ کا ذکر کردیتے ہیں۔
۴۔ بسااوقات ایک حدیث کو دو تین سندوں کے ساتھ ذکر کرتے ہیں بشرطیکہ بعض سے متن میں کچھ زیادتی ہو۔
۵۔ جو حدیث بہت طویل ہوتی ہے اسے بتامہ ذکر کردینے سے یہ خوف ہوتا ہے کہ بعض سامعین اس کی غرض کو نہ سمجھ سکیں گے ایسی صورت میں امام ابو داؤد حدیث کا اختصار کردیتے ہیں۔
۶۔ جن احادیث کی اسانید میں کوئی ضعیف ہویا اور کوئی علت خفیہ ہو اس کو امام ابو داؤد بیان کردیتے ہیں اور جس حدیث کی سند کے بارے میں امام ابو داؤد کوئی کلام نہیں کرتے وہ عام طور پر صالح للعمل ہوتی ہے۔
۷۔ عام طور پر امام صاحب نے مشہور راویتیں ذکر کی ہیں شاذ اور غریب روایات اس کتاب میں بہت کم درج ہیں۔ متروک الحدیث سے روایت نہیں کی ہے۔
۸۔ کسی حدیث میں اگر مرفوع یا مرفوع یا موقوف کا اختلاف ہوتو اس کا ذکر کردیتے ہیں۔
۹۔ اگر کوئی حدیث معلل ہوتو علت خفیہ بیان کردیتے ہیں۔
۱۰۔ جو روایات منکر یا ضعف ہوں تو اس کی تصریح کردیتے ہیں۔
۱۱۔ بعض اوقات راویوں کے اسماء کنیٰ اور القاب کی وضاحت کرتے ہیں۔
۱۲۔ اس کتاب میں تکرار سے حتی الامکان گریز کیا ہے۔
حافظ ابو عبداللہ محمد بن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ امام ابو داؤد نے اپنی اس کتاب میں احادیث درج کرنے کے لیے یہ شرط مقرر کی ہے وہ احادیث متصل السند اور صحیح ہوں اور وہ احادیث ایسے راویوں سے مروی ہوں جن کے ترک پر اجماع نہ ہوا ہو۔ اور علامہ خطابی لکھتے ہیں کہ ابو داؤد کی کتاب صحیح اور حسن دونوں قسم کی احادیث کی جامع ہے اور ان کی اس کتاب میں احادیث سقیمہ سے مقلوب اور مجہول روایات اصلاً نہیں ہیں۔ (مقدمۃ التعلیق الممجد، ص۴)
اخلاق و کردار:
امام ابو داؤد علم و فن ممتاز ہونے کے ساتھ سیرت و کردار کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے۔ زہدو تقویٰ، عبادت و ریاضت، جاہ و منصب سے اجتناب آپ کا شیوہ تھا۔ یٰسین ہروی فرماتے ہیں:
‘‘وہ بے مثال عالم و حافظ ہونے کے علاوہ عبادت و ریاضت، عفت و پاکدامنی خیر و صلاح ورع و تقویٰ میں بھی منفرد خصوصیات کے مالک تھے۔’’ (تہذیب التہذیب، ج۴، ص۱۵۱)
آداب شریعت کی پابندی اور سنت نبوی کے اتباع کا خاص اہتمام تھا ان کی امامت حدیث اور شان عبادت دیکھ کر موسیٰ بن ہارون نے کہا:
‘‘خلق ابو داؤد فی الدنیا للحدیث وفی الاخرۃ للجنۃ’’
امام ابو داؤد دنیا میں خدمت حدیث اور آخرت میں جنت کے لیے پید اکیے گئے ہیں۔ (ایضاً)
امام صاحب دنیا اور لذائذ دنیا سے بے پرواہ تھے امراء سلاطین کی ہر گز پرواہ نہ رکتے بلکہ ان کے نارو امطالبات کو ان کے رو برو رد کردیتے۔ ایک دن امیر ابو احمد موقف آپ کے پاس آیا اور کہا میں تین درخواستیں لے کر حاضر ہوا ہوں ایک تو یہ کہ آپ بصرہ میں مستقل قیام فرمائیں تاکہ مختلف مقامات کے طالبان حدیث آپ سے استفادہ کرسکیں۔ دوسرے میرے بچوں کو سنن کی تعلیم دیں تیسرے روایت اور درس حدیث کے حلقوں میں میرے بچوں کے لیے مخصوص نشست کا اہتمام فرمادیں۔ امام صاحب نے فرمایا کہ کہ پہلی دونوں باتیں مناسب ہیں لیکن تیسری بات ناممکن ہے علم کے معاملے میں تشریف ووضیع اعلیٰ و ادنیٰ سب برابر ہیں اس لیے کوئی امتیاز نہیں برتا جاسکتا چناں چہ امیر کے لڑکے عام لوگوں کی طرح حلقۂ درس میں شریک ہوکر سماع حدیث کرتے۔ (دیباچہ غایۃ المقصود)
وفات:
آپ کی وفات ۱۶؍شوال بروز جمعہ ۲۷۵ھ ۷۳ سال کی عمر میں ہوئی۔ عباس بن عبدالواحد نے نماز جنازہ پڑھائی۔